مذہب آج کے جدید دور میں

مہوش علی

لائبریرین
ایک طرف شرم و حیا کے نام پر حالت یہ ہے کہ آزاد مسلمان عورت ایسے حجاب کرے کہ اسے اپنی آنکھیں تک کھولے رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ آنکھوں کو بھی چھپانا ہے (صرف خوبصورت عورت ہی نہیں، بلکہ سعودی مفتی حضرات کی اکثریت کا فتویٰ ہے کہ آزاد مسلمان عورت، اگر وہ خوبصورت نہیں بھی ہے، تب بھی وہ فقط "ایک آنکھ" کھلی رکھ سکتی ہے اور بقیہ دوسری آنکھ اور پورا جسم حجاب میں چھپا ہونا چاہیے)۔
دوسری طرف ہزاروں کنیز خواتین معاشرے میں سرے سے بغیر کسی حجاب کے گھومتی تھیں، اور قانون کے مطابق اگر وہ حجاب لینا بھی چاہتی تھیں تو اسے اس نام پر زبردستی اتروا دیا جاتا تھا کہ وہ آزاد مسلم عورت کی برابری نہ کریں۔

جب میں انصاف کا میزان لے کر کھڑی ہوتی ہوں تو مجھے "بعد المشرقین" نظر آتا ہے۔
انصاف کی وصف قدرت نے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے۔
مذہب کے نام پر ہم سے اپنی فطرتیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ہمیں اندھی تقلید کا درس دیا جاتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
پہلے کوئی قرآنی آیت یا حدیثِ رسول بھی لکھ دیتے۔۔۔۔

آپ یہ نئی بدعت کیوں جاری کر رہے ہیں کہ کسی بزرگ ہستی کا قول پیش کرنے سے قبل قرآن یا حدیث لکھنا ضروری ہے؟
اب آپ کہیں گے کہ آپ نے "ضروری" نہیں لکھا ہے۔۔۔۔ مگر آپکو شائد سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آپکی تحریر یہی پیغام دے رہی ہے۔
پہلے ہی مذہب کے نام پر لوگوں نے جان کو عذاب میں ڈال رکھا ہے، اوپر سے مزید یہ نئی نئی پابندیاں۔
 
آخری تدوین:

محمد اسلم

محفلین
آپ یہ نئی بدعت کیوں جاری کر رہے ہیں کہ کسی بزرگ ہستی کا قول پیش کرنے سے قبل قرآن یا حدیث لکھنا ضروری ہے؟
اب آپ کہیں گے کہ آپ نے "ضروری" نہیں لکھا ہے۔۔۔۔ مگر آپکو شائد سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آپکی تحریر یہی پیغام دے رہی ہے۔
پہلے ہی مذہب کے نام پر لوگوں نے جان کو عذاب میں ڈال رکھا ہے، اوپر سے مزید یہ نئی نئی پابندیاں۔
میرا مطلب یہ تھا کہ دین کے اولین ماخذ سے اس بات کو پیش کیا جاتا،،،، قرآن میں ایسی آیتیں ہیں،،، اور مختلف حدیثیں بھی۔
 

منصور مکرم

محفلین
"اگر یہ جاننا ہو کہ ایک مذہب کی تعلیمات کیسی ہیں تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس مذہب نے اپنے ماننے والوں کے کردار پر کیسا اثر ڈالا ہے۔ یہ دلیل انتہائی غیر منطقی ہے کہ مذہب تو کامل اور آئیڈیل ہے، بس اس کے ماننے والے انتہائی کمینے، منافق ، اخلاق سے گرے ہوئے، تشدد پسند اور بے ایمان ہیں۔" از 'احمد علی'
جی لیکن مذہب کے ماننے والے مذہب سے کب واقف ہوگئے ہیں۔
کلمہ پڑھنا تک صحیح نہیں آتا اور مذہب کے نمائندے بن گئے۔
اپنے خیال کو مذہب کا نام دینے والی قوم ہیں ہم تو۔
اسی طرح کے واقعات پر حضور ؑ نے امت کے ان اعمال سے براءت کا اعلان کیا ہے۔اور اسپر سرزنش بھی کی ہے۔
 

منصور مکرم

محفلین
ایک طرف شرم و حیا کے نام پر حالت یہ ہے کہ آزاد مسلمان عورت ایسے حجاب کرے کہ اسے اپنی آنکھیں تک کھولے رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ آنکھوں کو بھی چھپانا ہے (صرف خوبصورت عورت ہی نہیں، بلکہ سعودی مفتی حضرات کی اکثریت کا فتویٰ ہے کہ آزاد مسلمان عورت، اگر وہ خوبصورت نہیں بھی ہے، تب بھی وہ فقط "ایک آنکھ" کھلی رکھ سکتی ہے اور بقیہ دوسری آنکھ اور پورا جسم حجاب میں چھپا ہونا چاہیے)۔
دوسری طرف ہزاروں کنیز خواتین معاشرے میں سرے سے بغیر کسی حجاب کے گھومتی تھیں، اور قانون کے مطابق اگر وہ حجاب لینا بھی چاہتی تھیں تو اسے اس نام پر زبردستی اتروا دیا جاتا تھا کہ وہ آزاد مسلم عورت کی برابری نہ کریں۔

جب میں انصاف کا میزان لے کر کھڑی ہوتی ہوں تو مجھے "بعد المشرقین" نظر آتا ہے۔
انصاف کی وصف قدرت نے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے۔
مذہب کے نام پر ہم سے اپنی فطرتیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ہمیں اندھی تقلید کا درس دیا جاتا ہے۔

میرے خیال میں کنیزوں اور غلاموں کا معاملہ مذہب کے بجائے سیاسی ہے،اور انکو خدمت کیلئے ہی رکھا جاتا تھا۔ اسلئے اگر کنیزوں سے بھی آزاد عورت کی طرح پردہ کرایا جاتا تو حرج واقع ہوتا۔

آزاد عورت کیلئے بقدر ضرورت جانے کی اجازت ہے۔ بلکہ کاروبار تک کر سکتی ہے۔نیز سعودی عرب اسلام کیلئے بطور مثال ہرگز نہیں ہے۔
 
"اگر یہ جاننا ہو کہ ایک مذہب کی تعلیمات کیسی ہیں تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس مذہب نے اپنے ماننے والوں کے کردار پر کیسا اثر ڈالا ہے۔ '

اس جملے میں دو نقاط ہیں، ایک مذہب کو ماننا اور مذہب کا کردار پر اثر

1-ماننے والے کس حد تک مان رہے ہیں کیا ان کا ماننا حقیقت میں بھی ماننا کہلائے گا؟ جبکہ وہ مذہب پرمکمل طور پر عمل پیرا نہیں ہیں اور زیادہ طرح زبانی کلامی دعوے ہیں

2- اگر متعلقہ افراد اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہیں اور صرف ماننے کے دعویدار ہیں تو کردار پر اثر کا کیا مطلب ہوگا

مذہب تو معاشرتی برائیاں.جھوٹ،غیبت ،حسد،چوری وغیرہ سے منع کرے تو پیروی کے دعوی دار بلا تردد ان میں ملوث ہوں تو اس میں مذہب کا کیا قصور؟ ایسے مبینہ ماننے والے اپنے مذہب کی تعلیمات کے عکاس نہیں ہیں اور ان کا ماننے یا پیروی کا دعوی غلط ہے
 

زیک

مسافر
اس جملے میں دو نقاط ہیں، ایک مذہب کو ماننا اور مذہب کا کردار پر اثر

1-ماننے والے کس حد تک مان رہے ہیں کیا ان کا ماننا حقیقت میں بھی ماننا کہلائے گا؟ جبکہ وہ مذہب پرمکمل طور پر عمل پیرا نہیں ہیں اور زیادہ طرح زبانی کلامی دعوے ہیں

2- اگر متعلقہ افراد اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہیں اور صرف ماننے کے دعویدار ہیں تو کردار پر اثر کا کیا مطلب ہوگا

مذہب تو معاشرتی برائیاں.جھوٹ،غیبت ،حسد،چوری وغیرہ سے منع کرے تو پیروی کے دعوی دار بلا تردد ان میں ملوث ہوں تو اس میں مذہب کا کیا قصور؟ ایسے مبینہ ماننے والے اپنے مذہب کی تعلیمات کے عکاس نہیں ہیں اور ان کا ماننے یا پیروی کا دعوی غلط ہے
اگر مذہب اپنے پیروکاروں کو بدل ہی نہیں سکتا تو پھر ایسے خیالی مذہب کا فائدہ؟
 
