مدرس ڈے - فوزیہ رباب

عدنان عمر

محفلین
اہلِ ہند کا علم نہیں مگر انگریزی میں اگر s سے پہلے unvoiced consonant ہو تو پھر س کی آواز ہوتی ہے۔
میری معلومات میں اضافے کا بہت شکریہ زیک بھائی۔ میرا موقف یہ ہے کہ اردو میں دوسری دوسری زبانوں سے مستعار الفاظ کو اردو کے اپنے لہجے کے مطابق بولا اور لکھا جائے۔ ان الفاظ کو ان کی اصل زبان کے لہجے اور قواعد کے مطابق ادا کرنا لازم نہ سمجھا جائے۔ اس زاویہ نظر سے میں mothers کے دو مختلف ہجوں پر بات کر رہا تھا۔ میری ذاتی رائے میں مدرس کے مقابلے میں مدرز لکھنا زیادہ بہتر ہے کیوں اسے اردو میں مدرز ہی بولا جاتا ہے۔ ماہرین کی رائے کا انتظار ہے۔
 
اچھا ہے

چوھدری صاب ایس کے درست تلفظ کو س سے ہی ادا کیا جاتا ہے
چونکہ یہ ترجمہ نہیں ہے اس لیے دونوں طرح لکھا جاسکتاہے ۔ بہتر یہ ہے کہ ز ہی لکھیں کیوں کہ مدرس پرحرکات (زیر زبر پیش ) نہ ہونے کے سبب تلفظ میں خرابی کے امکانات واضح ہیں۔
میں نے ایم اے اور ایم فل دونوں سطحوں پر ترجمہ پڑھا، ترجمے کےمسائل سے واقفیت حاصل کی اور تین کتابوں کے تراجم بھی کیے ۔ ترجمے میں جہاں ضروری ہو کسی بھی لفظ کو اپنی زبان کے مطابق ڈھالا جا سکتاہے۔دراصل ہم ترجمہ کرتے وقت ترجمہ نہیں بلکہ تفہیم کررہے ہوتے ہیں اور یہ تفہیم چونکہ ہمارے اپنے لوگوں کے لیے ہے تو سمجھانے کی خاطر اسے آسان اور سادہ بنایا جاسکتاہے۔ ترجمے میں بہت سے مسائل جو کہ الفاظ کی تلفظ کے حوالے سے بھی اہم ہیں ابھی تک لاینحل ہیں۔ مثلا ہسپتال کو اسپتال لکھنا ضروری یا غیر ضروری، بدیہی زبانوں کے الفاظ مثلا انگریزی، عربی فارسی کے اردومیں مستعمل الفاظ کی جمع بنانے کے کلیات مثلا شرح کی جمع شروح یا شرحات یا پھر شروحات؟ استاد کی جمع اساتذہ یا استادزہ ، ناموں کے تراجم کے مسائل جیسے محبوب خان کا مشینی انگریزی ترجمہ کریں گے توکیا کریں گے؟ کیا یہ ضروری ہے یا نہیں وغیرہ۔ اس کا سادہ اور آسان حل یہی ہے کہ جہاں دو آرا ہوں یا دو آپشنز موجود ہوں جیسا کہ اوپر کے معاملے میں ہے مدرس یا مدرز تو اسے اپنی زبان کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ میں نے ایم فل میں دیو ناگری رسم الخط، حروفَ تہجی اور ہندی کا باقاعدہ قاعدہ پڑھا تھا، اس میں اور عام اردو میں جو پاکستان میں بولی جاتی ہے تھوڑا سا فرق اس طرح پیدا ہوجاتاہے کہ ہندی میں کئی حروف کی آوازیں اور ان کو لکھنا ایک جیسا ہے۔ جیسے ھ اور ح ہندی میں ایک ہی ہیں۔ س ص ث یہ تینوں بھی ایک ہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ایسی صورت حال میں ایک ہی لفظ کی ادائیگی جب ایک ہندوستانی یا پاکستانی کرتاہے تو بعض اوقات دو طرح سے کرتاہے۔ ترجمے کے مسائل کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والے ایک انٹرنیشنل سیمینار میں ایسے بہت سارے مسائل کو سامنے لایا گیا تھا۔ ساری دنیا سے اردو کے نمائندے اس سیمینار میں شامل ہوئے تھے۔ میری ناقص رائے کے مطابق میں جو ابھی تک اس سارے معاملے میں سمجھ سکا ہوں وہ یہی ہے کہ مدرز یا مدرس ان دونوں میں جو فرق ہے وہ وہ محض صوت کا نہیں حرکات کا بھی ہے اور اس کا تعلق ہماری معاشرت سے بھی ہے۔ اس قسم کے معاملات کے حل کے لیے ہم اپنی زبان پر غور کریں، جو عوام الناس کے لیے اور خود ہمارے لیے آسان ہو اسے رکھ لیا جائے، باقی چھوڑ دیا جائے۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
