نیرنگ خیال
لائبریرین
یہ تحریر 5 ستمبر 2017 کو دانش پر شائع ہوئی تھی۔ لکھی شاید اسی برس ہی تھی۔۔۔۔ اب مہینہ یاد نہیں لیکن اگر اپنی ڈیجیٹل ڈائری کھول لوں تو شاید اس میں اصل تاریخ بھی مل جائے۔ آج کل فلسطین کے حوالے سے احباب دوبارہ خون گرما رہے ہیں۔ تو مجھے بھی یاد آگیا کہ میرا بھی اس میں حصہ تھا۔ جو کہ نہ ہونے کے برابر تھا یا ہے۔۔۔ بہرحال۔۔ جو بھی کہیے۔ یہ تحریر چونکہ اردو محفل پر موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کو آج یہاں شامل کر رہا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف۔
میرا بچپن قصے کہانیاں پڑھتے سنتے گزرا ہے۔ انہی قصے کہانیوں میں تاریخ کے ٹکڑے بھی شامل تھے جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنے یا پھر خود پڑھے۔ظاہر ہے کہ یہ تاریخی ٹکڑے کسی خاص منظر یا پس منظر کو بیان کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ بہرحال یہاں میں تاریخ کے ان واقعات کو بیان کرنے والوں کی نیتیں بیان کرنے نہیں بیٹھا کہ انہوں نے اس سے کیا فوائد اٹھائے یا ان کا حصول کیا تھا۔ یہاں میں وہ چند جملے بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے ذہن میں کئی سوچوں کی بنیاد بنتے رہے اور میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کے سبب زندگی کے مختلف ادوار میں ان سے مختلف مطالب اخذ کرتا رہا۔
ایک منظر جو ہمارے ہاں بیان کی جاتا ہے کہ "جب تاتاری بغداد پر حملے کے لیے جمع ہو رہے تھے تو بغداد کے علمی مراکز میں "والضالین” کی قرأت پر بحث چل رہی تھی۔
میں مدتوں اسی سوچ کا شکار رہا کہ قدیم زمانے میں دشمن جب حملے کے لیے جمع ہوتا تھا ا تو میدان جنگ کے لیے تو باقاعدہ حکمت علمی ترتیب دی جاتی تھی۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہوا کہ اہل بغداد نے اس جنگ کے مقابلے کی تیاری نہ کی۔ یا تیاری تو کی لیکن علمی حلقے اس تیاری کا حصہ نہ تھے اور انہوں نے اپنے روزمرہ کے مشاغل کو جاری رکھا۔ ایک دور مجھ پر ایسا بھی آیا کہ میں یہ سوچنے لگا کہ مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں یا باہمی مسائل میں اس قدر الجھ چکے تھے کہ ان کو بیرونی عناصر کی پیش قدمی کا احساس نہ ہو سکا۔ لیکن خود ہی اپنے اس خیال کو غیر عملی سمجھتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ قریبی شہروں یا ملکوں کے مسلمانوں نے کہا ہو کہ بغداد پر حملہ ہونے لگا ہے۔ اللہ مسلمانوں کی مدد فرما۔ عین ممکن ہے کہ کسی رقیق القلب ہمسائے نے بعد از جنگ چند بستر، کمبل اور کھانے پینے کا سامان بھیجا ہو کہ ہمیں اہل بغداد کی اس مشکل وقت میں مدد کرنی چاہیے۔ پتا نہیں اس دور میں اخبار تھا یا نہیں، لیکن علماء اپنی مجالس میں اس دردناک منظر کی تصویر تو کھینچتے ہوں گے۔
دوسرا منظر جو میرے لیے حیرانی کا سبب رہا ہے وہ یہ کہ جب انگریز برصغیر پر باقاعدہ لشکر کشی فرما چکے تھے۔ اور بلا کسی تفریق کے مسلمانوں کو جنت اور کافروں کو جہنم رسید کرنے کا شغل جاری رکھے تھے تو ایسے میں اہل ہند کا بادشاہ شاعری پر واہ واہ کروایا کرتا تھا اور اس کی شامیں عروضی زمینوں میں لشکر کشی کرتے گزرتی تھیں۔