سینہ بسینہ روایت ہے کہ :
ایک سعودی نوجوان کو اسکے کچھ دوست ایک ماہرِ نفسیات کے کلینک میں لے گئے اور ڈاکٹر کے سامنے لا بٹھایا۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا کہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن دوستوں کا اصرار ہے کہ میں آپ سے مل لوں۔
ڈاکٹر نے میز پر پڑے ہوئے ایک کاغذ پر ایک عمودی لکیر لگائی اور نوجوان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
۔۔۔ایک خوبصورت جوان لڑکی کھڑی ہے۔
ڈاکٹر نے کاغذ پر ایک قائمہ زاویہ بنایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے
۔۔۔۔ایک خوبصورت جوان لڑکی جھک کر زمین سے کچھ اٹھا رہی ہے۔
ڈاکٹر نے اب ایک افقی لکیر کاغذ پر کھینچی اور پھر وہی سوال کی۔
۔۔۔۔ایک خوبصورت نوجوان دوشیزہ بستر پر سو رہی ہے۔
ڈاکٹر نے قلم میز پر رکھ دیا اور کہا۔۔مجھے پتہ چل گیا ہے کہ آپکے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ آپکے دماغ پر جنسیات سوار ہیں۔ فوراّ کسی سے شادی کرلیجئے، آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔
نوجوان طیش کے عالم میں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلا کر بولا:
۔۔۔میرا کیا قصور ہے؟ فحش تصویریں تو آپ بنا رہے ہیں۔۔۔۔
 

وجی

لائبریرین
اگر مذہب اپنے پیروکاروں کو بدل ہی نہیں سکتا تو پھر ایسے خیالی مذہب کا فائدہ؟
کیا مذہب اپنے پیروکار خود چن سکتا ہے ؟؟
یا پھر کوئی انسان کسی مذہب کا پیروکار بنتا ہے ؟؟
اگر ہاں تو پھر مذہب کا اس میں کیا قصور کہ وہ انسان بدل نہ سکا؟؟
 

نایاب

لائبریرین
سینہ بسینہ روایت ہے کہ :
ایک سعودی نوجوان کو اسکے کچھ دوست ایک ماہرِ نفسیات کے کلینک میں لے گئے اور ڈاکٹر کے سامنے لا بٹھایا۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا کہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن دوستوں کا اصرار ہے کہ میں آپ سے مل لوں۔
ڈاکٹر نے میز پر پڑے ہوئے ایک کاغذ پر ایک عمودی لکیر لگائی اور نوجوان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
۔۔۔ایک خوبصورت جوان لڑکی کھڑی ہے۔
ڈاکٹر نے کاغذ پر ایک قائمہ زاویہ بنایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے
۔۔۔۔ایک خوبصورت جوان لڑکی جھک کر زمین سے کچھ اٹھا رہی ہے۔
ڈاکٹر نے اب ایک افقی لکیر کاغذ پر کھینچی اور پھر وہی سوال کی۔
۔۔۔۔ایک خوبصورت نوجوان دوشیزہ بستر پر سو رہی ہے۔
ڈاکٹر نے قلم میز پر رکھ دیا اور کہا۔۔مجھے پتہ چل گیا ہے کہ آپکے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ آپکے دماغ پر جنسیات سوار ہیں۔ فوراّ کسی سے شادی کرلیجئے، آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔
نوجوان طیش کے عالم میں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلا کر بولا:
۔۔۔میرا کیا قصور ہے؟ فحش تصویریں تو آپ بنا رہے ہیں۔۔۔۔
آئینہ دکھلا رہی ہے یہ روایت ۔۔۔
گر خواہش ہو عکس دیکھنے کی ۔۔
عقل مند راہ اشارہ کافی است ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے خیال میں کنیزوں اور غلاموں کا معاملہ مذہب کے بجائے سیاسی ہے،اور انکو خدمت کیلئے ہی رکھا جاتا تھا۔ اسلئے اگر کنیزوں سے بھی آزاد عورت کی طرح پردہ کرایا جاتا تو حرج واقع ہوتا۔
آزاد عورت کیلئے بقدر ضرورت جانے کی اجازت ہے۔ بلکہ کاروبار تک کر سکتی ہے۔نیز سعودی عرب اسلام کیلئے بطور مثال ہرگز نہیں ہے۔

میں بس آہ بھر کر خاموش ہو گئی ہوں۔
اگر آپ کو کنیز باندیوں کے حجاب اور انکے ساتھ ہونے والے تمام حقائق سے آگاہی ہوتی تو آپ یہ عذر پیش نہ فرماتے۔
 

زیک

مسافر
میرے خیال میں کنیزوں اور غلاموں کا معاملہ مذہب کے بجائے سیاسی ہے،اور انکو خدمت کیلئے ہی رکھا جاتا تھا۔ اسلئے اگر کنیزوں سے بھی آزاد عورت کی طرح پردہ کرایا جاتا تو حرج واقع ہوتا۔
واو! کیا سیاسی مذہبی بات کی ہے
 

x boy

محفلین
کیا یہ حقیقت نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سارے مہمانوں کی نظریں دروازے پہ لگی تهیں مگر دلہن آنے کا نام ہی نہیں لے رہی..اللہ اللہ کر کے دلہن آی..دلہن کی نند میرے پاس آکر بیٹهی تو میں نے تاخیر کی وجہ پوچهی..وہ بولی..بهابهی کا فوٹو سیشن چل رہا تها..میں نے کہا..اچها..تو بهای بهابهی ادهر مصروف تهے...وہ بولی...نہیں بهائ تو کب کے آچکے تهے انہوں نے مہمانوں کو ریسیو کرنا تها...یہ سن کر مجهے کچه ماہ پہلے کا وہ منظر یاد آگیا..جب ہم بهتیجی کی شادی میں ہال میں داخل ہوئے تو ہال میں برائڈل روم کے سامنے خاصے لوگ جمع تهے..اور روم بند تها..جب وجہ معلوم کی تو پتا چلا فوٹو سیشن ہو رہا..اور مووی بنانے والے دونوں نوجوانوں نے سب کو باہر نکال دیا کہ مداخلت میں کام نہیں کر سکتے..کمرہ کهلنے پر هم اندر گیے تو وہ انتہائ نروس اور پریشان تهی..میرے استفسار پر آنسو روکتے ہوئے بولی کی وہ مستقل اسے شانے پہ ہاته رکه کے اٹهاتے بهٹاتے رہے ہیں کہ اتنی مہنگی مووی اور آپ تعاون نہیں کر رہی...
یہ معاشرے کے گهر گهر کی کہانی ہے..وہ فوٹو اور ویڈیوز جو خاندان کا ہر فرد دیکهتا ہے..وہ ایک دن جب قرآن پاک کے سایے میں دلہن کو رخصت کرتے ہوئے بهنگڑے ڈالے جاتے..مخلوط تقریبات منعقد کر کے اپنی ہی بیٹی کو سجا سنوار کے اسکی نمائش کا موقعہ پیدا کر دیتے...اور مووی میکرز کیمرے کی آنکه سے اپنی شیطانی جزبوں کی تسکین پروفیشن کے نام پہ کرتے ہیں...ٹیلرز ناپ لینے کے چکر میں.شاپ کیپرز پیسے پکڑانے کے چکر میں ہاته سے ہاته مس کرتے..مگرکوئ محسوس ہی نہیں کرتا..کیوں؟؟؟؟
ہمارے دین کی امتیاز ہی شرم و حیا ہے..حیا سے محروم لوگ معاشرے کی زنجیر کی سب سے کمزور کڑی ہوتے ہیں..حیا اگر معاشرے سے اٹھ گئ تو پهر اب اس میں حیرت کیا؟؟؟ ۔
 

نظام الدین

محفلین
حجاب اور پردہ یہ دو لفظ سننے کے ساتھ ہی سب سے پہلا خیال جو سب کے ذہن میں آتا ہے وہ ہے برقعے یا ملتے جلتے لباس میں لپٹی ہوئی عورت
اسلام میں اصل حجاب کیا اور کتنا ہے یہ تو ایک الگ بات ہے
لیکن میرا خیال ہے کہ عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی حجاب کرنا چاہیے
جیسے عورت کا حجاب یہ ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی کو نا محرم سے چھپا لے اسی طرح مرد کا حجاب یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھ کو نامحرم کی خوبصورتی سے چھپالے۔
 