چونکہ یہ ترجمہ نہیں ہے اس لیے دونوں طرح لکھا جاسکتاہے ۔ بہتر یہ ہے کہ ز ہی لکھیں کیوں کہ مدرس پرحرکات (زیر زبر پیش ) نہ ہونے کے سبب تلفظ میں خرابی کے امکانات واضح ہیں۔
میں نے ایم اے اور ایم فل دونوں سطحوں پر ترجمہ پڑھا، ترجمے کےمسائل سے واقفیت حاصل کی اور تین کتابوں کے تراجم بھی کیے ۔ ترجمے میں جہاں ضروری ہو کسی بھی لفظ کو اپنی زبان کے مطابق ڈھالا جا سکتاہے۔دراصل ہم ترجمہ کرتے وقت ترجمہ نہیں بلکہ تفہیم کررہے ہوتے ہیں اور یہ تفہیم چونکہ ہمارے اپنے لوگوں کے لیے ہے تو سمجھانے کی خاطر اسے آسان اور سادہ بنایا جاسکتاہے۔ ترجمے میں بہت سے مسائل جو کہ الفاظ کی تلفظ کے حوالے سے بھی اہم ہیں ابھی تک لاینحل ہیں۔ مثلا ہسپتال کو اسپتال لکھنا ضروری یا غیر ضروری، بدیہی زبانوں کے الفاظ مثلا انگریزی، عربی فارسی کے اردومیں مستعمل الفاظ کی جمع بنانے کے کلیات مثلا شرح کی جمع شروح یا شرحات یا پھر شروحات؟ استاد کی جمع اساتذہ یا استادزہ ، ناموں کے تراجم کے مسائل جیسے محبوب خان کا مشینی انگریزی ترجمہ کریں گے توکیا کریں گے؟ کیا یہ ضروری ہے یا نہیں وغیرہ۔ اس کا سادہ اور آسان حل یہی ہے کہ جہاں دو آرا ہوں یا دو آپشنز موجود ہوں جیسا کہ اوپر کے معاملے میں ہے مدرس یا مدرز تو اسے اپنی زبان کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ میں نے ایم فل میں دیو ناگری رسم الخط، حروفَ تہجی اور ہندی کا باقاعدہ قاعدہ پڑھا تھا، اس میں اور عام اردو میں جو پاکستان میں بولی جاتی ہے تھوڑا سا فرق اس طرح پیدا ہوجاتاہے کہ ہندی میں کئی حروف کی آوازیں اور ان کو لکھنا ایک جیسا ہے۔ جیسے ھ اور ح ہندی میں ایک ہی ہیں۔ س ص ث یہ تینوں بھی ایک ہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ایسی صورت حال میں ایک ہی لفظ کی ادائیگی جب ایک ہندوستانی یا پاکستانی کرتاہے تو بعض اوقات دو طرح سے کرتاہے۔ ترجمے کے مسائل کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والے ایک انٹرنیشنل سیمینار میں ایسے بہت سارے مسائل کو سامنے لایا گیا تھا۔ ساری دنیا سے اردو کے نمائندے اس سیمینار میں شامل ہوئے تھے۔ میری ناقص رائے کے مطابق میں جو ابھی تک اس سارے معاملے میں سمجھ سکا ہوں وہ یہی ہے کہ مدرز یا مدرس ان دونوں میں جو فرق ہے وہ وہ محض صوت کا نہیں حرکات کا بھی ہے اور اس کا تعلق ہماری معاشرت سے بھی ہے۔ اس قسم کے معاملات کے حل کے لیے ہم اپنی زبان پر غور کریں، جو عوام الناس کے لیے اور خود ہمارے لیے آسان ہو اسے رکھ لیا جائے، باقی چھوڑ دیا جائے۔
یہاں بات ترجمے کی یا ترجمے کے مسائل کی نہیں ہو رہی تھی یہاں بات ایک انگلش لفظ کے درست تلفظ کی ہو رہی تھی چاہے اس کو اردو میں اعراب کے ساتھ یا بغیر لکھا جائے.
 
آخری تدوین:
یہاں بات ترجمے کی یا ترجمے کے مسائل کی نہیں ہو رہی تھی یہاں بات ایک انگلش لفظ کے درست تلفظ کی ہو رہی تھی چاہے اس کو اردو میں اعراب کے ساتھ یا بغیر لکھا جائے.

