مرآۃ العروس از ڈپٹی نذیر احمد

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نعمان

محفلین
مرآۃالعروس اٹھارہ سو انہتر عیسویں میں لکھا گیا اردو کا وہ ناول ہے جسے مغربی ناول کی تعریف کی رو سے اردو کا پہلا ناول سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان میں غدر کے بعد کا پرآشوب زمانہ تھا۔ جہاں ایک طرف تو مسلمانوں اور انگریزوں میں سرد جنگ ہنوز جاری تھی تو دوسری طرف مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو ہندوستانی مسلم معاشرے میں زبردست اصلاحات کا حامی تھا۔ سرسید احمد خان اس تحریک کے سپہ سالار تھے اور ڈپٹی نذیر احمد ایک نامی کمانڈر۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کا بنیادی پس منظر اخلاقی تربیت اور اصلاحات ہوتے ہیں۔ وہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور مذہب، اخلاقیات اور ہندوستانی مسلم معاشرہ ان کی تحریروں اور تقریروں کا خاص موضوع ہوا کرتا تھا۔

(اوپر دیا گیا پیراگراف کتاب کا حصہ نہیں۔ لیکن چونکہ کتاب کا جو نسخہ یہاں منتقل کیا جارہا ہے وہ اس تاریخی کتاب کا پس منظر بیان نہیں کرتا اسلیے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے شامل کردیا جائے۔ نعمان محمد یعقوب، ڈیجیٹل لائبریری پروجیکٹ، اردو ویب ڈاٹ آرگ)
 

نعمان

محفلین
پہلا باب:

تمہید کے طور پر عورتوں کے لکھنے پڑھنے کی ضرورت اور ان کی حالت کے مناسب کچھ نصیحتیں

جو آدمی دنیا کے حالات میں کبھی غور نہیں کرتا اس سے زیادہ کوئی احمق نہیں۔ غور کرنے کے واسطے دنیا میں ہزاروں طرح کی باتیں لیکن سب سے عمدہ اور ضروری آدمی کا پنا خیال ہے کہ جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے زندگی میں اس کو کیا باتیں پیش آتیں اور کیوں کر اس کی حالت بدلا کرتی ہے۔

انسان کی زندگی میں سب سے اچھا وقت لڑکپن کا ہے۔ اس عمر میں آدمی کو کسی قسم کا فکر نہیں ہوتا۔ ماں باپ نہایت شفقت اور محبت سے اس کو پالتے ہیں اور جہاں تک بس چلتا، اس کو آرام دیتے ہیں۔ اولاد کے اچھا کھانے، اچھا پہننے سے ماں باپ کو خوشی ہوتی ہے بلکہ ماں باپ اولاد کے آرام کے واسطے اپنے اوپر تکلیف اور رنج تک گوارا کرلیتے ہیں۔ مرد جو باپ ہوتے ہیں، کوئی محنت مزدوری سے کماتے ہیں، کوئی پیشہ کرکے، کوئی سوداگری کرکے، کوئی نوکری۔ غرض جس طرح بن پڑتا ہے اولاد کی آسائش کے واسطے روپے کے پیدا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ عورتیں جو ماں ہوتی ہیں۔ کوئی ماں سلائی کا کام سیتی ہے، کوئی گوٹا بنتی ہے، کوئی ٹوپیاں کاڑھتی ہے یہاں تک کہ کوئی مصیبت کی ماری ماں چرخہ کات کر، چکی پیس کر، ماماگیری کرکے بچوں کو پالتی ہے۔ اولاد کی محبت جو ماں کو ہوتی ہے، ہرگز بناوٹ اور ظاہرداری کی نہیں ہوتی بلکہ سچی اور دلی محبت ہے اور خدائے تعالی نے، جو بڑا دانا ہے یہ ممتا اس لئیے ماں باپ کے پیچھے لگادی ہے کہ اولاد پرورش پائے۔ ابتدائے عمر میں بچے نہایت بے بس ہیں، نہ بولتے نہ سمجھتے، نہ چلتے نہ پھرتے۔ اگر ماں باپ محبت سے اولاد کو نہ پالتے تو بچے بھوکوں مرجاتے۔ کہاں سے ان کو روٹی ملتی، کس طرح کپڑا بہم پہنچاتے اور کیوں کر بڑے ہوتے؟ آدمی پر کیا موقوف ہے، جانوروں میں بھی اولاد کی مامتا بہت سخت ہے۔ مرغی بچوں کو دن بھر پروں میں چھپائے بیٹھی رہتی ہے اور اناج کا ایک دانہ بھی اس کو ملتا ہے تو آپ نہیں کھاتی، بچوں کو بلاکر چونچ سے ان کے آگے سرکا دیتی ہے اور اگر چیل یا بلی اس کے بچوں پر حملہ کرنا چاہے تو مطلق اپنی جان کا خیال نہ کرکے لڑنے اور مرنے کو موجود ہوجاتی ہے۔ غرض ہو نہ ہو یہ خاص محبت ماں باپ کو صرف اسی لئیے خدا نے دی ہے کہ ننھے ننھے بچوں کو جو ضرورت ہو اٹکی نہ رہے۔ بھوک کے وقت کھانا اور پیاس کے وقت پانی۔ سردی سے بچنے کو گرم کپڑا اور ہر طرح کی آرام کی چیز وقت مناسب پر مل جائے۔ دیکھنے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ پھڑک اس وقت تک رہتی ہے جب تک بچوں کو اس کی ضرورت احتیاج ہوتی ہے۔ جب مرغی کے بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ ان کو پروں میں چھپانا چھوڑ دیتی ہے اور جب بچے چل کر پھر کر اپنا پیٹ بھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو مرغی کچھ بھی ان کی مدد نہیں کرتی بلکہ جب بہت بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کو اس طرح مارنے کو دوڑتی ہے گویا وہ ان کی ماں نہیں۔ آدمی کے ماں باپ کا بھی یہی حال ہے جب تک بچہ ہوتا ہے، ماں دودھ پلاتی ہے اور اس کو گود میں لادے لادے پھرتی ہے۔ اپنی نیند خراب کرکے بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے۔ جب بچہ اتنا سیانا ہوا کہ کچھڑی کھانے لگا، ماں دودھ بالکل چھڑادیتی ہے اور وہی دودھ جس کو برسوں پیار سے پلاتی رہی، سختی اور بے رحمی سے نہیں پینے دیتی۔ کڑوی چیزیں لگالیتی ہے اور بچہ ضد کرتا ہے تو مارتی اور گھرکتی ہے چند روز کے بعد بچوں کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ گود میں لینا تک ناگوار ہوتا ہے۔ کیا تم نے اپنے چھوٹے بہن بھائی کو اس بات پر مار کھاتے نہیں دیکھا کہ ماں کی گود سے نہیں اترتے۔ ماں خفا ہورہی ہے کہ کیسا ناہموار بچہ ہے کہ ایک دم نہیں چھوڑتا۔ ان باتوں سے یہ مت سمجھو کہ ماں کی محبت نہیں رہی۔ نہیں نہیں محبت تو ویسی ہی ہے مگر ہر حالت کے ساتھ ایک خاص طرح کی محبت ہوتی ہے اور اولاد کا حال یکساں نہیں رہتا۔ آج دودھ پیتے ہیں، کل کھانے لگے اور کام کرنے کے واسطے ماریں کھاتے ہیں۔ اگرچہ بے وقوفی سے بچے نہ سمجھیں مگر ماں باپ کے ہاتھوں سے جو تکلیف بھی تم کو پہنچے وہ ضرور تمہارے اپنے فائدے کے واسطے ہے۔ تم کو دنیا میں ماں باپ سے الگ ہوکر بہت دنوں جینا پڑے گا۔ کسی کے ماں باپ تمام عمر زندہ نہیں رہتے۔ خوش نصیب ہیں وہ لڑکے لڑکیاں جنہوں نے ماں باپ کے جیتے جی ایسا ہنر اور ایسا ادب سیکھا جس سے ان کی تمام زندگی خوشی اور آرام میں گزری، اور نہایت بدقسمت ہے وہ اولاد جنہوں نے ماں باپ کی زندگی کی قدر نہ کی اور جو آرام ماں باپ کی وجہ سے ان کو میسر ہوا اس کا اکارت اور ایسے اچھے فراغت اور بے فکری کے وقت کو سستی اور کھیل کود میں ضائع کیا۔ عمر بھر رنچ و مصیبت میں کاٹی۔ آپ عذاب میں رہے اور ماں باپ کو اپنے سبب عذاب میں رکھا۔ مرنے پر کچھ موقوف نہیں، شادی بیاہ ہوئے پیچھے اولاد ماں باپ سے جیتے جی چھوٹ جاتی ہے۔ لڑکوں لڑکیوں کو ضرور سوچنا چاہئیے کہ ماں باپ سے الگ ہوئے پیچھے ان کی زندگی کیوں کر گزرے۔

دنیا میں بہت بھاری بوجھ مردوں کے سر پر ہے۔ کھانا، کپڑا اور روزمرہ کے خرچ کی سب چیزیں روپے سے حاصل ہوتی ہیں اور سارا کھڑاگ روپے کا ہے۔ عورتوں کو بڑی خوشی کی بات ہے کہ اکثر روپیہ پیدا کرنے کی محنت سے محفوظ رہتی ہیں۔ مردوں کو دیکھو روپے کے لئیے کیسی کیسی سخت محنتیں کرتے ہیں۔ کوئی بھاری بوجھ سر پر اٹھاتا ہے۔ کوئی لکڑیاں چیرتا، سنار، لوہار، ٹھٹھیرا، کسیرا، کندلہ گر، زرکوب، دبکیہ، تارکش، ملمع ساز، جڑیا، سلمہ ستارہ والا، بٹیہ، جلدساز، مینا ساز، قلعہ گر، سادہ گر، صیقل گر، آئینہ ساز، زر دوز، منھیار، نعل بند، نگینہ ساز، کامدانی والا، سان گر، نیاریا، ڈھلیہ، بڑھئی، خرادی، ناریل والا، کنگھی ساز، بنس پھوڑ، کاغذی، جولاہا، رفوگر، رنگریز، چھیبی، دستاربند، درزی، علاقہ بند، نیچہ بند، موچی، مہرکن، سنگ تراش، حکاک، معمار، دبگر، کمہار، حلوائی، تیلی، تنبولی، رنگ ساز، گندھی وغیرہ جتنے پیشے والے ہیں، کسی کا کام جسمانی اور دماغی تکلیف سے خالی نہیں، اور روپے کی خاطر یہ تمام تکلیف مردوں کو سہنی اور اٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن اس بات سے یہ نہیں سمجھنا چاہییے کہ عورتوں کو کھانے اور سو رہنے کا سوا دنیا کا کوئی کام مطلق نہیں بلکہ خانہ داری کے تمام کام عورتیں ہی کرتی ہیں۔ مرد اپنی کمائی عورتوں کے آگے لا کر رکھ دیتے ہیں اور عورتیں اپنی عقل سے اس کو بندوبست اور سلیقے کے ساتھ اٹھاتی ہیں۔ پس اگر غور سے دیکھو تو دنیا کی گاڑی میں جب تک ایک پہیہ مرد اور دوسرا عورت کا نہ ہو چل نہیں سکتی۔ مردو کو روپیہ کمانے سے اتنا وقت نہیں بچتا کہ اس کو گھر کے کاموں میں صرف کریں۔ اے لڑکو! وہ بات سیکھو کہ مرد ہوکر تمہارے کام آئے اور اے لڑکیو! ایسا ہنر ایسا حاصل کرو کہ عورت ہونے پر تم کو اس سے خوشی اور فائدہ ہو۔ بے شک عورت کو خدا نے مرد کی نسبت کسی قدر کمزور پیدا کیا ہے لیکن ہاتھ، پاؤں، آنکھ، یادداشت، سوچ، سمجھ سب چیزیں مردوں کے برابر عورتوں کو دی گئی ہیں۔ لڑکے ان ہی چیزوں سے کام لے کر ہر فن میں طاق اور ہر ہنر میں مشاق ہوجاتے ہیں۔ لڑکیا اپنا وقت گڑیاں کھیلنے اور کہانیاں سننے میں کھوتی ہیں۔ ویسی ہی بے ہنر رہتی ہے اور جن عورتوں نے وقت کی قدر پہچانی اور اس کو کام کی باتوں میں لگایا۔ ہنر سیکھا، لیاقت حاصل کی، وہ مردوں سے کسی بات میں ہیٹی نہیں رہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو دیکھو، عورت ذات ہو کر کس دھوم اور کس شان اور کس ناموری اور کس عمدگی کے ساتھ اتنے بڑے ملک کا انتظام کر رہی ہیں کہ دنیا میں کسی بادشاہ کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔ جب ایک عورت نے سلطنت جیسے کٹھین کام کو اور سلطنت بھی ماشاءاللہ اس قدر وسیع اور ایسے نازک وقت کہ بات منہ سے نکلی اور اخبار والوں نے بتنگڑ بنایا، اتنی مدت دراز تک سنبھالا اور ایسا سنبھالا کہ جو سنبھالنے کا حق ہے۔ تو اب عورتوں کی خداداد قابلیت میں کلام کرنا نری ہٹ دھرمی ہے۔

بعض نادان عورتیں خیال کرتی ہیں کہ کیا لکھ پڑھ کر ہم کو مردوں کی طرح نوکری کرنی ہے لیکن اگر کسی عورت نے لکھ پڑھ لیا ہے اور اس نے نوکری نہیں کی تو اس کا لکھنا پڑھنا اکارت بھی نہیں گیا۔ اس کو اور بہتیرے فائدے پہنچے جن کے مقابلے میں نوکری کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ جو لوگ علم کو صرف نوکری کا وسیلہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ان کو علم کی قدر نہیں۔ سچ پوچھو تو علم کے آگے نوکری ایسی ہے جسے سودے کے ساتھ روکھن۔ کہاں سے بیان قوت لائیں کہ تم کو علم کے فائدے سمجھائیں۔ ظاہر کی دو آنکھیں تو ہمارے تمہارے سب کے منہ پر ہیں۔ کبھی اندھے فقیروں کی دعا سنو۔ کس حسرت سے کہتے ہیں۔ "بابا آنکھیاں بڑی نعمت ہیں۔" شاید کوئی بھی ایسا سنگ دل نہ ہوگا جس کو اندھوں کی معذوری اور بے کسی پر رحم نہ آتا ہو، لیکن دل کے اندھے جن کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا ان سے کہیں زیادہ قابل رحم ہیں۔ انگریزوں کی ولایت میں تو اندھوں کی تعلیم کا ایسا عمدہ انتطام ہے کہ اندھے ٹٹول ٹٹول کر اچھی طرح اخبار اور کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے اندھے بھی بعض ایسے بلاکے ذہین ہوتے ہیں کہ سوئی پروئیں، سئیں، اکیلے سارے شہر کے گلی کوچوں میں بے دھڑک دوڑے دوڑے پھریں۔ کھوٹا کھرا روپیہ پرکھیں۔ قرآن کا حفظ کرلینا تو اندھے کے لئیے معمولی بات ہے۔ غدر سے پہلے پہلے شہر میں گنتی کے دوچار مادرزاد اندھے مولوی بھی تھے۔ غرض آنکھوں کا اندھا ہونا مصیبت ہے، مگر نہ ایسی کہ جیسے دل کا اندھا (یعنی جاہل ہونا) افسوس کورئی دل کے نقصانات سے لوگ واقف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ عالم و فاضل ہونا تو درکنا، ہزار پیچھے ایک بھی پڑھا لکھا نظر نہیں آتا۔