صرف ایک سوال جس کا جواب مجھے درکار نہیں ہے۔ اپنے اپنے مقام پر خود دیکھ لیجئے۔
اس بحث میں حصہ لینے والے جملہ مسلمان حضرات و خواتین! کل فجر سے اب تک آپ نے کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟ حضرات اس میں لفظ "باجماعت" بھی شامل کر لیں۔
اللہ حافظ ۔۔۔
 

عثمان

محفلین
صرف ایک سوال جس کا جواب مجھے درکار نہیں ہے۔ اپنے اپنے مقام پر خود دیکھ لیجئے۔
اس بحث میں حصہ لینے والے جملہ مسلمان حضرات و خواتین! کل فجر سے اب تک آپ نے کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟ حضرات اس میں لفظ "باجماعت" بھی شامل کر لیں۔
اللہ حافظ ۔۔۔
ایک اور سوال جس کا جواب مجھے بھی درکار نہیں ہے۔ اپنے مقام پر خود ہی دیکھ لیجیے۔
جن ملاؤں نے یہ قانون پاس کرایا ہے ان کی نمازیں بھی ترک نہیں ہوتی ہونگی۔ تو اس سے بھلا کیا ثابت ہوا؟
یا جنہوں نے یہاں اس قانون پر احتجاج کیا ہے ان میں سے بھی کچھ کی کل سے کوئی نماز ترک نہ ہوئی ہو گی۔ کیا ثابت ہوا؟
اللہ حافظ۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
غلامی کی تاریخ

اسلام میں غلامی یہود و نصاریٰ اور دیگر کچھ مذاہب سے بھی بدتر ہے

مسلمانوں کے دماغ کی یہ برین واشنگ کی گئی ہے کہ اسلام نے غلاموں کو دیگر تمام ادیان سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے، بلکہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو کہ مسلمانوں کے دماغوں میں بٹھایا گیا ہے۔ حقیقت اسکے برعکس ہے۔

۔1) مہاتما بدھ کے زمانے میں تو اور زیادہ جہالت تھی۔ انکا زمانہ تو جناب عیسی سے بھی پہلے کا ہے۔ مگر اسکے باوجود مہاتما بدھ نے فقط انسانیت کے نام پر غلامی کا عملی خاتمہ کیا۔ اس انسانیت کی طرف انکی رہنمائی کسی الہامی خدائی طاقت نے نہیں کی بلکہ یہ چیز انسان کی فطرت میں موجود ہے کہ وہ صحیح اور غلط کی تمیز کر سکتا ہے۔
مہاتما بدھ کے بعد (جناب عیسی سے پھر بھی قبل) چین میں قن اور چن نامی 2 خاندان حکومت میں آئے اور انہوں نے بھی اسی انسانیت کے نام پر غلامی کے خلاف آواز اٹھائی اور اسکا عملی خاتمہ کیا۔
انکے مقابلے میں اسلام دور دور تک غلامی کی لعنت کو دور نہیں کر رہا ہے، بلکہ غلامی کے لیے لنگڑے لولے بہانوں پر بہانے بنا رہا ہے۔

۔2) مسلمان علماء دوسرا دھوکا یہ دیتے ہیں کہ وہ غلامی کے نام پر فقط کفارِ عرب سے اسلام کا تقابل کر رہے ہوتے ہیں۔
نہیں، اسوقت سرزمینِ عرب پر فقط کفار ہی موجود نہ تھے، بلکہ یہودی اور عیسائی بھی موجود تھے جنکے ہاں غلامی کی حالت اسلام میں غلاموں کی حالت سے کہیں بہتر تھی۔
اسلام میں غلامی کے قوانین اور کچھ نہیں سوائے کفار اور اہل کتاب کی غلامی کے ملغوبہ کے (یعنی کچھ قوانین اہل کتاب سے لے لیے گئے تو کچھ کفار کے کلچر سے)۔

اسلام جوغلاموں سے اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے، تو یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ صدیوں پہلے بہت سے کلچرز تھے جو کہ غلاموں کو حقوق دیتے تھے اور یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی مسلمانوں سے بہتر احکامات موجود تھے کہ غلاموں کو اپنا بھائی سمجھو۔

انکا اسلام سے مختصرا تقابل یہ ہے کہ:۔

۔ اسلام میں کنیز باندی سے سیکس بالجبر کر کے جب مالک کا دل بھر جاتا تھا، تو وہ کنیز باندی کو اپنے کسی بھائی کے حوالے کر دیتا تھا تاکہ وہ اپنی شہوت پوری کرے۔ اور جب ان بھائیوں کا بھی دل بھر جاتا تھا تو وہ پھر کنیز باندی کو آگے نئے آقا کو بیچ دیتے تھے جو پھر سیکس بالجبر کرتاتھا اور یہ سلسلہ یوں جاری رہتا تھا۔

اہل کتاب بھی کنیز باندی سے سیکس بالجبر کی اجازت دیتے ہیں۔ لیکن ایک مرتبہ کنیز باندی سے سیکس بالجبر کر لینے کے بعد اسکا درجہ بیوی جیسا ہو جاتا تھا اور اسے آگے شہوت پوری کرنے کے لیے کسی بھائی کو دیا جا سکتا تھا اور نہ ہی آگے کسی نئے آقا کو فروخت کیا جا سکتا تھا۔

چنانچہ یہاں سوال ہے کہ اسلام یہودیوں اور عیسائیوں کے صدیوں بعد آیا، اور عرب سرزمین پر یہودی اور عیسائی کنیز باندیوں سے کہیں بہتر سلوک کر رہے تھے۔ مگر اسلام تو کنیز باندی کو مقام کو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے برابر بھی نہ لا سکا۔ کیوں؟ پھر کیسے اسے عالمگیر مذہب تسلیم کیا جائے؟
ذرا سوچئے تو آپ کو پتا چلے گا کہ ملا حضرات آپ کو برین واش کرتے ہیں اور غلامی کے حوالے سے تقابل فقط کفار کے کلچر سے کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ وہ تقابل کے لیے اس وقت اسی عرب کی سرزمین پر موجود یہودیوں اور عیسائیوں کے کلچر کو پیش نہیں کرتے؟ یہ کیوں نہیں بتلاتے کہ اسلام اس حوالے سے ہرگز کوئی نیا انقلاب نہیں لایا ہے بلکہ وہ تو یہودیوں اور عیسائیوں کا بھی مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے۔


۔ اسلام کی 1400 سالہ تاریخ یہ ہے کہ کنیز باندیوں کو آدھا ننگا کر کے (سینے بمع پستان کھلے ہوتے تھے) سربازار شہوت پرست مردوں کے درمیان نیلامی کے لیے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ اور گاہکوں کو خریداری سے قبل بقیہ نازک نسوانی اعضاء کو بھی ٹٹولنے کی اجازت ہوتی تھی جیسا کہ بھیڑ بکریوں کو خریدنے سے پہلے ٹٹولا جاتا ہے۔
یہ ایک انسانیت سوز فعل ہے اور ایسے بازاروں کی مثال یہودیت اور عیسائیت تک میں نہیں ملتی۔ مگر اسلام میں اس لیے موجود ہے کیونکہ یہ کفار عرب اور یہودی و نصاری کا ملغوبہ ہے۔ اسلام نے یہ چیز کفار کے کلچر سے لی۔

۔ مسلمان سب سے زیادہ مکاتبت کے حوالے سے فخر کرتے ہیں کہ اسلام کا انقلاب یہ تھا کہ وہ غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دیتا ہے۔ مگر اس موقع پر مسلمان علماء عوام کو یہ نہیں بتلا رہے ہوتے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں کہ جس پر اسلام فخر کر سکے، بلکہ صدیوں پرانی روایت تھی جو کہ کفارِعرب کے کلچر کا حصہ تھی اور حتیٰ کہ کفار عرب بھی غلاموں کو یہ حق دیتے تھے کہ وہ مکاتبت کر کے آزادی حاصل کر سکیں۔

