مذاکرہ مابین علامہ یوسف جبریل و اینی میری شمل

الف نظامی

لائبریرین
دور جدید میں قرآن حکیم کا ایک لازوال اور محیرالعقول سائنسی اور ایٹمی معجزہ
معروفِ زمانہ یہودی مستشرق اینی میری شمل اور علامہ یوسف جبریل کے درمیان قرآن حکیم کے اس اہم موضوع پر یادگار مذاکرے کی تفصیل و روئیداد
تحریر: علامہ محمد یوسف جبریل​

ستمبر 1963 ء کا واقعہ ہے ۔ انہیں دنوں مائینڈ آف دی قرآن ( Mind of the Quran ) کی سات جلدوں کی اشاعت کے لئے کسی پبلشر کی تلاش میں لاہور گیا ہوا تھا ۔ دنیائے علم و ادب سے گریزاں چالیس برس، پوشیدہ و نہاں، صحرائے جستجو میں سرگرداں اور بحر تحقیق میں ہمہ تن غرق ، طویل المیعاد علمی کدوکاوش اور تلاش حق کے ایک تنہا مسافر کی حیثیت سے میں اس جہان رنگ و بو کا ایک غیر متعارف ترین انسان تھا اور اس پر میری دقیانوسی وضع قطع، اور عامیانہ ہیئت کذائی مستزاد، معلوم ہوا کہ دنیا کا ہر شخص جوہری نہیں ہوتا اور اعلیٰ سے اعلیٰ جوہر کو بروئے کار لانے کے لئے بھی ظاہر داری کو کافی دخل ہوتا ہے ۔

چند دنوں میں جن چند اہل نظر حضرات نے میری کاوش کو نظر استحسان سے دیکھا اور مجھے اپنی نگاہ التفات سے نوازا ، ان کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا مثلاً علامہ علاؤ الدین صدیقی ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، آقا بیدار بخت، ڈاکٹر جاوید اقبال ، پروفیسر علم الدین سالک ، جناب صدیقی صاحب لائبریرین دیال سنگھ لائبریری ، پروفیسر خالد عباس ، ڈاکٹر وحید قریشی ، اور اظہر جاوید، وغیرہ وغیرہ، اور ان حضرات کی نگاہ جان نواز کا کرشمہ سمجھئے ورنہ علم کا وہ بحرِ ذخار جو ایک مسکین کے حقیر سے سینے میں متلاطم تھا ۔اہل زمانہ کی کم نگاہی کے سبب منجمند ہو کر برف کا ایک کوہِ گراں بار ہو کے رہ جاتا اور میں اس پہاڑ کی قبر ہوتا ۔تاہم مائینڈ آف دی قرآن ( Mind of the Quran ) منصۂ شہود پر نہ آ سکا۔

یہ علامہ علاؤ الدین صدیقی تھے جن کے مکان پر مجھے شرف ہمنشینی حاصل تھی۔ صیہونیت زیر بحث تھی ،بعض دوسرے اسلامی مسائل اور دور حاضر میں مسلمانوں کا کردار بھی ضمناً درپیش تھا ۔ علامہ صاحب محوگفتگوتھے ۔اور میں جوش و مستی کے عالم میں بعض دفعہ ناممکنات کی حدوں کو چھو جاتا۔ میں مسلمانوں کو قرون اولیٰ کی سطح پر دیکھنے کا متمنی تھا۔

علامہ صاحب حد درجے کے زیرک اور فہیم عالم دین تھے ۔آٹھ بجے صبح کے بیٹھے شام کے چار بج گئے۔ میں اجازت کے لئے اٹھا تو فرمایا کہ

برادر بیٹھو ،ایک نسلًا جرمن مذہباً یہودی فاضلہ عورت لاہور میں وار د ہے ۔ چھ تقریریں پنجاب یونیورسٹی میں کر چکی ہے ۔ بدھ کے روز تین بجے سے پانچ بجے تک اس کی آخری تقریر ہے ۔ قرآن حکیم ، انجیل، توریت، اور زبور پر عبور رکھتی ہے ۔ اسلامی دنیا کے دورے پر ہے،جملہ اسلامی ممالک سے ہوتی ہوئی لاہور میں پہنچ چکی ہے ۔یہاں سے دہلی اور پھر تمام دنیا کے گرد چکر لگا کر واپس جرمنی جائے گی۔ برادر ! اس علمی بصیرت اور قرآنی نور کے پیش نظر جو آپ کو اللٰہ تعالیٰ نے ودیعت فرمایا ہے ،میں آپ کو دعوت دیتا ہوں ۔ یہ میرا خصوصی کارڈ ہے ۔ میں ہر روز بیس بائیس چوٹی کے عالم بدل بدل کر مدعو کرتا ہوں ۔ باری باری چار پادریوں کو بھی بلا لیتا ہوں ۔کیونکہ عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے محرم ہوتے ہیں۔ عوام کو ہم لوگ اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی مشتعل ہو کر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے ،جو ہمارے لئے باعث رسوائی ہو ۔ دنیا کہے کہ قلم کا جواب قلم سے نہ دے سکے اور اپنے ہتھیاروں پراتر آئے۔عورت کیاہے آفت کا پرکالہ ہے ۔