یہ تو مردوں کا مذکور ہے، جن کو پڑھ لکھ کر روٹی کمانی ہے۔ عورتوں میں پڑھنے لکھنے کا چرچا اس قدر کم ہے کہ دلی جیسے غدار شہر میں اگر مشکل سے سو سوا سو عورتیں، وہ بھی شاید حرف شناس نکلیں بھی تو اس کو چرچا نہیں کہہ سکتے۔ پھر اگر چرچا نہ ہو تو خیر چنداں مضائقے کی بات نہیں۔ مصیبت تو یہ ہے کہ اکثر عورتوں کے لکھانے پڑھانے کو عیب اور گناہ خیال کرتے ہیں ان کو خدشہ یہ ہے کہ ایسا نہ ہو لکھنے پڑھنے سے عورتوں کی چار آنکھیں ہوجائیں۔ لیکن مردوں سے خط و کتابت کرنے اور خدانخواستہ کل کلاں ان کی پاک دامنی اور پردہ داری میں کسی طرح کا فتور واقع ہو۔ یہ صرف شیطانی وسوسے ہیں اور ملک کی خصوصا عورتوں کی بدقسمتی لوگوں کو بہکا اور بھڑکا رہی ہے۔ اول تو ہم ایک ذری سی بات یہی پوچھتے ہیں کہ علم انسان کی اصلاح کرتا ہے یا الٹا اس کو بگاڑتا اور خرابی کے لچھن سکھاتا ہے؟ اگر بگاڑتا ہے تو مردوں کو بھی پڑھنے لکھنے کی مناہی ہونی چاہئیے تا کہ بگڑے نہ پائیں اور مرد بگڑیں گے تو کبھی کبھی ان کا بگاڑ عورتوں میں اثر کرے گا پر کرے گا۔ دوسرے انصاف شرط ہے۔ بے شک بعض پڑھے لکھے مرد بھی آوارہ بدوضع ہوتے ہیں۔ لیکن کیا علم نے ان کو آوارگی اور بدوضعی سکھائی؟ نہیں نہیں، آوارگی اور بدوضعی انہوں نے بری صحبت میں سیکھی یا کھجلی اور کوڑھ کی طرح ان کو اڑ کر لگی اور پڑھ لکھ کر ان کی برائی، مثلا چھٹانک بھر ہے تو نہ پڑھنے کی صورت میں یقین جانو سیر سوا سیر ہوتی۔ بایں ہمہ، مثلا سو پڑھے لکھوں پر نظر ڈالو تو کوئی اکادکا شامت زدہ خراب ہو تو ہو ورنہ خدا نے چاہا تو اکثر نیک، بھلے مانس، ماں باپ کا ادب کرنے والے، بھائی بہنوں سے محبت رکھنے والے، بڑے کو بڑے اور چھوٹے کو چھوٹے کی جگہ سمجھنے والے، دنگے فساد اور بری صحبت سے دور بھاگنے والے، روزے رکھنے والے، سچ بولنے والے، غریبوں پر ترس کھانے والے، غصے کے پی جانے والے، بزرگوں کی نصیحت پر چلنے والے، لحاظ شرم والے، جیسا کپڑا میسر آیا شکرگزاری کے ساتھ کھانے والے ملیں گے۔ ہماری بھی ساری عمر ایسے ہی لوگوں میں گزری ہے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ جو شخص علم کو بدنام کرتا ہے، آسمان پر تھوکتا ہے اور چاند پر خاک ڈالتا ہے۔ بےشک بعض برے لوگوں نے بری کتابیں دنیا میں پھیلادی ہیں اردو میں اس قسم کی کتابیں بہت کم ہیں اور جو ہیں بسلسلہ درس سے خارض اور ان کا پڑھنا اور سننا کیا مرد کیا سب ہی کے حق میں زبون ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آنکھ بری جگہ بھی پڑ سکتی ہے یا زبان سے بعض نالائق کوستے، جھوٹ بولتے، گالیاں بکتے، بلاضرورت قسم کھاتے یا لوگوں کے پیٹھ پیچھے ان کی بدیاں روتے ہیں جس کو غیبت کہتے ہیں، نہ آنکھیں پھوری جاتی ہیں نہ زبان کاٹی جاتی ہے۔ تو صرف علم نے کیا قصور کیا ہے کہ ایک لغو اور بے اصل احتمال کی بنیاد پر عورتوں کو اس کے بے انتہا دینی اور دنیاوی فائدوں سے محروم رکھا جائے؟ کیا اتنا نہیں ہوسکتا کہ بےہودہ کتابوں کو مستورات کی نظر سے نہ گزرنے دیں؟ علاوہ بریں آدمی کے دل کو خدا نے بنایا ہے آزاد۔ جب انسان کو کسی پر مجبور کیا جائے تو وہ چار و ناچار اس کام کو کرتا ہے، مگر نہ اس عمدگی اور خوبی کے ساتھ جیسا کہ خود اپنے دل کے تقاضے سے ۔ کہاں تو دوسروں کی زبردستی اور کہاں اپنا شوق۔ مثلا لڑکے بعض تو وہ ہیں جن کو خود پڑھنا کا مطلق شوق نہیں۔ اس واسطے کہ نادان ہیں، بے سمجھ ہیں۔ اتنا نہیں جاتنے کہ آج کو جی لگا کر پڑھ لکھ لیں گے تو بڑے ہوئے پیچھے ہمارے ہی کام آئے گا۔ دنیا میں ہماری عزت و آبرو ہوگی۔ دنیا اور دین دونوں میں ہمارا بھلا ہوگا۔ تو ایسے بدشوق لڑکے کبھی خوشی سے مدرسے نہیں جاتے۔ گھر والوں نے زبردستی دھکیل دیا یا مکتب کے لڑکے آئے اور ٹانک کر لے گئے، زبردستی گئے، بےدلی سے بیٹھے رہے، چھٹی ملی، نہ کچھ پڑھا نہ لکھا، کورے واپس آئے۔ دوسرے قسم کے لڑکے وہ ہیں جن کی قسمت میں خدا نے کچھ بہتری لکھی ہے وہ آپ سے بے کہے، بے بھیجے، بے بلائے وقت سے پہلے مدرسے کو دوڑے چلے جاتے ہیں۔ جاتے ہی آموختہ پڑھا، مطالعہ کیا، سبق لیا اور آخر وقت تک اس میں لگے لپٹے رہے۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ ان دونوں قسم کے لڑکوں میں کس سے امید کی جاسکتی ہے کہ لکھ پڑھ کر امتحان پاس کرلے گا، گھر بیٹھے اس کو نوکری کے لئیے بلاوے آئیں گے۔ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ بےشک جس کو شوق ہے اسی کو فوق ہے۔


اسی طرح ہماری عورتوں میں حیا، پاکدامنی، پردہ داری، نیکی جو کچھ سمجھو خدا کے فضل و کرم سے بہتر ہی ہے۔ مگر برا مانو یا بھلا مانو، ابھی تک ہے مجبوری کی۔ یعنی، مذہب اور ملکی رواج اور مردوں کی حکومت نے عورتوں کو زبردستی نیک بنا رکھا ہے لیکن اگر خود عورتوں کے دل میں نیکی کا تقاضا ہو تو سبحان اللہ نور علٰی نور۔ ایک تو سونا کھرا، اوپر سے ملا سہاگہ، کیا کہنا ہے۔ مگر دل سے نیکی کے تقاضے کے پیدا ہونے کے علم کے سوا اور کوئی تدبیر ہی نہیں۔ بس جو لوگ عورتوں کو علم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ گویا ان کو سچی اور حقیقی پاکیزہ اور بے لوث اور کھری اور پائیدار نیک دلی سے روکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خدا نے جاہل رہنے کے لئیے نہیں بنایا۔ جس حالت میں عورتیں اب ہیں، اس کے لیے انہیں اتنی عقل کی کیا ضرورت ہے؟ بس خدا نے جو عورتوں کو اتنی ساری عقل دی ہے ضرور کسی بڑے کام کے لیے دی ہے۔ یعنی، علم حاصل کرنے کے لیے۔ لیکن اگر عورتیں عقل سے علم حاصل کرنے کا کام نہ لیں۔ تو ان کی مثال ایسی ہوگی جیسے ہندوؤں کے جوگی جو اپنا ہاتھ سکھا کر مصلحت الٰہی کو باطل کرتے ہیں۔ کیوں صاحب ہاتھ کا خشک اور بے کار کردینا بہتر یا اس کو نیک کام میں لاکر دنیا کا فائدہ اور دین کا ثواب حاصل کرنا بہتر؟ مسلمانوں کی تشفی کے لیے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بات ہو نہیں سکتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی علیہ اللہ تعالٰی عنہہ سر بر آوردہ تھیں۔ ایک دن دونوں بیٹھی ہوئی باتیں کررہی تھیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم آنکلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اشارہ کر کے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان فرمایا کہ ان کو بھی لکھنا سکھاؤ۔ ہر چند پردہ نشینی کی وجہ سے دنیا کے بہت سے کام عورتوں کو معاف ہیں لیکن پھر بھی خیال کرو تو عورتیں نری نکمی نہیں ہیں۔

خانہ داری بدون عورت کے ایک دن نہیں چل سکتی۔ مرد کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو ممکن نہیں کہ عورت کی مدد کے بدون گھر چلاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کے مرنے کو خانہ ویرانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس اگر دنیا کے کسی کام میں بھی بکارآمد ہے تو بڑے تعجب کی بات ہے کہ خانہ داری کے اتنے بھاری کام میں جو مردوں کے سنبھالے نہ سنبھلے بکارآمد نہ ہو۔ پر یوں کہو کہ لوگوں کو اپنے معاملات پر غور کرنے اور سوچنے کی عادت نہیں۔ اگلے لوگ بری یا بھلی جو راہ نکال گئے ہیں، دائیں بائیں کچھ نہیں دیکھتے۔ بھیڑوں کی طرح اس پر آنکھیں بند کيے چلے جاتے ہیں۔ خانہ داری منہ سے کہنے کو تو ایک لفظ ہے مگر اس کے معنی اور مطلب پر نظر کرو تو پندرہ بیس کے فرق سے خانہ داری اور دنیا داری ایک ہی چیز ہے۔ خانہ داری میں جو کام کرنے پڑتے ہیں ان کی فہرست منضبط نہیں ہوسکتی۔ شادی، غمی، تقریبات، مہمان داری، لین دین، نسبت نامہ، پیسنا، پکانا، سینا پرونا، خدا جانے کتنے بکھیڑے ہیں، جس نے گھر کیا ہو اسی کو کچھ خبر ہوگی۔ لیکن اس خانہ داری میں اولاد کی تربیت بھی اور کسی کام میں عورتوں کو علم کی ضرورت شاید نہ بھی ہو، مگر اولاد کی تربیت تو جیسی چاہیے بے علم کے ہونی ممکن نہیں۔ لڑکیا تو بیاہ تک اور لڑکے اکثر دس برس کی عمر تک گھروں میں تربیت پاتے ہیں اور ماؤں کی خو بو ان میں اثر کرجاتی ہے۔ پس اے عورتو! اولاد کی اگلی زندگی تمہارے اختیار میں ہے چاہو تو شروع سے ان کے دلوں میں ایسے اونچے ارادے اور پاکیزہ خیال بھر دو کہ بڑے ہوکر نام و نمود پیدا کریں اور تمام عمر آسائش میں بسر کرکے تمہارے شکرگزار رہیں! اور چاہو تو ان کے افتاد کو ایسا بگاڑ دو کہ جوں جوں بڑے ہوں خرابی کے لچھن سیکھتے جائیں اور انجام تک اس ابتدا کا تاسف کریں۔ لڑکوں کو بولنا آہا اور تعلیم پانے کا مادہ حاصل ہوا۔ اگر ماؤں کو لیاقت ہو تو اسی وقت سے بچوں کو تعلیم کر چلیں۔ مکتب یا مدرسے بھیجنے کے انتظار میں لڑکوں کے کئی برس ضائع ہوجاتے ہیں۔ بہت چھوٹی عمر میں نہ تو خود لڑکوں کو مدرسے جانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ماؤں کی محبت اس بات کو گوارا کرتی ہے کہ ننھے ننھے بچے جو ابھی اپنی ضرورتوں کے ضبط پر قادر نہیں ہیں استاد کی قید میں رکھے جائیں۔ لیکن اگر مائیں چاہیں اسی وقت میں ان کو بہت کچھ سکھا پڑھا دیں۔ لڑکے مدرسے میں بیٹھنے کے بعد بھی مدتوں تک بے دلی سے پڑھا کرتے ہیں اور کہیں بہت دنوں میں ان کی استعداد کو ترقی ہوتی ہے۔ اس تمام وقت میں ان کو ماؤں سے یقینا بہت مدد مل سکتی ہے۔ اول تو ماؤں کی سی شفقت اور دلسوزی کہاں؟ دوسرے رات دن کا برابر پاس رہنا، جب ذرا طبیعت متوجہ دیکھی جھٹ کوئی حرف پہنچوادیا۔ یا کچھ گنتی ہی یاد کرادی۔ کہیں پورپ پچھم کا امتیاز بتا دیا۔ مائیں تو باتوں باتوں میں سکھا سکتی ہیں اور ماؤں کی تعلیم میں ایک یہ کتنا بڑا لطف ہے کہ لڑکوں کی طبیعت کو وحشت نہیں ہونے پاتی اور شوق کو ترقی ہوجاتی ہے۔ اولاد کی تہذیب ان کی پرورش کی تدبیر، ان کی جان کی حفاظت ان کے اختیار میں ہے۔ اگر خدا نخواستہ کہیں اس سلیقے میں کمی ہو تو اولاد کی زندگی معرض خطر میں ہے۔ اہسا کون کمبخت ہوگا جس کو ماؤں کی محبت میں کلام ہو۔ لیکن وہی محبت اگر نادانی کے ساتھ برتی جائے تو ممکن ہے کہ بجائے نفع کے الٹا نقصان پہنچائے۔ ذرا انصاف کرو، کیا ہزاروں جاہل اور کم عقل مائیں ایسی نہیں ہیں جو اولاد کے ہر ایک مرض کو نظرگزار اور پرچھانواں اور جھپیٹا اور آسیب سمجھ کر بجائے دوا کے جھاڑ پھونک اتار کیا کرتی ہیں؟ ورنہ مناسب علاج کا اثر تم ہی سمجھ لو کیا ہوتا ہوگا۔ عرض یہ کہ کل خانہ داری کی بلکہ یوں کہو کہ دنیاداری کی درستی موقوف ہے عقل پر عقل کی علم پر۔ اس بات کو ہر کوئی تسلیم کرے گا کہ عورت میں سب سے بڑا ہنر یہ ہونا چاہئیے کہ جس کے پلے بندھی ہے آپ اس سے راضی رہے اور اس کو اپنے راضی اور خوش رکھے۔

تم نے بہشت اور دوزخ کا نام سنا ہوگا۔ سچ مچ کی دوزخ اور بہشت تو دوسرے جہان کی چیزیں ہیں، مرے پیچھے ان کی حقیقت کھلے گی۔ لیکن ان کی شکلیں گھر گھر دنیا میں موجود ہیں اور ان کی پہچان کیا ہے؟ میاں بی بی کا آپس کا پیار و اخلاص۔ جس گھر میں میاں بیوی محبت اور سازگاری سے زندگی بسر کرتے ہیں، بس سمجھ لو کہ ان کو دنیا ہی میں بہشت ہے اور اگر آئے دن کی لڑائی ہے، جھگڑا ہے، یہ اس سے خفا، وہ اس سے ناراض تو جانو دونوں جیتے جی جہنم میں ہیں۔ سازگاری کے ساتھ ساری مصیبتیں انگیز کی جاسکتی ہیں بلکہ اس کی ایذا تک محسوس نہیں ہوتی اور سازگاری نہیں تو زندگی میں کچھ مزہ داری نہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سازگاری کے لیے عورتوں کو زیادہ اہتمام کرنا ہوگا اس لیے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا پلا بالکل ہلکا ہے۔ کچھ راہ چلتے کی صاحب سلامت نہیں کہ تم روٹھے ہم چھوٹے بلکہ مرنے بھرنے کا تعلق ہے۔ سازگاری پیدا کرے کے لیے جو تدبیریں عورت کے اختیار کی ہیں ان سب میں بہتر سے بہتر ہمارے سمجھنے کی لیاقت ہے۔ لڑکیاں شرم کے مارے منہ سے نہ کہیں لیکن دل سے تو ضرور جانتی ہیں کہ کوارپتے کے دن تھوڑے ہیں۔ آخر بیاہی جائیں گی۔ بیاہے پیچھے بالکل نئی طرح کی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے، جیسا کہ تم ماں اور نانی اور خالہ اور کنبے کی تمام عورتوں کو دیکھتی ہو۔ کوارپتے کا وقت تو بہت تھوڑا ہے۔ اس وقت کا اکثر حصہ تو بےتمیزی میں گزر جاتا ہے۔ وہ پہاڑ سی زندگی تو آگے آرہی ہے جو طرح طرح کے جھگڑوں اور انواع و اقسام کے بکھیڑوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب تم غور کرو کہ تم کوئی انوکھی لڑکی تو ہو نہیں کہ بیاہ ہوئے پیچھے تم کو کچھ اور بھاگ لگ جائیں گے۔ جو دنیا جہان کی بہو بیٹیوں کو پیش آتی ہے وہ تم کو بھی پیش آئے گی۔ پس سوچنا چاہئیے کہ بیاہ ہوئے پیچھے عورتیں کس طرح زندگی بسر کرتی ہیں، کیسی ان کی عزت کی جاتی ہے، کہاں تک مرد ان کی خاطر داری کرتے ہیں۔ خاص طور پر لوگوں کی حالت پر تو بالکل غور مت کرو بعض جگہ اتفاق سے زیادہ ملاپ ہوا، عورت مرد پر غالب آگئی اور جہاں زیادہ ناموافقت ہوئی عورت کا دفتر بالکل اٹھ گیا۔ یہ تو بات ہی الگ ہے۔ ملک کے عام دستور اور عام رواج کو دیکھو۔ سو عام دستور کے موافق ہم تو عورتوں کی کچھ خاص قدر دیکھتے نہیں۔ ناقصات العقل تو ان کا خطاب ہے۔ تریاہٹ، تریا چرتر مردوں کے زبان زد۔ عورتوں کے مکر مذمت قرآن میں موجودہ ان کید کن عظیم یعنی، مرد لوگ عورتوں کی ذات کو بے وفا جانتے ہیں۔