۔ اسلام میں غلاموں اور کنیزوں کی گواہی سرے سے قابل قبول ہی نہیں۔ ایسے قوانین یہودیوں اور عیسائیوں میں نہیں پائے جاتے۔
۔ اسلام میں اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار مار کر قتل بھی کر دیتا تھا تو اس آقا پر کوئی حد جاری نہ ہوتی تھی۔
اور آقا کی بجائے کسی اور آزاد مسلمان نے بھی مار مار کر غلام کو قتل کر دیا تو اسکو بھی جواب میں قتل نہیں کیا جا سکتا تھا بلک زیادہ سے زیادہ یہ سزا تھی کہ وہ قاتل اس غلام کے مالک کو اس غلام کی "دیت" ادا کر دے، جو کہ آزاد مسلمان کے مقابلے میں "آدھی" تھی۔۔۔۔ سوچئے کہ بے چارے غلام کو کیا ملا؟ اگر آدھی دیت ملی بھی تو بھی وہ اسکے مالک کو، چاہے اس غلام کی کوئی بیوی اور بچے بھی موجود ہوں تب بھی دیت مالک کو ملے گی۔
اور غلام اور کنیز باندی کو مالک کی اجازت کے بغیر سرے سے شادی کی کوئی اجازت ہی نہیں ہوتی تھی۔ اور اگر مالک اپنی کسی کنیز کی شادی اپنے کسی غلام سے کر بھی دیتا تھا تب بھی مالک کو ہر وقت اجازت ہوتی تھی کہ کنیز کو واپس لے کر اسکے ساتھ سیکس بالجبر کر سکے۔
اور اگر غلام اور کنیز باندی کے ملاپ سے کوئی بچہ یا بچی پیدا ہوتے تھے، تو وہ بچہ یا بچی بھی مالک کے غلام کے طور پر ہی پیدا ہوتے تھے۔

اور اگر مالک اور کنیز باندی کے ملاپ سے کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو مالک (باپ) کی مرضی ہوتی تھی کہ اسکا نسب خود سے جوڑے یا پھر اس نسب کا انکار کر دے۔ اس صورت میں یہ بچہ مالک کا غلام بن جاتا تھا اور بچی کنیز باندی جسے وہ مالک (باپ) آگے بیچ کر پیسہ حاصل کرتا تھا (یہ شرمناک ترین چیز ہےمگر مذہب کی ناموس کی خاطر اسے بہت لائیٹ لیتے ہوئے مسلمان ہڑپ کر جاتے ہیں)۔

کنیز باندی کا ستر فقط ناف سے لیکر گھٹنوں تک تھا، اور یوں ہی اسے آدھا ننگا بازاروں میں نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا تھا جہاں سینکڑوں شہورت پرست مرد انکے آدھے ننگے جسموں پر نظریں جمائے ہوتے تھے۔ اگر اسلام کو واقعی کوئی انقلاب لانا تھا تو کم از کم کنیز باندی کے سینوں کو تو ڈھانک دیتا۔ اس سے تو یہودی و نصاری کہیں بہتر تھے۔
اگر کوئی کنیز باندی غلطی سے سر پر حجاب لے لیتی تھی تو سوٹیاں مار مار کر اسکے سر سے حجاب یہ کہتے ہوئے اتروا دیا جاتا تھا کہ اسے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آزاد مسلمان عورتوں کی برابری کرنے کے لیے سر پر حجاب لے۔

میں اور کیا کچھ حقائق بیان کروں؟ کاش کہ مسلمان عوام کو برین واش کرنے کی بجائے انکے سامنے 1400 سالہ تاریخ کے صحیح حقائق پیش کیے گئے ہوتے۔
 

محب اردو

محفلین
اسلام کےبارے جاننا ہے تو قرآن پڑھیں ، پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پڑھیں ، مسلمان دیکھنا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں ، آپ کے جانثاروں کی حیات کے درخشاں پہلو دیکھیں ، اسلام کی ابتداء فرد واحد سے ہوئی ، لوگوں نے اس کو عجیب و غریب جانا ، اس وقت ان غرباء اور انوکھے لوگوں کو اللہ نے ’’ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ ‘‘ کا سرٹیفکیٹ عطا کیا ، خالق کی مرضی کے مطابق اسلام چہار سو پھیلنے کے بعد ایک زمانہ آئے گا ، پھر عجیب و غریب تصور کیا جانے لگے گا ، مسلمان نسبتا تھوڑے رہ جائیں گے ، خدائے ذو الجلال نے ایسے لوگوں کے لیے بذریعہ زبان نبوت ایک دفعہ پھر اعلان کیا ’’ فطوبی للغرباء ‘‘ ۔ نام نہاد تہذیب و ثقافت کی چکاچوند کو نظر انداز کرکے ’’ اسلام ‘‘ کا دامن تھامنے والوں کے لیے بڑی خوشخبری اور سعادت ہے ۔
کاش ہم مسلمانوں کی کمزوریوں پر وقت صرف کرنے کی بجائے اسلام کی خوبیاں تلاش کریں ۔
اللہ نے اسلام کو ’’ نعمت ‘‘ قرار دیا ہے ، ’’ انعام ‘‘ قرار دیا ہے ، ’’ کامل و اکمل ‘‘ قرار دیا ہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس نعمت کے حقدار ہوئے ، اس انعام سے سرفراز ہوئے ، اس جمال و کمال کو حاصل کرکے سرخرو ہوئے ۔
ہدایت کی دعا ہے ان لوگوں کے لیے جو انعام کے حصول کی تگ و دو اور آگے بڑھنے کی بجائے ، لائن میں کھڑے دعویداروں سے مڈبھیڑ میں وقت ضائع کر رہے ہیں ۔
 

x boy

محفلین
بسم اللہ
الحمد للہ
اصلواۃ السلام علی رسول الکریم
رب اشرح لي صدري ويسر لي أمري واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولي
لجميع اخواني في الله !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل عام وانتم بخیر،
امابعد؛
عزیز پڑھنے والے خوش آمدید کے بعد

جومسلمان کم علم ہے یا سرے سے اسلام کے بارہ میں نابلد ہیں ، لیکن جس نے دین اسلام عمل کیا اوراس میں پائے جانے والے عقیدہ کواپنا عقیدہ بنایا اوراس پرعمل کیا تواسے بالفعل اس نعمت کی مقدارکا علم ہوگا جس میں وہ زندگی گزار رہا اوراسلام کے سائے میں رہ رہا ہے ، اس کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے چندایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

1 - مسلمان صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے ، اس اللہ تعالی کے اچھے اچھے اسماء اوربلند صفات ہيں ، تومسلمان کا نظریہ اورقصد متحد ہوتا ہے اوروہ اپنے رب پربھروسہ کرتا جواس کا خالق ومالک ہے وہ اسی اللہ تعالی پرتوکل کرتا اوراسی سے مدد وتعاون اورنصرت تائيد طلب کرتا ، اس کا اس پرایمان ہے کہ اللہ تعالی ہرچيز پرقادر ہے ۔

وہ نہ توبیوی کا محتاج ہے اورنہ اسے اولاد کی ضرورت ہے ، اس نے آسمان وزمین کوپیدا کیا وہی مارنے والا اورزندگی دینےوالا ہے ، اوروہی خالق و رازق ہے جس سے بندہ رزق طلب کرتا ہے ، اللہ تعالی ہی دعاؤں کوسننے اورقبول کرنے والا ہے توبندہ اسے پکارتے ہوئے قبولیت کی امید رکھتا ہے ۔

وہ توبہ قبول کرنے والا اوربڑا رحیم مہربان ہے توبندہ جب بھی کوئ گناہ کرتااوراپنے رب کی عبادت میں کوئ کمی و کوتاہی کربیٹھے تواسی کی طرف توبہ کرتا ہے ۔

وہ اللہ علم رکھنے والا اوربڑخبردار اورشہید ہے جس کے علم سے کوئ چيزغیب نہیں جونیتوں اورسب رازوں اورجوکچھ سینوں میں چھپا ہےاس سے واقف ہے ، توبندہ اپنے آپ پریا پھر مخلوق پرظلم کےساتھ گناہ کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے اس لیے کہ اس کا رب اس پرمطلع ہے اوردیکھ رہا ہے ۔

مسلمان بندے کوعلم ہے کہ اس کا رب بڑا باحکمت ہے وہ عالم الغیب ہے توبندہ اس کے اختیار پربھروسہ کرتا اوراپنے بارہ میں اس کی تقدیرپرایمان رکھتا ہے ، اوراس کا اس پرایمان ہے کہ اس کا رب کسی پرذرہ برابر بھی ظلم نہيں کرتا ، اللہ تعالی نے اس کے بارہ جوبھی فیصلہ کیا اس میں ہی بہتری ہے اگرچہ اس کی حکمت سے بندہ ناواقف ہے ۔

2 - مسلمان پراسلامی عبادات کی اثراندازی :

نماز مسلمان اوراس کےرب کے درمیان رابطہ ہے جب مسلم نمازمیں خشوع وخصوع اختیاکرتا ہے تواسےسکون و اطمنان اورراحت کا احساس ہوتا ہے اس لیے کہ اس نے ایک قوی اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا اوراس کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔

اسے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضي اللہ تعالی عنہ کوفرمایا کرتے تھے : اے بلال رضي اللہ تعالی عنہ ہمیں نمازکے ساتھ راحت پہنچاؤ ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجبب بھی کوئ معاملہ لاحق ہوتا توآپ نماز کی طرف دوڑپڑتے ، اورجسے بھی کوئ مصیبت اورمشکل پیش اوراس نے نماز کا تجربہ کیا تواس نےاپنی اس مصیبت میں مدد وتعاون اورصبر محسوس کیا ، یہ کیوں نہ ہووہ تونماز کے اللہ رب العزت کا کلام تلاوت کررہا ہے ، اوراللہ رب العزت کی کلام تلاوت کرنے میں جواثر ہے اس کا مخلوق کی کلام پڑھنے میں اثرسے مقارنہ نہیں ہو سکتا ۔

اوراگر بعض نفسیاتی امورکے طبیبوں اورڈاکٹروں کی کلام میں راحت اورتخفیف ہے توپھر اللہ تعالی کی کلام کا کیا کہنا جو اس نفسیاتی مرضوں کےڈاکٹراور طبیب کا بھی خالق ہے ۔

اورجب ہم زکاۃ جوکہ ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے کی طرف دیکھتے ہیں تواسے نفسی بخل اورکنجوسی کی تطہیر پاتے ہیں جوکرم وسخاوت اورفقراء اورمحتاجوں کی مدد وتعاون کاعادی بناتی ہے ، اوراس کا اجرو ثواب بھی دوسری عبادات کی طرح روز قیامت نفع و کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔

یہ زکاۃ مسلمان پردوسرے بشری ٹیکسوں کی طرح کوئ بوجھ و مشقت اورظلم نہيں ، بلکہ ہر ایک ہزار میں صرف پچیس ہیں جو کہ سچا اور صدق اسلام رکھنے والا مسلمان دلی طور پرادا کرتا ہے اوراس کی ادائيگي سے نہ توگھبراتا اورنہ ہی بھاگتا ہے حتی کہ اگر اس کے پاس لینے والا کوئ بھی نہ جائے تووہ پھربھی اسے ادا کرتا ہے ۔

اورروزے میں مسلمان اللہ تعالی کی عبادت کےلیے ایک وقت مقررہ کےلیے کھانے پینے اورجماع سے رک جاتا ہے ، جس سے اس کے اندر بھوکےاورکھانے سے محروم لوگوں کی ضرورت کے متعلق بھی شعورپیدا ہوتا ہے اوراس میں اس کےلیے خالق کی مخلوق پرنعمت کی یاد دہانی اور اجر‏عظیم ہے ۔

اوراس بیت اللہ کا حج جسے ابراھیم علیہ السلام نے بنایا جس میں اللہ تعالی کے احکامات کی پاپندی اوردعا کی قبولیت اورزمین کے کونے کونے سےآئے ہوئے مسلمانوں سے تعارف ہوتا ہے یہ بھی ایک عبادت اوررکن اسلام ہے ۔

3 - بلاشبہ اسلام نے ہرخیرو بھلائ کا حکم دیا اورہربرائ اورشر سے روکا ہے ۔

اسلام نے اچھے آداب اوراخلاق حسنہ کا حکم دیا ہے مثلا : صدق وسچائ ، حلم وبردباری ، رقت و نرمی ، عاجزي وانکساری ، تواضع ، شرم وحیاء ، عھدو وفاداری ، وقار و حلم ، بہادری و شجاعت ، صبر وتحمل ، محبت و الفت ، عدل و انصاف ، رحم ومہربانی ، رضامندی و قناعت ، عفت و عصمت ، احسان ، درگزرو معافی ، امانت و دیانت ، نیکی کا شکریہ اداکرنا ، اورغیض وغضب کوپی جانا ۔

اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ، والدین سے حسن سلوک کیا جائے اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جائے ، بے کس کی مدد وتعاون کیا جائے اورپڑوسی سے احسان کیا جائے ، یہ بھی حکم دیتا ہے کہ یتم اوراس کے مال کی حفاظت کی جائے اورچھوٹے بچوں پر رحم اوربڑوں کی عزت و توقیراوراحترام کیا جائے ۔

ملازموں اورغلاموں اورجانوروں سے نرم کےساتھ پیش آیا جائے ، راستے سے تکلیف دہ اشیاء کوہٹايا جائے ، اورلوگوں سے اچھی بات کی جائے اورطاقت ہونے کے باوجود ان سے عفو درگزرسے کام لیا جائے ۔

مسلمان بھائ کی نصیحت و خیرخواہی کی جائے ، اورمسلمانوں کی ضروریات کوپورا کیا جائے ، اورتنگ دست مقروض کواوروقت دیا جائے ، ایک دوسرے پرایثار کیا جائے ، اورغم خواری اور تعزیت کی جائے ، لوگوں سے ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملا جائے ۔

اوریہ بھی حکم ہے کہ بے کس ومجبور کی مدد کی جائے ، مريض کی عیادت و بیمار پرسی کی جائے ، اورمظلوم کی مدد ونصرت کرنی ضروری ہے ، اپنے دوست و احباب کوتحفے تحائف اورھدیے دیے جائيں ، مہمان کی عزت واحترام اورمہان نوازی کی جائے ۔

میاں بیوی آپس میں اچھے طریقےسے زندگی گزاریں ، اورخاوند اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے ان کی ضروریات پوری کرے ، سلام عام کریں ، اورگھروں میں داخل ہونے سے قبل اجازت طلب کریں تا کہ گھروالوں کی پے پردگی نہ ہو ۔

اور اگرچہ بعض غیرمسلم بھی ان میں سے بعض کام کرتے ہیں لیکن وہ یہ کام صرف عمومی آداب کے اعتبار سے کرتے جس میں انہیں اللہ تعالی کی جانب سے کوئ اجروثواب حاصل نہیں ہوتا اورنہ ہی انہیں روزقیامت کامیابی وکامرانی اورفلاح حاصل ہوگی ۔

اوراگرہم اسلام کی منع کردہ امورکی طرف آئیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان میں ہی معاشرے اورافراد کی ہرمعاملہ میں مصلحت ہے اوربندے اوراس کے رب اورانسانوں کے آپس میں تعلقات کی مضبوطی وحمایت ہوتی ہے ، ذيل میں ہم اسی کی چند ایک مثالیں بیان کرتے ہيں تا کہ اس کی مزیدوضاحت ہوسکے :

اسلام نے اللہ تعالی کےساتھ شرک اورغیراللہ کی عبادت کرنے سے منع کیا ہے ، اس لیے کہ غیر اللہ کی عبادت شقاوت و بدبختی کا با‏عث ہے ، اوراسی طرح اسلام نے نجومیوں اورکاہنوں کے پاس جانے اوران کی باتوں کی تصدیق کرنے سےبھی منع کیا ہے

اوراسلام میں جادوکرنا بھی حرام ہے جس سے دوشخصوں کے درمیان یاتوجدائ ڈالی جاتی اوریا پھر ان میں محبت ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے کہ ستاروں اوربرجوں کے بارہ میں یہ اتعقاد رکھا جائے کہ یہ انسان کی زندگی پراثرانداز ہوتے ہیں اوراسی کی بنا پرمختلف حادثات رونما ہوتے ہیں ۔

اسلام نے زمانے کوگالی دینے سے بھی منع کیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی ہی اسے گردش میں لانے والا ہے ، اوراسلام بدفالی اورنحوست کا عقیدہ رکھنے سے منع کرتا ہے ۔

اسلام اعمال کوتباہ برباد کرنے سے بھی روکتا ہے ، جس طرح کہ اعمال کرتے وقت ریا کاری اوردکھلاوے کے لیے اوراحسان جتلاتے ہوئے کا کرنا ۔

اسلام کسی سے سامنے جھکنے اوررکوع وسجود کرنے سے اورمنافقوں کی مجالس میں بیٹھنے اوران کے ساتھ محبت والفت کرنے سےبھی منع کرتا ہے اوراسی طرح آپس میں ایک دوسرے کولعن طعن کرنے یا اللہ کے غضب ا‎س کی آگ کے ساتھ کسی کولعنت کرنے سے بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام میں یہ بھی منع ہے کہ کھڑے پانی میں پیشاب کیا جائے اورراستے اورلوگوں کے سائے اورپانی لینے والی جگہ میں قضائے حاجت کرنا بھی اسلام کے خلاف ہے ، اوراسی طرح اسلام یہ منع کرتا ہے کہ قضائے حاجت میں قبلہ رخ نہ ہوا جائے اورنہ ہی اس کی پیٹھ کرکے پیشاب وپاخانہ کیا جائے ۔

