مداوا (نظم )

La Alma

لائبریرین
مداوا

بارہا نیست کی کوکھ سے
ہست لیتا رہا ہے جنم
ہم نے تو فکر کی خشک سالی میں بھی
کتنے ہی مصرعِ تر کہے
روئے تھے زار زار اُن پہ بھی
جن پہ چھائی رہی عمر بھر مردنی
اشک کی بوند سے
کب سے بنجر پڑے
کتنے چہروں پہ پھر نقش اگنے لگے
کیوں نہ پھر اپنے غم کا مداوا بھی ہم خود کریں
کون بیکار میں بیٹھ کر
انتظارِ مسیحا کرے
ہم کو سب یاد ہے
جب کبھی شب کی دہلیز پر طعنہِ نور سے
ظلمتیں بے اماں ہو گئیں
کس طرح دیر تک ہم سسکتے رہے
اور پھر رات بھر
درد کے چاک پر
آفتابِ سحر ڈھالتے ہم رہے
انگلیاں ہو گئیں جب فگار اپنی تو
صبحِ دم ایک سورج نیا
وقت کے منہ پہ پھر مار کر آ گئے
 
ہم نے تو فکر کی خشک سالی میں بھی
کتنے ہی مصرعِ تر کہے
کون بیکار میں بیٹھ کر
انتظارِ مسیحا کرے
جب کبھی شب کی دہلیز پر طعنہِ نور سے
ظلمتیں بے اماں ہو گئیں
انگلیاں ہو گئیں جب فگار اپنی تو
صبحِ دم ایک سورج نیا
وقت کے منہ پہ پھر مار کر آ گئے
اعلیٰ، شاندار (y)
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوبصورت سوچ کو جگاتی نظم
پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں .
بارہا سے مراد کیا " ہمیشہ " یا " ازل " سے لیا جائے
"ہمیشہ " کا اطلاق تو ہی نہیں سکتا . زندگی کی کوکھ سے بھی زندگی جنم لیتی ہے ." بارہا " سے مراد " کئی بار" ہے . مفہوم یہ ہے اکثر اوقات قدرت ایسے اسباب بھی فراہم کرتی ہے جس سے بعید از خیال اشیا بھی ظہور پذیر ہو جاتی ہیں . عدم سے وجود نمو پا سکتا ہے . بے جان میں جان پڑ سکتی ہے . نا ممکن ، ممکن میں بدل سکتا ہے . غیر موجود کسی موجود کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے .
وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ
وہ (اللہ ) جاندار کو بے جان سے نکلتا ہے .

وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ
اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں

وَاللّ۔ٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِ۔هَا ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْ۔مَعُوْنَ
اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھراس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا، اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سنتے ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

یہ عمل ہر لحظہ جاری ہے۔
Quantum fluctuation - Wikipedia

درست . کائنات میں تخلیقی عمل جاری و ساری ہے اور یہ تھیوری بھی اسی بات کی توثیق کر رہی ہے کہ کائنات ہر آن وسعت پذیر ہے .
وَالسَّمَآءَ بَنَيْنَاهَا بِاَيْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
ہم نے آسمان کو اپنی قدرت سے بنایا یقیناً ہم اس (کائنات) کو وسعت اور پھیلاؤ دے رہے ہیں .
لیکن سرِ دست موضوع کچھ اور ہے .
 
درست . کائنات میں تخلیقی عمل جاری و ساری ہے اور یہ تھیوری بھی اسی بات کی توثیق کر رہی ہے کہ کائنات ہر آن وسعت پذیر ہے .
وَالسَّمَآءَ بَنَيْنَاهَا بِاَيْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
ہم نے آسمان کو اپنی قدرت سے بنایا یقیناً ہم اس (کائنات) کو وسعت اور پھیلاؤ دے رہے ہیں .
لیکن سرِ دست موضوع کچھ اور ہے .
سرِ دست موضوع سے مجھے غرض نہیں ہاں البتہ ہست کا نیست کی کوکھ سے جنم لینا ایک اچھا مضمون ہے جو مجھے پسند آیا۔ اس کی سائنسی، عقلی ، مذہبی تمام توضیحات موجود ہیں۔ حفیظ کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے
؎
قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہوگیا ہوں میں