میں نے عرض کیاکہ جناب علامہ صاحب ! اس کا موضوع کیا ہے ؟

فرمایا کہ قرآن حکیم کی الہامی حیثیت کی منکر ہے اور ثبوت کے لئے قرآن حکیم پر نکتہ چینی کرتی ہے

میں نے کارڈ لیا اجازت چاہی اوررخصت ہو گیا۔ میں راستے میں سوچتا گیا کہ کس خوبی سے اسلام کی جڑ پر کلہاڑی چلائی جا رہی ہے۔ اگر ایک نبی کا نعوذ باللہ ایک جھوٹ ثابت ہو جائے تو پھر رہتا ہی کیا ہے، ساری عمارت ہی دھڑام سے نیچے آ جاتی ہے۔

بدھ کے روز حسب وعدہ ٹھیک پونے تین بجے میں یونیورسٹی پہنچ گیا۔ پہلی صف کے بائیں طرف مجھے سیٹ ملی ،وہاں بیٹھ گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا ،بیس بائیس اچھے مشخص علماء کرام تشریف فرما تھے۔ دائیں جانب ایک کونے میں چار پادری بھی گون پہنے ننگے سر نظر پڑے ۔ علامہ صاحب صدارت کی کرسی پر براجمان تھے ۔

ٹھیک تین بجے فاضلہ تشریف لائیں ،عورت کیا آئی ایک طوفان آ گیا ۔ ہر طرف خو ف و ہراس کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ صدر صاحب سے اجازت مانگی اور یہ جا اور وہ جا ۔ تابڑ توڑ تازیانے برسانے شروع کر دیئے ۔ انگریزی زبان پر حیران کن دسترس تھی اور ہم گرتے پڑتے میانوالی پہنچتے تووہ روس کی سرحدوں کو چھو رہی ہوتی تھی ۔ بعض باتوں کے جواب ہمیں معلوم ہوتے تھے مگر وہ ہمیں موقع ہی کب دیتی تھی ۔ اس طرح ایک گھنٹہ گزر گیا گھڑی نے چار بجائے ۔ ہماری تقدیر لکھنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا ۔

پریشانی کے عالم میں علامہ صاحب کرسیء صدارت کو گھسیٹتے ہوئے میری جانب آ بیٹھے ۔

میں نے پوچھا۔ کیوں علامہ صاحب ! فرمانے لگے ۔ برادر ! تو بھی خاموش ۔یہ علماء کرام بھی خموش۔پادری بھی خموش ۔میں بحیثیت صدر کچھ پوچھنے کا مجاز نہیں ۔ میں نے عرض کیا ۔ علامہ صاحب ! قرآن حکیم آپ کا ہے؟ فرمانے لگے نہیں ۔ میں نے عرض کیا تو میرا ہو گا ؟ انہوں نے فرمایا نہیں تمہارا بھی نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ ان علمائے کرام کا ہو گا تو انہوںنے فرمایا نہیں ، ان کا بھی نہیں تو پھر ان پادریوں کا ہو گا ؟ کہا ان کا بھی نہیں ۔ میں نے عرض کیا علامہ صاحب ! قرآن حکیم جس کا ہے۔وہ اس کی خود حفاظت کرے گا۔

اس دوران جو علامہ صاحب نے کرسی گھسیٹی ۔اور میرے اور علامہ صاحب کے درمیان کچھ کھسر پھسر ہوئی تو محترمہ صاحبہ کی توجہ اپنی تقریر سے ہٹ گئی ۔ وہ حیران تھی کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ۔ ادھر میں اس گھنٹہ کے دوران یہ محسوس کر چکا تھا کہ اس عورت کو بحث میں الجھانا سراسر حماقت ہے ۔ بحث میں کب کسی بات کا فیصلہ ہوا ہے البتہ کوئی ایسی صورت پروردگار پیدا کر دے کہ یہ عورت پابہ زنجیر ہو کر رہ جائے اور خود بولے کہ ہاں میں لا جواب ہوں ۔

میرے دماغ میں ایک بجلی سی کوندی اور میں اٹھ کھڑا ہوا ۔ بات چیت انگریزی زبان میں ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا

مادام ! معذرت خواہ ہوں میں نے گذشتہ چھ تقریروں میں کچھ نہیں سنا۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے کیا کہا البتہ آج کی تقریر کے اس گھنٹے کا روادار ہوں مگر جو کچھ میں نے اس ایک گھنٹے کے دوران سنا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ قرآن حکیم کی الہامی حیثیت کی منکر ہیں یعنی یہ تو آپ مانتی ہیں کہ قرآن حکیم ایک اچھی کتاب ہے ۔ اس میں نصیحت بھی ہے ،کچھ قانون بھی ہے ،لائحہ عمل بھی ہے اور چند پرانے لوگوں کی مثالیں بھی ہیں مگر آپ ماننے کو تیار نہیں کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ نے عرش سے فرشتے کے ذریعے ہمارے نبی امی و فداہ ابی و امی حضرت محمد پر نازل کیا ۔