اسلام نےپیشاب کرتے وقت دائيں ہاتھ سے شرمگاہ پکڑنا بھی منع قرار دیا ہے ، اوریہ بھی منع ہے کہ قضائے حاجت کرنے والے کوسلام کیا جائے ، اورسوکراٹھنے والے کوہاتھ دھوئے بغیر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے منع کیا ہے ،۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ طلوع شمس اورزوال اورغروب شمس کے وقت نفلی نمازادا نہ کی جائے اس لیے کہ سوج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے ۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ جب سخت بھوک لگی ہواورکھانا بھی لگ چکا ہوتونماز نہ پڑھی جائے بلکہ پہلے کھانا کھا یا جائے ، اور اسی طرح پیشاب اورپاخانہ آیا ہوا ہوتو نماز پڑھنی منع ہے اس لیے کہ یہ سب کچھ نمازی کومشغول کرکے نماز کے مطلوبہ خشوع وخضوع کوختم کردے گا ۔

یہ منع ہے کہ نماز میں آواز اونچی کرکے دوسرے سوئے ہوئے لوگوں کوتکلیف دی جائے اوراپنے آپ کونیند اوراونگھ آرہی ہوتو تھجدکی نمازپڑھنا منع ہے بلکہ سونا بہتر ہے اورسوجائے اورپھراٹھ کرنماز ادا کرلے ، اورساری رات قیام کرنے سے بھی منع کیا گيا ہے ۔

یہ بھی منع ہے کہ نمازی وضوء ٹوٹنے کےشک سے ہی نماز ختم کردے بلکہ جب تک وہ آواز نہ سنے یا پھر بدبونہ سونگ لے نماز کوختم نہيں کرنا چاہيئے ۔

اسی طرح اسلام یہ بھی منع کرتا ہے کہ مسجد میں خرید وفروخت کی جائے اورکسی گمشدہ چيزکا اعلان کیا جائے ، اس لیے کہ یہ اللہ تعالی کی عبادت اوراس کے ذکر کی جگہ ہے ، جس میں دنیاوی امورکرنے لائق اورصحیح نہیں ۔

اسلام نے یہ بھی منع کیا ہے کہ ایک دن کے ساتھ دوسرے دن کوورزہ رکھنے میں بغیر کھا ئے پیئے اورافطاری کیے ملا لیا جائے ، اوریہ بھی منع ہے کہ بیوی خاوند کی موجودگي میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے ۔

قبروں پرعمارتیں بنانا اورقبریں پکی کرنا اورانہیں اونچی کرنا ان پربیٹھنا اوران کے درمیان جوتوں سمیت چلنا اوران پرچراغاں کرنا ان پرکتبے وغیرلکھ کرلگانا ، اوران پر مساجد تعمیر کرنا یہ سب کچھ منع ہے اورقبروں کوکھودنا ۔

اسلام میں نوحہ کرنا اورکپڑے پھاڑنا ، اورکسی میت کے مرثیے پڑھنا ، اورجاہلیت کی طرح کسی کے مرنے کی خبردینا منع ہے لیکن صرف موت کی خ۔بردینے میں کوئ حرج نہيں ۔

اسلام نے یہ منع کیا ہے کہ سود خوری کی جائے ، اورتمام ایسی خرید وفروخت جس میں دھوکہ فراڈ اورجہالت ہو منع ہيں ، خون ، شراب ، اورخنزیر کی خرید وفروخت اوربت فروشی منع ہے ۔

اورہروہ چیز جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اسے کی کمائ‏ اورخرید وفروخت منع ہے ، اوراسی طرح وہ بیع نجش بھی حرام ہے وہ یہ ہے کہ صرف قیمت زیادہ کرنے کے لیے بولی دی جائے اوراسے خریدنے کا کوئ ارادہ نہ ہویہ بھی حرام اورمنع ہے جس کہ آج کل بہت ساری بولیوں میں ہوتا ہے ۔

سامان فروخت کرتے وقت اس کے عیب چھپانا بھی منع ہیں ، اوروہ چيزفروخت کرنی بھی منع ہے جس کا وہ ابھی مالک ہی نہیں بنا ، اورچيزکواپنے قبضہ میں کرنے سے قبل فروخت کرنا بھی منع ہے ۔

کسی بھائ کی فروخت پر اپنی چيزفروخت کرنی بھی منع ہے ، اوریہ بھی منع ہے کہ کسی کی خریدی ہوي کوخود خرید لے ، اوراپنے کسی مسلمان بھائ کے بھاؤ پربھاؤ‎ لگانا بھی منع ہے ۔

اورپھلوں کی صلاحت کے ظاہرہونے اوران کے پکنے اورتباہ ہونےسےنجات سے قبل بیچنا بھی منع ہے ، اوراسی طرح ماپ تول میں کمی کرنا بھی منع ہے ، اوراسی طرح ریٹ بڑھانے کےلیے زخيرہ اندرزی کرنا بھی منع ہے ۔

شراکت والی اشیاءمثلا زمین ، اورکھجوروں کا باغ وغیرہ میں شریک شخص کوبتائے بغیر دوسرا شخص اپنا حصہ فروخت نہیں کرسکتا ، اسلام نے یتیموں کامال کھانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔

اسلام میں جوا کھیلنا اورلوگوں کا مال ودولت غصب کرنا ، رشوت لینا، اورلوگوں کا چھیننا اورباطل طریقے سے لوگوں کامال کھانا منع قرار دیا ہے ، اوراسی طرح لوگوں کامال ضائع کرنا بھی ناجائز ہے ۔

لوگوں کوان کی چيزوں میں کمی کرنا بھی منع ہے اورگری پڑی چيز چھپانا بھی منع ہے اوراسے اٹھانا بھی منع ہے لیکن وہ شخص جواس کا اعلان کرنا چاہے وہ اٹھا سکتا ہے ، ہرقسم کا دھوکہ فراڈ کرنا منع ہے ۔

قرض ادا نہ کرنے کی نیت سے قرض لینا جائزنہیں ، اورکسی مسلمان کے لیے اپنے کسی مسلمان بھائ کی کوئ بھی چیزاس کی اجازت اوررضا مندی کے بغیر لینی جائزنہیں ، اوراسی طرح سفارش کرنے کےلیے ھدیہ قبول کرنا بھی جائز نہيں ہے ۔

شادی نہ کرنا اوردنیاسے بالکل کٹ جانا جائزنہیں ، اوراسی طرح اپنے آپ کوخصی کرنا بھی جائزنہیں ہے ۔

اسلام نے ایک ہی نکاح میں دوبہنوں کواکٹھا کرنا منع کیا ہے ، اوریہ بھی منع ہے کہ ایک ہی نکاح میں بیوی اوراس کی پھوپھی ، اوربیوی اوراس کی خالہ کو جمع کیا جائے ، اس میں چھوٹی بڑی یا بڑی چھوٹی میں کوئ فرق نہيں ۔

اسی طرح اسلام نے نکاح شغار بھی منع کیا ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص یہ کہے مجھے اپنی بیٹی یا بہن نکاح میں دے دو میں آپ کواپنی بیٹی یا بہن دیتا ہوں ، تویہ دوسری کے بدلہ اورمقابلہ میں ہوگی جوکہ ظلم اورحرام ہے ۔

اوراسلام نے نکاح متعہ بھی حرام کیا ہے ، نکاح متعہ میں دونوں طرف سے ایک مقررہ مدت تک ہوتا ہے اوریہ مدت پوری ہونے پرختم ہوجاتا ہے جس میں طلاق کی ضرورت نہیں ۔

اسی طرح اسلام نے بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرنے سے منع کیا ہے ، بلکہ اس کے طہرمیں غسل کے بعد مجامعت کرنی چاہيئے ، اوربیوی سے دبر ( پاخانہ والی جگہ ) میں مجامعت کرنی حرام ہے ۔

اسلام میں یہ منع ہے کہ ایک ہی عورت سے ایک شخص کی منگنی پردوسرا شخص بھی منگنی کرلے ، دوسرے کواس وقت کرنی چاہیے جب پہلا اسے ترک کردے یا پھر اسے اجازت دے دے ۔

مطلقہ یا بیوہ عورت کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کرنا منع ہے ، اوراسی طرح کنواری سے بھی اجازت لینی ضروری ہے ، اسی طرح جاہلیت والی مبارکباد دینا منع ہے کہ اللہ آپ کوبیٹے دے ، اس لیے اہل جاہلیت بیٹیاں نا پسند کرتے تھے ۔

