سید رافع
محفلین
انسانیت کوئی مذہب نہیں کہ جس سے انسان چین پائیں اور سکون و اطمینان سے اپنے رب کے بھید کو جاننے میں مصروف ہوں۔بعض مسلمان اسلام میں داخل ہونے کے بجائے یہ جاننے کی کوشش میں ساری عمر لگے رہتے ہیں کہ کیسے ساری دنیا کے دیگر انسانوں کے ساتھ صلح کلی کے ساتھ رہا جائے۔ حالانکہ انسانوں میں بعض جانوروں سے بدتر ہیں اور بعض کھلے شیاطین ہیں۔ ان سے دوستی انسانیت سے دشمنی ہے۔ ان کے جرائم سے رعایت انسانیت کا قتل ہے۔ جو جانور سے بدتر ہیں وہ خواہشات نفس کے پیچھے چلتے ہیں۔ جو شیاطین ہیں وہ وسوسے ڈالتے ہیں۔
25:43 کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ تو کیا آپ اس پر نگہبان بنیں گے۔
25:43 کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ (نہیں) وہ تو چوپایوں کی مانند (ہو چکے) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں۔
آپ خود ہی سوچیں کہ ایسی صلح کلی کس کام کی جس میں سامنے والا انسان سننے سمجھنے نہ والا ایک چوپایہ ہے۔ ایسے انسان نما چوپایوں کے لیے انکا دین اور مومن کے اسکا دین۔ اب جس کا دین بھی صلح و صفائی، عدل و انصاف اور اللہ کے بھید جاننے میں سب سے بڑھ کر ہو گا اسی کی ہی اس دنیا میں حکمرانی ہو گی۔
انسانوں کے شیاطین وہ ہیں جو دوسرے انسانوں کو وسوسے میں ڈالتے ہیں۔ وہ شک سے بھری گفتگو کرتے ہیں۔ ایمان داروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔یوں وہ لوگوں کو راہ راست سے گمراہ کرتے ہیں۔
114: 4 وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اﷲ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے
114: 6 خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
ایسی صلح کلی میں مبتلا انسان کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا مسلمان ہوں جس کا عیسائی خون اور یہودی دل سے ہوں۔ یہ دل اس سے ہندو مذہب کو میرے بدھ مت کے ذہن میں پمپ کر کےسکھ ازم کے بلند تصورات پیدا کرتا ہے۔ میرے جذبات یزیدی ہیں ، رگیں جین ہیں۔ میں زرتشتی کی سانس لیتا ہوں ، اور سوچتا ہوں بہائی جیسا۔ نیند میں میں غیر مذہبی ہوں ، میرے خواب روحانی ہیں اور جب میں بیدار ہوتا ہوں تو میں انسان ہوں۔
انسانیت کو اسلام سے بلند درجہ دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اسلام مخالف قلب سینے میں رکھ کر اللہ کی زمین پر گھومتا پھرتا ہے۔ اسکے دل میں عدل کے لیے کھڑا ہونے کی چاہت لوگوں کی شخصی آزادیوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ مسلمان نہیں جانتا کہ اسکو عدل کے لیے کھڑا ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ نہیں سمجھ پا رہا ہوتا کہ اقوام عالم میں وہ اس امت کا حصہ ہے جو لوگوں کے درمیان عدل کرنے کے لیے نکالی گئی ہے۔
اسلام ایک نعمت ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس نعمت کی باریک سے باریک حکمت کو سمجھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
25:43 کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ تو کیا آپ اس پر نگہبان بنیں گے۔
25:43 کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ (نہیں) وہ تو چوپایوں کی مانند (ہو چکے) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں۔
آپ خود ہی سوچیں کہ ایسی صلح کلی کس کام کی جس میں سامنے والا انسان سننے سمجھنے نہ والا ایک چوپایہ ہے۔ ایسے انسان نما چوپایوں کے لیے انکا دین اور مومن کے اسکا دین۔ اب جس کا دین بھی صلح و صفائی، عدل و انصاف اور اللہ کے بھید جاننے میں سب سے بڑھ کر ہو گا اسی کی ہی اس دنیا میں حکمرانی ہو گی۔
انسانوں کے شیاطین وہ ہیں جو دوسرے انسانوں کو وسوسے میں ڈالتے ہیں۔ وہ شک سے بھری گفتگو کرتے ہیں۔ ایمان داروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔یوں وہ لوگوں کو راہ راست سے گمراہ کرتے ہیں۔
114: 4 وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اﷲ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے
114: 6 خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
ایسی صلح کلی میں مبتلا انسان کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا مسلمان ہوں جس کا عیسائی خون اور یہودی دل سے ہوں۔ یہ دل اس سے ہندو مذہب کو میرے بدھ مت کے ذہن میں پمپ کر کےسکھ ازم کے بلند تصورات پیدا کرتا ہے۔ میرے جذبات یزیدی ہیں ، رگیں جین ہیں۔ میں زرتشتی کی سانس لیتا ہوں ، اور سوچتا ہوں بہائی جیسا۔ نیند میں میں غیر مذہبی ہوں ، میرے خواب روحانی ہیں اور جب میں بیدار ہوتا ہوں تو میں انسان ہوں۔
انسانیت کو اسلام سے بلند درجہ دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اسلام مخالف قلب سینے میں رکھ کر اللہ کی زمین پر گھومتا پھرتا ہے۔ اسکے دل میں عدل کے لیے کھڑا ہونے کی چاہت لوگوں کی شخصی آزادیوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ مسلمان نہیں جانتا کہ اسکو عدل کے لیے کھڑا ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ نہیں سمجھ پا رہا ہوتا کہ اقوام عالم میں وہ اس امت کا حصہ ہے جو لوگوں کے درمیان عدل کرنے کے لیے نکالی گئی ہے۔
اسلام ایک نعمت ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس نعمت کی باریک سے باریک حکمت کو سمجھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