کہنے لگیں کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے ۔ یہی میری منشا ہے۔

میں نے کہا ۔ مادام ! میں کسی بحث میں آپ کو ہرگز الجھانے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ دل کی گفتگو دل سے ہونی چاہیئے ۔ دو ضمیروں کی گفتگو ہوگی ۔

کہنے لگی ۔بیان جاری رکھئے ۔

میں نے عرض کیا ۔ مادام ! اگر قرآن حکیم جیسا کہ آپ کا خیال ہے ہمارے نبی کریم نے خود لکھا تھا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وقت کے کسی دور میں یا دنیا کے کسی حصے میں اگر کوئی شخصیت ایسی ابھرتی جس کی علمی قابلیت اس پائے کی ہوتی جیسی کہ ہمارے نبی کریم کی تھی تو دنیا کے سامنے ایک اور قرآن حکیم پیش کر دیا جاتا۔

کہنے لگیں عین ممکن ہے۔

میں نے عرض کیا کہ ایسا ہوا تو نہیں مگر چلئے محترمہ ! بتایئے کہ قرآن حکیم کب نازل ہوا ؟ یا آپ کے نظریئے کے مطابق قرآن حکیم کب ہمارے نبی کریم نے لکھا ۔

کہنے لگیں۔ ٹھیک تیرہ سو اسی برس پہلے ۔

میں نے سوال داغ دیا کہ ایٹم بم کب بنا ۔ کہنے لگیں ، سن 1945 ء میں دو دانے ناگاساکی اور ہیروشیما پر پھینکے گئے ۔

میں نے عرض کیا ۔ قرآن حکیم لکھا گیا تیرہ سو اسی برس پہلے۔ ایٹم بم گرائے گئے سال 1945 ء میں ۔ کہنے لگیں ہاں۔

میں نے عرض کیا ۔ محترمہ ! ان دو تاریخوں میں کچھ فاصلہ ہے ۔ جواباً کہا بیچ میں صدیاں پڑی ہیں۔

میں نے عرض کیا محترمہ ! اپنے ضمیر میں جھانک کر جواب دیں کہ کیا کسی انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ تیرہ سو اسی برس پہلے بدووں کے ملک میں ، مکے کے شہر میں ( ایک ان پڑھ شخص )حضرت محمد مصطفی جس کے متعلق آپ کے دانش ور طبقے کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حضور نبی کریم قطعاً ان پڑھ تھے ، انہوں نے نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا نہ ہی کوئی کتاب پڑھی ، نہ ہی اپنے ہاتھ میں کبھی قلم لے کر کچھ لکھا ۔ ایک کتاب لکھنے بیٹھ جاتا ہے ۔ وہ عربی زبان میں ایک کتاب لکھتا ہے ۔ اس کا نام قرآن حکیم رکھتا ہے اور اس عربی قرآن حکیم میں انگریزی لفط ایٹم ( ATOM ) بھی لکھتا ہے ۔ یہ لفظ ایٹم یونانی لفظ اٹامس ( ATOMOS) سے انگریزی سائنس دانوں نے اپنا کر بطور اصطلاح استعمال کیا ہے یہی نہیں بلکہ قرآن حکیم کا مصنف تھیوری آف اٹامزم (Theory of Atomism) ڈیماکرٹس قبل مسیح کی ایٹمی تھیوری کی پچیس سو سالہ راز کا انکشاف کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بتاتاہے کہ کس طریقے سے ایٹم بم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مارے گااور جب چلے گا تو کیسی تصویر دیکھنے والوں کی نظر میں پیش کرے گا ، یہی نہیں بلکہ بتاتا ہے کہ کن قوموں کو اللہ تعالیٰ اس عذاب شدید کا مستحق قرار ٹھہرائے گا اور وہ کون سے خصائص ہیں جن کی بنا پر وہ بدنصیب قومیں اس عذاب کی مستحق ٹھہریں گی ۔ یہ سب نو آئتوں اور چھتیس لفظوں میں قرآن حکیم نے بیان کیا ہے۔

کہنے لگیں۔یہ قطعاَ ناممکن ہے کیا آپکے حواس درست ہیں۔۔عربی قرآن میں انگریزی لفظ ایٹم ( ATOM ) اور پھر ایٹمی تھیوری کی تاریخ اور ایٹم بم کے دھماکے (Atomic Explosion) کی تصویر ۔

میں نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی گردنیں کچھ بلند ہو گئی ہیں اور آنکھوں میں حیرت کے آثار ہیں ۔ یہ لوگ تو سب چوٹی کے عالم ہیں ۔ قرآن حکیم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں ۔ قرآن حکیم اور ایٹم بم ؟ ان کے لئے بھی یہ انوکھی بات تھی ۔ میں نے عرض کیا ۔ مادام ! میں کوئی پیشہ ور مداری نہیں۔ آپ بھی موجود ،میں بھی موجود ،قرآن حکیم بھی یہاں موجود،اللہ اور اللہ کا رسول بھی موجود ، نظر بندی نہیں کروں گا اور آپ کی آنکھوں سے سب کچھ قرآن حکیم میں دکھاؤں گااور آپ اپنی زبان سے پکاریں گی۔ کہ ہاں بے شک اللہ کا کلا م ایک معجزہ ہے۔ اللہ کا کلام ایک بے نظیر کلام ہے۔ نہ کوئی ایسا لکھ سکا ہے نہ ہی کوئی ایسا لکھ سکے گا ۔