اسلام نے اس سے منع کیا ہے کہ وہ اپنے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کوچھپائے ، اوراسی طرح میاں اوربیوی کواپنے درمیان زوجگی کے تعلقات کودوسروں کے سامنے بیان کرنے سےمنع کیا گیا ہے ۔

بیوی کا خاوند کوتنگ کرنا منع ہے ، اوراسی طرح طلاق کوکھیل بنانا بھی منع ہے ، اورعورت کے لیے منع قراردیا گیا ہے کہ وہ خاوند سے دوسری بیوی کی طلاق طلب کرے ، یا پھرجس سے منگنی کی ہے اس ترک کروانے کی کوشش کرے ، مثلا عورت یہ مطالبہ کرے کہ پہلے اپنی بیوی کوطلاق دو توپھرمیں تم سے شادی کرتی ہوں ۔

بیوی کے لیے منع ہے کہ وہ خاوند کی اجازت کے بغیر اس کامال صدقہ کرے ، اسلام نے منع کیا ہے کہ عورت اپنے خاوند کا بستر چھوڑے ، اگروہ کسی شرعی عذر کےبغیر چھوڑتی ہے تو فرشتے اس پرلعنت کرتے ہیں ۔

اسلام اس سے منع کرتا ہے کہ مرد اپنے والد کی بیوی سے شادی کرے ، اسلام میں یہ بھی منع کیا ہے کہ کوئ‏ مرد کسی ایسی عورت سےمجامعت کرجسے کسی اورکا حمل ہو ، جماع میں آزاد بیوی کی اجازت کے بغیر عزل کرنا منع ہے ۔

اسلام میں منع ہے کہ خاوند سفرسے اچانک رات کواپنی بیوی کے گھر جائے ، لیکن اگر اس نے آنے کی اطلاع دے دی ہے توپھر کوئ حرج نہیں ۔

اسلام نے خاوند کوعورت کا مہر اس کی اجازت کے بغیر لینے سے منع کیا ہے ، بیوی کوتنگ کرنا تا کہ اس سے مال اینٹھا جا سکے یہ منع ہے ۔

عورتوں کوبے پردگی سے منع کیا گیا ہے ، عورت کے ختنہ میں مبالغہ کرنا بھی منع ہے ، بیوی خاوند کے گھرمیں کسی کوبھی خاوند کی اجازت کے بغیر داخل نہيں کرسکتی ، اس میں اس کی عام اجازت کا فی ہوگی جب کہ اس میں کوئ شرعی مخالفت نہ پائ جائے‌ ۔

اسلام والدہ اوراس کے بچے کے درمیان تفریق کرنے سے منع کرتا ہے ، اسلام بے غیرتی سے منع کرتا ہے ، اوراجنبی عورت کی جانب اچانک نظر کے علاوہ دیکھتے ہی رہے سے منع کرتا اوراسی طرح باربار دیکھنے سے بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام میں مردارکھانے سے منع کیا گيا ہے چاہے وہ پانی میں ڈوب کرمرے یا گردن گھٹنے یا پھر گرنے سے اس کی موت واقع ہو ، اوراسی طرح خون بھی حرام ہے اورخنزیر کا گوشت بھی حرام ہے ، اوروہ جانوربھی حرام ہے جس پراللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو ، اورجوبتوں یا پھر غیر اللہ کے لیے ذبح گيا ہو ۔

اسلام نے اس جانور کوبھی کھانے سے بھی منع کیا جوگندگی اورنجاست کھاتا ہے اور اسی طرح اس کا دودھ پینا بھی جائز نہیں ، اورہر کچلی والا جانور کھانا منع ہے ، اورپرندوں میں سے ذومخلب یعنی جوپنجے کے ساتھ شکارپرجھپٹے وہ حرام ہے ۔

گدھے کا گوشت بھی حرام ہے ، اورچوپائیوں تنگ کرنا حتی کہ وہ مر جائے اس سے بھی منع کیا گیا ہے یا اسے چارہ نہ ڈالیں حتی کہ وہ مرجائے اس سے بھی منع کیا گیا ہے ، اوردانتوں اورناخنوں سے ذبح کرنا بھی منع ہے ، یا یہ کہ ایک جانورکی موجودگی میں دوسرے کو ذبح کیا جائے ، اوراس کے سامنے چھری تیز کرنے سے بھی منع کیا گيا ہے ۔

لباس اورزیائش و زینت :

لباس میں اسراف وفضول خرچی سے منع کیا گیا ہے اورمرد کے لیے سونا پہننا حرام ہے ، اسلام نے ننگے ہوکرچلنے سے منع کیا ہے اوراسی طرح ران ننگی کرنے سے بھی منع کیا ہے ۔

کپڑے ٹخنے سے نیچے لٹکانا جائز نہيں ، اورنہ ہی تکبر کرتے ہوئے زمین پرکھینچ کرچلنا چاہیے اورشہرت والا لباس بھی نہیں پہننا چاہیے ۔

اسلام میں جھوٹی گواہی دینا جائزنہیں ، اورپاکباز عورتوں پربہتان لگانا منع ہے ، اور اسی طرح بری لوگوں ہرغلط قسم کے بہتان اورتہمت لگانا بھی اسلام میں اجازت نہیں ۔

اسلام میں چغلی خوری اورعیب جوئ اوربرالقابات سے پکارنا حرام ہے ، اوراسی طرح غیبت اوردوسرے مسلمانوں کا مذاق اڑانا ، اورحسب ونسب میں فخرکرنا جائز نہيں ، اوراسی طرح کسی کے نسب میں طعن وتشنیع کرناصحیح نہیں ۔

اور اسی طرح اسلام نے سب وشتم اورگالی گلوچ اورفحش گوئ اور بدزبانی کرنی اورڈینگیں مارنیں ممنوع قرار دی ہيں ، اوراسی طرح برائ کا چرچا نہیں کرنا چاہیے مگر مظلوم اسے لوگوں کے سامنے بیان کرسکتا ہے ۔

جھوٹ بولنے سے روکا گیا ہے اورسب سے بڑا جھوٹ نیند کے بارہ میں ہے مثلا اپنی طرف سے ہی خوابیں بنا بنا کر بیان کی جائيں تا کہ اس سے فضیلت حاصل ہو اوریا پھرمالی فائدہ حاصل کیا جاسکے ، یاپھراپنے دشمن کوڈرانے دھمکانے کےلیے ۔

اورخود اپنے آپ کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گيا ہے ، اورسرگوشی کرنا بھی منع ہے وہ اس طرح کہ تین آدمیوں میں سے دو آپس میں سرگوشیاں نہ کریں اس لیے کہ تیسرا اس سے غمگين ہوگا ، اور اسی طرح مومن اورمسلمان آدمی اورجو لعنت کا مستحق نہیں اس پرلعنت کرنے سے بھی منع کیاگیا ہے ۔

فوت شدگان کوبرا کہنے اور ان پرسب وشتم کرنے سے منع کیا گیا ہے ، اوراسی طرع موت کی دعا کرنا یا کسی تکلیف کی بنا پرموت کی تمنا کرنا بھی منع ہے ، اسی طرح اپنے لیے اوراولاد اورخادم اورمال کے لیے بھی بددعا کرنی بھی جائز نہیں ہے ۔

اسلام میں دوسروں کے آگے سے اوربرتن درمیان سےکھانا اٹھا کرکھانا بھی ممنوع ہے ، بلکہ برتن کے کناروں اورسائڈوں سے کھانا چاہیے اس لیے کے درمیان میں برکت کانزول ہوتا ہے ، اوراسی طرح برتن کی ٹوٹی ہوئ جگہ سے پانی وغیرہ پینا بھی منع ہے تا کہ وہ نقصان نہ دے ۔

اورمشکیزے وغیرہ سے منہ لگا کربھی پینا صحیح نہیں اورپیتے وقت تین سانس میں پینا چاہیے اور اسی طرح پیٹ کے بل لیٹ کرکھانا منع ہے اور ایسے دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا بھی منع ہے جہاں پرشراب نوشی ہورہی ہو ۔

سوتے وقت چولہے میں آگ جلتی چھوڑنا بھی منع ہے ، اوراسی طرح ہاتھ میں کھانے وغیرہ کی چکناہٹ لگي ہوئ توبغی دھوئے سونا منع ہے ، اورپیٹ کے بل سونا بھی صحیح نہيں ، اورانسان کوگندی اوربری خواب بیان کرنے یا اس کی تعبیر کرنے سے بھی روکا گیا ہے ، کیونکہ یہ شیطانی خواب ہے ۔

