مذہب آج کے جدید دور میں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آج کا مذہب یہ ہے ،اور شاید زمانہ جاہلیت کا میں بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔

سعودی عرب نے نیا قانون پاس کیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ خوبصورت آنکھوں والی خاتون کو اپنی آنکھیں ڈھانپ کر رکھنا ہوں گی ، انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کسی مرد کی نیت خراب نا ہو جائے ۔ سوال یہ ہے کہ عورت کی آنکھیں بنانے والے نے ایسا کیوں نہیں سوچا ؟
یا مرد کی آنکھوں کو ڈھانپنے کا قانون پاس کیوں نہیں ہو سکتا ؟ حالانکہ عورت کی ڈھکی چھپی آنکھیں بھی دیکھنے والوں کی گندی نظر سے محفوظ نہیں ۔
اور آخر پر بونس میں یہ دھمکی بھی لگائی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر کوئی اس قانون کی پاپندی کرے گا ۔۔
اور اگر کوئی نا کرے تو وہ ؟
کافر ؟ ملحد ؟ ملعون ؟
لنک دیکھیں
http://indiatoday.intoday.in/story/new-saudi-law-bans-tempting-eyes-of-women/1/399382.html
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یہ تیرہ سال کا بچہ ابو خطاب اور اس کے لئے نیکی کیا ہے ؟؟
وہ کہتا ہے کہ پہلے و ہ انتہا پسندی کی طرف راغب تھا اور اب ؟

ابو خطاب کے مطابق وہ دولتِ اسلامیہ کو اس وجہ سے پسند کرتا ہے کہ وہ شریعت کو فروغ دیتے ہیں اور ان کفار کو مارتے ہیں جو سنی مسلک سے نہیں ہوتے اور جو اسلام ترک کر کے دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں۔

مسلک ! مذہب ! ذات ! برادری !
یہ ساری کلاسیفیکشن ہماری ذاتی ہے ۔ ورنہ پیدا کرنے والے نے سب سے پہلے سب کو انسان بنایا ۔
اسلام نے انسانیت کا درس دیا
اور
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انسانیت کے درس کی عملی مثال قائم کی۔۔

جانیے اس بچے کے اور اس جیسے کئی اور نوجوان کہ جو بچپن کی معصومیت سے باہر بھی نہیں آپاتے انہیں زندگی کیسے گزارنی ہے اس بات کا شعور آنے سے پہلے انہیں انتہا پسند شدت پسند بنا دیا جاتا ہے ۔ وہ نارمل سوچ بھی نہیں سکتے۔
لنک
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/201...3_years_righteous_zz?ocid=socialflow_facebook
 

حسینی

محفلین
یقینا ہم مذہب در مذہب تقسیم ہو کر انسانیت کا درس بھول گئے ہیں۔
پچھلے دونوںمسیحی جوڑے کو زندہ جلانے کی خبر نے میری رونگٹیں کھڑی کردیں۔۔۔ انسان اتنا بھی گر سکتا ہے؟؟ الامان الحفیظ
ہم سب سے پہلے انسان ہیں۔۔ اور پھر اس کے بعد کچھ اور۔۔۔
مولائے متقیان علی بن ابی طالب علیہ السلام نے مالک اشتر کو جو حکومت چلانے کے حوالے سے حکم نامہ جاری کیا تھا اس کا خوبصورت اور ابدی جملہ یہ ہے:
يا مالك إن الناس صنفان: إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق
اے مالک۔ لوگ دو طرح کے ہیں۔ یا دین میں تمہارے بھائی ہیں یا خلقت میں تمہاری نظیر۔ لہذا کسی انسان کو حقیر مت سمجھنا اور ظلم مت کرنا۔۔
اور سنا ہے یہی جملہ اقوام متحدہ کی کسی دیوار پر بھی لکھا گیا ہے۔
 
اسلام کو بدنام کرنے والے غیر کیا کم تھے کہ اپنے بھی اسی راہ پر آن پڑے ہیں؟ کتاب اللہ اور سیرتِ نبوی کو ترک کرنے والوں کا حال اور کیا ہو گا۔
اسلام کو برا نہ کہئے، بلکہ جو اس کا مذاق بنا رہے ہیں اور بن رہے ہیں ان کی اصلاح کیجئے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح لازم ہے۔
دین اسلام اللہ کی طرف سے ہے اور قیامت تک ساری دنیا کے لئے ہے۔ ضرورت اس کے عملی اطلاق کی ہے، وہ نہیں کرنا تو باتوں کا کیا ہے، جتنی کر لیں۔
 