ہر طرف سکوت چھا گیا ۔ پھیلتی اور سکڑتی ہوئی پتلیوں کی کیفیت بھی فضا میں منعکس ہو رہی تھی ۔

بالآخر میں نے مہر سکوت توڑی اور کہا آپ پڑھیں سورۃ الھمزہ ۔

کہنے لگیں میں حافظ نہیں ہوں۔ میں نے کہا۔ میں قرآن حکیم پڑھوں یا قرآن حکیم منگواؤں ۔

کہنے لگیں ۔آپ پڑھیں اگر غلط پڑھیں گے تو ٹوکوں گی ۔میں قرآن حکیم جانتی ہوں ۔

اللہ کا نام لے کر میں نے پڑھنا شروع کر دیا ۔
اعوذ بالللہ من الشیطن الرجیم ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ویل الکل الھمزہ لمزہ ۔ن الذی جمع مالا و عددہ ۔ یحسب ان مالہ اخلدہ ۔کلا لینبذن فی الحطمہ ۔وما ادرک ماالحطمہ ۔ ناراللہ الموقدہ التی تطلع علی الافئدہ ۔انہا علیہم موصدہ ۔فی عمد ممددہ (الھمزۃ) ۔

میں نے کہا۔ مادام ! یہ حطمہ کیا ہے۔

کہنے لگیں۔ آپکے مفسرین کرام یہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا دوزخ ہے۔ جس میں جو چیز ڈالو گے ۔ایٹم ایٹم ہو جائے گی ذرہ ذرہ ہو جائے گی ۔

محترمہ ! میں نے عرض کیا ۔ یہ حطمہ اسم محل ہے اور اس کی جذر ہے۔ ح ط م۔ حَطَمَ

براہ مہربانی آپ پکاریں ۔ایٹم ۔

محترمہ نے کہا حَطَم (جرمن لوگ بھی عربوں کی طرح ٹ کو ت یا ط بولتے ہیں)

میں نے عرض کیا۔ یہی حَطَم اس کے معنی ہیں ایٹم ایٹم ہو جانا ۔یہ ہے عربی حطم اور یہ ہے انگریزی ایٹم ۔ معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور یہ قرآن حکیم کا معجزہ ہے ۔

مگر آگے چلیں ۔حطمہ کی دوسری ترکیب صرفی ہے ۔حّطم یعنی ط مشدد یعنی آپ کے ہاتھ میں شیشے کا ایک گلاس ہو اور آپ پوری طاقت کے ساتھ اسے چٹان پر دے ماریں، گلاس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ عرب پاس کھڑا ہو گا تو کہے گا۔ حطمہ الغلاس ۔

اس سے اگلی ترکیب ہے تحّطم ط بدستور مشدد ۔اور لفظ کے شروع میں ت بڑھا دی جاتی ہے ۔اس طرح لفظ کی قوت میں اضافہ ہوا یعنی آپ کے سامنے بارود کا ایک ڈھیر پڑا ہواور آپ اسے دیا سلائی دکھا دیں اور وہ بارود ہر چیز کو لیتا ہوا بھک سے اڑ جائے ۔ عرب پاس کھڑاہو تو کہے گا۔ تحّطماالبارود۔

اگلی ترکیب ہے ۔ انحطام یعنی حطم حطم ہو جانا، ریزہ ریزہ ہو جانا ذرہ ذرہ ہو جانا۔ کنایتہ عرب لوگ کہتے ہیں۔حطام الدنیا یعنی اس فانی دنیا کی فانی چیزیں جو ذرہ ذرہ ہو جانے والی ہیں

اور پھر آخر میں

حطام السفینہ

تباہ شدہ جہازکا انجر پنجر۔ سمندرکے سینے پر تیرتے ہوئے جہاز کو دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتاہوا طوفان اچک کر ساحلی چٹانوں پر د ے مارے اور جہاز کے پرخچے اڑ جائیں ۔یہی نہیں محترمہ ! آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وما ادرک ماالحطمہ ۔
اے میرے نبی تجھے کون گنوا سکتا ہے ۔ کہ یہ حطمہ کیا ہے ؟

مگر قرآن حکیم کسی بھی مضمون کو تشنہ نہیں چھوڑتا ۔ اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت فرماتا ہے ۔
ناراللٰہ الموقدہ التی تطلع علی الافئدہ۔
یہ ایک آگ ہے اللہ کے ہاتھوں بھڑکائی ہوئی جو چڑھتی ہے دلوں تک ۔