اسپ و زن و شمشیر وفادار کہ دید

ایک شاعر نے عورتوں کی وجہ تسمیہ میں بھی ان کی مذمت پیدا کی ہے۔

اگر نیک بودے سر انجام زن
زنان رامزن نام بودے نہ زن

یہ سب باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ خانہ داری کے برتاؤ دیکھو تو گھر کی ٹہل خدمت کے علاوہ دنیا کا کوئی عمدہ کام بھی عورتوں سے لیا جارا ہے یا کسی عمدہ کام کے صلاح یا مشورے میں عورتیں شریک ہوتی ہیں؟ جن گھروں میں عورتوں کی بڑی عزت اور بڑی خاطرداری ہے وہاں بھی جب عورت سے پوچھا جاتا ہے تو یہی "کیوں بی" آج کیا ترکاری پکے گی؟ لڑکی کے ٹاٹ بافی جوتی منگواؤگی یا ڈیڑھ حاشیہ کی؟ چھالیہ مانک چندی لوگی یا جہازی؟ زردہ پوربی لینا منظور ہے یا امانت خانی؟ رضائی کو اودی گوٹ لگے گی یا سرمئی؟ اس کے سوا کوئی عورت بتادے کہ کبھی مردوں نے اس سے بڑی باتوں میں صلاح لی ہے یا کوئی بڑا کام اس کے اختیار میں چھوڑ دیا ہے؟ پس اے عورتو! کیا تم کو ایسے برے حالوں میں جینا ناخوش نہیں آتا؟ اپنی بے اعتباری اور بےوقری پر افسوس نہیں ہوتا؟ کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ مردوں کی نظر میں تمہاری عزت ہو، تمہاری عقل پر ان کو اعتماد اور بھروسا ہو؟ تم نے اپنے ہاتھوں اپنا وقار رکھا ہے اپنے کارن نظروں سے گری ہو۔ تم کو قابلیت ہو تو مردوں کو کب تک خیال نہ ہوگا؟ تم کو لیاقت ہو تو مردوں کو کہاں تک پاس نہ ہوگا؟ مشکل تو ہے کہ تم صرف روٹی دال پکالینے اور پھٹا پرانا سی لینے کو لیاقت سمجھتی ہو۔ پھر جیسی لیاقت ہے، ویسی قدر ہے۔ تمہاری اس بالفعل کی حالت اور جہالت پر ایک بدعقلی اور ایک مکر و فریب کیا اگر دنیا بھر کے الزام تم پر لگائے جائیں تو واجب اور سارے جہان کی برائیاں تم میں نکالی جائیں تو بجا۔


اے عورتوں تم مردوں کے دل بہلاوا اور ان کی زندگی کا سرمایہ عیش، ان کی آنکھوں کی بہار و باغ، ان کی خوشی کو زیادہ اور ان کے غم غلط کرنے والیاں ہو۔ اگر تم کو مردوں سے بڑے کاموں کے انتظام کا سلیقہ ہو تو مرد تمہارے پاؤں دھو دھو کر پیا کریں اور تم کو اپنا سرتاج بنا کر رکھیں۔ تم سے بہتر ان کا غم گسار، تم سے بہتر ان کا اصلاح کار، تم سے بہتر ان کا خیر خواہ اور کون ہوگا۔ لیکن بڑے کاموں کا سلیقہ تم کو حاصل ہو تو کیوں کر؟ گھر کی چار دیواری میں تو تم قید ہو۔ کسی سے ملنے کی تم نہیں۔ کسی سے بات کرنے کی تم نہیں۔ عقل ہو یا سلیقہ،آدمی آدمی سے سیکھتا ہے۔ مرد لوگ پڑھ لکھ کر عقل و سلیقہ حاصل کرتے ہیں اور جو پڑھے لکھے نہیں وہ بھی ہزاروں طرح کے لوگوں سے ملتے، دس سے دس قسم کی باتیں سنتے ہیں۔ اس پردے سے تم کو نجات کی امید نہیں۔ بہت کچھ ہمارے ملکی دستور اور رواج نے اور کسی قدر مذہب نے پردہ نشینی کو عورتوں پر فرض و واجب کردیا ہے اور اب اس رواج کی پابندی بہت ضروری ہے۔ پس سوائے لکھنے پڑھنے کے اور کیا تدبیر ہے کہ تمہاری عقلوں کو ترقی ہو؟ بلکہ مردوں کی نسبت عورتوں کو پڑھنے لکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ مرد تو باہر چلنے پھرنے والے ٹہرے۔ لوگوں سے مل جل کر بھی تجربہ حاصیل کرلیں گے۔ تم گھر میں بیٹھی بیٹھی کیا کرو گی؟ سینے کی بقچی سے عقل کی پڑیا نکال لوگی یا اناج کی کوٹھڑی سے تجربے کی جھولی بھر لاؤگی؟ پڑھنا لکھنا سیکھو کہ پردے میں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کی سیر کرلیا کرو۔ علم حاصل کرو کہ گھر کے گھر میں زمانے بھر کی باتیں تم کو معلوم ہوا کریں۔ پھر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا ان ہی چند گھروں سے عبارت نہیں ہے جس میں تم رہتی ہو یا آتی جاتی ہو، اور نہ دلی یا ان تھوڑے شہروں سے عبارت ہے جن کے نام تم نے سنے ہیں۔ خیر تمام دنیا کے حالات بیان کرنے کا تو محل نہیں۔ تم کو شوق ہو تو پڑھ لکھ کر جغرافیہ اور تاریخ کی کتابوں کی سیر کرنا۔ تب جانو گی کہ دنیا کتنی بڑی ہے۔ کیسے کیسے ردو بدل اس میں ہوتے آئے ہیں۔

بہر کیف اس وقت کا یہ رنگ ہے کہ سارے ہندوستان پر انگریز قابض ہیں۔ ان لوگوں میں مرد، عورت، امیر، غریب، نوکری پیشہ، سوداگر، اہل حرفہ، کاری گر، زمین دار، کاشت کار سب کے سب پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور اسی سے خدا نے ان کو ترقی دی ہے کہ کہاں ان کی ولایت اور کہاں ہندوستان۔ چھ سات ہزار میل کا فاصلہ اور بیچ میں سمندر۔ مگر علم کے زور سے اس ملک میں آئے، علم ہی کے زور سے اس کو اس خوبی اور عمدگی کے ساتھ چلارہے ہیں کہ روئے زمین کی کسی سلطنت میں ایسا امن و انصاف اور ایسا انتظام نہیں۔ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ دانش مند منصف اور خداترس بادشاہ کو رعیت اپنی اولاد سے بڑھ کر پیاری ہوتی ہے۔ پس انگریز جس دن اس ملک میں آئے اسی دن سے اس بات کے پیچھے پڑے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ لکھیں پڑھیں، لیاقت حاصل کریں کہ ان کا افلاس دور ہو۔ ظلم زبردستی کرنا تو انگریزوں کا دستور نہیں مگر جہاں تک سمجھانے سے، لالچ دکھانے سے ہوسکتا ہے علم کو ترقی دے رہے ہیں۔ گاؤں گاؤں مدرسے بٹھادئیے ہیں۔ پڑھنے والوں کو وظیفے اور انعام دئیے جاتے ہیں۔ جو لوگ امتحان پاس کرتے ہیں ان کو نوکری ملتی ہے۔ سو خدا کے فضل سے اتنا تو ہوا ہے کہ لکھنے پڑھنے کا بہت رواج ہوگیا ہے اور ہوتا جاتا ہے۔ یہی ایک ڈھنگ ہے تو کوئی دن کو دھوبی، سقے، مزدور تک لکھنے پڑھنے لگیں گے۔ بھلا پھر ان پڑھ اور جاہل اشراف لوگوں کی، مرد ہوں یا عورت کیا عزت باقی رہ جائے گی؟

انگریزی عمل داری میں ہزاروں قسم کی نئی چیزیں چل پڑی ہیں۔ ان میں سے ایک عجیب اور بڑے کام کی ریل ہے جس کی وجہ سے مہینوں کے رستے گھنٹوں میں طے کیے جاتے ہیں اور وہ بھی کس سہولت اور آسائش کے ساتھ کہ سفر کا سفر اور تفریح کی تفریح۔ یہی سبب ہے کہ لوگ جیسے پردیس کے کام سے گھبراتے تھے، اب سفر کے لیے بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ہماری یاد کی بات ہے کہ جب کوئی حج کا ارادہ کرتا تو یہ سمجھ کر گھر سے نکلتا کہ بس مجھ کو لوٹ کر آنا نہیں۔ یا اب ریل اور دخانی جہازوں کے طفیل میں یہ حال ہوگیا ہے کہ ذیقعد میں گھر سے نکلے، محرم کے آخر ہوتے ہوتے مکے مدینے دونوں کی زیارت کرکے اصل خیر آموجود ہوئے۔ اور لوگوں میں خیر مگر نوکری پیشہ تو شاذونادر کوئی گھر کے گھر موجود ورنہ جس کو سنو پردیس۔ لیکن پردیس سے آپس کے تعلقات تو نہیں چھوٹتے۔ ایک بار بڑے دن کی تعطیل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ذرا گورکھپور اور دلی کے فاصلے تو دیکھو اور باوجود یہ کہ گورکھپور سے دلی تک برابر ریل نہ تھی۔ آٹھ دن کی چھٹی میں آنے جانے کو اور پورے پانچ دن دہلی میں ٹہرنے کو۔ دیکھو بھلے کو انگریز کی عمل داری ہوگئی تھی کہ ہم نے یہ آرام بھی دیکھ ليے۔

خیر تو غرض یہ کہ چھٹی میں دلی آیا ہوا تھا کہ ایک بی بی اپنے میاں کے نام خط لکھوانے آئیں۔ بتاتی گئیں، میں لکھتا گیا۔ بہت سی باتیں ان کے منہ تک آتی تھیں مگر لحاظ کے مارے کہہ نہیں سکتی تھیں۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان کو سمجھایا کہ خدا نے تمہاری روزی اتاری پردیس میں، اور پردیس بھی مہینے دو مہینے کا نہیں بلکہ ساری عمر کا۔ اس سے تم آپ لکھنا کیوں نہیں سیکھ لیتیں؟ تو وہ بڑی حسرت کے ساتھ کہنے لگیں، بھلا کہیں اب میری عمر لکھنا سیکھنے کی ہے؟ بال بچوں کے بکھیڑے میں پندرہ پندرہ دن گزر جاتے ہیں کہ سردھونے کی نوبت نہیں آتی۔ بچپن میں قرآن پڑھا تھا خیر شکر ہے استانی جی کی برکت سے بھولا تو نہیں مگر مشکل سے گھڑیوں میں جاکر ایک مہینا بھی چھوڑدوں تو سارا قرآن سپاٹ ہوجائے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ جب تم کو قرآن یاد ہے تو لکھنا سیکھ لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ ہر روز تو تم پڑھ لیتی ہوگی۔ وہ بولیں، ہاں، کچھ یوں ہی سی اٹک اٹک کر اور اکثر لفظ رہ جاتے ہیں۔ مگر چھپا ہوا خاصی طرح سے نکال لیتی ہوں۔ میں نے کہا، بس تو تم کو استاد کی ضرورت بھی نہیں۔ نقل کرتے کرتے لکھنا آجائے گا۔ ان بیبی نے دل میں میری بات کو تسلیم تو کیا مگر کہنے لگیں، شرم سی آتی ہے۔ تب تو میں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا کہ دوسروں کے پاس حاجت لے جاتے ہوئے، دوسری کی خوشامد کرتے ہوئے، دوسروں پر چبا چبا کر اپنے حالات ظاہر کرتے ہوئے تم کو شرم نہیں آتی اور لکھنا سیکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کیا لکھنا کچھ عیب ہے یا گناہ ہے؟ میں نے سنا کہ اس کے بعد سے ان بی بی نے اپنا خط کسی سے نہیں لکھوایا اور پھر تو ان کو لکھنے کا ایسا شوق ہوا کہ جن بیبیوں کے مرد پردیس میں تھے خط لکھنے کو اب ان کے سر ہوتی تھی۔

لکھنے کو لوگوں نے ناحق بدنام کررکھا ہے کہ مشکل ہے، مشکل۔ کچھ بھی مشکل نہیں۔ لیکن فرض کرو کہ پڑھنے کی نسبت لکھنا کسی قدر مشکل ہے بھی تو ویسے ہی اس کے مصنفین بھی ہیں۔ جو شخص پڑھنا جانتا اور لکھنا نہیں جانتا، اس کی مثال اس گونگے کی سی ہے جو دوسروں کی سنتا اور اپنی نہیں کہہ سکتا۔ اگر کوئی شخص شروع شروع میں کسی کتاب سے زیادہ نہیں، ایک سطر، دو سطر روز نقل کرلیا کرے اور اسی قدر اپنے دل سے بنا کر لکھا کرے اور اصلاح لیا کرے اور نقل کرنے اور لکھنے سے جھینپے اور جھجکے نہیں تو ضرور چند مہینوں میں لکھنا سیکھ جائے گا۔ خوش خطی سے مطلب نہیں۔ لکھنا ایک ہنر ہے جو ضرورت کے وقت بہت کام آتا ہے۔ اگر غلط ہو یا حرف بدصورت اور نادرست لکھے جائیں تو بیدل ہوکر مشق کو موقوف مت کرو۔ کوئی کام ہو، ابتدا میں اچھا نہیں ہوا کرتا۔ اگر کسی بڑے عالم کو ایک ٹوپی کترنے اور سینے کو دو، جس کو کبھی اتفاق نہ ہوا ہو، وہ ضرور ٹوپی خراب کرے گا۔ چلنا پھرنا جو تم کو اب ایسا آسان ہے کہ بے تکلف دوڑی دوڑی پھرتی ہو، تم کو شائد یاد نہ رہا ہو کہ تم نے کس مشکل سے سیکھا۔ مگر تمہارے ماں باپ اور بزرگوں کو بخوبی یاد ہے کہ پہلے تم کو بے سہارے بیٹھنا نہیں آتا تھا۔ جب تم کو گود سے اتار کر نیچے بٹھاتے۔ ایک آدمی پکڑے رہتا یا تکیے کا سہارا لگا دیتے تھے۔ پھر تم نے گرپڑ کر گھٹنوں کے بل چلنا سیکھا، پھر کھڑا ہونا، لیکن چارپائی پکڑ کر۔ پھر جب تمہارے پاؤں مضبوط ہوگئے، رفتہ رفتہ چلنا آگیا۔ مگر صدہا مرتبہ تمہارے پاؤں میں چوٹ لگی اور ہر روز تم کو گرتے سنا۔ اب وہی تم ہو کہ خدا کے فضل سے ماشاءاللہ دوڑی دوڑی پھرتی ہو اسی طرح ایک دن لکھنا بھی آجائے گا۔ اور فرض کرو کہ تم کو لڑکوں کی طرح اچھا لکھنا نہ بھی آیا، تاہم بقدر ضرورت تو آجائے گا اور یہ مشکل تو نہ رہے گی کہ دھوبن کے کپڑوں کی دھلائی اور پیسنے والی کی پسائیوں کے واسطے دیوار پر لکیریں کھینچتی پھرو یا کنکر پتھر جوڑ کر رکھو۔ گھر کا حساب کتاب، لینا دینا، زبانی یاد رکھنا بہت مشکل ہے اور بعض مردوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو روپیہ پیسے گھر میں دیا کرتے ہیں، اس کا حساب پوچھا کرتے ہیں۔ اگر زبانی یاد نہیں ہے تو مرد کو شبہ ہوتا ہے کہ یہ روپیہ کہاں خرچ ہوا اور آپس میں ناحق کا رنج و فساد ہوتا ہے۔ اگر عورتیں اتنا لکھنا سیکھ بھی لیا کریں کہ اپنے سمجھنے کے واسطے کافی ہو تو کیسی اچھی بات ہے۔