مردنی اور رونے کا تعلق واضح نہیں ہے۔ ان پہ وہ بھی کو ان پہ بھی کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔

جن پہ چھائی رہی عمر بھر مردنی
ان کی آنکھوں سے بھی خواہشِ زیستن کا رواں ایک دریا ہوا

فقط ایک تجویز۔
 

La Alma

لائبریرین
مردنی اور رونے کا تعلق واضح نہیں ہے۔ ان پہ وہ بھی کو ان پہ بھی کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔
یعنی میرے اشکوں کی آبیاری سے بنجر چہرے بھی ترو تازہ ہونے لگے . اور وہ ، جو مدتوں سے نیم جان پڑے تھے ان میں زندگی کی رمق لوٹ آئی .
جن پہ چھائی رہی عمر بھر مردنی
ان کی آنکھوں سے بھی خواہشِ زیستن کا رواں ایک دریا ہوا
آپ کی تجویز بھی معقول ہے لیکن فی الحال اوروں کو رلانا مقصود نہیں .
فیڈ بیک کا بہت شکریہ . آئندہ بھی اپنی رائے سے نوازتے رہیں .
 
یعنی میرے اشکوں کی آبیاری سے بنجر چہرے بھی ترو تازہ ہونے لگے . اور وہ ، جو مدتوں سے نیم جان پڑے تھے ان میں زندگی کی رمق لوٹ آئی .

آپ کی تجویز بھی معقول ہے لیکن فی الحال اوروں کو رلانا مقصود نہیں .
فیڈ بیک کا بہت شکریہ . آئندہ بھی اپنی رائے سے نوازتے رہیں .
معذرت خواہ ہوں میں نے دراصل یہ سمجھا کہ تر مصرعے سن کر جن پر مردنی چھائی ہے وہ رونے لگے اور یوں ان کے بنجر چہرے تروتازہ ہو گئے۔ یہی مردنی اور رونے کا تعلق سمجھ نہیں آیا تھا جسے خواہشِ زیستن سے پیدا کرنے کی کوشش کی۔
نظم پر داد دینا تو بھول ہی گیا۔ بلاشبہ نظم بہت خوب ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
" بارہا " سے مراد " کئی بار" ہے .
دراصل نظم کی ابتدا نے مجھے خالق کی صفت تخلیق کی جانب متوجہ کیا تھا ۔
اور خالق کی صفت تخلیق " ہمیشہ ہی " یا " ازل سے ہی " نیست سے ہست کو وجود میں لاتی ہے ۔
" بارہا " کی قید تو صفت تخلیق کو محدود نہیں کر دیتی ۔۔۔۔۔۔۔؟
خالق کی صفت تخلیق " لا محدود ہوتے صرف " کن " پر استوار ہے ۔۔
اک اچھی نظم پر ڈھیروں داد
بہت دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
دراصل نظم کی ابتدا نے مجھے خالق کی صفت تخلیق کی جانب متوجہ کیا تھا ۔
اور خالق کی صفت تخلیق " ہمیشہ ہی " یا " ازل سے ہی " نیست سے ہست کو وجود میں لاتی ہے ۔
" بارہا " کی قید تو صفت تخلیق کو محدود نہیں کر دیتی ۔۔۔۔۔۔۔؟
خالق کی صفت تخلیق " لا محدود ہوتے صرف " کن " پر استوار ہے ۔۔
اک اچھی نظم پر ڈھیروں داد
بہت دعائیں
کیا وجود کی کوکھ سے وجود جنم نہیں لیتا ؟ یقیناً لیتا ہے . کیا عدم کی کوکھ میں کسی وجود کا پلنا ممکن ہے ؟ بالکل ممکن ہے . اگر آپ آدم اور آدم زاد کی تخلیق کے مابین فرق کو ذہن میں رکھیں گے تو با آسانی سمجھ جائیں گے کہ میں نے" ہمیشہ" کی بجائے "بارہا" کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے . اس سے مفر نہیں کہ ہر ہست پہلے نیست تھا لیکن ہر وجود کو جنم کوئی دوسرا وجود ہی دے یہ ضروری نہیں .
 
Top