مادام! میں نے پوچھا ۔ یہ بتایئے ایٹم بم کس طرح سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مارتا ہے ۔کیا یہ عام بارودی بم کی طرح مارتا ہے یا کسی اور طریقے سے ؟

کہنے لگیں۔ جہاں ایٹم بم پھٹتا ہے،وہاں تیس میل کے رقبے سے کم و بیش اس بم کی طاقت کے مطابق ہواکو باہر دکھیل دیتا ہے۔ جب یہ ہوا اپنی جگہ لینے کے لئے واپس لوٹتی ہے تو اس میں اتنی شدت ہوتی ہے ۔ کہ اگراس کے راستے میں گاڑی کا انجن بھی رکھ دیا جائے۔تو اسے اٹھا کر دے مارتی ہے۔ کیا بے چارہ انسان یا دوسرے ذی روح حیوان ہوا کا یہ شدید صدمہ پیٹ پر لگتا ہے اور دل کی شریانیں ٹوٹ جاتی ہیں ناک اور منہ سے لہو جاری ہو جاتا ہے اور انسان گھٹنوں کے بل گر جاتا ہے۔ صدمے کی وجہ سے سخت گرمی پیدا ہو جاتی ہے ۔جس سے انسان کا دل اور سینہ جل بھن جاتا ہے۔

می ںنے عرض کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے کس قدر سچی تصویر کھینچی ہے
” ناراللہ الموقدہ التی تطلع علی الافئدہ ” کی۔
یہی نہیں بلکہ آگے چل کر اللٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

انہا علیھم موصدہ ۔

یہ بند کی ہوئی ہے آگ ان پر ۔

میں نے عرض کیا ۔ محترمہ کیا اس آگ سے نکل جانے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ؟

کہنے لگیں نہیں کوئی نہیں ۔

میں نے عرض کیا ۔ مادام ! یہ آپ کے سامنے کیا ہے ۔

فرمایا۔ میز

میں نے کہا اگر میں اس پر ایک بم گرنیڈ یا دوسرا بم رکھ دوں تو وہ اگر بند کی ہوئی آگ نہیں تو اور کیا ہے ۔ یاد رکھیں جب قرآن حکیم نازل ہوا تو بارود کا وجود دنیا میں ہرگز نہیں تھا ۔ بارود کو تو بنے ہوئے تقریبا تین صدیاں ہوئیں اور قرآن حکیم کا نزول 1380 ء برس پہلے ہوا اور کیسی ہی اچھی تعریف ہے بم کی یعنی بند کی ہوئی آگ یعنی بم ۔ایٹم بم بھی بند کی ہوئی آگ ہی ہے ۔کیا ایسی بات کبھی کسی انسان کے تصور میں آ سکتی تھی۔ مگر آگے چلئے ۔
فی عمد ممددہ ۔
لمبے لمبے ستونوں میں ۔

مادام ! آپ نے کبھی ایٹم بم چلتے دیکھا ہے جواب دیا نہیں ۔

تو تصویر تو ایٹم بم کی دیکھی ہو گی۔

کہنے لگیں ہاں دیکھی ہے ۔

تو بتایئے کہ یہ کیسی ہوتی ہے ۔

کہنے لگیں ۔جہاں ایٹم بم پھٹتا ہے ۔ وہاں دھوئیں بلکہ ریڈیو ایکٹو ایش کا ایک ستون اوپر کی جانب اٹھتا ہے اور تقریبا تیس میل یا کم و بیش اس ایٹم بم کی طاقت کے مطابق پہنچ کر سرے پر چھتری بنا لیتا ہے ۔یہ ستون اٹھتے وقت گوناگوں اور بوقلموں رنگ بدلتا ہوا اٹھتا ہے کبھی مرمر ،کبھی یاقوت،کبھی زمرد ،کبھی نیلم،کبھی سوسنی، کہیں لال کہیں پیلا وغیرہ اور عجیب بہار دکھاتا ہے ۔

میں نے عرض کیا ۔ مادام ! آپ بیٹھی ہوں کوہ ہمالیہ کی چوٹی ماونٹ ایورسٹ پر جسے چند برس ہوئے سر جان ہنٹ کی پارٹی نے سر کیا تھا۔ آپ کے ہاتھ میں ہو سو انچ قطر کا ٹیلی سکوپ اور پانی پت کے میدان میں جہاں ماضی میں کئی لڑائیاں لڑی گئیں ۔ ایک ہزار مربع میں ایٹم بم اس طرح گاڑ دیئے جائیں جس طرح کہ باغ میں مقررہ فاصلے پر درخت ہوتے ہیں اور کوئی ایسا انجینئر پیدا ہو جو ایک ایسی ترکیب سوچے کہ یہ بے شمار ایٹم بم یک لخت بھک سے اڑ جائیں۔ اور پھر ایک ہزار ستون نظر فریب ایک انداز دلربائی سے رنگ بدلتے ہوئے تیس میل کی نظر فریب بلندی پر اٹھ کر چھتریاں بنالیں تو آپ سمجھیں گی کہ کسی عظیم شہنشاہ کے لئے محل تعمیر ہو رہا ہے یا کوئی عظیم الشان تھیٹر کی عمارت بنائی جا رہی ہے لیکن نہیں ۔ محترمہ ! یہ تو حطمہ ہے ۔ ایسا جہنم کہ جس میں جو چیز ڈالو گے وہ ایٹم ایٹم ہو جائے گی ۔ یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ کون سی قومیں اس عذاب کی مستحق ٹھہرائی گئیں ۔ اور کیوں ؟

