صاحب مضمون ہی بتا سکتے ہیں۔ جس منصب سےریٹائرڈ ہوئے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے بے سروپا بات نہیں کررہے ہوں گے گے۔ (واللہ علم)
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ دعوی ہی تسلیم نہیں کرتا کہ طالبان نے دشمنوں کو شکستِ فاش دے دی ہے۔طالبان نے افغانستان پر سات سال حکومت کی ۔ پوری دنیا میں کھلے عام کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اور یہ سات سال بھی خانہ جنگی پر قابو پاتے گزرے۔ناتجربہ کاری ، وسائل کی کمی اور سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں منظر سے غائب ہونا پڑا۔ اب جب کہ انہوں اپنے دشمنوں کو شکست فاش دے دی ہے اور دشمنوں سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے پاس اتنی قوت و صلاحیت ہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت بنا سکتے ہیں۔
جن علاقوں میں پاکستانکے قانون کی عملداری ہی نہیں اور وہاں کے مکین پاکستان کی حکومت کے فیسلوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے، پھر انکو یہ گلہ بھی نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔پاکستانی علاقوں میں بسنے والے پاکستانیوں کی حفاظت کس کے ذمے ہے؟؟
بے شک ڈارون حملے امریکہ کرتا ہے مگر اجازت کس نے دے رکھی ہے؟؟
اچھا مارے امریکہ ، لیکن بدلے میں انتقام لیا جائے پاکستان سے۔۔۔جب یہ لوگ پاکستانی خارجہ پالیسی سے بغاوت کرتے ہوئے پاکستانی علاقے سے افغانستان میں جاکر کارروائیاں کریں گے اور جواب میں دشمن بھی کاروائی کرے گا تو پھر کس منہ سے پاکستان سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔۔۔جس اسلام کا نام لیتے ہیں اس مین تو اطاعتِ امیر اور اولوالامر کی اطاعت کا حکم ہے۔۔۔یہاں تو جس قبائلی کے ہاتھ میں کل؛اشنکوف ہوتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں ہی صلاح الدین ایوبی ہوں۔۔۔۔جب امریکہ انہیں مارے گا تو کیا وہ وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں گے۔ جب مذاکرات ہونے جا رہے تھے تو امریکہ نے حملہ کر کے ان کو کھڈے لائن لگا دیا۔ پاکستان نے اس حملے پر کیا بگاڑ لیا امریکہ کا؟
مذاکرات تو تبھی کامیاب ہوں گے جب پاکستان امریکیوں کو پاکستان میں غیر قانونی اور بلا جواز حملے کرنے سے روکے گا۔
کیونکہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل کتلئیے ہیں، افغانستان کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے، پاکستان میں خانہ جنگی کے ٹائم بم جگہ جگہ لگادئیے ہیں، روسی ریاستوں سے گوادر کے ذریعے سامان تجارت کی نقل و حمل کو ناممکن بنادیا ہے، اور افغانستان میں اپنے فوجی اڈے تعمیر کرلئیے ہیں جہاں انکی افواج 2014 کے بعد تک بھی براجمان رہیں گی۔۔۔آپ شوق سے اسے اپنی فتح اور دشمن کی شکست سمجھتے رہئیے۔۔۔۔مجھے ایک حکایت یاد آگئی جو طالبان ہی کے مکتبِ فکر کے ایک عالم کے ملفوظات میں سے پڑھی تھی :دس دن میں افغانستان کو فتح کرنے والے ۱۳ سال بعد بوری بسترا گول کر رہے ہیں ۔
اک ذرا صبر کہ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔
کس کا؟ امریکی ایجنٹوں کا؟ہم جس کنویں میں بیٹھ کر ٹراتے ہیں وہ دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا ہے اور ہماری یادداشت کمزور ۔
سے ملتا ہے ۔ ایک رنگ کے دو جوتے پہننے کے لئے تو پیسہ نہیں تو پھر دنیا کا مہنگا ترین اسلحہ کیا آسمان سے نازل ہوتا ہے ؟۔ جاؤ یار کہیں اور جا کر ٹراؤ پہلے ہی اس کنویں میں بہت شور ہے ۔
امریکی ایجنٹوں سے بھی زیادہ خطرناک ایجنٹ ہیں " 3 ڈی ایجنٹ " ۔ ایک ایسی مثلث کہ اسےجس طرف سے بھی گھماؤ یا پلٹاؤ نقطے بدلنے کے باوجود اس کے زاوئیے اپنے "قاعدے" پر ہی منطبق ہو جائیں گےکس کا؟ امریکی ایجنٹوں کا؟
مرض جتنا پرانا ہوتا جائے اتنا ہی پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ پاکستانی طالبان کا ہے۔
امریکہ کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ افغانستان پر حملہ آور ہوتا اور وہاں قبضہ کرتا۔ جب وہاں کے لوگوں نے امریکہ کے خلاف جنگ آزادی لڑی تو وہ مجاہدین سے دہشت گرد قرار دئے گئے۔
پہلے افغانی مجاہدین تھے۔ جب انہوں نے امریکی حملہ تسلیم نہیں کیا تو وہ دہشت گرد بن گئے!