عرصہ دراز تک میں اس کو افسانوی رنگ سمجھتا رہا۔ پھر جب شعور نے آنکھ کھولی تو میں یہ سمجھنے لگا کہ بات درست ہے مگر اس میں مبالغہ آرائی کا پہلو نمایا ں ہے۔ قریبی ممالک افغانستان، ایران جو یوں بھی ہند پر لشکر کشی کے عادی تھے وہ ضرور مسلمانوں کی مدد کو پہنچے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے اہل ہند کی درگت بنتی دیکھ کر انہوں نے انگریزوں کے پاس کوئی سفیر بھیجا ہوگا کہ ان پر ہاتھ ذرا ہلکا رکھا جائے۔ عین ممکن ہے کہ کئی خدمت خلق کے جذبے سے سرشار لوگوں نے روزمرہ کی ضروریات کا سامان پہنچایا ہو۔ مجھے یقین ہےکہ اس پرآشوب دور میں ادیبوں اور دانشوروں کے آنسو نہ تھمتے ہوں گے۔ کتنے ہی رسائل و جرائد میں دل دہلانے والے مضامین شائع ہوتے ہوں گے۔ ہند کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے مساجد میں دن رات دعائیں مانگی جاتی ہوں گی اور جمعہ پر تو خصوصاً اجتماعی دعاؤں کا التزام کیا جاتا ہوگا۔
میرا بچپن عراق، کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں کی نصرت کے لیے دعائیں مانگتے گزرا ہے۔ پھر بڑھتی عمر کے ساتھ میں شام بھی شامل ہو گیا۔ اُدھر بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی دعائیں جاری رکھیں۔ پھر فلسطین اور بالخصوص غزہ کے لیے ہم نے دن رات دعائیں مانگیں۔ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس آگ کی تپش ہم اپنے شہروں میں محسوس کرنے لگے۔ تعمیر کے نام پر تخریب اور ایمان کے نام پر الحاد کے لیے جس طرح ہم نے آواز اٹھائی کیا تاریخ انسانی میں کسی گروہ نے اٹھائی ہوگی۔ آتے آتے اس دعائیہ فہرست میں برمی مسلمان بھی شامل ہوگئے۔ دور بدل گیا تھا۔ ہم نے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا۔منظر کشی کو الفاظ کی حاجت نہ رہی۔ بلکتے بچوں، مرتے جوانوں، لرزتے بوڑھوں اور نچی ہوئی دوشیزاؤں کی تصاویر دن رات پھیلا کر ہم دن رات علمی مجالس گرمانے لگے۔ پوسٹس لگنے لگیں۔کالم لکھے جانے لگے۔ تبصرے ہونے لگے۔ شرم و حیا دلائی جانے لگی۔ کس کو؟ مظلوم کے حصے میں تسلی دلاسے آنے لگے جو ظاہر ہے کہ ماضی کی داستانوں کی طرح مظلوم تک نہیں پہنچ پائے۔ فتح و نصرت کی دعائیں مانگی جانے لگیں۔
اور میں کم عقل، کج فہم، پریشان حال شخص،منتشر سوچیں، عقائد سے اٹھتے گمان اور گمان میں لپٹے عقائد لیے ان سارے مناظر میں ایک مشترک منظر دیکھ رہا ہوں۔ ایک ایسا منظر جو اصل سے الگ ہے۔ جو ہوا میں معلق ہے۔
نیرنگ خیال
ستمبر 2017
مدت ہوئی ہے حادثہ دیکھے ضمیر کا
میرا بچپن قصے کہانیاں پڑھتے سنتے گزرا ہے۔ انہی قصے کہانیوں میں تاریخ کے ٹکڑے بھی شامل تھے جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنے یا پھر خود پڑھے۔ظاہر ہے کہ یہ تاریخی ٹکڑے کسی خاص منظر یا پس منظر کو بیان کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ بہرحال یہاں میں تاریخ کے ان واقعات کو بیان کرنے والوں کی نیتیں بیان کرنے نہیں بیٹھا کہ انہوں نے اس سے کیا فوائد اٹھائے یا ان کا حصول کیا تھا۔ یہاں میں وہ چند جملے بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے ذہن میں کئی سوچوں کی بنیاد بنتے رہے اور میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کے سبب زندگی کے مختلف ادوار میں ان سے مختلف مطالب اخذ کرتا رہا۔
ایک منظر جو ہمارے ہاں بیان کی جاتا ہے کہ "جب تاتاری بغداد پر حملے کے لیے جمع ہو رہے تھے تو بغداد کے علمی مراکز میں "والضالین” کی قرأت پر بحث چل رہی تھی۔