میں نے عرض کیا مادام ! فرمایئے الھمزہ کیا ہوتا ہے۔

کہنے لگیں وہ جو تمہارے منہ پر تمہاری برائی کرے ۔ اور لمزہ وہ ہے جو پیٹھ پیچھے برائی کرے ۔ مادام ! ٹھیک ہے ۔آپ کا شکریہ ۔ اور
الذی جمع مالاو عددہ ۔
یعنی یہ ھمزہ لمزہ مال جمع کرتے ہیں اور گنتے ہیں کہ بینک بیلنس میں کتنی بڑھوتری ہوئی ۔ مزید یہ کہ
یحسب ان مالہ اخلدہ
اور پھر گمان کرتے ہیں کہ یہ مال و دولت انہیں زندہ و جاوید کر دے گا۔ وہ کبھی مریں گے نہیں اور یہ مال و دولت ہمیشہ رہے گا ۔ کلا ۔ یعنی ہرگز نہیں ۔
لینبذن فی الحطمہ ۔
بلکہ وہ تو ڈال دیئے جائیں گے حطمہ میں۔

گفتگو یہاں تک پہنچی تو مادام کو پسینے چھوٹ گئے ۔ لگی بے چاری بغلیں جھانکنے ۔ اور دھڑام سے کرسی پر جا گری ، تقریر ختم ۔ ایک پیالی چائے کی بمشکل زہر مار کر سکی ۔ کیک اور پیسٹریوں کے ڈھیروں سے اسے کچھ نصیب نہ ہوا۔ ناسازیء طبع کا بہانہ بنا کر رخصت ہو گئی ۔ دوسرے روز ساڑھے نو بجے صبح والٹن کے ہوائی اڈے سے ہوائی جہاز پر بیٹھی، کراچی تک جاتی سنی۔ دورہ کینسل، بیک ٹو جرمنی ۔

مبہوت علماء کرام نے علامہ علاؤالدین صدیقی صاحب سے استفسار کیاکہ یہ حضرت کون ہیں؟ علامہ صاحب نے فرمایاکہ ان پادریوں کو جانے دو پھر بتاؤں گا۔ پادری حضرات جب چلے گئے تو علامہ صاحب نے فرمایا یہ وہ شخص ہے جسے قدرت نے محض اتفاق سے تمہاری قوم میں پیدا کر دیا ہے ۔وہ علمی بصیرت اور قرآنی نور جو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے سینے میں تفویض فرمایا ہے ،اگر تمہاری قوم اس سے استفادہ کرتی تو آج مقام بلند پر ہوتی ،وہ علمی بصیرت اور قرآنی نور جو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے سینے میں تفویض فرمایا ہے اگر تمہاری قوم اس سے لے نہ سکی تو اللٰہ تعالیٰ تمہیں قیامت تک معاف نہیں کرے گا پھر ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا ۔ پھر مجھے فرمایا برادر نعرہ ء جبریل میں سے جو شعر مجھے اگلے روز سنائے تھے ۔ ان علماء کرام کو سناؤ ۔ میں نے پانچ سات بندعرض کئے تو علماء کرام پر لرزہ طاری ہو گیا ۔

وہاں پاکستان ٹائمز کا نمائندہ بیٹھا ہوا تھا۔ میر ے پاس آ یا۔اور کہا کہ گذشتہ چھ روز کی کاروائی تو ہم نے ڈھانک رکھی ہے البتہ آج کی بات آپ لکھ دیں ۔ اخبار میں چھپے گی ۔ میں نے عرض کیا کہ پندرہ روز کی مہلت مانگتا ہوں ۔ مجھے اپنی ذمہ داری کا احساس ہے ۔ جس طرح قرآن حکیم لازوال ہے اسی طرح یہ تفسیر بھی لازوال ہے ۔ یورپ کے ایٹم بم سے قرآن حکیم کا یہ ایٹم بم کہیں زیادہ قوی ہے ۔ ملک کے اہل نظر اسے پڑھیں گے ۔ میں اسے انشاء اللہ خود آپ کے دفتر میں لکھ کر دے آؤں گا۔

یہ بحث قرآن اینڈ اٹامک ہیل Quran and Atomic Hell کے عنوان سے پاکستان ٹائمز میں چھپی ۔بعد میں معلوم ہوا کہ جہاں جہاں بھی بیرونی ممالک میں یہ اخبار پہنچا ۔لوگ کتابوں کی دکانوں کی طرف بھاگے اور قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ طلب کیا ۔بے شمار نسخے فروخت ہو گئے ۔ وہ لوگ صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا واقعی قرآن حکیم ایسی کتاب ہے ۔ جس میں ایسی بات لکھی ہوئی ہے ۔ انہوں نے پڑھا اور تسلیم کیا۔ یہ ایک واضح حقیقت تھی ۔ اظہر من الشمس حقیقت اور یہ کوئی یکہ و تنہا واقعہ نہیں بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ قرآن حکیم ایسے معجزوں سے اٹا پڑا ہے، دیکھنے والی آنکھ چاہیئے۔

