مذاہب کی تخلیق: ایک تجزیاتی مطالعہ

سیما کرن

محفلین
*انسانی تخیل کا محدود افق اور مذاہب کی تخلیق: ایک تجزیاتی مطالعہ*
*مصنفہ: ڈاکٹر سیما شفیع*
انسانی فطرت میں تخلیق، غور و فکر، اور نئے راستے تلاش کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ تخیل اور ذہانت محدودیت کے دائرے میں قید ہو جاتی ہے تو انسان اپنے ہی خیالات اور تجربات کے گرد گھیرا باندھ لیتا ہے۔
انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے محدود فہم کے باعث ہمیشہ کائنات اور زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کوشش کرتا رہا ہے، لیکن جب اس کی عقل ان حقیقتوں کو مکمل طور پر جاننے سے قاصر رہتی ہے تو وہ اپنی سوچ اور خیالات کے مطابق نئے نظریات اور مذاہب تخلیق کر لیتا ہے۔ یہ عمل انسان کی فطری کمزوری کی عکاس ہے جس میں وہ اپنی حدود سے باہر جا کر خدا کی حیثیت کو ٹھیک طور پر تسلیم نہیں کرتا اور اپنے تخیل کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف مذاہب اور عقائد کی تخلیق کا عمل انسانی تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ یہ حقیقت کہ انسان اپنی محدود فہم کی بنا پر کائنات کی وسعتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، اس کی تفہیم میں گہرائی کی کمی کو اجاگر کرتی ہے۔ جب انسان کسی چیز کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ اپنے تجربات، احساسات، اور ماحول کی روشنی میں نئے نظام تخلیق کرتا ہے۔ یہ عمل انسانی عقل کی ایک منفرد حیثیت کو ظاہر کرتا ہے کہ جب اس کی سوچ کے دائرے میں کچھ نہیں آتا، تو وہ خودساختہ نظریات یا مذہب کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل و فہم کی محدودیت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:
"اور تمہیں علم میں سے تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔" (سورۃ الاسراء، آیت 85)
یہ آیت انسانی فطرت کی گہرائی کی عکاس ہے کہ انسان کس طرح اپنی محدود فہم کی بنا پر ایسے نظریات اور عقائد کو تشکیل دیتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور زمین و آسمان میں کوئی بھی چیز نہیں مگر وہ اللہ کے ہی سامنے سجدہ کرتی ہے۔" (سورۃ النحل، آیت 49)
یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اللہ نے کائنات کی ہر چیز کو اپنے تابع بنایا ہے اور انسان کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کا نظام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مگر انسان اپنی محدود سوچ کی بناء پر ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں اس حقیقت سے منہ موڑتا رہا ہے۔
مختلف مذاہب کی ابتداء کی داستانیں ہمیں انسانی ذہن کی اسی محدود تخیلاتی افق کی تصویر دکھاتی ہیں۔
اور اسی محدودیت کی بنا پر انسانوں نے مختلف مذاہب اور نظریات کو تشکیل دیا، جن کا مقصد بظاہر اخلاقی اصول اور روحانی سکون کی طرف رہنمائی تھا، لیکن حقیقت میں وہ انسان کے اپنے تخیلات کے خاکے ہی ثابت ہوئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس فطری کمزوری کو یوں بیان کیا ہے:
"بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔" (سورۃ الاحزاب، آیت 72)
یہ آیت انسان کی فطرت میں چھپی خودپسندی اور محدود فہم کو بیان کرتی ہے۔ جب انسان نے اللہ کی امانت (یعنی اللہ کی حکم برداری) قبول کی تو اسے اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ اس خود اعتمادی اور لاشعوری رویے نے انسان کو بارہا نئے مذاہب اور فلسفے بنانے پر اکسایا، جس کی بنیادی وجہ اس کا محدود تخیل ہے۔
*ابتدائی انسان اور خوف کی بنیاد پر مذہب کی تشکیل*
قدیم زمانے کے انسان میں یہ خصوصیت موجود تھی کہ وہ اپنی زندگی کے عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن چونکہ اس کا علم محدود تھا، وہ قدرتی عناصر جیسے بجلی، طوفان، اور قحط سے ڈر کر ان کی عبادت کرنے لگا۔ ہر قدرتی قوت کو ایک دیوتا کا روپ دیا اور مختلف تہذیبوں میں دیوتاؤں کا تصور پایا گیا۔ ہندوستان، مصر، یونان اور بابل کے معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دیوتاؤں کی ایک بڑی فہرست موجود تھی اور ہر دیوتا ایک مخصوص طاقت یا مظہر کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔
انسان کے اس رویے کو قرآن پاک نے مختلف مثالوں سے واضح کیا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کیا انہوں نے زمین و آسمان میں جو چیزیں ہیں انہیں نہیں دیکھا کہ ہم نے انہیں پیدا کیا ہے اور ہمیں ان کی حقیقت کا پورا علم ہے۔" (سورۃ الانعام، آیت 101)
یہ آیت انسانی فکر کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اللہ کی وسیع حکمت اور علم کو تسلیم کرے اور قدرتی طاقتوں کو خدا کا درجہ نہ دے۔
*مختلف مذاہب کی تخلیق میں انسان کا کردار*
انسان جب کائنات کی وسیع حقیقتوں کو اپنی محدود عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اکثر ایک خیالی اور سطحی نقشہ بناتا ہے۔ اس بات کا مشاہدہ ہمیں ان مذاہب میں ہوتا ہے جو انسانی تخیلات اور افکار پر مبنی ہیں۔ مثلاً بدھ مت کا آغاز گوتم بدھ کے فلسفے پر ہوا، جو انسان کے دکھوں کے خاتمے اور نفس کی بالیدگی کے اصولوں پر مبنی تھا۔ گوتم بدھ نے خود کو ایک رہنما کی حیثیت سے پیش کیا، لیکن بعد میں اس کے پیروکاروں نے اسے ایک الہامی شخصیت کے طور پر پیش کر کے اس کے اقوال کو اتنی تقدیس بخشی کہ اس فلسفے کو ایک مذہب کی شکل دے دی۔
اسی طرح، زرتشتیت، جو قدیم فارس (ایران) میں شروع ہوا، زرتشت نامی ایک شخص کی تعلیمات پر مبنی تھا۔ زرتشت نے اخلاقیات اور خیر و شر کے بارے میں اصول پیش کیے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کو ایک الہامی کتاب کی صورت میں محفوظ کر کے زرتشت کو پیغمبر کی حیثیت دے دی گئی۔ انسانی تخیل کی محدودیت اور معاشرتی اثرات کی بنا پر زرتشتیت نے ایک مذہب کا روپ دھار لیا، حالانکہ اس کی بنیاد خالصتاً اخلاقی تھی۔
*انسانی فلسفے اور مذاہب میں عقل و خواہشات کی اہمیت*
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الٰہ بنا لیا؟" (سورۃ الجاثیہ، آیت 23)
یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب انسان اپنی عقل اور خواہشات کو اعلیٰ حیثیت دیتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر انہیں اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ یہی کچھ ہمیں یونانی فلسفے میں نظر آتا ہے جہاں سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفیوں نے عقل کو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت سمجھا۔ اگرچہ یہ فلسفہ ایک منظم مذہب کی شکل میں نہیں آیا، لیکن اس کے پیروکاروں نے عقل و منطق کو ایسی اہمیت دی کہ اسے زندگی کی ہر حقیقت پر غالب کر دیا۔ اس رجحان نے مستقبل میں ایسی فکری تحریکات کو جنم دیا جنہوں نے خدا کے وجود سے انکار کر کے دنیا کو ایک مادی اور تجرباتی دائرے میں قید کر دیا
*نفس پرستی اور ذات کا خدا بن جانا*
تاریخ میں ایسے افراد بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ذات اور طاقت کے گھمنڈ میں خود کو خدا کا درجہ دے دیا۔ ان میں فرعون اور نمرود کی مثالیں معروف ہیں۔ قرآن مجید میں فرعون کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
"اور فرعون نے کہا: 'اے میرے لوگوں! میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی اور کو بہتر رہنما نہیں دیکھتا۔'" (سورۃ غافر، آیت 29)
یہ قول اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ فرعون اپنی ذات کو اتنا اہم اور برتر سمجھتا تھا کہ اس نے اپنے ہی خیالات کو حتمی اور معبودانہ حیثیت دے دی۔ اسی قسم کی خودپسندی اور نفس پرستی کا مظاہرہ ہمیں آج کے دور میں بھی نظر آتا ہے جب لوگ اپنی خواہشات اور نظریات کو زندگی کی واحد حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔
*قدیم مذاہب اور انسانی تخیل*
*1۔ بابل کی تہذیب اور نمرود کا کردار*
بابل کی تہذیب میں مختلف قدرتی مظاہر کی عبادت کا تصور پایا جاتا ہے۔ بابل کے لوگوں نے سورج، چاند، ہوا، اور زمین کے عناصر کو دیوتا بنا دیا۔ ان دیوتاؤں کے پیچھے انسانی ذہن کی یہ محدودیت کارفرما تھی کہ وہ قدرتی مظاہر پر قابو نہیں پا سکتے، تو انہوں نے ان کے ذریعے اپنی معیشت، زندگی، اور امیدوں کو جوڑ دیا۔ قدرتی عناصر کی طاقت کو سمجھنے کی ناکامی نے انہیں ان دیوتاؤں کی عبادت کرنے پر مجبور کیا۔ قرآن کریم میں اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
"اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے، مگر وہ شریک ٹھہرا لیتے ہیں۔" (سورۃ یوسف، آیت 106)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کس طرح قدرتی مظاہر کے سامنے عاجز ہو کر ان کو اپنا معبود سمجھ لیتا ہے، جب کہ حقیقت میں صرف ایک ہی خالق ہے۔
بابل کے نمرود نے بھی اپنے اقتدار اور طاقت کے نشے میں خود کو خدا کا درجہ دے دیا۔ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے رب کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں۔ نمرود کا یہ دعویٰ انسان کی محدود عقل کی نشاندہی کرتا ہے جس میں وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ خود سے بالا تر کسی طاقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو یوں بیان کیا:
"کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں حجت کی کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی تھی۔" (سورۃ البقرہ، آیت 258)
یہاں نمرود کی مثال انسانی فطرت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے کہ جب اسے طاقت ملتی ہے تو وہ خدا کو بھول کر خود کو بلند مقام پر فائز سمجھنے لگتا ہے۔
*2۔ مصر کی تہذیب اور فرعون کا کردار*
مصر کے فراعین کے زمانے میں بادشاہت کو خدائی حیثیت دی گئی۔ فرعونوں نے خود کو خدا کا درجہ دے کر لوگوں پر حکمرانی کی۔ فرعون کے لئے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ تمام علم اور طاقت کا حامل ہے، اور اس کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں۔ ان کے زمانے میں حکمرانوں کو خدائی صفات کا حامل سمجھا جاتا تھا اور ان کی پوجا کی جاتی تھی۔
فرعون کی یہی روش قرآن میں بیان کی گئی ہے:
"اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی اور معبود کو نہیں جانتا۔" (سورۃ القصص، آیت 38)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب انسان اپنی ذات کو محور سمجھنے لگتا ہے تو وہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور اسے خدائی حیثیت دینے لگتا ہے۔ اسی طرح فرعون نے اپنے محدود تخیل کے باعث خدا کی عظمت کو قبول کرنے کے بجائے خود کو خدا کے مقام پر فائز کر لیا۔
*3۔ یونانی دیومالائی کردار*
یونان کی ثقافت میں بھی دیومالائی کرداروں کی ایک وسیع کائنات موجود تھی۔ یونانی فلسفیوں نے مختلف خداؤں یا دیوتاؤں کے تصورات کو پروان چڑھایا، جیسے زیوس (Zeus)، ہیرا (Hera)، اور ایتھنہ (Athena)۔ ان خداؤں کی کہانیوں کے ذریعے انسانی ذہن کی حدود اور مختلف قدرتی مظاہر کے خوف کے عکس پائے جاتے ہیں۔ یہ دیوتا بھی قدرتی قوتوں اور انسانی صفات کے عکاس تھے۔ ان کے ہر دیوتا کا ایک مخصوص کام تھا۔ زیوس (Zeus) کو آسمان کا دیوتا، ہیرا (Hera) کو عورتوں کی محافظ اور ایتھنہ (Athena) کو عقل و دانش کی دیوی مانا گیا۔ یہ دیومالائی داستانیں انسان کی عقل کی محدودیت کی وجہ سے تخلیق ہوئیں، کیوں کہ یونانی فلسفی اپنی روزمرہ کی مشکلات اور فطرت کی قوتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے، تو انہوں نے ان کی روحانی شکلیں تخلیق کر لیں۔ یہ نظریات انسان کی اپنی کمزوری اور محدود علم کا نتیجہ تھے۔
جب انسان قدرت کے مظاہر کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ ان مظاہر کی روحانی شکلیں تخلیق کر کے ان کی عبادت کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنائے ہیں؟ کہو، اپنی دلیل لاؤ!" (سورۃ البقرہ، آیت 148)
یہ آیت انسانی عقل کی محدودیت کو اجاگر کرتی ہے، جو ایک معبود کے طور پر غیر حقیقی تصورات کی تخلیق کرتی ہے۔
*4۔ ہندومت کے متعدد دیوتا*
ہندومت میں، جو کہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے، ہمیں دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ برہما (Brahma) کو تخلیق کا دیوتا، وشنو (Vishnu) کو محافظ، اور شیو (Shiva) کو تباہی کا دیوتا مانا جاتا ہے۔ ہر دیوتا کو ایک مخصوص صفت کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہندومت میں دیوتاؤں کی کثرت انسانی ذہن کی محدودیت کی عکاس ہے، جہاں انسان اپنی زندگی کے ہر پہلو کو ایک معبود کے تحت لا کر اس کی عبادت کرتا ہے۔ انسان جب فطرت کی طاقتوں کو سمجھنے میں ناکام ہوتا ہے تو وہ انہیں دیوتاؤں کے روپ میں مان کر ان سے مدد طلب کرتا ہے۔ قرآن میں اس کے بارے میں کہا گیا ہے:
