مدیر کی زنبیل سے۔

محمد یعقوب آسی کی کتاب ’’ آسان عروض کے دس سبق‘‘ سے ۔


میں شعر کیوں کہتا ہوں؟ اس سوال کا جواب چنداں مشکل نہیں۔میں کیا سوچتا ہوں، کیا محسوس کرتا ہوں، میرے خیالات کیا ہیں؛ میرے گرد و پیش میں کیا کچھ ہورہا ہے، میرے قلب و نظر میں کیا کچھ ظہور پذیر ہورہا ہے؛ اور میں اس سے کیا اخذ کرتا ہوں؛ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے؛ مجھے اپنے افکار اپنے ہم نفسوں تک پہنچانے ہیں ؛ میں اس لیے شعر کہتا ہوں۔​
اظہار کے بہت سارے پیرائے ہیں۔جن میں ایک پیرایہ شاعری ہے۔ مجھے فطرت کی طرف سے اگر شعر کہنے کی صلاحیت عطا ہوئی ہے تو اسے کام میں لاتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میری امیدیں ، واہمے ، خوف ، صدمات، جذبات، سب کچھ آپ تک احسن طریقے سے پہنچے۔میرے کہے میں اسلوب کے لحاظ سے بھی کشش ہو، اسے آپ جمالیات کہہ لیجے۔ میرے الفاظ سے آپ میرے مافی الضمیر کو کہاں تک پالیتے ہیں، یہ ابلاغ ہے۔ گویا شعر کے بنیادی عناصر میں اول تو فکر و احساس ہے، دوسرے اسلوب ہے اور تیسرے ابلاغ ہے۔ میں ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے پر قطعی ترجیح نہیں دے سکتا۔ ازماست کہ بر ماست کے مصداق میری سوچیں، میرے واہمے، میری امیدیں میری آرزوئیں، میرے خدشات، میری توقعات ، میری محبتیں، میری نفرتیں ؛ میری ذات کا حصہ ہیںمیں ان سے کٹ کر شعر نہیں کہہ سکتا۔ اگر کہیں کوئی ایک آدھ شعر کہہ بھی لوں تو وہ خود مجھے اجنبی سا لگتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی شعری صداقت ہے۔​
مجھے بزبانِ شعر جوبھی کہنا ہے، میری اولین ترجیح یہ ہے کہ وہ شعر ہو اور اسے شعر قرار دیا جائے۔ لہجے کی شستگی اور شائستگی، زبان و بیان کا درست ہونا، ملائمت کا عنصر، شعر کے فنی تقا ضوں کا ایفاء، میری پسندیدہ لفظیات اور تراکیب۔ یہ سب کچھ مل کر میرا اسلوبِ بیان کہلاتے ہیں اور میری شناخت کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔​
ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیںجو ادب اور خاص طور پر شعر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو شعر کہنے پر مائل ہیں مگر عروض اور بحور کا یا تو پورا شعور نہیں رکھتے یا رکھتے تو ہیں مگر شعر موزوں کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں ایسی فروگزاشت کرجاتے ہیں جو کسی بھی خوش ذوق قاری پر گراں گزرتی ہے۔ ادھر عروض اور بحور کا صحیح صحیح ادراک اور تفہیم بہرحال ایک محنت طلب کام ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے دوست احباب عروض اور بحور کے رسمی علم سے بہت زیادہ شناسائی نہ رکھنے کے باوجود شعر کو درست آہنگ میں پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شعر کو درست آہنگ میں پڑھ لینے کی صلاحیت کو عام زبان میں ’’شعری وجدان ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔​
شعر اور نثر میں بنیادی فرق کیا ہے! نثر میں تو یہ ہے کہ اپنے موضوع پر ہمارے جملے اور ان میں شامل الفاظ ایک ایسی ترتیب میں آتے ہیں جس میں معانی اور مفاہیم کو اولیت دی جاتی ہے۔ نثر میں کسی خاص آہنگ یا سُر اور لے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ کوئی ایسی قید ہوتی ہے کہ ایک مضمون یا پیراگراف سے سب جملے ضخامت میں برابر ہوں، نہ اُن کو ادا کرنے میں حرکات و سکنات کی کوئی خاص ترتیب ملحوظ رکھنا ہوتی ہے۔ معانی اور مطالب کا بہاؤ اور نثرنگار کے منتخب کردہ الفاظ جملوں کو مکمل کرتے ہیں۔​
