بہت شکریہ ماوراء۔
اصل میں یہاں ایک پاکستانی فیملی کے پاس ہی ہم نے یہ Kapok کے گدے اور تکیے وغیرہ دیکھے۔ اور انہوں نے یہاں پر انہیں بہت ہی مہنگے داموں خریدا ہے۔ یعنی کہ ایک گدا
140*200 سائز کا تقریبا 290 یورو کا خریدا ہے [پاکستانی تقریبا 30000 روپے] ۔ اور ایک تکیے کی قیمت 65 یورو تھی۔ یہ پاکستانی فیملی بھی نئی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور ابھی کوئی ڈھائی سال پہلے جرمنی آئے ہیں۔
اُس پاکستانی فیملی کے خیال میں یہ کوئی جرمن پراڈکٹ ہے جسکا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بہرحال مجھے تکیے کے اندر کا مٹیریل دیکھ کر شک ہوا کہ یہ سنبل ہی ہے، اگرچہ کہ اس میں سے بیج نکلے ہوئے تھے۔ پھر Kopak لفظ پر تحقیق شروع ہوئی اور اس سلسلے میں اس فورم سے اچھی جگہ اور کونسی ہو سکتی تھی۔
بہرحال، میں سوچ رہی ہوں کہ اُس پاکستانی فیملی کو اب پاکستان میں بننے والی سنبل کی رضائیوں اور گدوں اور تکیوں کے متعلق بتاؤں یا نا بتاؤں۔ کہیں انہیں صدمہ نہ پہنچے کہ انہوں نے کیوں اتنی مہنگی چیزیں خریدیں اور کاش کہ پہلے وہ پاکستان میں پتا کروا لیتیں۔
[کنفیوزڈ]۔
۔۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں انہیں بتانا شاید بہتر ہی رہے کیونکہ میں نے انہیں اس سنبل کی مصنوعات کے عشق میں مبتلا دیکھا ہے [پتا نہیں انہوں نے اپنے اس عشق کی وجہ سے ڈیڑھ دو گھنٹے اس پر بات کی، یا پھر انہیں اپنی چیزوں کے متعلق ڈینگیں مارنے کا شوق ہے اس وجہ سے اتنی لمبی تعریفوں کےپُل باندھے]۔ میں حسن ظن رکھتے ہوئے دونوں چیزوں ہی کو شامل کر لیتی ہوں کہ کچھ شاید عشق تھا اور کچھ اپنی چیزوں کی تعریف کرنے کا شوق۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ میری رشتے کی ایک چچی کو بھی مجبور کر رہی تھیں کہ وہ جرمنی سے ایک عدد سنبل کا سیٹ لیتی جائیں (میری ان چچی کے کمر میں درد رہتا ہے اور آجکل وہ پاکستان سے جرمنی آئی ہوئی ہیں)۔
۔۔۔۔۔ تو اس لیے شاید انہیں بتانا بہتر ہی رہے، ورنہ مجھے ڈر ہے کہ شاید وہ پاکستان سے آنے والے ہر مہمان کو کہیں سنبل خریدوا کر اور کنگلا کروا کر پاکستان نہ بھیج رہی ہوں۔
اعجاز صاحب، آپ سے قبل کاشان نے بھی سیمل کی بات کی ہے۔ کاشان کا تعلق کراچی سے ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان اور ہندوستان سے آنے والے حضرات اس درخت کے لیے سنبل کی جگہ سیمل کا لفظ استعمال کرتے ہیں، جبکہ پنجاب میں اسے سنبل کہا جاتا ہے۔
ماوراء بہن، آپ نے سنبل کی مصنوعات استعمال کی ہیں۔ کیا آپکے خیال میں اس پر سونے سے آپکو کوئی فرق نظر آتا ہے؟