"بیشک تم اور تمہارے آباء و اجداد جس کی عبادت کرتے رہے ہیں، وہ میرے دشمن ہیں سوائے اللہ کے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔" (سورۃ الشعراء، آیت 77)
یہ آیت بتاتی ہے کہ جب انسان اپنے معبودوں کو حقیقت کے مقابلے میں رکھتا ہے تو وہ گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے۔
اس کی بنیاد انسانی سوچ کی کمزوری ہے جو کائنات کے مختلف پہلوؤں کو خدا کے بغیر سمجھنے سے قاصر ہے اور نتیجتاً اپنے تخیل کو خدائی صفات کا حامل قرار دے دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی پوجا اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہونی چاہئے:
"اور اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔" (سورۃ الجن، آیت 18)
*5۔ آریائی سلطنت کے خودساختہ دیوتا اور بادشاہت*
انسانی تاریخ میں خودساختہ دیوتاؤں کا تصور بھی موجود رہا ہے۔ مثال کے طور پر، فرعون اور نمرود کے علاوہ بھی کئی بادشاہوں نے اپنی طاقت کی بنا پر خود کو خدا قرار دیا۔ ہخامنشی سلطنت کے بادشاہ کوروش اور داریوش نے بھی اپنی حکومت کو تقدس بخشا اور خود کو خدا کا نائب سمجھا۔
ہخامنشی سلطنت، جسے فارسی زبان میں "ہخامنشی" یا "آریائی سلطنت" کے نام سے جانا جاتا ہے، قدیم ایران کی ایک عظیم الشان سلطنت تھی۔ یہ سلطنت تقریباً 550 قبل مسیح سے 330 قبل مسیح تک برقرار رہی اور اس کے دور میں مشرق وسطیٰ کے بڑے حصے، بشمول موجودہ ایران، عراق، شام، ترکی، مصر اور افغانستان کے کچھ حصے شامل تھے۔ اس سلطنت کی بنیاد قورش (کوروش) نے رکھی، اور یہ سلطنت اپنے عہد میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی۔
ہخامنشی سلطنت کی ابتدا 550 قبل مسیح میں قورش بزرگ (کوروش) کی قیادت میں ہوئی، جو ایک طاقتور رہنما تھے۔ قورش نے مختلف قبائل اور ریاستوں کو متحد کر کے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد داریوش اول (داریوش بزرگ) نے سلطنت کو وسعت دی اور اسے مزید مستحکم کیا۔
ہخامنشی سلطنت کی ثقافت میں ایرانی، مصری، بابل، اور دیگر قومیتوں کا ملا جلا اثر شامل تھا۔ یہ سلطنت فنون، ادب، اور سائنس کے میدان میں بھی بہت ترقی یافتہ تھی۔ مشہور آثار، جیسے تخت جمشید (پرسیپولیس)، اسی دور کے ہیں۔
انہوں نے اپنی حکومت کو تقدس بخشنے کے لئے خود کو خدا کا نائب قرار دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک عام عمل تھا کہ حکمران اپنے آپ کو قوم کی روحانی رہنمائی کرنے والے سمجھتے تھے۔ ان بادشاہوں نے اپنے نظریات کو عوام کے ذہنوں میں اس طرح بٹھایا کہ ان کی خدائی حیثیت تسلیم کرانا آسان ہو گیا۔ یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ تھا جس کا مقصد عوام میں وفاداری پیدا کرنا اور انہیں اپنے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرنا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور انہوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور راہبوں کو رب بنا لیا۔" (سورۃ التوبہ، آیت 31)
یہ آیت انسانی ذہن کے ان افکار کی عکاسی کرتی ہے جو طاقتور شخصیات کو الہامی مقام پر فائز کر کے ان کی عبادت کرنے لگتے ہیں، جو کہ حقیقتاً شرک ہے۔
*6۔ روم میں آگسٹس کا خدائی درجہ*
رومی شہنشاہ آگسٹس کو بھی خود کو دیوتا کا بیٹا قرار دینے کی مثال ملتی ہے۔ روم کے بادشاہوں نے اپنی طاقت اور اقتدار کو لوگوں پر غالب کرنے کے لئے خود کو خدائی حیثیت دی اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور بٹھایا کہ ان کا حکمران مقدس ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس طرز فکر کو واضح کیا اور انسان کو دعوت دی کہ وہ اللہ کو حقیقی حاکم تسلیم کرے۔
"اور تمہارا رب فیصلہ کر چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔" (سورۃ الإسراء، آیت 23)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو معبود ماننا یا اسے خدائی درجہ دینا غلط ہے۔ اللہ ہی حقیقی حاکم ہے، اور انسان کو اس کی واحدیت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
*7۔ دیوتاؤں کے علاوہ روحانی پیشواؤں کو الہام کا درجہ دینا*
بعض اوقات انسان اپنی محدود عقل کے باعث انبیاء یا رہنماؤں کو خدا کے برابر کا درجہ دے دیتا ہے۔ جیسے بانیانِ سکھ مت (سکھ دھرم) میں گرو نانک کی تعلیمات کو الہامی حیثیت دی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس مذہب نے ایک منظم شکل اختیار کر لی۔ گرو نانک نے تو انسانیت کی خدمت اور سچائی کا پیغام دیا تھا، لیکن ان کے پیروکاروں نے اس پیغام کو ایک مذہب کی بنیاد بنا کر ان کے اقوال کو الہامی درجہ دے دیا
*مشرقی مذاہب اور فلسفے*
*کنفیوشس کی تعلیمات*
چین میں کنفیوشس (Confucius) کی تعلیمات نے ایک خاص جگہ حاصل کی ہے، جہاں انہوں نے اخلاقی اصولوں کی بات کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ، ان کے پیروکاروں نے ان کی تعلیمات کو مذہب کی شکل دے دی، جبکہ کنفیوشس نے بنیادی طور پر انسانی اخلاقیات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ انسانی محدودیت یہاں بھی واضح ہوتی ہے کہ جب کنفیوشس کا مقصد صرف اخلاقی تعلیم دینا تھا، تو ان کے پیروکاروں نے ان کو خدا کی جگہ دے کر ان کی تعلیمات کو مقدس بنا دیا۔ قرآن مجید میں اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
"اور جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو وہ منہ موڑ لیتے ہیں۔" (سورۃ الجن، آیت 23)
یہ آیت انسانی فطرت کی اس کمزوری کو بیان کرتی ہے کہ انسان کب تک اپنے نظریات کو ہی حتمی سچائی سمجھتا رہے گا۔
*مغربی فلسفہ اور جدید مذہبی خیالات*
آج کے دور میں سائنس اور فلسفے کی بنیاد پر انسان نے خدا کو فراموش کرنے کی کوشش میں نئی قسم کے نظریات اور "مذاہب" کو تخلیق کیا ہے، اور سائنٹیفک مٹیریلزم (Scientific Materialism) اور نیو ایج موومنٹ (New Age Movement) وغیرہ جیسے نظریات کو اپنا مرکز بنا لیا ہے۔ سائنٹیفک مٹیریلزم، نیو ایج موومنٹ، اور دیگر جدید نظریات خدا کی حقیقی حیثیت کو چھوڑ کر انسان کے ذاتی خیالات اور خواہشات پر مبنی ہیں۔ انسان نے مادی وسائل کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ وہ اللہ کی حقیقت کو بھول بیٹھا ہے۔