قرآن حکیم ایک لازوال معجزہ ہے۔ جس پر بے شمار مضامین اخبارات اور رسائل میں لکھ چکا ہوں۔ کیا مسلمان دست تعاون دراز کرکے مجھے اس امانت اور کار عظیم سے سبکدوش کرکے میری دعائیں حاصل کر سکیں گے یا میرے ساتھ میرا صندوق ( تقریبا چالیس جلدیں ) بھی قبر میں مدفون ہو جائے گا۔ یہ اس لئے لکھتا ہوں کہ شائید آپ نہ کہیں کہ ہمیں کسی نے خبر نہیں دی ورنہ ۔۔۔۔۔ البتہ مجھ سے مصلحت کیشی کی توقع عبث ہے ۔ حق لکھوں گا ، حق کہوں گا ، خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔چالیس سال کی مسلسل اور بے لوث کاوش اور تلاش حق کا ثمرہ حاضر ہے۔ کیا آپ اس نیک کام کی اشاعت میں میرا ساتھ دیں گے؟

بحوالہ : علامہ محمد یوسف جبریل — حیات و خدمات از ڈاکٹر تصدق حسین راجا
 
واہ سبحان اللہ۔۔۔کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ علمی شہ پارہ یعنی مائنڈ آف قرآن طبع ہوچکا ہے یا نہیں اور اگر ہو چکا ہے تو اسکے حصول کی کیا صورت ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ سبحان اللہ۔۔۔کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ علمی شہ پارہ یعنی مائنڈ آف قرآن طبع ہوچکا ہے یا نہیں اور اگر ہو چکا ہے تو اسکے حصول کی کیا صورت ہے؟
علامہ یوسف جبریل کا وصال ہو چکا سن 2006 میں۔ ان کی زندگی میں مائنڈ آف قرآن نہیں چھپ سکا۔ بعد کا پتہ نہیں۔
 
گو کہ بادی نظر میں یہ ایک جذبات کو موہ لینے والی تحریر ہے لیکن کچھ ایسی باتیں معہ اغلاط کے اس میں موجود ہیں جن سے دل کٹھک رہا ہے۔
1۔ Annemarie schimmel کے نام کا صحیح تلفظ این (ناکہ اینی) میری شمل ہے۔
2۔Annemarie schimmel ایک عیسائی تھیں پیدائشی طور پر پروٹسٹنٹ تھیں اور مرتے دم تک عیسائی ہی رہیں نہ کہ یہودی۔
3۔ یوسف جبرائیل صاحب نے سورۃ الھمزہ کی تفسیر میں چاہے کتنا ہی نیا انداز اپنایا ہو لکین ان کا اپنے بارے میں اظہار و ذاتی توصیف گویا غلو کی حد کو چھوتا نظر آتا ہے اور اس میں مزیذ خرابی دیگر علما کی بے بسی ، بےکسی وکم علمی کی وہ تصویر کشی پوری کر دیتی ہے جو حضرت علامہ بیان کرتے چلے جاتے ہیں گویا بزبان میر وہ فرما رہے ہیں
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
گو کہ بادی نظر میں یہ ایک جذبات کو موہ لینے والی تحریر ہے لیکن کچھ ایسی باتیں معہ اغلاط کے اس میں موجود ہیں جن سے دل کٹھک رہا ہے۔
1۔ Annemarie schimmel کے نام کا صحیح تلفظ این (ناکہ اینی) میری شمل ہے۔
2۔Annemarie schimmel ایک عیسائی تھیں پیدائشی طور پر پروٹسٹنٹ تھیں اور مرتے دم تک عیسائی ہی رہیں نہ کہ یہودی۔
3۔ یوسف جبرائیل صاحب نے سورۃ الھمزہ کی تفسیر میں چاہے کتنا ہی نیا انداز اپنایا ہو لکین ان کا اپنے بارے میں اظہار و ذاتی توصیف گویا غلو کی حد کو چھوتا نظر آتا ہے اور اس میں مزیذ خرابی دیگر علما کی بے بسی ، بےکسی وکم علمی کی وہ تصویر کشی پوری کر دیتی ہے جو حضرت علامہ بیان کرتے چلے جاتے ہیں گویا بزبان میر وہ فرما رہے ہیں
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔
آپ کی تحریر میں چند املا کی غلطیاں :)
مع
کھٹک

میر کی شاعری کو مع شاعرانہ تعلی کے قبول کیا جاسکتا ہے تو علامہ یوسف جبریل کی عالمانہ تعلی کو کیوں نہیں:)
میرے خیال میں علامہ یوسف جبریل نے حطمہ کی نہایت نادر تفسیر کی ہے۔
 
