مہوش علی
لائبریرین
ایک طرف شرم و حیا کے نام پر حالت یہ ہے کہ آزاد مسلمان عورت ایسے حجاب کرے کہ اسے اپنی آنکھیں تک کھولے رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ آنکھوں کو بھی چھپانا ہے (صرف خوبصورت عورت ہی نہیں، بلکہ سعودی مفتی حضرات کی اکثریت کا فتویٰ ہے کہ آزاد مسلمان عورت، اگر وہ خوبصورت نہیں بھی ہے، تب بھی وہ فقط "ایک آنکھ" کھلی رکھ سکتی ہے اور بقیہ دوسری آنکھ اور پورا جسم حجاب میں چھپا ہونا چاہیے)۔
دوسری طرف ہزاروں کنیز خواتین معاشرے میں سرے سے بغیر کسی حجاب کے گھومتی تھیں، اور قانون کے مطابق اگر وہ حجاب لینا بھی چاہتی تھیں تو اسے اس نام پر زبردستی اتروا دیا جاتا تھا کہ وہ آزاد مسلم عورت کی برابری نہ کریں۔
جب میں انصاف کا میزان لے کر کھڑی ہوتی ہوں تو مجھے "بعد المشرقین" نظر آتا ہے۔
انصاف کی وصف قدرت نے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے۔
مذہب کے نام پر ہم سے اپنی فطرتیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ہمیں اندھی تقلید کا درس دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف ہزاروں کنیز خواتین معاشرے میں سرے سے بغیر کسی حجاب کے گھومتی تھیں، اور قانون کے مطابق اگر وہ حجاب لینا بھی چاہتی تھیں تو اسے اس نام پر زبردستی اتروا دیا جاتا تھا کہ وہ آزاد مسلم عورت کی برابری نہ کریں۔
جب میں انصاف کا میزان لے کر کھڑی ہوتی ہوں تو مجھے "بعد المشرقین" نظر آتا ہے۔
انصاف کی وصف قدرت نے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے۔
مذہب کے نام پر ہم سے اپنی فطرتیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ہمیں اندھی تقلید کا درس دیا جاتا ہے۔