میں مدتوں اسی سوچ کا شکار رہا کہ قدیم زمانے میں دشمن جب حملے کے لیے جمع ہوتا تھا ا تو میدان جنگ کے لیے تو باقاعدہ حکمت علمی ترتیب دی جاتی تھی۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہوا کہ اہل بغداد نے اس جنگ کے مقابلے کی تیاری نہ کی۔ یا تیاری تو کی لیکن علمی حلقے اس تیاری کا حصہ نہ تھے اور انہوں نے اپنے روزمرہ کے مشاغل کو جاری رکھا۔ ایک دور مجھ پر ایسا بھی آیا کہ میں یہ سوچنے لگا کہ مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں یا باہمی مسائل میں اس قدر الجھ چکے تھے کہ ان کو بیرونی عناصر کی پیش قدمی کا احساس نہ ہو سکا۔ لیکن خود ہی اپنے اس خیال کو غیر عملی سمجھتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ قریبی شہروں یا ملکوں کے مسلمانوں نے کہا ہو کہ بغداد پر حملہ ہونے لگا ہے۔ اللہ مسلمانوں کی مدد فرما۔ عین ممکن ہے کہ کسی رقیق القلب ہمسائے نے بعد از جنگ چند بستر، کمبل اور کھانے پینے کا سامان بھیجا ہو کہ ہمیں اہل بغداد کی اس مشکل وقت میں مدد کرنی چاہیے۔ پتا نہیں اس دور میں اخبار تھا یا نہیں، لیکن علماء اپنی مجالس میں اس دردناک منظر کی تصویر تو کھینچتے ہوں گے۔
دوسرا منظر جو میرے لیے حیرانی کا سبب رہا ہے وہ یہ کہ جب انگریز برصغیر پر باقاعدہ لشکر کشی فرما چکے تھے۔ اور بلا کسی تفریق کے مسلمانوں کو جنت اور کافروں کو جہنم رسید کرنے کا شغل جاری رکھے تھے تو ایسے میں اہل ہند کا بادشاہ شاعری پر واہ واہ کروایا کرتا تھا اور اس کی شامیں عروضی زمینوں میں لشکر کشی کرتے گزرتی تھیں۔
عرصہ دراز تک میں اس کو افسانوی رنگ سمجھتا رہا۔ پھر جب شعور نے آنکھ کھولی تو میں یہ سمجھنے لگا کہ بات درست ہے مگر اس میں مبالغہ آرائی کا پہلو نمایا ں ہے۔ قریبی ممالک افغانستان، ایران جو یوں بھی ہند پر لشکر کشی کے عادی تھے وہ ضرور مسلمانوں کی مدد کو پہنچے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے اہل ہند کی درگت بنتی دیکھ کر انہوں نے انگریزوں کے پاس کوئی سفیر بھیجا ہوگا کہ ان پر ہاتھ ذرا ہلکا رکھا جائے۔ عین ممکن ہے کہ کئی خدمت خلق کے جذبے سے سرشار لوگوں نے روزمرہ کی ضروریات کا سامان پہنچایا ہو۔ مجھے یقین ہےکہ اس پرآشوب دور میں ادیبوں اور دانشوروں کے آنسو نہ تھمتے ہوں گے۔ کتنے ہی رسائل و جرائد میں دل دہلانے والے مضامین شائع ہوتے ہوں گے۔ ہند کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے مساجد میں دن رات دعائیں مانگی جاتی ہوں گی اور جمعہ پر تو خصوصاً اجتماعی دعاؤں کا التزام کیا جاتا ہوگا۔
میرا بچپن عراق، کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں کی نصرت کے لیے دعائیں مانگتے گزرا ہے۔ پھر بڑھتی عمر کے ساتھ میں شام بھی شامل ہو گیا۔ اُدھر بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی دعائیں جاری رکھیں۔ پھر فلسطین اور بالخصوص غزہ کے لیے ہم نے دن رات دعائیں مانگیں۔ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس آگ کی تپش ہم اپنے شہروں میں محسوس کرنے لگے۔ تعمیر کے نام پر تخریب اور ایمان کے نام پر الحاد کے لیے جس طرح ہم نے آواز اٹھائی کیا تاریخ انسانی میں کسی گروہ نے اٹھائی ہوگی۔ آتے آتے اس دعائیہ فہرست میں برمی مسلمان بھی شامل ہوگئے۔ دور بدل گیا تھا۔ ہم نے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا۔منظر کشی کو الفاظ کی حاجت نہ رہی۔ بلکتے بچوں، مرتے جوانوں، لرزتے بوڑھوں اور نچی ہوئی دوشیزاؤں کی تصاویر دن رات پھیلا کر ہم دن رات علمی مجالس گرمانے لگے۔ پوسٹس لگنے لگیں۔کالم لکھے جانے لگے۔ تبصرے ہونے لگے۔ شرم و حیا دلائی جانے لگی۔ کس کو؟ مظلوم کے حصے میں تسلی دلاسے آنے لگے جو ظاہر ہے کہ ماضی کی داستانوں کی طرح مظلوم تک نہیں پہنچ پائے۔ فتح و نصرت کی دعائیں مانگی جانے لگیں۔
اور میں کم عقل، کج فہم، پریشان حال شخص،منتشر سوچیں، عقائد سے اٹھتے گمان اور گمان میں لپٹے عقائد لیے ان سارے مناظر میں ایک مشترک منظر دیکھ رہا ہوں۔ ایک ایسا منظر جو اصل سے الگ ہے۔ جو ہوا میں معلق ہے۔
نیرنگ خیال
ستمبر 2017