La Alma
لائبریرین
مداوا
بارہا نیست کی کوکھ سے
ہست لیتا رہا ہے جنم
ہم نے تو فکر کی خشک سالی میں بھی
کتنے ہی مصرعِ تر کہے
روئے تھے زار زار اُن پہ بھی
جن پہ چھائی رہی عمر بھر مردنی
اشک کی بوند سے
کب سے بنجر پڑے
کتنے چہروں پہ پھر نقش اگنے لگے
کیوں نہ پھر اپنے غم کا مداوا بھی ہم خود کریں
کون بیکار میں بیٹھ کر
انتظارِ مسیحا کرے
ہم کو سب یاد ہے
جب کبھی شب کی دہلیز پر طعنہِ نور سے
ظلمتیں بے اماں ہو گئیں
کس طرح دیر تک ہم سسکتے رہے
اور پھر رات بھر
درد کے چاک پر
آفتابِ سحر ڈھالتے ہم رہے
انگلیاں ہو گئیں جب فگار اپنی تو
صبحِ دم ایک سورج نیا
وقت کے منہ پہ پھر مار کر آ گئے