مدارس میں پڑھایا گیا نصاب امریکا سے بن کر آیا تھا، فواد چوہدری

جاسم محمد

محفلین
مدارس میں پڑھایا گیا نصاب امریکا سے بن کر آیا تھا، فواد چوہدری
ویب ڈیسک بدھ 27 مارچ 2019
1608289-fawadchx-1553672800-520-640x480.png

پاکستان میں دہشتگردی اور انتہا پسندی مغرب کی حمایت سے پھیلی، وفاقی وزیر اطلاعات فوٹو:فائل

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں مدارس میں پڑھایا گیا نصاب امریکا سے بن کر آیا تھا۔

اسلام آباد میں پالیسی ریسرچ میڈیا ورک شاپ سے خطاب کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ میڈیا ٹیکنالوجی میں ہائیبرڈ وار فیئر کا دور ہے جس میں جنگیں بھی میڈیاکےذریعے لڑی جاتی ہیں اور اپنےنظریات دوسری قوموں پرمسلط کرنےکارجحان ہے، ہائبرڈ وار پروپیگنڈا کانام ہے اور پروپیگنڈا جنگ کے ٹول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، پی ٹی آئی پہلی جماعت ہے جس نے اپنا پیغام پہنچانے کیلئے سوشل میڈیا کو استعمال کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی اور انتہا پسندی مغرب کی حمایت سے پھیلی، 1980ء میں پاکستان میں عسکریت پسند تنظیمیں بنیں اور افغان جہاد شروع ہوا، مدارس میں پڑھائے گئے نصاب امریکا کی نبراسکا یونی ورسٹی سے بن کر آئے تھے، پاکستان اس کام میں تنہا نہیں تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا موقف مضبوط لیکن پریزنٹیشن خراب تھی، اس کا بھارت نے فائدہ اٹھاکر پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑ دیا۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ پر امریکا میں

پاکستان کا موقف بیان نہیں کیا گیا اور پاکستان اپنا بیانیہ موثرطور پر نہیں پہنچاسکا، 1971 میں ڈھاکا میں بین الاقوامی میڈیا پر پابندی لگاکر بہت بڑی غلطی کی، جس کے نتیجے میں بھارت کا بیانیہ مقبول ہوگیا اور پاکستان کا موقف سامنے نہیں آیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ہم نے یہی غلطی دہرائی، ان پالیسیز سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا، مگر اب ہم نے پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ کی بجائے کھلی ریاست بنانا ہے اور بین الاقوامی میڈیا کو بلانا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پلوامہ واقعے پر بھارت پہلی بار عالمی برادری میں تنہا ہوگیا اور پاکستان نے بھارت کو بیانیہ کو شکست دی، وزیراعظم عمران خان امن کی بات جبکہ بھارت جنگ کی بات کررہا تھا، بی جے پی کو الیکشن جتوانے کے لیے پلوامہ واقعہ کو ہوا دی گئی اورمودی نے الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ گزشتہ چند سال میں وزارت اطلاعات کو سیاسی جماعتوں کا ترجمان بنا دیاگیا تھا، اے پی پی میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو ای میل بھی نہیں دیکھ سکتے، اس سال ریاستی میڈیا میں بہت اصلاحات آئیں گی۔
 

فے کاف

محفلین
فواد چوہدری معلومات سے عاری ہیں۔ اس نظام کی جڑیں 1200 سال پرانی ہیں۔
جو قوم اپنی تباہی کے سامان خود کرے، وہاں مغرب کو سازش کرنے کی ضرورت نہیں۔
 