مجھے عین اسی جواب کی توقع تھی۔ میں شاید صحیح طرح سے اپنے نقطہ نظرکو بیان نہیں کرپایا۔ اردو میں انگلش الفاظ کے استعمال اور ان کے تلفظ کے مسائل بھی ترجمے کی ذیلی زمروں میں ہی آتے ہیں۔ یہ گرائمر کا مسئلہ ہر گز نہیں ہے۔ بہر حال لکھاری پر فرض ہے کہ جہاں قاری کے لیے مشکلات پیدا ہوں، ذو معنیت جنم لے وہاں اعراب دے دے ۔ اس سے یقینا اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اعراب کے حوالے سے میرا ایک دوست ایم فل کا مقالہ لکھ رہا ہے۔ اس کی تحقیق کا جو نچوڑ سامنے آرہا ہے اس کا شاید آپ کو اندازہ بھی نہ ہو کہ بنا اعراب بعض اوقات مشکل اور بعض اوقات بالکل سادہ الفاظ بھی کیا سے کیا بن جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو زبان کا تصور ہے وہ بنا اعراب بولیاں بن جاتا ہے۔ اب اس ساری بحث کا محرک جو لفظ "مدرس" بنا ہے اگر اعراب ہوتے تو صورتِ حال یقینا مختلف ہوتی۔
 

عدنان عمر

محفلین
میری ناقص رائے کے مطابق میں جو ابھی تک اس سارے معاملے میں سمجھ سکا ہوں وہ یہی ہے کہ مدرز یا مدرس ان دونوں میں جو فرق ہے وہ وہ محض صوت کا نہیں حرکات کا بھی ہے اور اس کا تعلق ہماری معاشرت سے بھی ہے۔ اس قسم کے معاملات کے حل کے لیے ہم اپنی زبان پر غور کریں، جو عوام الناس کے لیے اور خود ہمارے لیے آسان ہو اسے رکھ لیا جائے، باقی چھوڑ دیا جائے۔
جناب! اس کی وضاحت کردیجیے۔
 

عدنان عمر

محفلین
اس میں سے جس بات کی سمجھ نہیں آئی اشارہ کر دیجیے ۔ میں حاضر ہوں
مدرز یا مدرس میں جو فرق ہے وہ محض صوت کا نہیں حرکات بھی ہے، اس کی وضاحت کردیجیے۔
اس کا تعلق ہماری معاشرت سے بھی ہے۔ اس قسم کے معاملات کے حل کے لیے ہم اپنی زبان پر غور کریں، جو عوام الناس کے لیے اور خود ہمارے لیے آسان ہو اسے رکھ لیا جائے، باقی چھوڑ دیا جائے۔، اس کی وضاحت بھی۔
ان دو نکات کی وضاحت درکار ہے۔
 
مدرز یا مدرس میں جو فرق ہے وہ محض صوت کا نہیں حرکات بھی ہے، اس کی وضاحت کردیجیے۔
اس کا تعلق ہماری معاشرت سے بھی ہے۔ اس قسم کے معاملات کے حل کے لیے ہم اپنی زبان پر غور کریں، جو عوام الناس کے لیے اور خود ہمارے لیے آسان ہو اسے رکھ لیا جائے، باقی چھوڑ دیا جائے۔، اس کی وضاحت بھی۔
ان دو نکات کی وضاحت درکار ہے۔
جی بہتر۔ حرکات سے مراد ہے زیر زبر پیش وغیرہ۔ حرکات کی غیر موجودگی اکثر اوقات الفاظ کو مہمل بنا دیتی ہےجیسا کہ مدرس کے ساتھ ہوا اور دو لوگوں نے یہاں
"مُدَرَس اور مُدَرِس" کے حوالے سے گفتگو بلکہ بحث کی۔ بظاہر دونوں درست ہیں لیکن ایک دوسرے کے مد مقابل دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ تمام مسائل ترجمہ نہ ہوتے ہوئے بھی ترجمے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شان الحق حقی
(اسلام آباد)، میڈم رابعہ سرفراز(فیصل آباد)، شبیر احمد (گوجرہ)، مشہور مترجم ملک اشفاق و دیگر کئی احباب نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اسی حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والے ایک انٹرنیشنل تحقیقی سیمینار میں جو مقالے پڑھے گئے وہ اصولِ ترجمہ نگاری کے نام سے شایع ہوئی، میرے پاس موجود ہے۔ حرکات کے حوالے سے الفاظ کی جو بناوٹ ہمارے ہاں مستعمل ہے اس پر ایم فل کا تحقیقی کام ہورہا ہے۔ جب کہ اسی حوالے سے پی ایچ ڈی کا کام ہوچکا ہے۔​
 
Top