لکھنے پڑھنے کے علاوہ سینا پرونا، کھانا پکانا یہ دونوں ہنر ہر ایک لڑکی کو سیکھنے ضرور ہیں۔ کسی آدمی کو حال معلوم نہیں ہے کہ آئندہ اس کو کیا اتفاق پیش آئے گا۔ بڑے امیر اور بڑے دولتمند یکایک غریب اور محتاج ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی ہنر ہاتھ میں پڑا ہوتا ہے ضرورت کے وقت کام آتا ہے۔ یہ ایک مشہور بات ہے کہ اگلے وقتوں کے بادشاہ باوجود دولت و ثروت کے، ضرور کوئی ہنر سیکھ رکھا کرتے تھے تا کہ مصیبت کے وقت کام آئے۔ یاد رکھو! دنیا میں کوئی حالت قابل اعتبار نہیں اگر تم کو اس وقت آرام و فراغت میسر ہے، خدا کو شکر کرو کہ اس نے اپنے مہربانی سے ہمارے گھر میں برکت اور فراغت دی ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تم اس آرام کی قدر نہ کیا کرو یا آئندہ کے واسطے اپنا اطمینان کرلو کہ یہی آرام ہم کو ہمیشہ کے واسطے حاصل رہے گا۔ آرام کے دنوں میں عادتوں کا درست رکھنا ضرور ہے۔ اگرچہ خدا نے تم کو نوکر چاکر بھی دئیے ہوں لیکن تم کو اپنی عادت نہیں بگاڑنی چاہئیے۔ شاید خدانخواستہ مقدور باقی نہ رہے تو یہ عادت بہت تکلیف دے گی۔ آپ اٹھ کر پانی نہ پینا یا چھوٹے چھوٹے کاموں میں نوکروں یا چھوٹے بھائی بہنوں کو تکلید دینا اور آپ احدی بن کر بیٹھے رہنا نامناسب اور عادت کے بگاڑنے کی نشان ہے۔ تم کو اپنا کام سب آپ کرنا چاہئیے۔ بلکہ اگر تم چست و چالاک رہو تو گھر کے بہت سے کام تم اٹھاسکتی ہو۔ اور اگر تم تھوڑی سی محنت بھی اختیار کرو تو اپنی ماں کو بہت کچھ مدد اور دلاسا لگا سکتی ہو۔ خوب غور کے کے اپنا کوئی کام ایسا مت چھوڑو جس کو ماں اپنے ہاتھوں کرے یا دوسروں کو اس واسطے بلاتی تکلیف دیتی پھرو۔ رات کو جب سونے لگو، اپنا بچھونا اپنے ہاتھ سے بچھالیا کرو اور صبح سویرے اٹھ کر آپ تہہ کرکے احتیاط سے مناسب جگہ رکھ دیا کرو، اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اپنے اہتمام رکھو، جب کپڑے بدلنے ہوں، اپنے ہاتھ سے پھٹا ادھڑا درست کرلیا کرو۔ میلے کپڑوں کی احتیاط کرو۔ جب تک دھوبن کپڑے لینے آئے، ان کو علیحدہ کھونٹی پر لٹکا رکھو۔ اگر کپڑے بدل کر میلے کپڑے اٹھا کر نہ رکھوگی تو شاید چوہے کاٹ ڈالیں یا پڑے پڑے زیادہ میلے ہوجائیں اور دھوبن ان کو خوب صاف نہ کرسکے۔ یا شاید زمین کی نمی اور پسینے کی تری سے ان میں دیمک لگ جائے۔ پھر دھوبن کو اپنے میلے کپڑے آپ دیکھ کر دیا کرو اور جب دھو کر لائے خود دیکھ لیا۔ شاید کوئی کپڑا کم لائی ہو یا کہیں سے پھاڑ دیا ہو یا کہیں پہ داغ باقی نہ رہ گئے ہوں۔ اس طرح جب تم اپنے کپڑوں کی خبر رکھو گی، تمہارے کپڑے خوب صاف دھلا کریں گے اور کوئی کپڑا گم نہ ہو گا۔ جو زیور تم پہنے رہتی ہو، بڑے داموں کی چیز ہے۔ شام کو سونے سے پہلے اور صبح کو جب سو کر اٹھو، خیال کرلیا کرو کہ سب ہیں یا نہیں۔ اکثر بے خبر لڑکیاں کھیل کود میں زیور گرادیتی ہیں اور کئی کئی دن کے بعد ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بالی گرگئی، چھلا نکل پڑا۔ کیا معلوم ذرا سی چیز کس کی نظر پڑگئی اور اس نے اٹھالی یا کہیں مٹی میں دب دبا گئی۔ تب وہ غافل لڑکیاں زیور کے واسطے افسوس کرکے روتی اور تمام گھر گو جستجو میں حیران کر مارتی ہیں۔ اور جب ماں باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکی زیور کو احتیاط سے نہیں رکھتی اور کھو دیتی ہے تو وہ دریغ کرنے لگتے ہیں۔

تم کو ہمیشہ یہ خیال کرنا چاہئیے کہ گھر کے کاموں میں سے کون سا کام تمہارے کرنے کا ہے، بے شک چھوٹے بھائی بہن اگر روتے اور ضد کرتے ہیں تو تم ان کو سنبھال سکتی ہو تاکہ ماں باپ کو تکلیف نہ دیں۔ منہ دھلانا، ان کے کھانے اور پانی کی خبر رکھنا، کپڑا پہنانا، یہ سب کام اگر تم چاہو تو کرسکتی ہو۔ لیکن اگر تم اپنے بھائی بہنو سے لڑو اور ضد کرو تو تم خود اپنا وقار کھوتی اور ماں کو تکلیف دیتی ہو۔ وہ گھر کا کام دیکھے یا تمہارے مقدمے کا فیصلہ کیا کرے۔ گھر میں جو کھانا پکتا ہے، اس کو اس غرض سے نہیں دیکھنا چاہئیے کہ کب پک چکے گا اور کب ملے گا۔ گھر میں جو کتا اور بلی یا دوسرے جانور پلے ہیں، وہ اگر پیٹ بھرنے کی امید سے کھانے کے منتظر رہیں تو مضائقہ نہیں۔ لیکن تم کو غور کرنا چاہئیے کہ سالن کس طرح بھونا جاتا ہے، نمک کس انداز میں ڈالتے ہیں۔ اگر ہر ایک کھانے کو غور سے دیکھا کرو تو یقین ہے چند روز میں تم پکانا سیکھ جاؤ گی اور تم کو ہنر آجائے گا جو دنیا کے تمام ہنروں میں سے زیادہ ضرورت کی چیز ہے۔ معمولی کھانوں کے علاوہ تکلف کے چند کھانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کباب، پلاؤ، میٹھے چاول، زردہ، متنجن، چٹنی، مربہ، فرنی سب مزے دار کھانے ہیں۔ ہر ایک کی ترکیب یاد رکھنی چاہئیے۔ بعض کھانے تکلف کے تو نہیں ہوتے لیکن ان کا مزےدار پکانا تعریف کی بات ہے۔ جیسے مچھلی، کریلے۔ سینا تو چنداں دشوار نہیں، قطع کرنا خاص طور پر ضرور سمجھ لینا چاہيے۔ ہم نے اکثر بےوقوف عورتوں کو دیکھا ہے کہ اپنے کپڑے دوسری عورتوں کے پاس قطع کرانے کے لیے پھرا کرتی ہیں اور ان کو تھوڑی سی بات کے لیے خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ مردانے کپڑوں میں انگرکھا کسی قدر مشکل ہے۔ تم اپنے بھائیوں کے انگرکھے قطع کیا کرو۔ دو چار انگرکھے قطع کرنے سے سمجھ میں آجائے گا۔
 

نعمان

محفلین
قصے کا آغاز اور جن لوگوں کا اس قصے میں بیان ہے، ان کے مختصر حالات

اب تم کو ایک مزے کا قصہ سناتے ہیں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ جہالت اور بےہنری سے کیا کیا تکلیفیں پہنچتی ہیں۔

دلی میں اندیش خانیوں کا ایک بڑا مشہور خاندان ہے مدت سے اس خاندان کے مردوں کے نام اندیش خاں پر چلے آتے ہیں جیسے دوراندیش خاں، مآل اندیش خاں، خیراندیش خاں وغیرہ۔

اس سے یہ لوگ اندش خانی کہلائے۔ ان لوگوں کا اتنا بڑا خاندان تھا کہ شہر میں شریفوں کا کوئی محلہ نہ ہوگا جس میں دو چار گھر اندیش خانیوں کے ہوں۔ یہ لوگ سب کے سب نوکری پیشہ اور اکثر ہندوستانی سرکاروں میں ممتاز خدمتوں پر مامور تھے۔

دوراندیش خاں جن کے خانگی حالات سے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے پنجاب کے پہاڑی اضلاع کی طرف سے تحصیل دار تھے۔ نوکری اور تنخواہ تو کچھ ایسی بہت بڑی نہ مگر آدمی لائق، دیانت دار اور کارگزار کہ اتنی صفتیں نوکروں میں کم ہوتی ہیں۔ اس سے انگریزوں میں اچھی آبرو پیدا کی تھی۔ ہم سے اور دوراندیش خاں صاحب سے جب اول اول ملاقات ہوئی کہ اس کو بھی اب چار سوا چار برس ہونے آئے تو ان کی عمر ایسی کوئی چوالیس پینتالیس برس کے قریب رہی ہوگی۔ بہت ہی خوش رو آدمی تھے۔ کشیدہ قامت، بدن کے اکہرے، جامہ زیب، داڑھی کھچڑی ہوچلی تھی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ دادا اور نانا ہوگے تو عجب نہیں مگر ایسی بہت اولاد بھی نہ تھی، صرف دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ یہ چاروں بچے گنگا جمنی طور پر پیدا ہوئے یعنی، سب سے بڑی پہلونٹی کی اکبری، اس کے اوپر خیر اندیش، اوپر اصغری، اصغری کے بعد سب سے چھوٹا مآل اندیش، ایک دن کچھ یوں ہی مذکور آگیا کہ اولاد کم ہے تو بولے کہ خدا اصغری کی عمر میں برکت دے اور اس کو صاحب نصیب کرے اور انشاءاللہ ہوگی۔ مجھے تو بیٹا بیٹی کسی کی تمنا باقی نہیں۔

دور اندیش خان بیس برس پورے ہوکر اکیسویں میں لگے تھے کہ ان کا بیاہ اور اکبری پیدا ہوئی بیاہ کے کہیں دس ساڑھے دس برس بعد۔ ہم سمجھتے کہ زیادہ تر اس انتظار کے سبب اور کسی قدر پہلونٹی کی ہونے کی وجہ سے بھی اکبری کے ساتھ ایسے چونچلے برتے گئے کہ انہوں نے اکبری کے مزاج پر بہت ہی اثر کیا۔ نہ تو اس نے کچھ لکھا پڑھا، نہ کوئی ہنر سیکھا نہ عقل حاصل کی اور نہ اپنی عادتوں کو سنوارا۔ بس اکبری میں سوائے اس کے کہ وہ ایک شریف خاندان کی بیٹی تھی، تعریف کی کوئی بات ہی نہ تھی۔ پیدا ہونے کے ساتھ اس کو نانی نے اپنی بیٹی بنایا اور اس قدر اس کی نازبرداری کی کہ اس کے رونے اور مچلنے کے ڈر سے وہ بے چاری کسی کی شادی بیاہ میں شریک نہیں ہوسکتی تھی۔ اکبری ماں کو آپا اور باپ کو بھائی کہتی تھی۔ اور کہتی کیا تھی اس طرح پر اس کو سمجھایا اور سکھایا گیا تھا۔ وہ بات بات پر ماں باپ سے ردوکد رکھتی کہ گویا، دونوں اوپر تلے کی بہنیں ہیں۔ ماں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے دیکھ ڈانٹے اور دھمکانے کا کیا مذکور، نانی الٹی اس کی حمایت لیتیں اور بگڑ بگڑ کر بیٹی سے کہتیں۔ " پھر بھائی، بچے کی بات کا برا کیوں مانو۔"

دوراندیش خاں جہاں نوکر ہوتے اکثر بی بی بچوں کو اپنے پاس بلا بھی لیا کرتے تھے۔ جب کبھی ایسا اتفاق ہوا نانی نے اکبری کو کسی نہ کسی بہانے سے روک لیا اور جب سے پیدا ہوئی بیاہ کی گھڑی تک، ایک لمحے کے لیے اپنے سے جدا نہ کیا اور یوں اکبری نانی کے احمقانہ لاڈ کی وجہ سے ماں اور باپ دونوں کی تنبیہہ سے مطلقا آزاد ہی رہی اور بے سری اٹھی۔ اصغری کا حال اس کے خلاف تھا۔ سارے چونچلے اور ارمان تو اکبری پر ختم ہوچکے تھے یہ اپنی خوش نصیبی سے اپنے ماں باپ کے یہاں تیسری جگہ تھی۔ اس نے پرورش پائی بڑوں کی نگرانی میں۔ بزرگوں کی روک ٹوک میں اس نے چھوٹی سی عمر میں قرآن مجید کا ترجمہ اور مسائل کی اردو کتابیں پڑھ لی تھیں۔ لکھنے میں بھی عاجز نہ تھی اگر ماں دلی میں ہوتی اور باپ باہر نوکری پر تو جب تک دلی میں رہتی گھر کا حال باپ کو ہر ہفتے کے ہفتے لکھ بھیجا کرتی۔ ہر ایک طرح کا کپڑا سی سکتی تھی اور انواع و اقسام کے مزے دار کھانے پکانا جانتی تھی۔ تمام محلے میں اصغری خانم کی تعریف تھی۔ ماں کے گھر کا تمام بندوبست اصغری خانم کے ہاتھوں میں تھا۔ جب کبھی باپ رخصت لے کر گھر آتا، خانہ داری کے انتظام میں اصغری سے صلاح پوچھتا۔ روپیہ پیسہ کوٹھڑیوں اور صندوقوں کی کنجیاں سب کچھ اصغری کے اختیار میں رہا کرتا تھا۔ اصغری کی نیک نیتی اور سلیقہ مندی دیکھ کر ماں باپ دونوں دل و جان سے اصغری کو چاہتے بلکہ محلے کے سب لوگ اس کو پیار کرتے تھے۔ مگر اکبری خودبخود اپنی چھوٹی بہن سے ناراض رہا کرتی بلکہ اکیلا پاکر مار بھی لیا کرتی تھی لیکن اصغری ہمیشہ آپا کا ادب کرتی اور کبھی ماں سے اس کی چغلی نہ کھاتی۔ دونوں بہنوں کی منگنی اتفاق سے ایک ہی گھر میں ہوئی۔ محمد عاقل اور محمد کامل دو حقیقی بھائی تھے۔ اکبری کا بیاہ بڑے محمد عاقل سے ہوا تھا اور اصغری کی بات محمد کامل کے ساتھ ٹھہر چکی تھی مگر بیاہ نہیں ہوا تھا۔
 

نعمان

محفلین
اکبری کی بدمزاجی اور اس کا سسرال سے روٹھ کر چلا آنا

کنبے کے لوگوں میں اکبری کی بدمزاجی، بے ہنری اور شرارتوں کی اس قدر شہرت تھی کہ جہاں کہیں اس کی منگنی کا پیغام جاتا کوئی حامی نہیں بھرتا تھا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ نہ سان نہ گمان ایک دم سے مردوں ہی مردوں میں ایک ساتھ دونوں بہنوں کی بات ٹہر گئی۔ حسن اتفاق سے دوراندیش خاں اور مولوی محمد فاضل میں پرانی راہ و رسم تھی۔ دونوں نے ایک استاد سے پڑھا بھی تھا۔ ایک مرتبہ دور اندیش خاں رخصت لے کر دلی میں آرہے تھے۔ راہ میں مل گئے محمد فاضل۔ انہوں نے بہ اصرار ان کو اپنے پاس ٹہرایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اندیش خاں نے اپنی دونوں بیٹیاں مولوی صاحب کو دینی منظور کرلیں۔ جب کنبے والوں کو معلوم ہوا تو کسی نے محمد عاقل کی ماں سے کہا بھی کہ سمدھیانے کا کیا پوچھنا مگر بڑی لڑکی کو لوگ مزاج کی بہت تیز بتاتے ہیں۔ محمد عاقل کی ماں اس طرح کی نیک عورت تھی کہ ہر چند اکبری کے حالات سنے سنائے سب کو معلوم تھے تاہم اس نے یہی جواب دیا کہ استخوان اچھی چاہئیے۔ خدا رکھے امیر گھر کی بیٹی ہے۔ بڑی پھڑک کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ نانی کو تھا ارمان اور ارمان کی جگہ تھی۔ انہوں نے کسی بات میں بچی کے دل کو میلا ہونے نہیں دیا۔ لاڈ پیار میں آکر کچھ ضد کرنے لگی ہوگی، سو بچے اپنی اپنی جگہ ضد بھی کیا کرتے ہیں۔ بیاہ کی دیر ہے، آپ ہی ٹھیک ہوجائے گی۔