نایاب

لائبریرین
اسلام کو بدنام کرنے والے غیر کیا کم تھے کہ اپنے بھی اسی راہ پر آن پڑے ہیں؟ کتاب اللہ اور سیرتِ نبوی کو ترک کرنے والوں کا حال اور کیا ہو گا۔
اسلام کو برا نہ کہئے، بلکہ جو اس کا مذاق بنا رہے ہیں اور بن رہے ہیں ان کی اصلاح کیجئے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح لازم ہے۔
دین اسلام اللہ کی طرف سے ہے اور قیامت تک ساری دنیا کے لئے ہے۔ ضرورت اس کے عملی اطلاق کی ہے، وہ نہیں کرنا تو باتوں کا کیا ہے، جتنی کر لیں۔
استاد محترم " اسلام " سلامتی کا دین ہے ۔ نہ کبھی بدنام ہوا اور نہ ہی کسی سے ہو سکے گا ۔ " اسلام " سلامتی انسانوں کی انسانوں کی جانب سے ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ۔
یہ تو مجھ ایسے مسلمانوں کے کرتوت ہیں جو کہ اپنے اپنے خود ساختہ نظریات سے اپنے اپنے اسلامی بت تراش کر ان کی عبادت و تبلیغ میں محو ہیں ۔۔
گستاخی معاف استاد محترم مگر ہم صرف نام کے مسلمان ہیں وہ بھی اللہ کے خالص فضل سے کہ کسی " جدی پشتی " مسلمان " کے گھر پیدا ہوگئے ۔ اسلام ہمیں اس قدر ہی آتا ہے جس سے " فتاوی " گھڑ سکیں ہم ۔
عورت پر سختی پابندی تو چھوڑیں کہ " مرد کی محکوم قرار پائی ہے " اور دوسرے ادیان میں " برائی کا سر چشمہ "
مگر ہم اپنے جیسے مردوں پہ کیا کیا ظلم کرتے ہیں اسلام کے نام پہ ۔ نہ کوئی مندر چھوڑا نہ کوئی گرجا نہ کوئی مسجد نہ کوئی امام بارگاہ نہ کوئی مزار ۔۔۔
جس سپیکر سے اذان کی صدا بلند ہوتی ہے اسی سپیکر سے " داعی " اعلان کرتا ہے کہ " قران " کی توہین ہو گئی ۔ اور مجھ ایسے " فرسٹریشن " کے مارے بھاگم بھاگ موقع پر پہنچتے ہیں ۔ اور بنا کسی تحقیق و تفتیش کہ دو انسانوں کو جلتی آگ میں جھونک دیتے ہیں ۔ اور مسکراتے ہیں کہ اسلام و قران بچا لیا ہم نے ۔ جنت مل گئی ہمیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر ساحب بھرچونڈی شریف والے " گیارہ سالہ بچی " کو زبردستی گھر سے اٹھواتے ہیں ۔ اور مسلمان کر اس کا دوگنی عمر کے مرد سے نکاح کراتے ہیں ۔ اور فتوی دیتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد اس لڑکی کا اپنے گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
گوجرانوالہ میں کیسے ظلم ڈھاتے ہم نے جنت کمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بادامی باغ میں کیسی مسلمانیت کا مظاہرہ کیا ہم نے ۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں میں مذہب کے نام پر پائی جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کسی صورت بھی اسلام کی توہین نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے برعکس یہ اسلام کا دفاع قرار پائے گا ۔۔
ہم مسلمانوں کا بس یہ المیہ ہے کہ ہم صرف " قیل و قال " میں الجھ کر اپنے اپنے مسالک کو " ناجی " قرار دیتے ہیں ۔ اور باقی سب انسانوں کو بلاتفریق مذہب و مسالک " جہنمی " قرار دیتے واجب القتل جان لیتے ہیں ۔۔اسلام کا عملی اطلاق کون کرے گا ۔ اگر میں اسلام کا داعی ہوں تو سب سے پہلے مجھے خود پر اس کے اطلاق کی کوشش کرنا ہوگی ۔ پہلے خود میٹھا چھوڑنا ہوگا پھر کسی دوسرے کو نصیحت کر پاؤں گا ۔
بہت دعائیں ۔
 
آخری تدوین:
آج کا مذہب یہ ہے ،اور شاید زمانہ جاہلیت کا میں بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔

سعودی عرب نے نیا قانون پاس کیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ خوبصورت آنکھوں والی خاتون کو اپنی آنکھیں ڈھانپ کر رکھنا ہوں گی ، انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کسی مرد کی نیت خراب نا ہو جائے ۔ سوال یہ ہے کہ عورت کی آنکھیں بنانے والے نے ایسا کیوں نہیں سوچا ؟
یا مرد کی آنکھوں کو ڈھانپنے کا قانون پاس کیوں نہیں ہو سکتا ؟ حالانکہ عورت کی ڈھکی چھپی آنکھیں بھی دیکھنے والوں کی گندی نظر سے محفوظ نہیں ۔
اور آخر پر بونس میں یہ دھمکی بھی لگائی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر کوئی اس قانون کی پاپندی کرے گا ۔۔
اور اگر کوئی نا کرے تو وہ ؟
کافر ؟ ملحد ؟ ملعون ؟
لنک دیکھیں
http://indiatoday.intoday.in/story/new-saudi-law-bans-tempting-eyes-of-women/1/399382.html