قرآن میں اللہ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:
"اور ہم نے آسمان و زمین کو باطل پیدا نہیں کیا، بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔" (سورۃ الدخان، آیت 38)
ان نظریات کے پیروکار فطری مظاہر اور مادی وسائل کو اپنی زندگی کا مرکز بنا کر انہیں الہامی حیثیت دیتے ہیں۔ انسان جب قدرتی عوامل اور سائنس کے پیچھے پوشیدہ حکمت کو سمجھنے میں ناکام ہوتا ہے تو وہ ان کو ہی حتمی سچائی قرار دے کر ان کی پیروی کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور زمین میں تمہارے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں جسے تم اپنی خواہش کے مطابق اپنا الٰہ بناؤ۔" (سورۃ الاعراف، آیت 73)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق مذہب کی بنیاد رکھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اللہ ہی معبود ہے۔
*مختلف مذاہب کی تنگنائے سے باہر نکلنے کی ضرورت*
انسانی فطرت کا یہ ایک حصہ ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن یہ تلاش اکثر اپنے محدود افکار کے دائرے میں محصور ہو جاتی ہے۔ مختلف مذاہب کی تخلیق اور ان کی تشکیل میں انسانی عقل کی ناکامی واضح ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے تخیل کے افق سے باہر نکل کر ایک سچے خالق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو وہ حقیقی سکون اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔
قرآن مجید
کی یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے:
"اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔" (سورۃ الذاریات، آیت 56)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہمارا اصل مقصد صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرنا ہے، جو ہمیں حقیقی سچائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
*عقل کا محدود افق اور توحید کی اصل*
اسلام نے توحید کا ایک جامع پیغام دیا اور انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ قرآن مجید نے بارہا اس بات کی نشاندہی کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کے سوا کوئی حقیقت کا حامل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> "اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔" (سورۃ الاسراء، آیت 23)
اسلام کا پیغام ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ انسان اپنی عقل اور محدود علم کو حقیقت حق کے تابع کر کے اللہ کی واحدانیت کو تسلیم کرے۔ اسلام کے مطابق کائنات کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کی عبادت ہونی چاہیے۔
انسان کے بنائے ہوئے مذاہب کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سچی توحید کا مطلب سمجھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا پیغام یہی ہے کہ اللہ ہی تمام کائنات کا خالق ہے اور وہی واحد معبود ہے۔ انسان کو اپنی محدودیت کو تسلیم کر کے اللہ کی عظمت کو ماننا اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔" (سورۃ القصص، آیت 88)
یہ آیت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ سچی توحید یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات، تخیلات اور نظریات کو اللہ کے سامنے جھکائیں اور اس کی رضا کے مطابق زندگی بسر کریں۔
اسلام کی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان کو محدود عقل اور تخیل سے نکال کر ایک جامع اور لامتناہی پیغام دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کہو کہ وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔" (سورۃ الاخلاص، آیت 1-4)
یہ آیت انسانی عقائد کی بنیادوں کو چیلنج کرتی ہے، کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں۔ اسلام نے توحید کو مرکزی حیثیت دی ہے، جو انسان کو سچائی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
*خلاصہ*
انسان کی محدود عقل اور تخیل نے اسے مختلف مذاہب، عقائد اور فلسفوں کی تخلیق کی جانب مائل کیا، لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک رہی، انسان نے ہمیشہ اپنی خواہشات، تجربات اور افکار کو مقدس مانا۔
انسانی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب اور نظریات کی بنیاد انسانی تخیل کی محدودیت پر ہے۔ انسانی تخیل کا یہ محدود افق ہمیشہ نئے مذاہب اور عقائد کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔ جب انسان کسی چیز کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، تو وہ اپنی محدود عقل اور خیالات کی بنیاد پر ایک نیا مذہب یا عقیدہ تشکیل دے دیتا ہے اور اسے حقیقت سمجھ کر دوسروں پر مسلط کرتا ہے۔ یعنی جہاں انسان کی عقل و شعور کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے وہ ایک نیا راستہ نکالتا ہے اور اسے حتمی سچائی تصور کر لیتا ہے۔
مصر، بابل، یونان، روم، فارس اور ہندوستان کی تہذیبیں انسان کے محدود علم کی عکاسی کرتی ہیں۔ قرآن پاک میں بار بار اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ ہی حقیقی معبود ہے اور کوئی دوسری ہستی عبادت کی مستحق نہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی بے مثال عظمت کے آگے انسان کی سوچ، تخیل، اور خواہشات کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے پیغام کو سمجھ کر اپنی محدودیت کو تسلیم کرے، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔
یوں انسان اپنی ذات کی پرستش اور تخیل کے محدود افق سے نکل کر اللہ کی عظمت اور اس کے پیغام کی وسعت کو سمجھ سکتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی انسان کو توحید کی طرف لے کر جاتا ہے اور اسے ان تمام گمراہ کن تصورات سے بچا سکتا ہے جو اس کے اپنے تخیل کی محدودیت نے تخلیق کیے ہیں۔
اللہ کی معرفت اور اس کے احکام کی پیروی ہی انسان کو حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔
 
*انسانی تخیل کا محدود افق اور مذاہب کی تخلیق: ایک تجزیاتی مطالعہ*
*مصنفہ: ڈاکٹر سیما شفیع*
انسانی فطرت میں تخلیق، غور و فکر، اور نئے راستے تلاش کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ تخیل اور ذہانت محدودیت کے دائرے میں قید ہو جاتی ہے تو انسان اپنے ہی خیالات اور تجربات کے گرد گھیرا باندھ لیتا ہے۔
انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے محدود فہم کے باعث ہمیشہ کائنات اور زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کوشش کرتا رہا ہے، لیکن جب اس کی عقل ان حقیقتوں کو مکمل طور پر جاننے سے قاصر رہتی ہے تو وہ اپنی سوچ اور خیالات کے مطابق نئے نظریات اور مذاہب تخلیق کر لیتا ہے۔ یہ عمل انسان کی فطری کمزوری کی عکاس ہے جس میں وہ اپنی حدود سے باہر جا کر خدا کی حیثیت کو ٹھیک طور پر تسلیم نہیں کرتا اور اپنے تخیل کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف مذاہب اور عقائد کی تخلیق کا عمل انسانی تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ یہ حقیقت کہ انسان اپنی محدود فہم کی بنا پر کائنات کی وسعتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، اس کی تفہیم میں گہرائی کی کمی کو اجاگر کرتی ہے۔ جب انسان کسی چیز کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ اپنے تجربات، احساسات، اور ماحول کی روشنی میں نئے نظام تخلیق کرتا ہے۔ یہ عمل انسانی عقل کی ایک منفرد حیثیت کو ظاہر کرتا ہے کہ جب اس کی سوچ کے دائرے میں کچھ نہیں آتا، تو وہ خودساختہ نظریات یا مذہب کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل و فہم کی محدودیت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:
"اور تمہیں علم میں سے تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔" (سورۃ الاسراء، آیت 85)
یہ آیت انسانی فطرت کی گہرائی کی عکاس ہے کہ انسان کس طرح اپنی محدود فہم کی بنا پر ایسے نظریات اور عقائد کو تشکیل دیتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور زمین و آسمان میں کوئی بھی چیز نہیں مگر وہ اللہ کے ہی سامنے سجدہ کرتی ہے۔" (سورۃ النحل، آیت 49)
یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اللہ نے کائنات کی ہر چیز کو اپنے تابع بنایا ہے اور انسان کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کا نظام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مگر انسان اپنی محدود سوچ کی بناء پر ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں اس حقیقت سے منہ موڑتا رہا ہے۔
مختلف مذاہب کی ابتداء کی داستانیں ہمیں انسانی ذہن کی اسی محدود تخیلاتی افق کی تصویر دکھاتی ہیں۔
اور اسی محدودیت کی بنا پر انسانوں نے مختلف مذاہب اور نظریات کو تشکیل دیا، جن کا مقصد بظاہر اخلاقی اصول اور روحانی سکون کی طرف رہنمائی تھا، لیکن حقیقت میں وہ انسان کے اپنے تخیلات کے خاکے ہی ثابت ہوئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس فطری کمزوری کو یوں بیان کیا ہے:
"بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔" (سورۃ الاحزاب، آیت 72)
یہ آیت انسان کی فطرت میں چھپی خودپسندی اور محدود فہم کو بیان کرتی ہے۔ جب انسان نے اللہ کی امانت (یعنی اللہ کی حکم برداری) قبول کی تو اسے اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ اس خود اعتمادی اور لاشعوری رویے نے انسان کو بارہا نئے مذاہب اور فلسفے بنانے پر اکسایا، جس کی بنیادی وجہ اس کا محدود تخیل ہے۔
*ابتدائی انسان اور خوف کی بنیاد پر مذہب کی تشکیل*
قدیم زمانے کے انسان میں یہ خصوصیت موجود تھی کہ وہ اپنی زندگی کے عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن چونکہ اس کا علم محدود تھا، وہ قدرتی عناصر جیسے بجلی، طوفان، اور قحط سے ڈر کر ان کی عبادت کرنے لگا۔ ہر قدرتی قوت کو ایک دیوتا کا روپ دیا اور مختلف تہذیبوں میں دیوتاؤں کا تصور پایا گیا۔ ہندوستان، مصر، یونان اور بابل کے معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دیوتاؤں کی ایک بڑی فہرست موجود تھی اور ہر دیوتا ایک مخصوص طاقت یا مظہر کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔
انسان کے اس رویے کو قرآن پاک نے مختلف مثالوں سے واضح کیا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کیا انہوں نے زمین و آسمان میں جو چیزیں ہیں انہیں نہیں دیکھا کہ ہم نے انہیں پیدا کیا ہے اور ہمیں ان کی حقیقت کا پورا علم ہے۔" (سورۃ الانعام، آیت 101)
یہ آیت انسانی فکر کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اللہ کی وسیع حکمت اور علم کو تسلیم کرے اور قدرتی طاقتوں کو خدا کا درجہ نہ دے۔
*مختلف مذاہب کی تخلیق میں انسان کا کردار*
انسان جب کائنات کی وسیع حقیقتوں کو اپنی محدود عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اکثر ایک خیالی اور سطحی نقشہ بناتا ہے۔ اس بات کا مشاہدہ ہمیں ان مذاہب میں ہوتا ہے جو انسانی تخیلات اور افکار پر مبنی ہیں۔ مثلاً بدھ مت کا آغاز گوتم بدھ کے فلسفے پر ہوا، جو انسان کے دکھوں کے خاتمے اور نفس کی بالیدگی کے اصولوں پر مبنی تھا۔ گوتم بدھ نے خود کو ایک رہنما کی حیثیت سے پیش کیا، لیکن بعد میں اس کے پیروکاروں نے اسے ایک الہامی شخصیت کے طور پر پیش کر کے اس کے اقوال کو اتنی تقدیس بخشی کہ اس فلسفے کو ایک مذہب کی شکل دے دی۔
اسی طرح، زرتشتیت، جو قدیم فارس (ایران) میں شروع ہوا، زرتشت نامی ایک شخص کی تعلیمات پر مبنی تھا۔ زرتشت نے اخلاقیات اور خیر و شر کے بارے میں اصول پیش کیے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کو ایک الہامی کتاب کی صورت میں محفوظ کر کے زرتشت کو پیغمبر کی حیثیت دے دی گئی۔ انسانی تخیل کی محدودیت اور معاشرتی اثرات کی بنا پر زرتشتیت نے ایک مذہب کا روپ دھار لیا، حالانکہ اس کی بنیاد خالصتاً اخلاقی تھی۔
*انسانی فلسفے اور مذاہب میں عقل و خواہشات کی اہمیت*
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الٰہ بنا لیا؟" (سورۃ الجاثیہ، آیت 23)
یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب انسان اپنی عقل اور خواہشات کو اعلیٰ حیثیت دیتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر انہیں اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ یہی کچھ ہمیں یونانی فلسفے میں نظر آتا ہے جہاں سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفیوں نے عقل کو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت سمجھا۔ اگرچہ یہ فلسفہ ایک منظم مذہب کی شکل میں نہیں آیا، لیکن اس کے پیروکاروں نے عقل و منطق کو ایسی اہمیت دی کہ اسے زندگی کی ہر حقیقت پر غالب کر دیا۔ اس رجحان نے مستقبل میں ایسی فکری تحریکات کو جنم دیا جنہوں نے خدا کے وجود سے انکار کر کے دنیا کو ایک مادی اور تجرباتی دائرے میں قید کر دیا