کسی کوناحق قتل کرنا حرام ہے ، اوراسلام نے فقروغربت کے سبب سے اولاد کوقتل کرنا بھی حرام قراردیا ہے ، اورخودکشی بھی حرام ہے ، اسلام زناکاری اورلواطت ، اورشراب نوشی کرنے شراب کشیدکرنے اوراس کی خرید وفروخت بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے کہ اللہ تعالی کوناراض کرکے لوگوں کوراضي کیا جائے ، اوروالدین کوبرا کہنے اورانہيں ڈانٹنے سے منع کیا ہے ، اوراسلام اس سے منع کرتا ہے کہ اولاد اپنے والد کوچھوڑ کرکسی اورکی طرف نسبت نہ کرے ۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ کسی کوآگ کا عذاب نہ دو ، اورنہ ہی کسی زندہ یا مردہ کوآگ میں جلاؤ ، اوراسلام مثلہ کرنے سے بھی منع کرتا ہے ، ( مثلہ یہ ہے کہ قتل کرنے کے بعد اس کے مختلف اعضاء کاٹ کراس کی شکل بگاڑ ی جائے ) اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام باطل اورگناہ ومعصیت ودشمنی میں تعاون کرنے سے منع کرتا ہے ، اوراللہ تعالی کی معصیت میں کسی ایک کی بھی اطاعت بھی منع ہے ، اوراسی طرح جھوٹا حلف اورجان بوجھ کر جھوٹی قسم سے بھی منع کیا گيا ہے ۔

اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کس کی بھی کوئ بات اس کی اجازت کے بغیر سنی جائے ، اوران کی بے پردگی کی جائے ، اسلام اسے بھی جائز نہيں کرتا کہ کسی چيز کی ملکیت کا جھوٹا دعوی کیا جائے ۔

اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کوئ اس کی کوشش کرے کہ اس کی ایسے کام پرتعریف کی جائے تواس نے کیا بھی نہ ہو ، اسلام نے یہ بھی اجازت نہیں دی کہ کسی کے گھرمیں اس کی اجازت کے بغیر جھانکا جائے ۔

اسلام فضول خرچی اوراسراف سے منع کرتا ہے ، کسی گناہ پرقسم کھانا بھی منع ہے ، صالح مرد اورعورتوں کے بارہ میں تجسس اوران کے بارہ میں سوء ظن کرنا بھی منع ہے ، اسلام نے آپس میں ایک دوسرے سے حسد وبغض اورحقد وکینہ رکھنے سے منع کیا ہے ۔

اسلام باطل پراکڑنے سے منع کرتا ہے ، اورتکبر، فخر اوراپنے آپ کوبڑا سمجھنا بھی منع ہے ، خوشی میں آ کراکڑنا بھی منع ہے ، اسلام نے مسلمان کوصدقہ کرنے کے بعد اسے واپس لینے سے منع کیا ہے وہ اس کےلیے خریدنا بھی جائز نہیں ۔

اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ مزدور سے مزدوری کروا کراس کی اجرت ادا نہ کی جائے ، اسلام نے اولاد کوعطیہ دینے میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے اس میں کسی کوکم اورکسی کوزيادہ دینا منع ہے ۔

اسلام یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے سارے مال کی وصیت کردی جائے اوراپنے وارثوں کوفقیر چھوڑدیا جائے ، اوراگر کوئ ایسے کربھی دے تواس کی یہ وصیت پوری نہیں کی جائے گي بلکہ صرف وصیت میں تیسرا حصہ دیا جائے گا اورباقی وارثوں کا حق ہے ،

اسلام نے پڑوسی کوتکلیف دینے سے منع کیا ہے ، اوروصیت میں کسی کوتکلیف پہنچانے سے منع کیا گيا ہے ، اسلام نے یہ بھی منع کیا ہے کہ کوئ مسلمان دوسرے مسلمان سے شرعی عذر کرے بغیر تین دن سےزیادہ ناراض نہیں رہ سکتا ، اسلام نے چھوٹی چھوٹی کنکریاں بھی ناخنوں سے ساتھ پھینکنے سے منع کیا ہے اس لیے کہ اس سے اذیت پہنچتی ہے مثلا کسی کی آنکھ وغیرہ میں جا لگے توآنکھ ضائع ہونےاوردانت ٹوٹنے کا اندیشہ ہے ۔

اسلام نے واث کے وصیت کرنا منع کیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے وارث کواس کا حق دیا ہے ، اسلام پڑوسی کوتکلیف دینے سے بھی منع کرتا ہے ، کسی مسلمان کواسلحہ اور چھری وغیرہ سے اشارہ کرنا منع ہے ۔

اسلام نے ننگی تلوار سونت کرگھومنے سے منع کیا ہے اس لیے کہ ايذا پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے ، بیٹھے ہوئے دوشخصوں کے درمیان بغیراجازت تفریق کرنا منع ہے ،اگرکوئ شرع ممانعت نہ ہوتو ھدیہ واپس کرنا بھی منع ہے ۔

بے وقوفوں کومال دینے سے منع کیا گيا ہے ، یہ منع ہے کہ اللہ تعالی نے جوایک دوسرے کوفضيلت دے رکھی ہے اس سے چھن کراسے ملنے کی تمنا کرنے سے بھی منع کیا ہے ، صدقات وخیرات کواحسان جتلا کراوراذیت دے کرضائع کرنے سے بھی روکا گيا ہے ۔

اسلام گواہی چھپانے سے بھی منع کرتا ہے ، یتیم کوڈانٹنا اورسوال کرنے والے کودھتکارنا منع ہے ، گندی اورخبیث دوائیوں سےعلاج کرنا منع کیا گيا ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے حرام کردہ اشیاء میں شفانہیں رکھی ، اسلام جنگ میں بچوں اورعورتوں کوقتل کرنے کی اجازت نہيں دیتا ۔

کسی کوبھی کسی دوسرے پرفخرکرنے کی اجازت نہيں ، وعدہ خلافی کرنا منع ہے ، امانت میں خیانت بھی نہیں کرنی چاہيئے ، ضرورت کے بغیر لوگوں سے مانگنا منع ہے ، مسلمان پراپنے مسلمان بھائ کوخوفزدہ کرنا منع اوربطورمذاق یا حقیقی طور پرکسی کا مال لینا اوراٹھانا جائز نہیں ۔

ھبہ اورعطیہ کی ہوئ چيزواپس نہیں لی جاسکتی ، صرف والد اپنے بیٹے کودیا گیا عطیہ واپس لے سکتا ہے ، تجربہ کے بغیر حکمت وعلاج کرنا منع ہے ، چیونٹی ، شھد کی مکھی ، اورھد ھد قتل کرنا منع ہے ، اسلام نے کسی آدمی کودوسرے آدمی اور کسی عورت کودوسری عورت کی شرمگاہ دیکھنے کی اجازت نہيں دی ۔

صرف جان پہچان والے سے سلام لینا منع ہے ، بلکہ جاننے والوں اورجنہیں نہیں جانتے انہیں بھی سلام کرنا ضروری ہے ، اورقسم کونیکی اوراپنے درمیان حائل نہيں کرنا چاہیے ، بلکہ جس میں بھی بھلائ اورخیر ہووہ کام کرلیا جائے ،اورقسم کا کفارہ ادا کردیا جائے ۔

غصہ کی حالت میں کسی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ، کسی ایک فریق کی بات سن کربھی فیصلہ کرنا منع ہے ، آدمی کا اپنے ہاتھ میں کوئ ننگاتیزدھارالہ لے کربازار میں چلنا بھی منع ہے ، کسی کواس کی جگہ سے اٹھا کرخوداس کی جگہ بیٹھنا بھی منع ہے ، کسی کے پاس سے بغیر اجازت اٹھنا بھی منع ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے حکم اورمنھیات ہیں جوانسان کی سعادت کے لیے نازل کیے گئے ہيں توکيا آپ نے آج تک ایسا کوئ دین دیکھا ہے ؟

آپ جواب کوایک بار دوبارہ پڑھیں اورپھراپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا یہ خسارہ اورنقصان نہیں کہ آپ ابھی تک اس کے پیروکاروں میں شامل نہیں ؟

اللہ سبحانہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

{ اورجوبھی اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرے گا اس سے اس کا وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا} آل عمران ( 85 ) ۔

اورآخر میں ہم سب امتیوں کے لیے اوراس کے ہرپڑھنے والے کے لیے توفیق اورصحیح اورسیدھے راہ پرچلنے اورحق کی اتباع و پیروی کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالی ہماری اورآپ کی ہربرائ اورشرسے حفاظت فرمائے آمین ۔

واللہ اعلم .
 
Top