میرے نزدیک لباس کا نیت خراب ہونے سے کوئی تعلق نہیں، جس کی نیت خراب ہے اسے آپ اپنا تن من ڈھک کر بھی نہیں روک سکتے۔
 
بہت شکریہ جناب امجد میانداد صاحب۔ میرے پاس جو کچھ تھا، وہ عرض کر چکا ہوں۔
سب احباب اپنے اپنے نظری اور فکری دلائل کے ساتھ خوش رہیں؛ صرف اتنا خیال رکھیں کہ آپ کی بات اور استدلال اللہ اور اللہ کے رسول کے ارشادات کے منافی نہ ہو جائے۔
اللہ کریم توفیق دے۔
 

فاتح

لائبریرین
"اگر یہ جاننا ہو کہ ایک مذہب کی تعلیمات کیسی ہیں تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس مذہب نے اپنے ماننے والوں کے کردار پر کیسا اثر ڈالا ہے۔ یہ دلیل انتہائی غیر منطقی ہے کہ مذہب تو کامل اور آئیڈیل ہے، بس اس کے ماننے والے انتہائی کمینے، منافق ، اخلاق سے گرے ہوئے، تشدد پسند اور بے ایمان ہیں۔" از 'احمد علی'
 

x boy

محفلین
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف امتیاز هوتا ہے - یہاں ان کے لئے ترقی کے مواقع نہیں -

میں نے کہا کہ موجوده صورت حال اصل مسئلہ نہیں - اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ صورت حال کو کس زاویہ نظر سے دیکهتے ہیں - اگر آپ اس کو امتیاز کہیں تو اس کے نتیجہ میں مایوسی کا ذہن پیدا هوتا ہے - اور اگر ان کو چیلنج قرار دیں تو اس کا سامنا کرنے کا ذہن ابهرے گا - جس چیز کو آپ "امتیاز" کہہ رہے ہیں ، وه زندگی کی کی ایک حقیقت ہے جو ہر جگہ رہے گی ، خواه وه مسلم ملک هو یا غیر مسلمملک - پهر جو چیز ہر حال میں باقی رہنے والی هو اس کے خلاف شکایت اور فریاد کرنے سے کیا فائده -

موجوده زمانہ کے مسلم رہنماوں نے امتیاز اور تعصب اور ظلم کی کہانی اتنی زیاده بار دہرائی کہہ انهوں نے مسلمانوں کو بے حوصلہ کر دیا - اگر وه ان حالات کو چیلنج کہہ کر پیش کرتے تو مسلمانوں میں مقابلہ کا حوصلہ پیدا هوتا - یہ بلاشبہہ تمام ظلموں سے زیاده بڑا ظلم ہے کہ کسی گروه کو غلط رہنمائی کے ذریعہ بے حوصلی بنا دیا جائے -

ڈائری 27 نومبر 1983
مولانا وحیدالدین خان

منطقی استدلال

کسی بات کو عقلی طور پر سمجهنے کے لئے انسان کے پاس سب سے بڑی چیز منطق (logic) ہے - منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طور پر قابل فہم بنایا جاتا ہے - منطق کی دو بڑی قسمیں ہہں - ایک ہے ، انتخابی منطق اور دوسری ہے مجبورانہ منطق ( compulsive logic) - منطق کے یہ دونوں طریقے یکساں طور پر قابل اعتماد ذریعے ہیں - دونوں میں سے جس ذریعے سے بهی بات ثابت هو جائے ، اس کو ثابت شده مانا جائے گا -

انتخابی منطق

امتخابی منطق وه ہے جس میں آدمی کے لئے کئ میں سے ایک کے انتخاب کا موقع هو - اس قسم کے معاملے میں ہمارے پاس ایسے ذریعے هوتے ہیں جن کو منطبق کر کے ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ کئ میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چهوڑ دیں -

مثلا سورج کی روشنی کو لیجئے - آنکهہ سے دیکهنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکهائی دیتی ہے ، لیکن پرزم (prism) سے دیکهنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے - اس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب هو گئے - آب ہمارے لیے یہ ممکن هو گیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیاده هو ، ہم اس کو لیں - چنانچہ اس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیا گیا - کیونکہ وه زیاده قوی ذریعے سے ثابت هو رہا تها -