ربیع م

محفلین
فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب امریکہ میں بن کے آیا تھا -
قوموں پر سب سے برا وقت تب آتا ہے جب کوتاہ نظر افراد اس کے رہنما بن جاتے ہیں - ایسے لوگ مسائل کو حل کرنے کی اہلیت تو رکھتے نہیں ہوتے البتہ ان کے اندر یہ صلاحیت بہت خوب ہوتی ہے کہ حقیقی مسائل پر ہونے والی بحث کا رخ اپنی لاعلمی کے سبب اس طرف موڑ دیتے ہیں کہ ماحول ہی بدل کے رہ جاتا ہے -
یہی معاملہ مدارس کے باب میں ہمارے بزعم خود دانش ور طبقے کا ہے - ان بے چاروں کی "علمیت " کا یہ عالم ہے کہ مدرسے میں داخل نصاب کسی ایک کتاب کی ایک سطر کا ترجمہ کرنا تو کیا درست عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے -
لیکن
آپ ان سے رائے پوچھئے تو یوں اعتماد سے بات کریں گے کہ ایک بار تو بندہ دھوکہ ہی کھا جائے کہ جیسے موصوف کبھی بنوری ٹاون میں یا جامعہ سلفیہ میں تخصص کے طلباء کو پڑھاتے رہے ہیں -
پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ فکری کرپشن ہے - اور یہ بھی فکری کرپشن کا ہی ایک حصہ ہے جو مدارس کے خلاف مہم جوئی میں کی جا رہی ہے - ایک طبقہ ہمہ وقت مدارس کے نصاب پر حملہ آور رہتا ہے اور اس کو مدارس کے نصاب کی معمولی سی خبر بھی نہیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ، کون سی کتب شامل نصاب ہیں اور ان میں کیا مواد ہے - یقین کیجئے مدارس کے نصاب پر تنقید میں مصروف لوگ ان کتب کے نام تک درست نہیں پڑھ سکتے -
اس لیے کسی ایسی شے کے بارے میں علمی رائے دینا کہ جس کی آپ کو خبر تک نہیں ایک طرح کی فکری کرپشن ہی ہے -
میں تیس برس سے کتابوں کے کاروبار میں موجود ہوں ...اور جانتا ہوں کہ جو نصاب آج سے سو برس پہلے پڑھایا جاتا تھا وہی نصاب معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے ..قران اور اس کی تفاسیر ، کتب احادیث اور فقہ کی کتب ساتھ ساتھ گرائمر کی کتب ....
یہ تمام کتب امت مسلمہ میں کئی سو برس سے پڑھائی جا رہی ہیں ، ان میں کون سی کتاب امریکہ سے چھپ کے آئی ہے ؟ -
حقیقت یہ ہے کہ مسائل کے وقتی حل یا ان کو قالین تلے چھپانے نے اس قوم کو برباد کیا ہے - قوم کی حقیقی دوستی اور محبت یہ ہے کہ موجود مسائل کو اس کے متعلقہ
افراد سے ڈسکس کیا جائے ، ان کی رائے لی جائے ، مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے - لیکن ایسے لوگ کہ جو معمولی علم بھی نہیں رکھتے وہ کلیدی عہدوں پر آ جائیں اور بنا کسی علم کے سقراط بنے رہیں تو بربادی کو کوئی نہیں روک سکتا -
............ابوبکر قدوسی
 

فلسفی

محفلین
فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب امریکہ میں بن کے آیا تھا -
قوموں پر سب سے برا وقت تب آتا ہے جب کوتاہ نظر افراد اس کے رہنما بن جاتے ہیں - ایسے لوگ مسائل کو حل کرنے کی اہلیت تو رکھتے نہیں ہوتے البتہ ان کے اندر یہ صلاحیت بہت خوب ہوتی ہے کہ حقیقی مسائل پر ہونے والی بحث کا رخ اپنی لاعلمی کے سبب اس طرف موڑ دیتے ہیں کہ ماحول ہی بدل کے رہ جاتا ہے -
یہی معاملہ مدارس کے باب میں ہمارے بزعم خود دانش ور طبقے کا ہے - ان بے چاروں کی "علمیت " کا یہ عالم ہے کہ مدرسے میں داخل نصاب کسی ایک کتاب کی ایک سطر کا ترجمہ کرنا تو کیا درست عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے -
لیکن
آپ ان سے رائے پوچھئے تو یوں اعتماد سے بات کریں گے کہ ایک بار تو بندہ دھوکہ ہی کھا جائے کہ جیسے موصوف کبھی بنوری ٹاون میں یا جامعہ سلفیہ میں تخصص کے طلباء کو پڑھاتے رہے ہیں -
پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ فکری کرپشن ہے - اور یہ بھی فکری کرپشن کا ہی ایک حصہ ہے جو مدارس کے خلاف مہم جوئی میں کی جا رہی ہے - ایک طبقہ ہمہ وقت مدارس کے نصاب پر حملہ آور رہتا ہے اور اس کو مدارس کے نصاب کی معمولی سی خبر بھی نہیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ، کون سی کتب شامل نصاب ہیں اور ان میں کیا مواد ہے - یقین کیجئے مدارس کے نصاب پر تنقید میں مصروف لوگ ان کتب کے نام تک درست نہیں پڑھ سکتے -
اس لیے کسی ایسی شے کے بارے میں علمی رائے دینا کہ جس کی آپ کو خبر تک نہیں ایک طرح کی فکری کرپشن ہی ہے -
میں تیس برس سے کتابوں کے کاروبار میں موجود ہوں ...اور جانتا ہوں کہ جو نصاب آج سے سو برس پہلے پڑھایا جاتا تھا وہی نصاب معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے ..قران اور اس کی تفاسیر ، کتب احادیث اور فقہ کی کتب ساتھ ساتھ گرائمر کی کتب ....
یہ تمام کتب امت مسلمہ میں کئی سو برس سے پڑھائی جا رہی ہیں ، ان میں کون سی کتاب امریکہ سے چھپ کے آئی ہے ؟ -
حقیقت یہ ہے کہ مسائل کے وقتی حل یا ان کو قالین تلے چھپانے نے اس قوم کو برباد کیا ہے - قوم کی حقیقی دوستی اور محبت یہ ہے کہ موجود مسائل کو اس کے متعلقہ
افراد سے ڈسکس کیا جائے ، ان کی رائے لی جائے ، مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے - لیکن ایسے لوگ کہ جو معمولی علم بھی نہیں رکھتے وہ کلیدی عہدوں پر آ جائیں اور بنا کسی علم کے سقراط بنے رہیں تو بربادی کو کوئی نہیں روک سکتا -
............ابوبکر قدوسی
مسئلہ وہی ہے حضور نہ مسٹر، ملا کی بات سننے کو تیار ہے اور نہ ملا، مسٹر کی۔ سب کی بات نہیں کرتا لیکن عموی تاثر جو قائم ہے اس کی بنیاد پر میرا تجربہ یہ رہا ہے کہ مدارس کے طالب علم سے پوچھو تو یونیورسٹی کے طالب علم گمراہ بلکہ اکثر اپنے سوالات کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج، جبکہ یونیورسٹی کے طالب علم سے پوچھو تو اس کے نزدیک مدرسے کا طالب علم جاہل مطلق، معاشرے پر بوجھ اور قدامت اور شدت پسند۔