جب پاکستان کے قبائیلیوں نے اپنے ہم قبائلیوں کا ساتھ دینے کے لئے ڈیورنڈ لائن کراس کی تو امریکہ نے مشرف کو حکم دیا کہ انکے خلاف آپریشن کرو اور انکو مارو۔
مشرف نے سر تسلیم خم کیا اور قبائلیوں کو مارنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد قبائلیوں نے پاکستانی فوج کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی قوم کو بھی
تو انتقام پاکستانی قوم سے بھی لینا شروع کر دیا۔ جگہ جگہ بم دھماکے اور خود کش حملے پاکستانی قوم کا مقدر بن گئے۔
قبائلی تو انتقام کی آگ میں اندھے ہو چکے تھے، ایسے میں ان قبائلیوں کے بھڑکتے ہوئے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کے دشمن بھی میدان میں کود پڑے۔
ان قبائلیوں کو ساتھ ملا جعلی تحریکی طالبان تشکیل دی گئی اور اسکا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا گیا۔ کچھ جرائم پیشہ عناصر نے بھی طالبان کا نام استعمال کر کے بھتہ وغیرہ لینا شروع کر دیا۔
پاکستان کے اندر عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث جماعتیں بھی جعلی طالبان کے ساتھ مل گئیں۔ اور انکو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگیں۔
اس وقت جعلی طالبان فرقہ وارانہ رنگ بھی پوری طرح لئے ہوئے ہیں
یہ بیماری اس قدر پھیل چکی ہے کہ جو لوگ مخلص ہو کر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں کہ اس کو حل کیسے کیا جائے۔
طالبان پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ تو پھر پاکستانی بے گناہ عوام کو مارنے کی کیا تک ہے؟
ذرا اس بات پرغور کیا جائے کہ امریکہ تو اپنا گند مار کے یہاں سے جارہا ہے، لیکن آگ تو ہمارے ملک میں لگی ہوئی ہے!
نا اہل مشرف میں اس بات کی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ ایسے مسئلے کو صحیح طریقے سے حل کر پاتا۔
جو قبائل کل تک پاکستان کی مغربی سرحدوں کے محافظ تھے آج وہ ہمارے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں!
اور اسکا کریڈٹ مشرف کو جاتا ہے۔
ٹی وی، اخبارات وغیرہ۔ روز بروز دیکھ کر خود بخود زہن میں محفوظ اور مرتب ہوتی گئی۔یہ تاریخ آپ نے کہاں سے پڑھی ہے؟
حیرت ہے، نسیم حجازی کی نئی کتاب مارکیٹ میں آ بھی گئی اور ہمیں معلوم ہی نہیں پڑا۔
ٹی وی، اخبارات وغیرہ۔ روز بروز دیکھ کر خود بخود زہن میں محفوظ اور مرتب ہوتی گئی۔
میں الحمد للہ روزانہ خبریں پڑھنے اور سننے کا عادی اور شوقین ہوں۔
الحمد للہ ، کوئی عینک نہیں پہنتا۔ نا ظاہری نا باطنی۔ کبھی آپ نے میرا کوئی تعصب پر مبنی کوئی مراسلہ پڑھا ہے؟عینک کس رنگ کی پہنتے ہیں؟
ویسے ہمیں تو نمبر کی عینک لگی ہوئی ہے تو رنگ برنگی عینکیں نہیں پہن سکتے۔ ان سے نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔
الحمد للہ ، کوئی عینک نہیں پہنتا۔ نا ظاہری نا باطنی۔ کبھی آپ نے میرا کوئی تعصب پر مبنی کوئی مراسلہ پڑھا ہے؟
نہیں پڑھا ہوگا اور انشآاللہ پڑھیں گے بھی نہیں۔
جی دوستانہ مشورے کا شکریہ۔میرا مشورہ یہی ہوگا کہ مطالعہ کچھ وسیع کریں۔