مجبورانہ منطق

مجبورانہ منطق کا معاملہ اس سے مختلف ہے - مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب هوتا ہے - آدمی مجبور هوتا ہے کہ اس ایک انتخاب کو تسلیم کرے - کیونکہ اس میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں هوتا - مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورت حال یہ هوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طور پر ماننا بهی ہے اور ماننے کے لئے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئ دوسرا انتخاب موجود نہیں -

مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے - ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے - وه مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے - حالانکہ اس نے اپنے آپ کو اس خاتون کے بطن سے پیدا هوتے هوئے کبهی نہیں دیکها - اس کے باوجود وه اپنی ماں کو یقین کے ساته مانتا ہے - یہ ماننا مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت هوتا ہے - ایسا وه اس لیے کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے - اسی لئے وه اپنی ماں کو یقین کے ساته اپنی ماں تسلیم کر لیتا ہے - کیونکہ اس کیس میں اس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں -

خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بهی اسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے - خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں - ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں - کیونکہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی ، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی - چونکہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کر سکتے ، اس لئے ہم خدا کے وجود کی بهی نفی نہیں کر سکتے -

اظہار دین
مولانا وحیدالدین خان
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
"اگر یہ جاننا ہو کہ ایک مذہب کی تعلیمات کیسی ہیں تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس مذہب نے اپنے ماننے والوں کے کردار پر کیسا اثر ڈالا ہے۔ یہ دلیل انتہائی غیر منطقی ہے کہ مذہب تو کامل اور آئیڈیل ہے، بس اس کے ماننے والے انتہائی کمینے، منافق ، اخلاق سے گرے ہوئے، تشدد پسند اور بے ایمان ہیں۔" از 'احمد علی'
" پدرم سلطان بود " کے نشے میں مست رہنے والوں کو کب یہ سوچنے کی فرصت ہوتی ہے کہ ان کہ بزرگوں نے کس طور یہ سلطانی حاصل کی تھی ۔
مجھ ایسے " مسلم گھرانے " میں جنم لینے والے " جدی پشتی اعلانیہ مسلمان " کب اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں کہ ہمارا دین " اسلام " کن اصولوں قائم ہوتا ہے ۔ اور دوسرے انسانوں کے لیئے کیسے " سلامتی " ہے ۔ میں کیا جانوں کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ کیسے " رواداری اور مساوات " کے ساتھ چلتے " عدل و انصاف " کو اپناتے جھوٹ فریب سے دور رہتے ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے انہیں اپنے دین کی حقانیت بارے خاموش پیغام دیا جا سکتا ہے جو کہ ہر " ابن آدم اور بنت حوا " کے دل و دماغ کو جھنجوڑ ڈالے اور انہیں " حق " کی راہ پر آنے کو مجبور کر دے ۔
میں تو " نعرہ مسلمان " لگاتے اندر اندر اپنے نفس کو پرچاتے ہر دوسرے کو اپنے مسلک و مذہب کی دھار پر چڑھاتے انہیں زبردستی " جنت " کی جانب کھینچنے میں مصروف رہتا ہوں ۔ اور جو نہ سنے میری بات اسے " جہنمی " کہتے واجب القتل ٹھہراتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا مذہب برا نہیں میں ہی برا ہوں کہ اپنے مذہب کی تعلیمات کو میں نے ہتھیار بنا لیا ہے ۔ عمل مجھ سے ہو نہ سکا سو باتوں سے دل بہلا لیا ہے ۔۔
بہت دعائیں
 

محمد اسلم

محفلین
یقینا ہم مذہب در مذہب تقسیم ہو کر انسانیت کا درس بھول گئے ہیں۔
پچھلے دونوںمسیحی جوڑے کو زندہ جلانے کی خبر نے میری رونگٹیں کھڑی کردیں۔۔۔ انسان اتنا بھی گر سکتا ہے؟؟ الامان الحفیظ
ہم سب سے پہلے انسان ہیں۔۔ اور پھر اس کے بعد کچھ اور۔۔۔
مولائے متقیان علی بن ابی طالب علیہ السلام نے مالک اشتر کو جو حکومت چلانے کے حوالے سے حکم نامہ جاری کیا تھا اس کا خوبصورت اور ابدی جملہ یہ ہے:
يا مالك إن الناس صنفان: إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق
اے مالک۔ لوگ دو طرح کے ہیں۔ یا دین میں تمہارے بھائی ہیں یا خلقت میں تمہاری نظیر۔ لہذا کسی انسان کو حقیر مت سمجھنا اور ظلم مت کرنا۔۔
اور سنا ہے یہی جملہ اقوام متحدہ کی کسی دیوار پر بھی لکھا گیا ہے۔
پہلے کوئی قرآنی آیت یا حدیثِ رسول بھی لکھ دیتے۔۔۔۔
 
Top