مگر یہ صرف بڑی بی کا خیال تھا۔ اکبری بیاہ ہونے سے درست تو کیا ہوتی، اس نے چوتھے پانچویں ہی مہینے میاں سے تقاضا کرنا شروع کیا کہ ہم سے تمہاری ماں کے ساتھ نہیں رہا جاتا، ہم یا تو رہیں گے اپنے میکے میں یا اگر ایسی ہی زبردستی ہے تو کسی دوسرے محلے میں چل رہو۔ ہم سے یہ دن رات کی کل کل نہیں سہی جاتی۔ محمد عاقل ہکا بکا سا ہو کر منہ دیکھنے لگا اور بولا۔ "آخر کچھ بات بھی ہے؟ مجھ سے تو آج تک اماں جان نے تمہاری کوئی شکایت نہیں کی۔"

اکبری:لو اور سنو۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! وہ میری شکایت کیا کرتیں؟ شکایت کرتا ہے کمزور۔ شکایت کرتا ہے وہ جس کا کوئی بس نہیں چلتا۔ شکایت کرتا ہے مظلوم۔

محمد عاقل: خدانخواستہ تم پر کسی نے کیا ظلم کیا؟ کچھ بتاؤگی بھی؟

اکبری: ایک ہو تو بتاؤ سارے دن ان کو میرا پیٹنا ہے۔

محمد عاقل: تم نے کچھ معلوم بھی کیا کہ کیا چاہتی ہیں؟

اکبری: چاپتی کیا ہیں؟ میرے پاس کسی کے آنے اور بیٹھنے تک کی روادار نہیں۔ تیوری تو ان کی میں جانتی ہوں، خدا نے چڑھی ہوئی بنائی ہے۔ مگر آج تو انہوں نے چنیا اور زلفن اور رحمت اور سلمتی منہ در منہ سب کی فضیحتی کی۔

محمد عاقل: تم کو ان لڑکیوں کا کچھ حال بھی معلوم ہے؟ چنیا تو بھٹیاری ہے، زلفی بخشو قلعی گر کی کوئی ہے، رحمت سقنی ہے اور اس کالی کلوٹی سلمتی کو میں نے اکثر مولن کنجڑے کی دکان پر دیکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ضرور اس کی بیٹی ہوگی۔ مولن سے اس کا نقشہ بھی ملتا ہوا ہے۔ بھلا پھر یہ لوگ اس قابل ہیں کہ تم ان کو اپنی سہیلیاں بناؤ؟ محلے کے بھلے آدمی سنیں گے تو کیا کہیں گے؟ غریب ہونا کچھ عیب کی بات نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کی عادتیں اچھی نہیں ہوتیں، اس خیال سے والدہ نے ان لڑکیوں کے آنے کی ممانعت کی ہوگی، سو یہ تو کوئی برا ماننے کی بات نہیں۔

اکبری: بس تم ماں بیٹوں کی مرضی تو مجھے قید میں ڈالنے کی ہے۔ سارے دن اکیلے چپ بیٹھے بیٹھے آدمی کا دم گھٹ جائے نوج!

محمد عاقل: اکیلی کیوں بیٹھو، گلی کی گلی میں قاضی امام علی، حکیم شفاءالدولہ، منشی ممتاز احمد، مولوی روح اللہ، میر حسن رضائی، آغائی صاحب وغیرہ کوڑیوں سے اشراف بھرے پڑے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بہو بیٹیوں سے ملو چشم ما روشن، دل ما شاد۔

اکبری: ان سے ملے میری جوتی۔ ان سے ملے میری بلا۔ تم بھی وہی ہماری اماں جیسی دہائی لائے۔ وہ بھی بہت میرے پیچھے پڑا کرتی تھیں منہیاری کی بیٹی بنو سے نہ مل۔ وہ بنی ہوئی تھی میری سہیلی بھلا اس سے کیسے نہ ملتی؟ اماں کی ضد میں، میں نے بنو کے ساتھ ایک چھوڑ دو گڑیوں کے بیاہ کیے اور اماں سے چرا چرا کر اناج اور پیسے اور کپڑے اور کوڑیاں اتنی چیزیں بنو کو دیں کہ اماں بھی زچ ہوگئیں۔ نانی اماں کی ڈر کے مارے مارتیں تو کیا، بہتیرا کوستی تھیں، برا بھلا کہتی تھیں مگر ہم نے بنو سے ملنا نہ چھوڑا۔

محمد عاقل نے کہا "تم نے بہت جھک مارا۔"

یہ سن کر وہ احمق عورت بولی "دیکھو خدا کی قسم! میں نے کہہ دیا کہ مجھ سے زبان سنبھال کر بولا کرو۔ نہیں تو پیٹ پیٹ کر اپنا خون کرڈالوں گی۔"

یہ کہہ کر وہ رونے لگی اور اپنے ماں باپ کو کوسنا شروع کیا: الٰہی! اس اماں باوا کا برا ہو، کیسی کم بختی میں مجھ کو دھکیل دیا ہے۔ مجھ کو اکیلا پاکر سب نے ستانا شروع کیا ہے۔ الٰہی میں مرجاؤں، میرا جنازہ نکلے اور غصے کے مارے پان کھانے کی پٹاری جو چارپائی پر رکھی تھی لات مار کر گرادی۔ تمام کتھا چونا توشک پر گرا۔ اونی دریس کا لحاف پائنتی تہہ کیا ہوا رکھا تھا چونے کے لگتے ہی اس کا تمام رنگ کٹ گیا۔ پٹاری گرنے کے غل سن کر سامنے کے دالان سے ساس دوڑی آئیں۔ ماں کو آتے دیکھ کر بیٹا تو دوسرے دروازے سے چل دیا لیکن اپنے دل میں کہتا تھا، ناحق میں نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑا۔ ساس نے آکر دیکھا تو چار پیسے کا کتھا جو کل چھان پکا کر کلہیا میں بھردیاتھا سب گرپڑا ہے۔ توشک کتھے میں لت پت ہے آتے ہی ساس نے بہو کو گلے سے لگالیا اور اپنے بیٹے کو ناحق بہت کچھ برا بھلا کہا۔ اتنی دل جوئی کا سہارا اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا۔ ہر چند ساس نے منت کی اور سمجھایا، اس مکار عورت پر مطلق اثر نہ ہوا۔ ہمسائے کی عورتیں رون پیٹنے کی آواز سن کر جمع ہوگئیں۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ بخوشو قلعی گر کی بیٹی زلفن سمدھیانے دوڑ گئی اور ایک ایک کی چار چار لگائییں۔ نانی کی بے تدبیریوں نے تو اکبری کو غارت ہی کیا تھا نہ اچھی طرح پوچھا نہ گچھا، سنتے کے ساتھ ڈولی پر چڑھ آپہنچیں، بہت کچھ لڑیں جھگڑیں، آخر اکبری کو اپنے ساتھ لے گئیں۔
 

نعمان

محفلین
چوتھا باب: اکبری کی شرارتیں، پھوہڑ پن، حمق اور بدمزاجیاں اس کا پھر عین عید کے دن بے لطفی سے چلا جانا، ضمنا اصغری کی مدح

اکبری گئی تو ایسی بے طوری تھی کہ شاید اس کو برسوں سسرال کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ مگر اتفاق سے اس کی سگی خالہ محمد عاقل کے گھر کے قریب رہتی تھیں۔ اگر یہ نیک بخت تتوتھنبو نہ کرتیں تو سسرال میں اکبری کی ایک دن بھی گزر نہ ہوتی۔ اکبری کا چلاجانا سن کر خالہ نہ بہت افسوس کیا کہ اگر مجھ کو وقت پر ذرا بھی لڑائی کی خبر ہوتی تو اکبری کی ایسی کیا مجال تھی کہ چلی جاتی۔ میں تو اس کو ڈولی میں سے گھسیٹ لیتی۔ انہوں نے یہ خیال کیا تھا کہ اکبری تو نری احمق ہے۔ رہیں نانی، ان کو خدا نے بیٹھے بٹھائے نواسی کا عشق لگادیا ہے۔ مگر ہاں آپا (اکبری کی ماں) بیٹی کو بٹھانے والی نہیں۔ جب دیکھا کہ بہت دن ہوگئے اور جانبین سے سلام و پیام تک متروک ہے تو بھانجی کی مامتا کی ماری خود گئیں اور ماں اور نانی دونوں کے سامنے اکبری کو بہت کچھ لعنت ملامت کی، سمجھایا، دھمکایا، ڈرایا اور اپنی ماں سے کہا کہ تمہاری باؤلی محبت اس کی ضرور گھر سے اجاڑ کر رہے گی۔ بارے رمضان کی تقریب سے زبردستی بھانجی کو سسرال لولائیں کہ سمدھن اکیلی ہیں اوپر سے آرہا ہے رمضان۔ غصے کو تھوک ڈالو اور چل کر ساس کا ہاتھ بٹاؤ۔ اب تم بچی نہیں رہیں تمہاری عمر بال بچہ ہونے کی ہے۔ بھاری بھر کم بنو اور گھر کو گھر سمجھو۔ لڑو یا جھگڑو تم اپنی عمر اسی گھر میں بسر کرنی ہے۔

چند روز تک محمد عاقل مزاج دار بہو سے ناخوش رہا۔ آخر کو خلیا ساس نے میاں بی بی کا ملاپ کرادیا لیکن مزاجوں جب ناموافقت ہوتی ہے تو ہر ایک بات میں بگاڑ کا سامان موجود ہوتا ہے محمد عاقل نے ایک دن اپنی ماں سے کہا کہ آج میں نے دوست کی دعوت کی ہے افطاری اور کھانے کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔ ماں نے جواب دیا "تین دن سے افطار کے وقت مجھ کو لرزہ چڑھتا ہے۔ مجھ کو اپنی خبر تک نہیں رہتی۔ خدا ہمسائی کا بھلا کرے کہ وہ بےچاری آ کر پکا جاتی ہے۔ تم نے دعوت سے پہلے گھر میں پوچھ تو لیا ہوتا۔"

محمد عاقل نے بی بی کی طرف اشارہ کرکے کہا "یہ کیا اتنے کام کی بھی نہیں ہیں؟" بہو کو اتنا ضبط کہاں تھا کہ اتنی بات سن کر چپ رہے۔ سنتے ہی بولی "اپنی ماں سے پوچھو کہ بیٹے کا بیاہ کیا ہے یا لونڈی مول لی ہے؟ لو صاحب، روزے میں چولہا جھونکنا!"

محمد عاقل نے سوچا، اب اگر میں ردوکد کرتا ہوں تو پہلے کی طرح رسوائی ہوگی۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور افطار کے واسطے بازار سے کچھ مول لے آیا۔ غرض بات ٹل گئی۔

اب محمد عاقل کو دوسری آفت پیش آئی۔ عید سے بے چارے نے ایک ہفتہ آگے مزاج دار بہو صاحب کے جوڑے کی تیاری شروع کی۔ ہر روز طرح طرح کے کپڑے رنگ برنگ کی چوڑیا، ڈیڑھ حاشیہ اور سلمہ ستارے کی کامدار جوتیاں لاتا۔ مزاج دار کی خاطر تلے کچھ نہیں آتا اور پھر کم بخت اپنے منہ سے پھوٹتی بھی نہ تھی کہ ایسی چیز لادو۔ یہاں تک کہ عید کا ایک دن باقی رہ گیا۔ مجبور ہوکر اکبری خانم کی خالہ کے پاس گیا۔ انہوں نے آواز سن کر اندر بلایا۔ بلائیں لیں، پیار سے بٹھایا اور پوچھا "کہو اکبری خانم تو اچھی ہے؟"

محمد عاقل نے کہا "صاحب آپکی بھانجی تو عجیب مزاج کی عورت ہیں۔ میرا تو دم ناک میں آگیا۔ جو ادا ہے سو نرالی اور جو بات ہے سو ٹیڑھی۔"

خلیا ساس نے کہا "بیٹا اس کا کچھ خیال مت کرو۔ ابھی کم عمر ہے بال بچے ہوں گے، گھر کا بوجھ پڑے گا مزاج خودبخود درست ہوجائے گا اور آخر اچھے لوگ بروں سے بھی نباہ دیتے ہیں۔ بیٹا تم کو خدا نے سب لائق کیا ہے، ایسی بات نہ ہو کہ لوگ ہنسیں، آخر تمہاری ناموس ہے۔"

محمد عاقل نے کہا "جناب میں تو خود اسی خیال سے درگزر کرتا رہتا ہوں۔ اب دیکھیے کل عید ہے۔ اس وقت تک نہ چوڑیاں پہنی ہیں نہ کپڑے بنائے ہیں۔ ذرا آپ چل کر سمجھادیجئیے۔ میں نے بہت کچھ کہا، اماں نے بہت کچھ منتیں کیں، نہیں مانتیں۔"

خلیا ساس نے کہا اچھا تمہارے خالو ابا نماز پڑھنے مسجد میں گئے ہیں، آلیں تو ان سے پوچھ کر چلتی ہوں۔"

غرض خالہ اماں نے جاکر چوڑیاں پہنچائیں، کپڑے قطع کیے، جلدی کے واسطے سب مل کر سینے بیٹھیں۔ خالہ نے کہا "بیٹی پاجامے میں کلیا تم لگاؤ، گوٹ تمہاری ساس کتریں، میں تمہارے دوپٹے میں توئی ٹانگتی ہوں۔"

جب اکبری کلیا لگا چکی تو اس نے اترا کر خالہ سے کہا "لو بھئی تمہارے ابھی دو پلے باقی ہیں اور میں دونوں پائنچوں میں کلیاں لگابھی چکی۔"

خالہ نے دیکھا تو سب کلیاں الٹی اکبری کی ساس کے لحاظ سے منہ پر تو کچھ نہ کہا لیکن چپکے چپکے دو چار چٹکیاں ایسی لیں کہ اکبری کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اشارے سے کہا دیدوں پھوٹی، سوجھ تو۔ الٹی کلیاں لگا کر بیٹھی ہے۔ اکبری نے اپنا سیا ہوا سب ادھیڑا اور پھر کلیاں لگانا شروع کیں۔ جب لگا چکی تو خالہ نے پھر دیکھا تو سب میں جھول۔ اب تو خالہ سے نہ رہا گیا اور اکبری کی ساس کی آنکھ بچا کر ایک سوئی اکبری کے ہاتھ میں چبھودی اور کلیاں پھر ادھیڑ کر آپ لگائیں۔ غرض خدا خدا کرکے مزاج دار بہو کا جوڑا سل کر تیار ہوا۔ اکبری کی خالہ اپنے گھر کو رخصت ہوئیں۔
 

نعمان

محفلین
اگلے دن بچے عید کی خوشی میں سویرے سے جاگے کسی نے رات کی مہندی گھولی۔ کسی نے کھلی اور بیسن کے لیے غل مچایا۔ کسی نے اٹھتے کے ساتھ ہی عیدی مانگنی شروع کی، محمد عاقل بھی نماز صبح سے فارغ ہوکر حمام میں غسل کرنے چلاگیا۔ نہادھو کر چارگھڑی دن چڑھے واپس آیا۔ لڑکوں کو دیکھا کہ کپڑے بدل بدلا عید کے واسطے تیار بیٹھے ہیں لیکن مزاج دار بہو صاحب حسب عادت پڑی سورہی ہیں۔ محمد عاقل نے اپنی چھوٹی بہن محمودہ سے کہا "محمودہ اپنی بھابی کو جگادو۔"

پہلے تو محمودہ نے تامل کیا، اس واسطے کہ یہ مزاج دار بہو سے بہت ڈرتی تھی۔ جب سے بیا ہوا مزاج دار بہو نے ایک دن بھی اپنی چھوٹی نند کے ساتھ محبت سے بات نہیں کی تھی اور نہ کبھی اس کو اپنے پاس آنے اور بیٹھنے دیا تھا۔ لیکن بھائی کے کہنے سے عید کی خوشی میں محمودہ دوڑی چلی گئی اور کہا "بھابی اٹھو" بھابی نے اٹھنے کے ساتھ محمودہ کے ایک طمانچے رسید کیا۔ محمودہ رونے لگی۔ باہر سے بھائی آواز سن کر دوڑا اس جو روتا دیکھ کر گود میں اٹھالیا اور پوچھا "کیا ہوا؟"
محمودہ نے روتے روتے کہا "بھابی جان نے مارا۔"

مزاج دار بہو نے کہا "دیکھو جھوٹی نامراد۔ آپ تو دوڑتے ہیں گری اور میرا نام لگاتی ہے۔"