ابھی ہم نے آہنگ کی بات کی ہے۔ آپ نے بہت سارے گلوکاروں کو غزل گاتے سنا ہوگا۔ بہت سے شعراء کو کسی مشاعرے میں یا ریڈیو ، ٹیوی پر غزل پڑھتے سنا ہوگا۔ آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہوگاکہ ایک شاعر جب غزل پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کے ہر مصرعے میں ادا ہونے والے حروف کا صوتی اُتار چڑھاؤ ایک سا ہوتا ہے۔ یہی چیز آہنگ ہے۔ شعر کا ایک اچھا قاری بھی شعر کو ایسے ہی اتار چڑھاؤ کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اس پر مزید غور کیجیے تو کھلتا ہے کہ ایک فن پارے کے تمام مصرعوں میں حرکت والے حروف اور ساکن حروف کی ترتیب ایک جیسی ہوتی ہے۔ کسی ایک شعر میں وارد ہونے والی اسی ترتیب کو فن کی زبان میں بحر کہتے ہیں ۔ اب بات کرنا کسی قدر آسان ہوگیا ہے، آپ یوں کہہ لیجے کہ ایک غزل کے تمام مصرعے ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں اور یہ ضروری ہے۔​
شعری وجدان کی طرف اشارہ پہلے کردیا گیا۔ یہ بہت خاص ملکہ ہے جس کا کسی رسمی تعلیم اور علمی سطح سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو’’شعر کا لاشعوری ترازو‘‘ کہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ آپ ایک شعر پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں، اور علمِ عروض یا اوزان کا رسمی علم نہ ہونے کے باوجود آپ اس کے صوتیاتی اتار چڑھاؤ( یعنی آہنگ یا بحر) اور اگر شاعر یا قاری سے کہیں کوئی فروگزاشت ہوچکی ہے تو آپ کو اس کا احساس ہوجاتا ہے۔ یہ شعری وجدان شعر کہنے کے عمل میں بھی لاشعوری طور پر عامل رہتا ہے، اور قطع نظر اسکے کہ آپ کو اپنے زیرِ مشق بحر کے ارکان اور تقطیع کی قطعیت پر یقین ہے یا نہیں، آپ کے اشعار اس بحر کے مطابق نکلتے ہیں۔ اس کو عرفِ عام میں’’ موزونیتِ طبع‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کسی فرد کے اندر یا تو موجود ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، یعنی بنیادی طور پر یہ ایک وہبی خاصہ ہے ، اس کو پیدا نہیں کیا جاسکتا، ہاں اس کو نکھارا سنوارا ضرور جاسکتا ہے۔​
جمالیات انسانی فطرت کا خاصہ ہے، اور ذوق جمالیات کا حصہ ہے۔ حسِ جمالیات کے مظاہر کا تجزیہ اور تقابل اس عریضے کا حصہ نہیں، تاہم زبان و بیان کے حوالے سے ایک مثال: کسی کو بیٹھنے کے لیے کہنا مقصود ہے (۱) بیٹھ جا، (۲)بیٹھو، (۳) بیٹھ جاؤ، (۴) تشریف رکھیے، (۵) تشریف فرمائیے؛ ان سب کا مفہوم ایک ہے ، اظہار میں فرق ہے۔ بہ الفاظِ دِگر زبان میں شستگی اور شائستگی کا عنصر حسن پیدا کرتا ہے، آپ اس کو لسانی جمالیات کا نام دے لیجئے۔ بیان میں جمالیاتی عنصر پیدا کرنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ اپنے مافی الضمیر کو کسی صوتی آہنگ یا نظام کے تحت لاکر بات کی جائے ۔ اور ایسے نظام کے تحت کہے جانے والے جملے ضخامت میں برابر ہوں، اپنے اندر بھی حرکات و سکنات کا ایک جیسا تموج رکھتے ہوں اور ان کے اختتامی الفاظ میں صوتی ہم آہنگی بھی شامل ہوتو اس کو کلامِ منظوم کہا جائے گا۔ شعر کلامِ منظوم ہوتا ہےجب کہ ہر کلامِ منظوم ضروری نہیں کہ شعر کے جملہ تقاضے پورے کررہا ہو۔​
(از محمد یعقوب آسی از آسان عروض کے دس سبق)​
 