جناب ابن حسن صاحب قبلہ و کعبہ آپ سے مؤدبانہ گزارش کی جاتی ہے کہ بلکہ یہ میرا اپنا خیال ہے اور مشاہدہ ہے کہ عالم فاضل لوگوں میں عاجزی بہت کم ہوتی ہے اور غرور علمی بہت زیادہ ہوتا ہے شائد آپ کے مشاہدہ میں یہ بات نہ ہو۔
 
آپ کی تحریر میں چند املا کی غلطیاں :)
مع
کھٹک

میر کی شاعری کو مع شاعرانہ تعلی کے قبول کیا جاسکتا ہے تو علامہ یوسف جبریل کی عالمانہ تعلی کو کیوں نہیں:)
میرے خیال میں علامہ یوسف جبریل نے حطمہ کی نہایت نادر تفسیر کی ہے۔

سب سے پہلے تو تصحیح کے لیے شکریہ۔ میری مذکورہ بالا تحریر میں ایک اور املا کی غلطی تھی جس کی آپ نے نشاندہی نہیں کی اور وہ یہ کہ بندے نے بادی النظر کو بادی نظر لکھ ڈالا تھا۔
تاہم میری تحریر کا اصل مقصد حقائق کی تصحیح تھی اگر صرف املا کی غلطی ہوتی تو میں یہ زحمت نہ کرتا۔
حطمہ کی تفسیر نادر ہو سکتی ہے تاہم بندے کا دل کبھی اس قسم کی جدید تفاسیر سے مطمئن نہیں ہوتا اس کی کچھ وجوہات ہیں لیکن یہ اپنی اپنی طبیعت و مزاج کی بات ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شیر کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں شیر ہوں بلکہ اس کے کام اس کو شیر ثابت کرتے ہیں۔ شاعرانہ تعلی چیز دیگرے، تاہم عالمانہ غرور کو کسی طرح سراہا نہیں جاسکتا علم انکساری اور بردباری سکھاتا ہے نہ کہ تعلی۔ اور اگر اظہار علو مندی اتنہا ہی مقصود ہو تب بھی یہ چیز ناقابل برداشت ہے کہ آپ اپنے قد کاٹھ کوثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بونا ثابت کرنا ضروری سمجھیں۔
اگر اس سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں از حد معذرت کا خواستگار ہوں۔
 

ماسٹر

محفلین
Annemarie کا اصل تلفظ جرمن میں " آ نے ماری " ہے ۔
A.Schimmel اپنی زبان جرمن کے علاوہ بہت اچھی انگریزی ، عربی اور اردو بھی جانتی تھیں -
اقبالیات کی ماہر تھیں ، اور پاکستان کو اپنا دوسرا وطن کہتی تھیں ،اگرچہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اعلٰی تعلیم کے لیے رہائش پزیر رہ چکی تھیں -
2003 میں ان کی وفات ہوئ -
 
جناب ابن حسن صاحب قبلہ و کعبہ آپ سے مؤدبانہ گزارش کی جاتی ہے کہ بلکہ یہ میرا اپنا خیال ہے اور مشاہدہ ہے کہ عالم فاضل لوگوں میں عاجزی بہت کم ہوتی ہے اور غرور علمی بہت زیادہ ہوتا ہے شائد آپ کے مشاہدہ میں یہ بات نہ ہو۔

حضرت یہ ممکن ہے کیوں کہ بشر، بشر ہی ہوتا ہے ،لیکن مجھ عاجز کا تعلق کچھ علم کے پہاڑ حضرات سے بھی رہا ہے لیکن ان میں حد درجہ عاجزی و انکساری میں نے پائی ہے۔
علامہ یوسف صاحب سے میرا بالکل تعارف نہیں ہے اور ان کی کسی ایک تحریر کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید کرنا میرا مقصد بھی نہیں، اوپر جو کچھ میں نے لکھا ہے اگر اسے نظرے خوش گزرے کی حد تک رکھیے۔ حضرت علامہ کی توہین میرا مقصود نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سب سے پہلے تو تصحیح کے لیے شکریہ۔ میری مذکورہ بالا تحریر میں ایک اور املا کی غلطی تھی جس کی آپ نے نشاندہی نہیں کی اور وہ یہ کہ بندے نے بادی النظر کو بادی نظر لکھ ڈالا تھا۔
تاہم میری تحریر کا اصل مقصد حقائق کی تصحیح تھی اگر صرف املا کی غلطی ہوتی تو میں یہ زحمت نہ کرتا۔
"حقائق کی تصحیح" منظقی لحاظ سے غلط ہے۔ تصحیح غلطیوں کی ہوتی ہے۔
 
"حقائق کی تصحیح" منظقی لحاظ سے غلط ہے۔ تصحیح غلطیوں کی ہوتی ہے۔

آپ شاید منطقی کہنا چاہتے تھے۔ یقینا حقائق ، حقائق ہوتے ہیں اور اس لیے تصحیح سے مبرا۔ لیکن ایک مستعمل جملے کی تصحیح سے زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ آپ اپنی پوسٹ میں اغلاط کی تصحیح فرمالیں۔
 
Top