محمد عاقل کو غصہ تو بہت آیا لیکن مصلحت وقت سمجھ کر ضبط کیا۔ محمودہ کو پیار سے چمکار کر چپ کیا اور بی بی سے کہا "خیر اٹھو۔ نہاؤ، کپڑے بدلو۔ دن چڑھ گیا ہے۔ میں عیدگاہ جاتا ہوں۔"

مزاج دار بہو نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔ "میں ایسے سویرے نہیں نہاتی۔ سردی کا وقت ہے تم اپنی عیدگاہ جاؤ میں نے کیا پلا پکڑ رکھا ہے۔"

محمد عاقل کو ایسی روکھی بات سن کر بہت افسوس ہوا اور مزاج دار سدا کی ایسی کم بخت کی ہمیشہ اپنے میاں کو ناخوش رکھتی تھی۔ اتنے میں محمد عاقل کی ماں نے پکارا بیٹا جاؤ، بازار سے دودھ لاؤ تو خیر سے عیدگاہ سدھارو۔

محمد عاقل نے کہا "بہت خوب۔ پیسے دیجئیے۔ میں دودھ لائے دیتا ہوں۔ لیکن اگر میرے واپس آنے تک انہوں نے کپڑے نہ بدلے تو سب کپڑے چولہے میں رکھ دوں گا۔"

محمد عاقل تو دودھ لینے بازار گیا، ماں کو معلوم تھا کہ لڑکے کا مزاج بہت برہم ہے اور طبیعت بھی اسی طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اول تو اس کو غصہ نہیں آتا اور جو کبھی آتا ہے تو اس کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔ ایسا نہ ہو سچ مچ نئے کپڑے جلادے۔ جلدی سے بہو کے پاس آئیں اور کہا۔

"بیٹی خدا کے لیے برس کے برس دن تو بدشگونی مت کرو۔ اٹھو، نہاؤ، کپڑے بدلو۔"
مزاج دار نے کہا "نہیں بی، میں تو اس وقت نہیں نہاتی۔ ٹھہر کر نہالوں گی۔"

بارے ساس نے منت سماجت کرکے بہو کو نہلا دھلا کر کنگھی چوٹی کر، کپڑے پہنا محمد عاقل کے آنے سے پہلے دلہن بنا کر بٹھادیا۔ محمد عاقل یہ دیکھ کر خوش ہوا۔ عیدگاہ چلتے ہوئے محمودہ سے پوچھا "کہو بی تمہارے لیے بازار سے کون سا کھلونا لائیں؟"

محمودہ نے کہا "اچھی خوبصورت سی رحل لادینا۔ اس پر ہم سی پارہ رکھیں گے اور قلم دوات رکھنے کے لئیے ایک ننھی سی صندوقچی۔"

مزاج دار خودبخود بولی "اور ہمارے لیے؟"

محمد عاقل نے کہا "جو تم فرمائش کرو، لیتا آؤں۔"

مزاج دار نے کہا "بھٹے اور سنگھاڑے اور جھڑبیری کے بیر اور مٹر کی پھلیاں اور ڈھیر ساری نارنگیاں ایک ڈفلی، ایک خنجری۔"

یہ سن کر محمد عاقل ہنسنے لگا اور کہا "ڈفلی اور خنجری کا کیا کروگی؟"

مزاج دار احمق نے جواب دیا "بجائیں گے اور کیا کریں گے؟"

محمد عاقل سمجھا کہ ابھی تک اس بےوقوف میں بے تمیز بچوں کی طرح کھانے اور کھیلنے کے پست خیالات موجود ہیں۔ کپڑے بدلنے سے جو خوشی محمد عاقل کو ہوئی تھی، سب خاک میں مل گئی اور اسی افسردہ دلی کی حالت میں عیدگاہ چلاگیا۔

اس کا جانا تھا کہ مزاج دار نے ایک اور نئی بات کی۔ ساس سے کہا "ہم کو ڈولی منگادو۔ ہم اپنی ماں کے گھر جائیں گے۔"

ساس نے کہا "بھلا یہ جانے کا کیا موقع ہے؟ چار مہنے کے بعد تو تم ماں کے گھر سے اب آئی ہو۔ عین عید کے دن جانا، بالکل نامناسب ہے۔"

مزاج دار نے کہا "میرا جی بہت گھبراتا ہے۔ دل الٹا چلا آتا ہے۔ مجھ کو اپنے میکے کی سہیلی باسو منہیار کی بیٹی بنو بہت یاد آتی ہے۔"

ساس نے کہا "بیٹی نوج! کسی کو کسی سے ایسا عشق ہو جیسا کہ بنو کا ہے۔ اگر ایسا ہی دل چاہتا ہے تو اسی کو بلا بھیجو۔"

مزاج دار نے کہا "واہ بڑی بے چاری بلانے والی۔ ایسا ہی بلانا تھا تو کل اس کو بلوا کر چوڑیاں پہنوائی ہوتیں۔"

ساس نے کہا "بیٹی مجھ کو کیا معلوم تھا کی یکایک تم کو اس کی یاد گدگدائے گی۔"

مزاج دار نے کہا "خیر بی بحث سے کیا فائدہ؟ ڈولی منگوانی ہے تو منگوادو، نہیں تو میں بوا سلمتی کے ابا سے منگوا بھیجوں۔"

ساس نے کہا "لڑکی تیری کوئی عقل ماری گئی ہے؟ میاں سے پوچھا نہیں، گچھا نہیں، آپ ہی آپ چلیں۔ اور مجھ کو تو اپنا بڈھا چونڈا نہیں منڈوانا ہے جو لڑکے کے بے اجازت ڈولی منگوادوں۔"

مزاج دار نے کہا "کیسا میاں اور کیسا پوچھنا؟ آپ اب کوئی اپنے ماں باپ سے عید بقر عید کو بھی نہ ملا کرے؟" اتنا کہہ کر مولن کنجڑے سے ڈولی منگوائی، یہ جا وہ جا۔
 

نعمان

محفلین
تھوڑی دیر بعد محمد عاقل عیدگاہ سے لوٹا اور گھر گھستے ہی پکارا "لوبی اپنی خنجری اور ڈفلی، لو بجاؤ۔"

دیکھا تو سب چپ ہیں۔ ماں سے پوچھا "کیا ہوا؟ خیر تو ہے؟"

محمودہ نے کہا "بھابی جان چلی گئیں۔"

محمد عاقل نے حیران ہوکر پوچھا "ایں، کیوں کر گئیں؟ کہاں گئیں؟ کیوں جانے دیا؟"

ماں نے جواب دیا "بیٹھے بٹھائے یکا یک کہنے لگیں، میں تو اپنی اماں کے ہاں جاؤں گی۔ میں نے ہر چند منع کیا، ایک نہ مانی۔ مولن سے ڈولی منگوا چلی گئیں۔ میں روکتی رہ گئی۔"

محمد عاقل یہ سن کر غصے کے مارے تھرا اٹھا اور چاہا کہ سسرال جاکر اس نابکار عورت کو سزا دے۔ یہ سوچ کر باہر نکلا۔ ماں سمجھ گئی۔ جاتے کو پکارا۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ ماں نے کہا "شاباش! بیٹا شاباش! میں تم کو پکار رہی ہوں اور تم سنتے ہو، جواب نہیں دیتے۔ تیرھویں صدی میں ماؤں کا یہی وقر رہ گیا ہے؟" یہ سنتے ہی محمد عاقل الٹے پاؤں پھرا۔ ماں نے کہا "بیٹا یہ تو بتا، اس دھوپ میں کہاں جاتا ہے۔ ابھی عیدگاہ سے آیا ہے۔ اب پھر باہر چلا۔ ماں صدقے گئی، جی زندہ ہوجائے گا۔"

محمد عاقل نے کہا "بی میں کہیں نہیں جاتا۔ مسجد میں حافظ جی سے ملنے جاتا ہوں۔"

ماں نے کہا "لڑکے ہوش میں آ۔ میں نے دھوپ میں اپنا چونڈا سفید نہیں کیا۔ لو صاحب، ہمیں سے باتیں بنانے چلا ہے! حافظ جی کے پاس جاتا ہے تو انگرکھا اور دوپٹہ اتار کر رکھ جا۔"

یہ سن کر محمد عاقل مسکرانے لگا۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس جانماز پر بٹھالیا اور اس کے سر کی طرف دیکھ کے بولی "عیدگاہ آنے جانے میں تمہارے بال تمام گردآلود ہوگئے ہیں۔ ذرا تکیے پر سررکھ کر لیٹ جاؤ تو میں صاف کردوں۔"

محمد عاقل ماں کے کہنے سے ذرا کے ذرا لیٹ گیا۔ محمودہ بھائی کو لیٹا دیکھ کر پنکھا جھلنے لگی کچھ تو عیدگاہ آنے جانے کی تکان، ادھر پنکھے کی ٹھنڈی ہوا، اور ماں نے جو دست شفقت سر پر پھیرا تو سب سے زیادہ اس کی راحت۔ غرض محمد عاقل سوگیا، جاگا تو دن ڈھل چکا تھا اور وہ غصہ بھی دھیما ہوگیا تھا۔

ماں نے کہا "لو ہاتھ منہ دھوؤ۔ وضو کرکے ظہر کی نماز پڑھو۔ وقت تنگ ہے۔ پھر آؤ تو تم کو کام بتائیں۔"

نماز پڑھ کر محمد عاقل آیا تو ماں نے کہا "لو سسرال جاؤ اور تجھے میری جان کی قسم ہے جو تو وہاں کچھ لڑا یا بولا۔"

محمد عاقل نے کہا "تو مجھ کو مت بھیجو۔"

ماں نے کہا "لڑکے، خیر منا۔ الٰہی کیسی بری زبان ہے۔ سسرال تو تیری، اور بھیجوں کسی اور کو۔ لو، یہ ایک روپیہ تو اپنی سالی اصغری کے ہاتھ میں عیدی کا دینا اور یہ ایک اٹھنی اپنی خلیا ساس کے بیٹے میاں مسلم کو اور آدھے کھلونے بھی لیتے جاؤ۔ ایک خوان میں سویاں اور دودھ اور مٹھائی کی ٹوکری بھی ماما عظمت کے ہاتھ اپنے ساتھ لے جاؤ۔ دیکھو، خبردار کچھ بولنا مت۔"

محمد عاقل نے کہا "اور اماں خنجری اور ڈفلی بھی لیتا جاؤں؟"

ماں نے کیا "کہیں ایسی بات وہاں مت بول اٹھنا۔"

غرض محمد عاقل ساس کے گھر پہنچے۔ گھر میں اکبری خانم اپنی سہیلیوں کے ساتھ اودھم مچا رہی تھیں اور باہر گلی میں تمام غل کی آواز چلی آتی تھی۔ ماما عظمت اندر گئی۔ اصغری نے ماما کو دور سے دیکھ کر دبی آواز سے کہا "اے بی آپا، اے بی آپا، چپ کرو۔ تمہاری سسرال سے ماما آئی ہے۔" عظمت نے اندر پہنچ کر محمد عاقل کو بلایا "صاحب زادے، آئیے۔" غرض محمد عاقل اندر گئے۔ ساس کو سلام کیا۔ انہوں نے کہا "جیتے رہو، عمردراز ہو۔" اتنے میں اصغری بھی اپنی اوڑھنی سنبھال سنبھول کوٹھری سے نکلیں اور نہایت ادب سے جھک کر بہنوئی کو سلام کیا۔ اصغری کو بہنوئی نے ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بٹھالیا اور روپیہ دیا۔ اصغری ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ ماں نے کہا "کیا ہوا؟ لے لو۔ عیدی کا ہے۔" اصغری نے روپیہ لے کر پھر سلام کیا اور ادب سے ذرا پرے کو سرک کر ہو بیٹھی۔ پھر اٹھ کر نہایت سلیقے کے ساتھ اجلا دسترخوان بہنوئی کے آگے لا بچھایا اور ایک رکابی میں سویاں، ایک پیالے میں دودھ، طشتری میں قند اور ایک چمچہ لا کر سامنے رکھ دیا۔

محمد عاقل نے عذر کیا کہ مجھ کو عیدگاہ میں زیادہ دیر ہوگئی، ابھی تھوڑی دیر ہوئی، میں نے کھانا کھایا ہے۔

ساس نے کہا "کیا مضائقہ ہے۔ سویاں تو پانی ہوتی ہیں۔ کھاؤ بھی۔"

جب تک محمد عاقل سویاں کھاتا رہا، اصغری الائچی ڈال ایک مزے دار پان بنالائی۔ کھانے کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد محمد عاقل نے کہا "جناب میں رخصت چاہتا ہوں۔"

ساس نے کہا "اب کہاں جاؤگے؟ یہیں سو رہنا۔"

محمد عاقل: آج عید کا دن ہے آئے گئے سے ملنا ہے۔ دوسرے کہیں کچھ بھیجنا بھجوانا بھی ہے اور میں اماں سے رات کے واسطے کہہ بھی نہیں آیا۔"

ساس: ملنے کا تو اب وقت نہیں شام ہونے کو آئی۔ اور بھیجنے بھجوانے کو سمدھن کافی ہیں۔ (ہنس کر) تم کچھ سمدھن کا دودھ نہیں پیتے۔ آخر عظمت جائے گی، خبر کردے گی۔

غرض محمد عاقل نے کچھ حیلے کیے، ساس نے ایک نہ مانی اور محمد عاقل کو زبردستی رہنا پڑا۔ چار گھڑی رات گئے جب کھانے پینے سے فارغ ہوئے، اصغری نے برتن بھانڈا، گری پڑی چیز سب ٹھکانے سے رکھی۔ باہر کے دروازے کی زنجیر بند کی۔ کوٹھڑیوں کو قفل لگا کر کنجیاں ماں کے حوالے کیں۔ باہر کے دالان اور باورچی خانے کا چراغ گل کیا۔ ماں اور آپ اور بہنوئی سب کو پان بنا کردئیے اور اطمینان سے جاکر سو رہی۔
 

نعمان

محفلین
پانچواں باب: الگ گھر کرنے پر ساس (اکبری کی ماں) اور داماد (محمد عاقل) کا مباحثہ

اب ساس نے محمد عاقل سے کہا "کیوں بیٹا، تم میاں بی بی میں کیا آئے دن کی لڑائی رہا کرتی ہے؟ اکبری کی تو ایسی بری عادت ہے کہ کبھی بھول کر بھی سسرال کی بات منہ سے نہیں کہتی۔ نہیں تو دنیا جہان کی بیٹیوں کا دستور ہوتا ہے کہ سسرال کی ذرا ذرا سی بات ماؤں سے لگایا کرتی ہیں۔ نہیں معلوم اس کو کیا خدا کی سنوار ہے۔ بہتیرا پوچھ پوچھ کر اپنا منہ تھکاؤ، حاشا کہ یہ کچھ بھی بتائے۔ لیکن ٹولے محلے بات کانوں کان پہنچ جاتی ہے اوپری لوگوں سے میں بھی گھر بیٹھے سنا کرتی ہوں۔"

محمد عاقل نے ساس سے یہ بات سن کر تھوڑی دیر تامل کیا۔ لحاظ کے سبب جواب منہ سے نہیں نکلتا تھا مگر اس نے خیال کیا کہ مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا ہے اور خود انہوں نے چھیڑ کر پوچھا ہے۔ ایسے موقع پر سکوت کرنا سراسر خلاف مصلحت ہے۔ بہتر ہے عمر بھر کا زہر اگل ڈالے۔ شاید آج کی گفتگو میں آئندہ کے واسطے کوئی بات نکل آئے۔

غرض محمد عاقل نے شرماتے شرماتے کہا "آپ کی صاحب زادی موجود ہیں ان ہی سے پوچھئے۔ ہمارے یہاں ان کو کیا تکلیف پہنچی؟ خاطر داری و مدارت میں کسی طرح کی کمی ہوئی یا ان سے کو لڑا یا کسی نے ان کو برا کہا؟ آپ کو معلوم ہے گھر میں ہم گنتی کے آدمی ہیں۔ والدہ سے تمام محلہ واقف ہے۔ ایسی نیک مزاج اور صلح کل ہیں کہ تمام عمر ان کو کسی سے لڑنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر کوئی ان کو دس باتیں سخت کہہ بھی جائے تو چپ رہ جاتی ہیں۔ محمد کامل دن بھر لکھنے پڑھنے میں رہتا ہے۔ صبح کا نکلا رات کو گھر آتا ہے۔ کھانا کھایا اور سو رہا میں نے اس کو ان سے کبھی بات کرتے بھی نہیں دیکھا۔ محمودہ ان کی صورت سے ڈرتی ہے۔ رہا میں تو موجود بیٹھا ہوں جو شکایت ہو، مجھ سے بے تکلف بیان کریں۔"