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی کتاب’’ جدید غزل ‘‘ سے انتخاب

جدید غزل​
غزل جتنی بدنام ہےاتنی ہی مجھے عزیز ہے۔ شاعری کا ذکر آتے ہی میرا ذہن غزل کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ غزل کو میں اردو شاعری کی آبرو سمجھتا ہوں۔ ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے۔ دونوں کو سمت ورفتار ، رنگ و آہنگ، وزن و وقار ایک دوسرے سے ملا ہے۔​
ہندوستان میں جن زبانوں ، بولیوں یا روایات کی بڑی مان دان ہے یا رہی ہے، اردو ان کی غزل ہے، اور اردو کی بیت الغزل ، غزل، فن ہی نہیں فسوں بھی ہے، شاعری نہیں تہذیب بھی، وہ تہذیب جو دوسری تہذیبوں کی نفی نہیں کرتی بلکہ اُن کی تصدیق کرتی ہے۔ کبھی تنقیہ و تزکیہ بھی۔ ہندوستان نے اردو کے آئینے میں پہلی بار جمہوریت کی تصویر دیکھی۔​
غزل کے اصطلاحی، ابتدائی و روایتی مفہوم پر زور دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ فن ہو ، روایت ہو، مذہب و اخلاق ہو ، ان کا رشتہ اپنے ماسبق سے ضرور ہوتا ہے۔ لیکن ان کی قدر و قیمت کا اندازہ کسی اور بناء پر کیا جاتا ہے۔ غزل کی اہمیت کا انحصار اب اس پر نہیں ہے کہ کبھی اس میں عشق و شباب کی باتیں کی جاتی تھیں یا اس کے وسیلے سے عورتوں سے گفتگو کی گئی یا کی جاتی ہے ۔ اس کا احترام اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس سے گفتگو کرنی آجاتی ہے۔​
اردو میں ہر طرح کی شاعری ہوئی ہے۔ ہر طرح کے شاعر گزرے ہیں، شاعری کا مقصد و محور بھی جداگانہ رہا ہے ۔ لیکن ہماری شاعری اثر و قبولِ عام کا جادو غزل سے نہیں تو غزل ہی کے آداب و آہنگ سے جگایا گیا ہے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
(اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے ) اسکے بعد یہ بتانے کی ضرورتباقی نہیں رہ جاتی کہ غزل کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کا مستقبل خطرے میں نہیں ہے۔ البتہ یہاں یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ آئیندہ غزل کا رنگ و آہنگ کیا ہوگا۔ حسرت ، اقبال، اصغر، فانی، جگر، فراق فیض ، وغیرہ کس کے بتائے ہوئے، بنائے ہوئے راستے سے وہ آگے بڑھے گی۔ یہ سوال جتنا دلچسپ ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ اور اس سے کچھ کم دلچسپ یا مشکل سوال یہ بھی نہیں ہے کہ آئیندہ غزل کی قیادت ہندوستان کے ہاتھ میں ہوگی یا پاکستان کے۔​
یہ سوالات ایسے نہیں کہ جن کا جواب سرسری طور پر چند جملوں میں دیا جاسکے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اردو کی، ہندوستان یا پاکستان کی اور سارے جہان کی ، جس میں سبھی اسیر ہیں آئیندہ کیا رفتار اور سمت ہوگی۔​
پروفیسرشید احمد صدیقی( صدر شعبہٗ اردو مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)​
 
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی کتاب’’ جدید غزل ‘‘ سے انتخاب