*نفس پرستی اور ذات کا خدا بن جانا*
تاریخ میں ایسے افراد بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ذات اور طاقت کے گھمنڈ میں خود کو خدا کا درجہ دے دیا۔ ان میں فرعون اور نمرود کی مثالیں معروف ہیں۔ قرآن مجید میں فرعون کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
"اور فرعون نے کہا: 'اے میرے لوگوں! میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی اور کو بہتر رہنما نہیں دیکھتا۔'" (سورۃ غافر، آیت 29)
یہ قول اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ فرعون اپنی ذات کو اتنا اہم اور برتر سمجھتا تھا کہ اس نے اپنے ہی خیالات کو حتمی اور معبودانہ حیثیت دے دی۔ اسی قسم کی خودپسندی اور نفس پرستی کا مظاہرہ ہمیں آج کے دور میں بھی نظر آتا ہے جب لوگ اپنی خواہشات اور نظریات کو زندگی کی واحد حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔
*قدیم مذاہب اور انسانی تخیل*
*1۔ بابل کی تہذیب اور نمرود کا کردار*
بابل کی تہذیب میں مختلف قدرتی مظاہر کی عبادت کا تصور پایا جاتا ہے۔ بابل کے لوگوں نے سورج، چاند، ہوا، اور زمین کے عناصر کو دیوتا بنا دیا۔ ان دیوتاؤں کے پیچھے انسانی ذہن کی یہ محدودیت کارفرما تھی کہ وہ قدرتی مظاہر پر قابو نہیں پا سکتے، تو انہوں نے ان کے ذریعے اپنی معیشت، زندگی، اور امیدوں کو جوڑ دیا۔ قدرتی عناصر کی طاقت کو سمجھنے کی ناکامی نے انہیں ان دیوتاؤں کی عبادت کرنے پر مجبور کیا۔ قرآن کریم میں اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
"اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے، مگر وہ شریک ٹھہرا لیتے ہیں۔" (سورۃ یوسف، آیت 106)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کس طرح قدرتی مظاہر کے سامنے عاجز ہو کر ان کو اپنا معبود سمجھ لیتا ہے، جب کہ حقیقت میں صرف ایک ہی خالق ہے۔
بابل کے نمرود نے بھی اپنے اقتدار اور طاقت کے نشے میں خود کو خدا کا درجہ دے دیا۔ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے رب کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں۔ نمرود کا یہ دعویٰ انسان کی محدود عقل کی نشاندہی کرتا ہے جس میں وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ خود سے بالا تر کسی طاقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو یوں بیان کیا:
"کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں حجت کی کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی تھی۔" (سورۃ البقرہ، آیت 258)
یہاں نمرود کی مثال انسانی فطرت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے کہ جب اسے طاقت ملتی ہے تو وہ خدا کو بھول کر خود کو بلند مقام پر فائز سمجھنے لگتا ہے۔
*2۔ مصر کی تہذیب اور فرعون کا کردار*
مصر کے فراعین کے زمانے میں بادشاہت کو خدائی حیثیت دی گئی۔ فرعونوں نے خود کو خدا کا درجہ دے کر لوگوں پر حکمرانی کی۔ فرعون کے لئے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ تمام علم اور طاقت کا حامل ہے، اور اس کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں۔ ان کے زمانے میں حکمرانوں کو خدائی صفات کا حامل سمجھا جاتا تھا اور ان کی پوجا کی جاتی تھی۔
فرعون کی یہی روش قرآن میں بیان کی گئی ہے:
"اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی اور معبود کو نہیں جانتا۔" (سورۃ القصص، آیت 38)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب انسان اپنی ذات کو محور سمجھنے لگتا ہے تو وہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور اسے خدائی حیثیت دینے لگتا ہے۔ اسی طرح فرعون نے اپنے محدود تخیل کے باعث خدا کی عظمت کو قبول کرنے کے بجائے خود کو خدا کے مقام پر فائز کر لیا۔
*3۔ یونانی دیومالائی کردار*
یونان کی ثقافت میں بھی دیومالائی کرداروں کی ایک وسیع کائنات موجود تھی۔ یونانی فلسفیوں نے مختلف خداؤں یا دیوتاؤں کے تصورات کو پروان چڑھایا، جیسے زیوس (Zeus)، ہیرا (Hera)، اور ایتھنہ (Athena)۔ ان خداؤں کی کہانیوں کے ذریعے انسانی ذہن کی حدود اور مختلف قدرتی مظاہر کے خوف کے عکس پائے جاتے ہیں۔ یہ دیوتا بھی قدرتی قوتوں اور انسانی صفات کے عکاس تھے۔ ان کے ہر دیوتا کا ایک مخصوص کام تھا۔ زیوس (Zeus) کو آسمان کا دیوتا، ہیرا (Hera) کو عورتوں کی محافظ اور ایتھنہ (Athena) کو عقل و دانش کی دیوی مانا گیا۔ یہ دیومالائی داستانیں انسان کی عقل کی محدودیت کی وجہ سے تخلیق ہوئیں، کیوں کہ یونانی فلسفی اپنی روزمرہ کی مشکلات اور فطرت کی قوتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے، تو انہوں نے ان کی روحانی شکلیں تخلیق کر لیں۔ یہ نظریات انسان کی اپنی کمزوری اور محدود علم کا نتیجہ تھے۔
جب انسان قدرت کے مظاہر کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ ان مظاہر کی روحانی شکلیں تخلیق کر کے ان کی عبادت کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنائے ہیں؟ کہو، اپنی دلیل لاؤ!" (سورۃ البقرہ، آیت 148)
یہ آیت انسانی عقل کی محدودیت کو اجاگر کرتی ہے، جو ایک معبود کے طور پر غیر حقیقی تصورات کی تخلیق کرتی ہے۔
*4۔ ہندومت کے متعدد دیوتا*
ہندومت میں، جو کہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے، ہمیں دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ برہما (Brahma) کو تخلیق کا دیوتا، وشنو (Vishnu) کو محافظ، اور شیو (Shiva) کو تباہی کا دیوتا مانا جاتا ہے۔ ہر دیوتا کو ایک مخصوص صفت کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہندومت میں دیوتاؤں کی کثرت انسانی ذہن کی محدودیت کی عکاس ہے، جہاں انسان اپنی زندگی کے ہر پہلو کو ایک معبود کے تحت لا کر اس کی عبادت کرتا ہے۔ انسان جب فطرت کی طاقتوں کو سمجھنے میں ناکام ہوتا ہے تو وہ انہیں دیوتاؤں کے روپ میں مان کر ان سے مدد طلب کرتا ہے۔ قرآن میں اس کے بارے میں کہا گیا ہے:
"بیشک تم اور تمہارے آباء و اجداد جس کی عبادت کرتے رہے ہیں، وہ میرے دشمن ہیں سوائے اللہ کے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔" (سورۃ الشعراء، آیت 77)
یہ آیت بتاتی ہے کہ جب انسان اپنے معبودوں کو حقیقت کے مقابلے میں رکھتا ہے تو وہ گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے۔