محمد عاقل کی ساس اب بیٹی کی طرف مخاطب ہوکر بولیں "ہاں بھائی جو کچھ تمہارے دل میں ہو، تم بھی صاف صاف کہ گزرو۔ بات کا دل میں رہنا اچھا نہیں ہوتا۔ دل میں رکھنے سے رنج بڑھتا اور فساد زیادہ ہوتا ہے"

اکبری گرچہ جھوٹ بولنے پر بہت دلیر تھی لیکن اس وقت محمد عاقل کے روبرو بات کہتے بن نہ پڑی۔ جی ہی جی میں ڈر رہی تھی کہ میں نے بہت سی جھوٹ جھوٹ باتیں ماں سے آکر لگائی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہیں اس وقت قلعی کھل جائے۔ یہ سوچ کر اس نے اس بات کو ہی ٹال دیا اور کہا کہ ہم تو الگ گھر کریں گے۔

اکبری کی ماں نے داماد سے کہا "کیوں بھائی، تم کو الگ رہنے میں کیا عذر ہے؟ خدا کا فضل ہے خود نوکر ہو، خود کماتے ہو۔ کسی بات میں ماں کے محتاج نہیں، اپنا کھانا، اپنا پہننا پھر دوسرے کا دست نگر ہوکر رہنے سے کیا فائدہ؟ بیٹا بہو کیسے ہی پیارے ہوں پھر بھی جو آرام الگ رہنے میں ہے ماں باپ کے گھر کہاں۔ جو چاہا سو کھایا جو چاہا سو پکایا اور غور کرنے کی بات ہے ماں کے ساتھ رہ کر لاکھ کماؤ پھر بھی نام نہیں۔ لوگ کیا جانیں تم اپنا کھاتے ہو یا ماں باپ کے سر پڑے ہو۔"

محمد عاقل کہا "آرام کی پوچھئے تو ہم کو جو اب حاصل ہے، الگ ہوئے پیچھے اس کی قدر معلوم ہوگی۔ دونوں وقت پکی پکائی کھالی اور بے فکر ہو کر بیٹھ رہے۔ الگ ہونے پر آٹا، دال، گوشت، ترکاری، تیل، نمک، ایندھن سبھی کا فکر کرنا پڑے گا اور آپ ہی انصاف سے فرمائیے خانہ داری میں کتنے بکھیڑے ہیں۔ بے سبب ان آفتوں کو اپنے سرلینا میرے نزدیک تو عقل کی بات نہیں۔ رہا یہ کہ جو چاہا سو کھایا اور جو چاہا سو پکایا، تو یہ اب بھی حاصل ہے ان ہی سے پوچھئے کبھی کوئی فرمائش کی ہے جس کی تعمیل نہ ہوئی ہو؟ بڑے کنبوں میں البتہ اس طرح کی تکلیف ہوا کرتی ہے۔ ایک دل میٹھے چاول کو چاہتا ہے، دوسرے کو بھونی کھچڑی چاہئیے، تیسرے کو پلاؤ درکار ہے، چوتھے کو قورمہ کھانا منظور ہے پانچویں کو پرہیزی کھانا حکیم نے بتایا ہے۔ دس کے واسطے دس ہنڈیاں روز کے روز کہاں سے آئیں؟ ہمارے یہاں کنبہ کون سا بہت بڑا ہے۔ فرمائش کریں تو ہم، نہ کریں تو ہم۔ اس کو بھی جانے دیجئے۔ اگر ان کو ایسا ہی لحاظ ہے تو آپ کھانے کا اہتمام کیا کریں۔ خود والدہ کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں۔ ان ہی سے پوچھئے کہا ہے یا نہیں؟ اور نام کو جو آپ نے فرمایا تو یہ میرے نزدیک محض خیال خام ہے۔ اپنے آرام سے کام ہے لوگ جو چاہیں سو سمجھیں۔ اور فرض کیجئے لوگوں نے یہی جانا کہ ہم ماں باپ کے سر ہیں تو اس میں ہماری کیا بے عزتی ہے؟ ماں باپ ہیں، کوئی غیر نہیں ماں باپ نے ہم کو پالا، پرورش کیا، کھلایا، پہنایا، پڑھایا، لکھایا، شادی بیاہ کیا۔ ان سب باتوں میں بےعزتی نہیں ہوئی تو اب کون سا سرخاب کا پر ہم میں لگ گیا ہے کہ ان کا دست نگر ہونا ہماری بےعزتی کا موجب سمجھا جائے؟"
 

نعمان

محفلین
ساس نے جواب دیا "اگر سب تمہاری طرح سمجھا کریں تو کیوں الگ ہوں؟ دنیا کا دستور ہے، ہوتی چلی آئی ہے اور ہوتی چلی جائے گی کہ بیٹے ماں باپ سے جدا ہوجاتے ہیں اور میں تو جانتی ہوں دنیا میں کوئی بہو ایسی نہ ہوگی جس کا میاں کماؤ اور وہ ساس نندوں میں رہنا پسند کرے۔"

محمد عاقل نے کہا "یہ آپ کا فرمانا درست ہے۔ اگر بیٹے ماں باپ سے جدا نہ ہوا کرتے تو شہر میں اتنے گھر کہاں سے آتے۔ لیکن ہر ایک کی حالت جدا ہے۔ الگ ہو کر رہنا میری حالت کے لیے ہرگز مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ دس روپے کا تو میں نوکر۔ اتنی آمدنی میں الگ گھر کا سنبھالنا نہایت مشکل نظر آتا ہے۔ اور پھر اس نوکری کا بھی اعتبار نہیں۔ خدانخواستہ الگ ہوئے پیچھے نوکری جاتی رہی تو پھر باپ کے گھر آنا مجھ پر نہایت شاق ہوگا۔ اس وقت البتہ بے عزتی ہوگی کہ میاں الگ ہوگئے تھے پھر جھک مار کر باپ کے ٹکڑوں پر آپڑے۔ لوگوں کی ریس اس معاملے میں ٹھیک نہیں۔ آدمی کو اپنے حال پر نظر کرنی چاہئیے۔ وہ نقل آپ نے سنی ہے کہ ایک شخص نے بازار سے نمک اور روئی مول لی۔ نمک خچر پر لادا اور روئی گدھے پر۔ راہ میں ایک ندی واقع ہوئی۔ ندی تھی پایاب۔ اس شخص نے خچر اور گدھے دونوں کو لدا لدایا پانی میں اتار دیا۔ بیچ ندی میں پہنچ کر خچر نے غوطہ لگایا۔ تھوڑی دیر بعد سر ابھارا تو گدھے نے پوچھا "کیوں یار، خچر، یہ تم نے کیا کیا؟" خچر نے جواب دیا "بھائی تم بڑے خوش قسمت ہو تم پر لدی ہے روئی اس کا بوجھ ہے ہلکا۔ مجھ کم بخت پر ہے نمک۔ بوجھ کے مارے میری کمر کٹ کر لہولہان ہوگئی ہے۔ یہ ہمارا مالک ایسا بے رحم ہے کہ اس کو مطلق ہماری تکلیف کا خیال نہیں۔ اناپ شناپ جتنا چاہے لاد دیتا ہے۔ میں نے سمجھا کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کمر ندارد ہے۔ آؤ غوطہ لگاؤ۔ نمک پانی میں بھیگ کر کچھ تو گھل جائے گا۔ جس قدر ہلکے ہوئے، غنیمت۔ مالک بہت کرے چھ سات ڈنڈے اور مارلے گا۔ سو یوں بھی راہ بھر ڈنڈے کھاتا آیا ہوں۔ دیکھو اب میرا بوجھ آدھا رہ گیا ہے۔" گدھے بیوقوف نے بھی خچر کی ریس کرکے غوطہ لگایا۔ روئی بھیگ کر اور وزنی ہوگئی۔ سر ابھارا تو ہلا نہ جاتا تھا۔ خچر ہنسا اور کہا کیوں بھائی گدھے۔ کیا حال ہے؟ گدھے نے کہا "یار، میں تو مرا جاتا ہوں۔" خچر نے کہا "اے احمق، تو نے میری ریس تو کی لیکن اتنا تو سمجھ لیتا کہ تیری پیٹھ پر روئی ہے نمک نہیں۔" اماں جان، ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی ریس کرنے سے میرا حال اس گدھے کا سا ہو۔"

ساس نے کہا "بھائی تم تو کسی سے قائل ہونے والے ہو نہیں اور نہ میں تمہاری طرح منطق پڑھی ہوں میں تو سیدھی بات یہ جانتی ہو کہ دس روپے مہینا تم کماتے ہو۔ خدا کا فضل ہے۔ سستا سماں ہے۔ بال بچے نہیں۔ اللہ رکھے، دو میاں بی بی۔ خاصی طرح گوشت روٹی کھاؤ، نین سکھ، تن زیب پہنو۔ آئندہ کا فکر تمہاری طرح کیا کریں تو دنیا کا کارخانہ بند ہوجائے۔ نوکری تو نوکری، زندگی کا اعتبار نہیں۔ جتنے دن جینا ہے، ہنسی خوشی سے تیر کردینے چاہیئیں۔"
 

نعمان

محفلین
محمد عاقل نے کہا "یہی تو میں سوچتا ہوں خوشی الگ ہوگر رہنے میں ہے یا ساتھ میں؟"

ساس نے کہا "دلیل اور حجت سے کیا مطلب؟ سیدھی بات یہی کیوں نہیں کہتے کہ مجھ کو ماں سے الگ ہونا منظور نہیں ہے۔ ایک بات تم سے بی بی نے کہی اس کو قبول کرنے میں تم کو اس بلا کا تامل ہے اور پھر کہتے ہو کہ ہم ان کی خاطر داری میں کمی نہیں کرتے۔ آرام اور خوشی کیا چیز ہے؟ جس میں بی بی خوش ہو اور جس کو وہ آرام سمجھے۔"

اس کے بعد باتوں میں رنجش و تراوش ہونے لگی محمد عاقل نے سکوت اختیار کیا۔ رات بھی زیادہ ہوگئی تھی محمد عاقل نے ساس سے کہا "اب آپ آرام کیجئے میں اس مضمون کو پھر سوچوں گا۔" یہ لوگ تو سورہے، محمد عاقل رات بھر اسی خیال کی ادھیڑ بن میں لگا رہا۔ صبح کو اٹھا تو دیکھا کہ اصغری جھاڑو دے رہی ہے اس کو دیکھ کر اصغری نے سلام کیا اور کہا "بھائی صاحب وضو کے واسطے گرم پانی موجود ہے۔"

محمد عاقل نے کہا "نہیں بھائی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔"

اصغری نے کہا "بھائی صاحب چلے نہ جائیے گا۔ آپ کے واسطے چائے بنائی ہے۔ لیکن سادی پیجئیے گا یا دودھ کی؟"

محمد عاقل نے کہا "جیسی مل جائے۔"

اصغری بولی "آپ کی آواز کچھ بھاری بھاری لگتی ہے۔ شاید نزلے کی تحریک ہے۔ دودھ ضرر کرے گا۔"

محمد عاقل نے کہا "نزلے کی تحریک تو نہیں۔ رات کو اماں جان کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کرتا رہا۔ بدخوابی البتہ ہے۔"

محمد عاقل نماز پڑھ کر واپس آیا تو دیکھا کہ ساس نماز سے فارغ ہو کر پان کھا رہی ہیں۔ سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اصغری نے سینی لا کر سامنے رکھ دی۔ چائے دان میں گرما گرم چائے، دو پیالیاں، دو چمچے اور ایک طشتری میں قند۔ محمد عاقل نے چائے پی۔ خوش ذائقہ، رنگ، بو، باس درست۔ پی کر جی باغ باغ ہوگیا۔ اکبری حسب عادت پڑی سوتی تھی۔ محمد عاقل نے کہا "اماں جان ان کو بھی نماز کی تاکید کیجئیے۔"

ساس نے کہا "بیٹا یہ اپنی نانی کی بہت چہیتی ہیں۔ ان کی محبت نے ان کی خصلت، ان کی عادت، سب خراب کر رکھی ہے۔ جب یہ چھوٹی تھیں اور میں کسی بات پر گھرک بیٹھتی تو کئی کئی دن مجھ سے بولنا چھوڑ دیتی تھیں۔ اور یہ تو کیا مجال تھی کہ اکبری کو کوئی ہاتھ لگادے۔ اکبری بات بات پر ضد کرتیں، چیزوں کو توڑتی پھوڑتیں۔ ان کے ڈر کے مارے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا۔ اسی بات پر اکبری کے باپ سے روز بگاڑ رہتا تھا۔"

محمد عاقل رخصت ہونے لگا۔ چلتے چلتے ساس نے کہا "بیٹا، رات کی بات یاد رکھا اور ضرور اس کا کچھ بندوبست کرنا۔"
 

نعمان

محفلین
چھٹا باب: ماں سے محمد عاقل کے الگ ہونے کی صلاح

راہ میں محمد عاقل رات کی ان باتوں کو سوچتا آیا۔ گھر میں پہنچا تو ماں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر فکر معلوم ہوتا ہے۔ سمجھا، ضرور آج سسرال میں لڑا۔ پوچھا "محمد عاقل، آخر میرے کہنے پر عمل نہیں کیا۔"

محمد عاقل: اماں، سچ کہتا ہوں، لڑائی بھڑائی کچھ بھی نہیں ہوئی۔
ماں: پھر سست کیوں ہے؟
محمد عاقل: کچھ بھی نہیں سوتا اٹھ کر آیا ہوں اس سبب سے شاید آپ کو میرا چہرہ اداس معلوم ہوتا ہوگا۔
ماں: لڑکے! ہوش میں آ۔ تجھ کو سوتا اٹھ کر کبھی تھوڑا ہی دیکھا ہے۔ سچ بتا، کیا بات ہے؟

محمد عاقل نے آخر مجبور ہو کر رات کا تمام قصہ ماں کے روبرو بیان کیا۔ سنتے کے ساتھ ہی ماں کو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ لیکن عورت تھی بڑی دانش مند، کہنے لگی "ہر چند کہ میری تمنا یہ تھی کہ جب تک میرے دم میں دم ہے، تم سب کو اپنے کلیجے سے لگائے رہوں اور تم دونوں بھائی اتفاق سے رہو۔ لیکن میں دیکھتی ہوں تو سامان الٹے ہی الٹے نظر آتے ہیں۔ لو، آج میں تم سے کہتی ہوں کہ بیاہ کے بعد دوسرے مہینے سے مزاج دار بہو کو ارادہ الگ گھر کرنے کا ہے۔ تم جو دس روپے مہینے کے مہینے لاکر مجھ کو دیتے ہو، ان کو نہایت ناگوار ہوتا ہے۔ آئے دن میں تمہاری بی بی کی سہیلیوں سے سنتی رہتی ہوں کہ بہو بلی ماروں کے محلے میں مکان لیں گی، زلفن کو ساتھ لے جائیں گی۔ جب تک یہ سب لڑکیاں اکٹھی بیٹھی رہتی ہیں، یہی مشورہ، یہی مذکورہ آپس میں رہا کرتا ہے۔ میں نے تمہاری خلیا ساس کے منہ پر ایک مرتبہ یہ بات بھی رکھ دی تھی کہ مزاج دار بہو کو اگر ہمارے ساتھ رہنا ناگوار ہے تو اپنا کھانا کپڑا الگ کرلیں۔ مگر رہیں اسی گھر میں پھر تمہاری ساس سے معلوم ہوا کہ مزاج دار بہو کو یہ بھی منظور نہیں۔ آدمی بیاہ خوشی اور آسائش کے واسطے کرتا ہے۔ روز کی لڑائی، آئے دن کا جھگڑا نہایت بری بات ہے۔ اگر تمہاری بی بی کو یہی منظور ہے اور الگ رہنے سے ان کی خوشی ہے تو بسم اللہ ہم کو عذر نہیں۔ جہاں رہو، خوش رہوں، آباد رہو۔ خدا نے ایک مامتا اولاد کی ہمارے پیچھے لگادی ہے، سو کبھی تم ادھر کو آنکلے، ایک نظر دیکھ لیا، صبر آگیا۔ گھر کے دھندے سے چھٹکارا ملا، میں آپ چلی گئی، تم کو دیکھ آئی۔"

یہ کہنا تھا کہ محمد عاقل کا جی بھر آیا۔ بے اختیار رونا شروع کیا۔ سمجھا کہ آج ماں سے جدائی ہوتی ہے۔ ماں بھی روئی۔ تھوڑی دیر بعد محمد عاقل نے کہا "میں تو الگ نہیں رہوں گا۔ بی بی رہے یا جائے۔"
 