جدید غزل​
غزل جتنی بدنام ہےاتنی ہی مجھے عزیز ہے۔ شاعری کا ذکر آتے ہی میرا ذہن غزل کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ غزل کو میں اردو شاعری کی آبرو سمجھتا ہوں۔ ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے۔ دونوں کو سمت ورفتار ، رنگ و آہنگ، وزن و وقار ایک دوسرے سے ملا ہے۔​
ہندوستان میں جن زبانوں ، بولیوں یا روایات کی بڑی مان دان ہے یا رہی ہے، اردو ان کی غزل ہے، اور اردو کی بیت الغزل ، غزل، فن ہی نہیں فسوں بھی ہے، شاعری نہیں تہذیب بھی، وہ تہذیب جو دوسری تہذیبوں کی نفی نہیں کرتی بلکہ اُن کی تصدیق کرتی ہے۔ کبھی تنقیہ و تزکیہ بھی۔ ہندوستان نے اردو کے آئینے میں پہلی بار جمہوریت کی تصویر دیکھی۔​
غزل کے اصطلاحی، ابتدائی و روایتی مفہوم پر زور دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ فن ہو ، روایت ہو، مذہب و اخلاق ہو ، ان کا رشتہ اپنے ماسبق سے ضرور ہوتا ہے۔ لیکن ان کی قدر و قیمت کا اندازہ کسی اور بناء پر کیا جاتا ہے۔ غزل کی اہمیت کا انحصار اب اس پر نہیں ہے کہ کبھی اس میں عشق و شباب کی باتیں کی جاتی تھیں یا اس کے وسیلے سے عورتوں سے گفتگو کی گئی یا کی جاتی ہے ۔ اس کا احترام اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس سے گفتگو کرنی آجاتی ہے۔​
اردو میں ہر طرح کی شاعری ہوئی ہے۔ ہر طرح کے شاعر گزرے ہیں، شاعری کا مقصد و محور بھی جداگانہ رہا ہے ۔ لیکن ہماری شاعری اثر و قبولِ عام کا جادو غزل سے نہیں تو غزل ہی کے آداب و آہنگ سے جگایا گیا ہے۔​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔​
(اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے ) اسکے بعد یہ بتانے کی ضرورتباقی نہیں رہ جاتی کہ غزل کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کا مستقبل خطرے میں نہیں ہے۔ البتہ یہاں یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ آئیندہ غزل کا رنگ و آہنگ کیا ہوگا۔ حسرت ، اقبال، اصغر، فانی، جگر، فراق فیض ، وغیرہ کس کے بتائے ہوئے، بنائے ہوئے راستے سے وہ آگے بڑھے گی۔ یہ سوال جتنا دلچسپ ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ اور اس سے کچھ کم دلچسپ یا مشکل سوال یہ بھی نہیں ہے کہ آئیندہ غزل کی قیادت ہندوستان کے ہاتھ میں ہوگی یا پاکستان کے۔​
یہ سوالات ایسے نہیں کہ جن کا جواب سرسری طور پر چند جملوں میں دیا جاسکے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اردو کی، ہندوستان یا پاکستان کی اور سارے جہان کی ، جس میں سبھی اسیر ہیں آئیندہ کیا رفتار اور سمت ہوگی۔​
پروفیسرشید احمد صدیقی( صدر شعبہٗ اردو مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)​
محمد خلیل الرحمٰن بھائی جی یہ کتاب 1950 کے آس پاس کی لکھی ہوئی تو نہیں؟
 
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے یہ مقالہ پروفیسری کے منصب پر فائز ہونے کے بعد علی گڑھ کے ایک ادبی اجتماع میں 26 اگست 1954 ء کو پڑھا تھا جسے پاکستان میں پہلی بار 1979ء میں اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے شائع کیا۔
 
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے یہ مقالہ پروفیسری کے منصب پر فائز ہونے کے بعد علی گڑھ کے ایک ادبی اجتماع میں 26 اگست 1954 ء کو پڑھا تھا جسے پاکستان میں پہلی بار 1979ء میں اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے شائع کیا۔
کیا آپ کے پاس طبع شدہ یا برقی کیات کی صورت میں موجود ہے؟
 
چھوٹے سائیز کی قریباَ400 یا 700 صفحات کی کتاب ہے اور آخر میں تقریباَ تمام نمائندہ شاعروں کے کلام کے نمونہ جات ہیں؟
یہ کیا آپ کسوٹی کسوٹی کھیل رہے ہیں؟
بھائی جی میرے پاس ایک کتاب تھی جو میرے لئے ایک متاع بے بہا تھی
وہ گم ہو گئی :(
شاید بھائی@محمد خلیل الرحمٰن کے پاس وہی نسخہ ہو
اچھا تو اس لیے تفتیش ہو رہی ہے۔ خلیل بھائی سچ سچ بتائیں یہ کتاب آپ تک کیسے پہنچی؟
شمشاد بھائی اور سید شہزاد ناصر بھائی، ہم حلفیہ بیان دینے کے لیے تیار ہیں کہ یہ کتاب جو تقریآ 90 صفحات کی ضخامت رکھتی ہے، ہمیں ہمارے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن نے ھدیا کی تھی۔ اس میں شعراء حضرات کے کلام کے نمونے بھی نہیں ہیں۔ اسلام آباد میں میلوڈی مارکیٹ اور سُپر مارکیٹ میں اولڈ بک شاپس پر تلاش کریں ، شاید آپ کی گم شدہ کتاب بازار سے بارعائت دستیاب ہوپائے۔پنڈی اسلام آباد سے گم کردہ کتب کراچی مشکل سے پہنچ پاتی ہیں۔:)
 
Top