اس کی بنیاد انسانی سوچ کی کمزوری ہے جو کائنات کے مختلف پہلوؤں کو خدا کے بغیر سمجھنے سے قاصر ہے اور نتیجتاً اپنے تخیل کو خدائی صفات کا حامل قرار دے دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی پوجا اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہونی چاہئے:
"اور اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔" (سورۃ الجن، آیت 18)
*5۔ آریائی سلطنت کے خودساختہ دیوتا اور بادشاہت*
انسانی تاریخ میں خودساختہ دیوتاؤں کا تصور بھی موجود رہا ہے۔ مثال کے طور پر، فرعون اور نمرود کے علاوہ بھی کئی بادشاہوں نے اپنی طاقت کی بنا پر خود کو خدا قرار دیا۔ ہخامنشی سلطنت کے بادشاہ کوروش اور داریوش نے بھی اپنی حکومت کو تقدس بخشا اور خود کو خدا کا نائب سمجھا۔
ہخامنشی سلطنت، جسے فارسی زبان میں "ہخامنشی" یا "آریائی سلطنت" کے نام سے جانا جاتا ہے، قدیم ایران کی ایک عظیم الشان سلطنت تھی۔ یہ سلطنت تقریباً 550 قبل مسیح سے 330 قبل مسیح تک برقرار رہی اور اس کے دور میں مشرق وسطیٰ کے بڑے حصے، بشمول موجودہ ایران، عراق، شام، ترکی، مصر اور افغانستان کے کچھ حصے شامل تھے۔ اس سلطنت کی بنیاد قورش (کوروش) نے رکھی، اور یہ سلطنت اپنے عہد میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی۔
ہخامنشی سلطنت کی ابتدا 550 قبل مسیح میں قورش بزرگ (کوروش) کی قیادت میں ہوئی، جو ایک طاقتور رہنما تھے۔ قورش نے مختلف قبائل اور ریاستوں کو متحد کر کے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد داریوش اول (داریوش بزرگ) نے سلطنت کو وسعت دی اور اسے مزید مستحکم کیا۔
ہخامنشی سلطنت کی ثقافت میں ایرانی، مصری، بابل، اور دیگر قومیتوں کا ملا جلا اثر شامل تھا۔ یہ سلطنت فنون، ادب، اور سائنس کے میدان میں بھی بہت ترقی یافتہ تھی۔ مشہور آثار، جیسے تخت جمشید (پرسیپولیس)، اسی دور کے ہیں۔
انہوں نے اپنی حکومت کو تقدس بخشنے کے لئے خود کو خدا کا نائب قرار دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک عام عمل تھا کہ حکمران اپنے آپ کو قوم کی روحانی رہنمائی کرنے والے سمجھتے تھے۔ ان بادشاہوں نے اپنے نظریات کو عوام کے ذہنوں میں اس طرح بٹھایا کہ ان کی خدائی حیثیت تسلیم کرانا آسان ہو گیا۔ یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ تھا جس کا مقصد عوام میں وفاداری پیدا کرنا اور انہیں اپنے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرنا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور انہوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور راہبوں کو رب بنا لیا۔" (سورۃ التوبہ، آیت 31)
یہ آیت انسانی ذہن کے ان افکار کی عکاسی کرتی ہے جو طاقتور شخصیات کو الہامی مقام پر فائز کر کے ان کی عبادت کرنے لگتے ہیں، جو کہ حقیقتاً شرک ہے۔
*6۔ روم میں آگسٹس کا خدائی درجہ*
رومی شہنشاہ آگسٹس کو بھی خود کو دیوتا کا بیٹا قرار دینے کی مثال ملتی ہے۔ روم کے بادشاہوں نے اپنی طاقت اور اقتدار کو لوگوں پر غالب کرنے کے لئے خود کو خدائی حیثیت دی اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور بٹھایا کہ ان کا حکمران مقدس ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس طرز فکر کو واضح کیا اور انسان کو دعوت دی کہ وہ اللہ کو حقیقی حاکم تسلیم کرے۔
"اور تمہارا رب فیصلہ کر چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔" (سورۃ الإسراء، آیت 23)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو معبود ماننا یا اسے خدائی درجہ دینا غلط ہے۔ اللہ ہی حقیقی حاکم ہے، اور انسان کو اس کی واحدیت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
*7۔ دیوتاؤں کے علاوہ روحانی پیشواؤں کو الہام کا درجہ دینا*
بعض اوقات انسان اپنی محدود عقل کے باعث انبیاء یا رہنماؤں کو خدا کے برابر کا درجہ دے دیتا ہے۔ جیسے بانیانِ سکھ مت (سکھ دھرم) میں گرو نانک کی تعلیمات کو الہامی حیثیت دی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس مذہب نے ایک منظم شکل اختیار کر لی۔ گرو نانک نے تو انسانیت کی خدمت اور سچائی کا پیغام دیا تھا، لیکن ان کے پیروکاروں نے اس پیغام کو ایک مذہب کی بنیاد بنا کر ان کے اقوال کو الہامی درجہ دے دیا
*مشرقی مذاہب اور فلسفے*
*کنفیوشس کی تعلیمات*
چین میں کنفیوشس (Confucius) کی تعلیمات نے ایک خاص جگہ حاصل کی ہے، جہاں انہوں نے اخلاقی اصولوں کی بات کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ، ان کے پیروکاروں نے ان کی تعلیمات کو مذہب کی شکل دے دی، جبکہ کنفیوشس نے بنیادی طور پر انسانی اخلاقیات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ انسانی محدودیت یہاں بھی واضح ہوتی ہے کہ جب کنفیوشس کا مقصد صرف اخلاقی تعلیم دینا تھا، تو ان کے پیروکاروں نے ان کو خدا کی جگہ دے کر ان کی تعلیمات کو مقدس بنا دیا۔ قرآن مجید میں اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
"اور جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو وہ منہ موڑ لیتے ہیں۔" (سورۃ الجن، آیت 23)
یہ آیت انسانی فطرت کی اس کمزوری کو بیان کرتی ہے کہ انسان کب تک اپنے نظریات کو ہی حتمی سچائی سمجھتا رہے گا۔
*مغربی فلسفہ اور جدید مذہبی خیالات*
آج کے دور میں سائنس اور فلسفے کی بنیاد پر انسان نے خدا کو فراموش کرنے کی کوشش میں نئی قسم کے نظریات اور "مذاہب" کو تخلیق کیا ہے، اور سائنٹیفک مٹیریلزم (Scientific Materialism) اور نیو ایج موومنٹ (New Age Movement) وغیرہ جیسے نظریات کو اپنا مرکز بنا لیا ہے۔ سائنٹیفک مٹیریلزم، نیو ایج موومنٹ، اور دیگر جدید نظریات خدا کی حقیقی حیثیت کو چھوڑ کر انسان کے ذاتی خیالات اور خواہشات پر مبنی ہیں۔ انسان نے مادی وسائل کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ وہ اللہ کی حقیقت کو بھول بیٹھا ہے۔
قرآن میں اللہ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:
"اور ہم نے آسمان و زمین کو باطل پیدا نہیں کیا، بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔" (سورۃ الدخان، آیت 38)