یہ اختلاف، مخالفت بن کر کیا کیا گل کھلاتا ہے اس کا مشاہدہ آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ زیادہ تر اختلافات غلط فہمیوں کی وجہ سے ہیں۔ اس کا حل ان غلط فہمیوں کا دور کرنا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو مدارس اور یونیورسٹی دونوں کے ماحول سے بخوبی واقف ہیں بلکہ خود اپنا وقت، طالب علم کے طور پر یا مدرس کے طور پر ایسے اداروں میں گذار چکے ہیں، انھیں دونوں اطراف کے طلبہ کو سمجھانا چاہیے۔ اس کے لیے دونوں اطراف کے سمجھدار اور سلجھے ہوئے طلبہ کے درمیان مکالمے ہونے چاہیے۔ جس کی سرپرستی مدارس اور یونیورسٹی کے بڑے علما اور پروفیسر حضرات کریں۔ آسان تو نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں، کم از کم کچھ غلط فہمیاں تو دور ہونی ہی چاہیے۔
 
مدارس میں پڑھائے گئے نصاب امریکا کی نبراسکا یونی ورسٹی سے بن کر آئے تھے،

یہ تمام کتب امت مسلمہ میں کئی سو برس سے پڑھائی جا رہی ہیں ، ان میں کون سی کتاب امریکہ سے چھپ کے آئی ہے ؟ -

بننے اور چھپنے میں فرق ہوتا ہے۔ :)
یہ شاید ایک نادانستہ سہو ہے، رائے دہندہ کو وزیر کوتاہ نظر کے اصل الفاظ نقل کرنے چاہیے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اختلاف، مخالفت بن کر کیا کیا گل کھلاتا ہے اس کا مشاہدہ آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ زیادہ تر اختلافات غلط فہمیوں کی وجہ سے ہیں۔ اس کا حل ان غلط فہمیوں کا دور کرنا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو مدارس اور یونیورسٹی دونوں کے ماحول سے بخوبی واقف ہیں بلکہ خود اپنا وقت، طالب علم کے طور پر یا مدرس کے طور پر ایسے اداروں میں گذار چکے ہیں، انھیں دونوں اطراف کے طلبہ کو سمجھانا چاہیے۔ اس کے لیے دونوں اطراف کے سمجھدار اور سلجھے ہوئے طلبہ کے درمیان مکالمے ہونے چاہیے۔ جس کی سرپرستی مدارس اور یونیورسٹی کے بڑے علما اور پروفیسر حضرات کریں۔ آسان تو نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں، کم از کم کچھ غلط فہمیاں تو دور ہونی ہی چاہیے۔
میرے خیال میں کسی بھی تعلیمی نظام میں اتنی خلیج نہیں ہونی چاہئے کہ والدین تنگ آکر بچوں کو اسکول سے ہی اٹھا لیں۔ جہاں پاکستان میں مدارس کے نصاب پر گولہ باری ہوتی رہتی ہے۔ وہیں برطانیہ میں آجکل عام پبلک اسکولوں کے نصاب پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
مقامی خبروں کے مطابق برمنگھم کے ایک پبلک سکول میں والدین نے 600 طلبا کو احتجاجا سکول جانے سے روک دیا۔ وجہ یہ تھی کہ سکول ریاستی سلیبس کے مطابق بچوں کو جنسی برابری کی تعلیم دے رہا تھا۔ جو کہ ظاہر ہے ایک بڑے مذہبی طبقہ کو گراں گزرتی ہے۔ اس قسم کی تعلیمی خلیج کا سدباب کرنا دونوں اطراف ضروری ہے۔
 
Top