محسن وقار علی
محفلین
اے ایف پی فوٹو
مدیہہ سات سال کی تھی جب یہ سلسلہ شروع ہوا۔ مدیہہ کا تعلق ایک پیار کرنے والی مڈل کلاس خاندان سے تھا لیکن اس کی باہر سے دیکھنے والی خوشی کے پیچھے ایک بھیانک راز چھپا تھا۔ اسے اپنے مرد کزن کے ہاتھوں سالوں ہراساں ہونا پڑا لیکن جس وقت تک اسے پتہ چلا، اسے نہیں پتہ تھا کہ اس اذیت سے کیسے باہر نکلا جائے۔
اندر سے ٹوٹی مدیہہ نے آخر کار ہمت پکڑی اور اپنی والدہ کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ اور پھر بہت محنت کے بعد انہیں اس سے نجات ملی۔ لیکن کوئی کانسلنگ نہیں ملی۔
کچھ سالوں بعد، مدیہہ اب ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہیں ہیں لیکن ان کے دماغ میں چھپی پچپن کی وہ باتیں ان سے بھولائے نہیں بھولتیں۔
ایسے بچے کیا کریں؟ کدھر جائیں؟ یا تو وہ خود اس صورتحال سے نمٹ لیتے ہیں یا ان کی فیملی ان کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن پروفیشنل کانسلنگ کی طرف کم ہی لوگ جاتے ہیں۔
ماہر نفسیات ماریا مستنصر نے کہا ‘ہر والدین اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مہارت نہیں رکھتے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سب سے بہتر حل اسے غیر مشروط پیار دینا اور اس کے لیے محفوظ فضا قائم کرنا ہے۔’
دریں اثناء جنسی تعلیم ہماری ثقافت میں اجنبی ہے، آجکل کے دور میں اسکولوں کو ان ہاؤس کانسلرز/ماہر نفسیات کا انتظام کرنا چاہیے جو طالب علموں سے بات کرسکیں اور ان کے ساتھ اس طرح کے کیسوں کو بہتر طریقے سے ڈیل کرسکیں۔
این جی او ساہل میں کلینکل ماہر نفسیات، ثناء انور گل کا کہنا ہے ‘اسکولوں میں ماہر نفسیات بطور کانسلرز کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کوئی بھی اس بارے میں سن سکتا اور سمجھ سکتا ہے لیکن صرف تربیت یافتہ ماہر نفسیات ہی اس بچے کو اس صورتحال سے بہتر طریقے سے باہر نکلنے میں مدد کرسکتا ہے۔’
سی ایس اے میں کام کرنے والی ان جی او نے انیمیشن فلمیں اور کٹھ پتلی شو ڈیزائن کیے ہیں تاکہ بچوں کو سادہ اور آسان طریقے سے جنسی ہراساں کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
ان میں شارٹ ڈرامے بھی ہوتے ہیں جس میں بچوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنی عمر کے دوست بنائیں اور اجنبیوں کو دوست نہ بنائیں۔
ساہل پروگرام آفیسر، میڈیا اور ریسرچ، سعد احمد خان نے کہا’ ہم 86 اخباروں کو نظر میں رکھے ہوتے ہیں اور تمام رپورٹ ہوئے کیس تک پہنچتے ہیں۔’
انہوں نے کہا ‘ایک متاثر سے ہم نے رابطہ کیا اور اس کے لیے ان ہاؤس کانسلنگ کا انتظام کیا۔ جبکہ یہ واقعہ دور دراز علاقے میں پیش آیا تھا۔ اس کے باوجود ہماری ٹیم وہاں گئی۔’
این جی او کی ڈائریکٹریس ڈاکٹر عائشہ نے دعوی کیا کہ سندھ حکومت محکمہ صحت نے 2011 میں ہر ہسپتال میں بچوں کے تحفظ کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔اس وقت سندھ میں آٹھ ہسپتالوں میں پیڈیٹریشین، گائناکالوجسٹ اور ماہر نفسیات پر مشتمل ٹیم اس طرح کے کیسوں کو ڈیل کررہی ہے۔ چھ کمیٹیاں کراچی میں ہیں جبکہ دو اندرونی سندھ میں ہیں۔
ساحل نے ‘ بچے کے تحفظ اور والدین کی مہارت’ پر والدین کے لیے ٹریننگ پروگرام منعقد کیے۔
اساتذہ اس بارے میں والدین کے بعد اہم کردار کرتے ہیں، اسے لیے ساحل نے ان کے لیے کشور صحت کے تربیتی پروگرام منعقد کیے جہاں سرکاری اساتذہ کو اس طرح کے کیسوں سے نمٹنے کے لیے تربیت دی گئی۔
جب بچے کو ماہر نفسیات کے پاس ایسے کیسوں میں لایا جاتا ہے، تو ان کے لیے ٹریٹمنٹ پلان بنایا جاتا ہے اور یہ کیس کی حسیت دیکھ کر بنایا جاتا۔
جوماما مرتضا، ماہر نفسیات کی طالبہ کا کہنا تھا ‘ہر بچہ مختلف طریقے سے ایسی صورتحال سے نمٹتا ہے، اس کے لیے ٹریٹمنٹ پلان الگ ہوتا ہے۔ ریکوری کی مدت بھی الگ ہوتی ہے۔’
مستنصر نے بتایا کہ اس طرح کے لوگ تعلقات بنانے میں بھی کمزور ہوسکتے ہیں۔ اس کے وجہ یقین کی کمی، گہرے تعلق کا ڈر، اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کرلینا اور بے ہودہ تعلقات پنپنے کا ڈر بھی ہوسکتا ہے
بہ شکریہ ڈان اردو