ان نظریات کے پیروکار فطری مظاہر اور مادی وسائل کو اپنی زندگی کا مرکز بنا کر انہیں الہامی حیثیت دیتے ہیں۔ انسان جب قدرتی عوامل اور سائنس کے پیچھے پوشیدہ حکمت کو سمجھنے میں ناکام ہوتا ہے تو وہ ان کو ہی حتمی سچائی قرار دے کر ان کی پیروی کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور زمین میں تمہارے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں جسے تم اپنی خواہش کے مطابق اپنا الٰہ بناؤ۔" (سورۃ الاعراف، آیت 73)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق مذہب کی بنیاد رکھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اللہ ہی معبود ہے۔
*مختلف مذاہب کی تنگنائے سے باہر نکلنے کی ضرورت*
انسانی فطرت کا یہ ایک حصہ ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن یہ تلاش اکثر اپنے محدود افکار کے دائرے میں محصور ہو جاتی ہے۔ مختلف مذاہب کی تخلیق اور ان کی تشکیل میں انسانی عقل کی ناکامی واضح ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے تخیل کے افق سے باہر نکل کر ایک سچے خالق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو وہ حقیقی سکون اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔
قرآن مجید
کی یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے:
"اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔" (سورۃ الذاریات، آیت 56)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہمارا اصل مقصد صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرنا ہے، جو ہمیں حقیقی سچائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
*عقل کا محدود افق اور توحید کی اصل*
اسلام نے توحید کا ایک جامع پیغام دیا اور انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ قرآن مجید نے بارہا اس بات کی نشاندہی کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کے سوا کوئی حقیقت کا حامل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> "اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔" (سورۃ الاسراء، آیت 23)
اسلام کا پیغام ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ انسان اپنی عقل اور محدود علم کو حقیقت حق کے تابع کر کے اللہ کی واحدانیت کو تسلیم کرے۔ اسلام کے مطابق کائنات کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کی عبادت ہونی چاہیے۔
انسان کے بنائے ہوئے مذاہب کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سچی توحید کا مطلب سمجھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا پیغام یہی ہے کہ اللہ ہی تمام کائنات کا خالق ہے اور وہی واحد معبود ہے۔ انسان کو اپنی محدودیت کو تسلیم کر کے اللہ کی عظمت کو ماننا اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔" (سورۃ القصص، آیت 88)
یہ آیت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ سچی توحید یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات، تخیلات اور نظریات کو اللہ کے سامنے جھکائیں اور اس کی رضا کے مطابق زندگی بسر کریں۔
اسلام کی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان کو محدود عقل اور تخیل سے نکال کر ایک جامع اور لامتناہی پیغام دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کہو کہ وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔" (سورۃ الاخلاص، آیت 1-4)
یہ آیت انسانی عقائد کی بنیادوں کو چیلنج کرتی ہے، کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں۔ اسلام نے توحید کو مرکزی حیثیت دی ہے، جو انسان کو سچائی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
*خلاصہ*
انسان کی محدود عقل اور تخیل نے اسے مختلف مذاہب، عقائد اور فلسفوں کی تخلیق کی جانب مائل کیا، لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک رہی، انسان نے ہمیشہ اپنی خواہشات، تجربات اور افکار کو مقدس مانا۔
انسانی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب اور نظریات کی بنیاد انسانی تخیل کی محدودیت پر ہے۔ انسانی تخیل کا یہ محدود افق ہمیشہ نئے مذاہب اور عقائد کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔ جب انسان کسی چیز کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، تو وہ اپنی محدود عقل اور خیالات کی بنیاد پر ایک نیا مذہب یا عقیدہ تشکیل دے دیتا ہے اور اسے حقیقت سمجھ کر دوسروں پر مسلط کرتا ہے۔ یعنی جہاں انسان کی عقل و شعور کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے وہ ایک نیا راستہ نکالتا ہے اور اسے حتمی سچائی تصور کر لیتا ہے۔
مصر، بابل، یونان، روم، فارس اور ہندوستان کی تہذیبیں انسان کے محدود علم کی عکاسی کرتی ہیں۔ قرآن پاک میں بار بار اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ ہی حقیقی معبود ہے اور کوئی دوسری ہستی عبادت کی مستحق نہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی بے مثال عظمت کے آگے انسان کی سوچ، تخیل، اور خواہشات کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے پیغام کو سمجھ کر اپنی محدودیت کو تسلیم کرے، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔
یوں انسان اپنی ذات کی پرستش اور تخیل کے محدود افق سے نکل کر اللہ کی عظمت اور اس کے پیغام کی وسعت کو سمجھ سکتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی انسان کو توحید کی طرف لے کر جاتا ہے اور اسے ان تمام گمراہ کن تصورات سے بچا سکتا ہے جو اس کے اپنے تخیل کی محدودیت نے تخلیق کیے ہیں۔
اللہ کی معرفت اور اس کے احکام کی پیروی ہی انسان کو حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔
بہت معلوماتی تحریر ہے، اور یہ تجزیہ انسانی تخیل اور محدودیت کے اثرات کو بڑی گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ مذاہب کی تخلیق کے اس عمل میں انسانی فطرت، خوف، طاقت، اور محدود عقل کا جو تجزیہ کیا گیا ہے، وہ واقعی غور و فکر کا باعث ہے۔ ہر مذہب کی ابتدا میں جس طرح سے انسان نے اپنے تجربات، خوف، اور قدرتی طاقتوں کو سمجھنے کی کوشش کی، وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان ہمیشہ سے کائنات کے رازوں کو جاننے کا خواہاں رہا ہے، لیکن اپنی محدودیت کے باعث نئے نظریات اور نظام تخلیق کر لیتا ہے۔

قرآن مجید کی آیات کا حوالہ اس حقیقت کو مزید مضبوط بناتا ہے کہ انسان کو اپنے محدود علم کا ادراک ہونا چاہیے اور کائنات کی حقیقتوں کو سمجھنے کے لئے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
 
Top