مدار ِ ہوش سے باہر نکل رہی ہوں میں

رباب واسطی

محفلین
مدار ِ ہوش سے باہر نکل رہی ہوں میں
اسی لیئے تو مسلسل سنبھل رہی ہوں میں

قدم ہواؤں میں تحلیل ہو رہے ہیں مرے
یہ رقص ِ ہجر ہے رسی پہ چل رہی ہوں میں

یہ معذرت ہے مرے جسم ِ نا تواں تجھ سے
تجھے پتہ ہے رہائش بدل رہی ہوں میں

تو آفتاب تھا صدیوں کی برف تھی میں بھی
ترے غروب سے پہلے پگھل رہی ہوں میں

سمے کی راکھ میں اک کوئلہ سلگتا ہے
اسی حرارت ِ پیہم سے جل رہی ہوں میں

مرے پیالے میں رقصاں ہے موت کا سیال
یہ زہر ہے جو برابر نگل رہی ہوں میں

سمے کی آخری سیڑھی پہ چھوڑنے والے
پلٹ کے دیکھ ترے ساتھ چل رہی ہوں میں

ستارے مشعلیں لے کر رواں دواں ہیں سحرؔ
چراغ ِ دل کی مگر لو مسل رہی ہوں میں
٭
شہناز پروین سحرؔ
 
مدیر کی آخری تدوین:

رباب واسطی

محفلین
QUOTE="محمد تابش صدیقی, post: 2100075, member: 12202"]شہناز پروین سحرؔ
دروغ بر گردنِ فیس بک[/QUOTE]

کم از کم اس غزل کے معاملے میں تو گردن زدنی نہیں ہے فیس بک

کیا آپ کو یہ غزل فیس بک پر ملی کہیں، اگر ملی تو تو مجھے بھی لنک بھیجیں
میرے خیال میں یہ فیس بک پہ نہیں پائی جاتی
 
Top