نعمان

محفلین
ماں نے کہا "ارے بیٹا یہ بھی کہیں ہوتی ہے؟ اشرافوں میں کہیں بی بیاں بھی چھوٹی ہیں؟ تم کو اپنی عمر ان ہی کے ساتھ کاٹنی ہے۔ ہمارا کیا ہے؟ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں آج مرا کل دوسرا دن۔ میری صلاح مانو، جو وہ کہیں سو کرو۔ ہم نے جس دن سے تمہارا بیاہ کیا، اسی دن سے تم کو الگ سمجھا۔ نہ تم انوکھے بیٹے نہ میں انوکھی ماں۔ کون بیٹا ساری عمر ماں کے ساتھ رہا؟"

محمد عاقل نے اپنے دوستوں سے بھی صلاح پوچھی۔ سب نے یہی کہا کہ رفع فساد بہتر ہے اور ساتھ رہنے پر کیا منحصر ہے ماں سے الگ رہو اور ان کی خدمت اطاعت کرو۔ جب سب لوگوں نے یہی صلاح دی۔ محمد عاقل نے بھی کہا، خیر الگ رہ کر بھی دیکھ لوں۔ اگر یہ عورت سنبھل جائے اور گھر کو گھر سمجھے، بدمزاجی، نافرمانی، بدزبانی چھوڑ دے تو الگ رہنا عیب نہیں، گناہ نہیں۔ یہی نا کہ خانہ داری کی فکر کرنا پڑے گی اور تنگی سے گزرے گی۔ سو دنیا میں رہ کر فکر سے کسی حالت میں نجات نہیں۔ اب کچھ فکر نہیں تو ہر روز کا فساد بجائے خود عذاب ہے اور تنگئ رزق کا اندیشہ بھی بے جا ہے۔ جو مقدر میں ہے، بہرحال پہنچے گا۔ آدمی کی سعی و تدبیر کو اس میں کیا دخل ہے۔ یہ سوچ کر محمد عاقل نے الگ ہونے کا ارادہ مصمم کرلیا۔ اتفاق سے اسی کے مکان سے متصل ایک مکان بھی خالی تھا۔ ایک روپیہ ماہواری کرائے پر ٹھہرالیا بلکہ سرقفلی دے کر سر خط بھی لکھ دیا۔ کنجی لے لی اور سسرال کہلا بھیجا کہ مکان قرار پاگیا ہے۔ اب آؤ تو نئے مکان اٹھ چلیں اور اپنی ماں سے بھی کہہ دیا کہ یہی تارکش والا مکان لے لیا ہے۔ ماں نے جتنا اسباب بہو مزاج دار کا تھا، کپڑوں کے صندوق، برتن، فرش، مسہری، پلنگ سب علیحدہ کوٹھڑی میں رکھوایا۔ شام کو مزاج دار بہو بھی آ پہنچیں۔ صبح کو اٹھ، ماں نے کوٹھڑی کھول، محمد عاقل سے کہا لو بھائی، اپنی چیزیں دونوں میاں بی بی خوب دیکھ بھال لو۔"

محمد عاقل نے کہا "اماں، تم کیا کہتی ہو؟ کوئی غیر جگہ تھی؟"

ماں نے کہا "بیٹا، یہ بات نہیں۔ ایسا نہ ہو اٹھانے بٹھانے میں کوئی چیز ادھر ادھر ہوجائے" اور ماما سے کہا "عظمت، تم اور ہمسائی یہ سب اسباب تارکش والے گھر پہنچادو۔"

اکبری کی سہیلیاں چنیا، رحمت، زلفن، سلمتی آ پہنچیں اور بات کی بات میں سارا اسباب اٹھا کر ادھر سے ادھر لے گئیں۔
 

نعمان

محفلین
ساتواں باب: اکبری کا الگ گھر اور اس کی بدانتظامی

مزاج دار بہو ہنسی خوشی نئے گھر میں آکر بسیں۔ تین دن تک دونوں وقت محمد عاقل کی ماں نے کھانا بھیجا۔ چوتھے دن محمد عاقل نے بی بی سے کہا "لو صاحب، اب کچھ کھانے کا بندوبست شروع ہو۔"

مزاج دار نے کہا یہ سب اسباب بے ٹھکانے پڑا ہے۔ یہ رکھا جائے تو فراغت سے ہنڈیا چولہے کو دیکھوں۔ ابھی تو مجھ کو فرصت نہیں۔"

غرض سات روز تک تنور پر روٹی پکتی رہی۔ رات کو کباب اور دن کو ملائی اور کبھی دہی بازار سے منگواتے اور دونوں میاں بیوی روٹی کھالیتے۔ آخر محمد عاقل نے روز کہہ کہہ کر مزاج دار سے کھانا پکوایا۔ مزاج دار نے کبھی کھانا پکایا نہ تھا۔ روٹی پکائی تو عجیب صورت کی نہ گول نہ چوکھونٹی۔ ایک کان ادھر نکلا ہوا اور چار کان ادھر۔ کنارے موٹے۔ بیچ میں ٹکیا۔ کہیں جلی کہیں کچی۔ دھوئیں میں کالی۔ اور دال جو پکائی تو دال الگ پانی الگ غرض مزاج دار ایسا لذیذ اور لطیف کھانا پکاتی تھی کہ جس کو دیکھ کر بھوک بھاگ جائے۔ سالن بدرنگ، بدمزہ۔ نمک کبھی زہر اور کبھی پھیکا پانی۔ دو ایک دن تو محمد عاقل نے صبر کیا۔ آخرکار اس نے اپنی ماں کے گھر جاکر کھانا شروع کردیا۔ مزاج دار نے بھی اپنے آرام کا ٹھکانا کرلیا۔ دونوں وقت بازار سے کچوریاں اور ملائی، کندا، کھویا، ربڑی، کباب منگوا کر کھالیا کرتی۔ کھانا جو پکتا، زلفن وغیرہ کھا کھا کر موٹی ہوئیں۔

ان بلیوں کے بھاگوں میں چھینکا ٹوٹا۔ لیکن دس روپے مہینے میں یہ چکوتیاں کیوں کر ہوسکتی تھیں، چپکے چپکے اسباب بکنے لگا۔ مگر محمد عاقل کو اصلا اس کی خبر نہ تھی۔

ایک روز محمد عاقل تو نوکری پر گیا تھا، مزاج دار بہو دوپہر کو سوگئی۔چنیا جو آئی، اس نے دیکھا، بہو بے خبر سورہی ہیں۔ اس نے اپنے بھائی میرن کو جا خبر کی۔ وہ بڑا شاطر بدمعاش تھا۔ مزاج دار تو سوتی کی سوتی رہیں۔ میرن آکر دن دہاڑے تمام برتن چرا کر لے گیا۔ مزاج دار اٹھ کر جو دیکھیں تو گھر میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ کوٹھڑی کو قفل لگا ہوا تھا۔ اس کا اسباب تو بچا، جو چیز اوپر تھی ایک ایک کرکے سب لے گیا۔ اب پانی تک کو کٹورا نہ رہا۔ محمد عاقل نوکری پر سے آیا تو سن کر بہت مغموم ہوا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ بی بی سے خوب لڑا اور خوب اپنا سر پیٹا۔ آخر رو دھو کر بیٹھ رہا۔ قرض دام کرکے ہلکی ہلکی دو پتیلیاں مول لایا۔ چھوٹے چھوٹے برتن ماں سے مانگ لیے۔ لگن، توا، رکابی ساس نے بھیج دئیے۔ غرض کسی طرح کام چل نکلا۔
 

نعمان

محفلین
آٹھواں باب: ایک کٹنی کا اکبری کو ٹھگنا

اتفاق سے ان دنوں ایک کٹنی شہر میں وارد تھی اور ہر جگہ اس کا غل تھا۔ محمد عاقل نے بھی بی بی سے کہہ دیا تھا کہ کسی اجنبی عورت کو گھر میں مت آنے دینا۔ ان دنوں ایک کٹنی آئی ہوئی ہے۔ کئی گھروں کو لوٹ چکی ہے۔ لیکن مزاج دار شدت سے بے وقوف تھی اس کی عادت تھی کہ ہر ایک سے جلد گھل مل جانا۔ ایک دن وہی کٹنی حجن کا بھیس بنا، اس گلی میں آئی۔ یہ مکار حجن بے وقوف عورتوں کو پھسلانے کے لیے طرح طرح کے تبرکات اور صدہا قسم کی چیزیں اپنے پاس رکھا کرتی تھی۔ تسبیح، خاک شفا، زمزمیاں، مدینہ منورہ کی کھجوریں، کوہ طور کا سرمہ، خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا، عقیق البحر اور مونگے کے دانے اور ناد علی، پنج سورہ اور بہت سی دعائیں۔ گلی میں آکر جو اس نے اپنی دکان کھولی تو بہت سی لڑکیاں جمع ہوگئیں۔ مزاج دار نے بھی سنا۔ زلفن سے کہا "گلی سے اٹھنے لگے تو حجن کو یہاں بلا لانا۔ ہم بھی تبرکات کی زیارت کریں گے۔" زلفن جا کھڑی ہوئی اور حجن کو بلا لائی۔ مزاج دار نے بہت خاطر داری سے حجن کو پاس بٹھایا اور سب چیزیں دیکھیں۔ سرمہ اور ناد علی دو چیزیں پسند کیں۔ حجن نے مزاج دار کو باتوں ہی باتوں میں تاڑ لیا کہ یہ عورت جلد ڈھب پر چڑھ جائے گی۔ ایک پیسے کا بہت سا سرمہ تول دیا اور دو آنے کو ناد علی حوالے کی اور فیروزے کی ایک انگوٹھی تبرک کے طور پر اپنے پاس سے مفت دی۔ مزاج دار ریجھ گئی۔ اس کے بعد حجن نے سمندر کا حال، عرب کی کیفیت اور دل سے جوڑ کر دو چار باتیں ایسی کیں کہ مزاج دار نے کمال شوق سے سنا اور اس کی طرف ایک خاص التفات کیا۔ حجن نے پوچھا "کیوں بی تمہارے کوئی بال بچہ نہیں؟"

مزاج دار نے ایک آہ کھینچ کر کہا "ہماری تقدیر ایسی کہاں تھی؟"

حجن نے پوچھا "بیاہ کو کتنے دن ہوئے؟"

مزاج دار نے کہا "ابھی برس روز نہیں۔"

مزاج دار کی بے عقلی کا اب حجن کو یقین ہوا اور دل میں کہنے لگی کہ اس نے تو اولاد کا نام سن کی ایسی آہ کھینچی جیسے برسوں کا امیدوار۔ حجن نے کہا "ناامیدی کی بات نہیں تمہاری تو اتنے بچے ہوں گے کہ تم سنبھال بھی نہ سکو گی۔ البتہ بالفعل اکیلے گھر میں جی گھبراتا ہوگا۔ میاں کا کیا حال ہے؟"

مزاج دار نے کہا "ہمیشہ مجھ سے ناخوش رہا کرتے ہیں۔"

غرض پہلی ہی ملاقات میں مزاج دار نے حجن کے ساتھ ایسی بے تکلفی کی کہ اپنا حال جز و کل اس سے کہہ دیا اور حجن نے باتوں ہی باتوں میں تمام بھید معلوم کرلیا۔ ایک پہر کامل حجن بیٹھی رہی۔ رخصت ہونے لگی تو مزاج دار نے بہت منت کی کہ اچھی بھی حجن، اب کب آؤگی؟ حجن نے کہا "میری بھانجی موم گروں کے چھتے ہی رہتی ہے اور بہت بیمار ہے۔ اسی کے علاج کے واسطے میں آگرے سے آئی ہوں۔ اس کے دوا معالجے سے فرصت کم ہوتی ہے۔ مگر انشاءاللہ دوسرے تیسرے دن تم کو دیکھ جایا کروں گی۔"
 

نعمان

محفلین
اگلے دن حجن پھر آموجو د ہوئی اور ایک ریشمی ازاربند لیتی آئی۔ مزاج دار دور سے حجن کو آتے دیکھ کر خوش ہوگئی اور پوچھا "یہ ازار بند کیا ہے؟"

حجن نے کہا "بکاؤ ہے۔"

مزاج دار نے پوچھا "کتنے کا ہے؟"

حجن نے کہا "چار آنے کا۔ محلے میں ایک بیگم رہتی ہیں، اب غریب ہوگئی ہیں۔ اسباب بیچ بیچ کر گزر کرتی ہیں۔ میں اکثر ان کی چیزیں بیچ دیا کرتی ہوں۔"

مزاج دار اتنا سستا ازار بند دیکھ کر لوٹ ہوگئی۔ فورا پیسے نکال حجن کے ہاتھ پر رکھ دئیے اور بہت گڑگڑا کر کہا "اچھی بی! جو چیز بکاؤ ہوا کرے پہلے مجھ کو دکھا دیا کرو۔"

حجن نے کہا "بہت اچھا۔ پہلے تم، پیچھے اور۔"
 

نعمان

محفلین
اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوا کیں۔ چلتے ہوئے حجن نے ایک بٹوا نکالا، اس میں کپڑے اور کاغذ کی کئی تہوں میں تھوڑی سی لونگیں تھیں۔ ان میں سے دو لونگیں حجن نے مزاج دار کو دیں اور کہا کہ دنیا میں ملاقات اور محبت اس واسطے ہوا کرتی ہے کہ ایک دوسرے کو فائدہ ہو۔ یہ دو لونگیں میں تم کو دیتی ہوں۔ ایک کو تم اپنی چوٹی میں باندھ لو، دوسری بہتر تھا کہ تمہارے میاں کی پگڑی میں رہتی۔ پر تمہارے میاں شاید شبہ کریں۔ خیر تکیے میں سی دو اور ان کا اثر آج ہی دیکھ لینا۔ لیکن اتنی احتیاط کرنا کہ پاک صاف جگہ میں رہیں اور اپنے قد کے برابر ایک کلاوہ مجھ کو ناپ دو۔ میں تم کو ایک گنڈا لادوں گی۔ میں جب حج کو گئی تھی تو اسی جہاز میں ایک بھوپال کی بیگم بھی سوار تھیں۔ شاید تم نے نام سنا ہو، بلقیس جہانی بیگم۔ سب کچھ خدا نے ان کو دے رکھا تھا۔ دولت کی کچھ انتہا نہ تھی۔ نوکر، چاکر، لونڈی، غلام، پالکی نالکی سبھی کچھ تھا۔ ایک تو اولاد کی طرف سے رنجیدہ رہا کرتی تھیں، کوئی بچہ نہ تھا، دوسرے نواب صاحب کو ان کی طرف مطلق التفات نہ تھا۔ شاید اولاد نہ ہونے کے سبب محبت نہ کرتے ہوں۔ ورنہ بیگم صورت میں چندے آفتاب چندے مہتاب۔ اور حسن و دولت پر مزاج ایسا سادہ کہ ہم جیسے ناچیزوں کو برابر بٹھانا اور پوچھنا۔ بیگم کو فقیروں پر پرلے درجے کا اعتقاد تھا۔ ایک دفعہ سنا کہ تین کوس پر کوئی کامل وارد ہے۔ اندھیری رات میں گھر سے پیادہ پا ان کے پاس گئیں اور پہر تک ہاتھ باندھے کھڑی رہیں۔ فقیروں کے نام کے قربان جائیے۔ ایک مرتبہ جو شاہ صاحب نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، فرمایا کہ جا مائی، رات کو حکم ملے گا۔ بیگم کو خواب میں بشارت ہوئی کہ حج کو جا اور مراد کا موتی سمندر سے نکال لا۔ صبح کو اٹھ کر حج کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پانسو مسکین بیگم نے آپ کرایہ دے کر جہاز پر سوار کرائے ان میں سے ایک میں بھی تھی۔ ہر وقت کا پاس رہنا، بیگم صاحبہ (الٰہی دونوں جہان میں سرخرو) مجھ پر بہت مہربانی کرنے لگیں اور سہیلی کہا کرتی تھیں۔ دس دن تک برابر جہاز پانی میں چلا۔ گیارہویں دن بیچ سمندر کے ایک پہاڑ دکھائی دیا۔ ناخدا نے کہا "کوہ حبشہ یہی ہے۔" ایک بڑا کامل فقیر اس پر رہتا تھا۔ جو گیا بامراد آیا۔ بیگم صاحبہ نے ناخدا سے کہا کہ کسی طرح مجھ کو اس پیاڑ پر پہنچا۔ ناخدا نے کہا حضور جہاز تو پہاڑ تک نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ اگر آپ ارشاد کریں تو جہاز کو لنگر کریں اور آپ کو ایک کشتی میں بٹھا کر لے چلیں۔ بیگم نے کہا خیر یہی سہی۔ پانچ عورتیں بیگم کے ساتھ کوہ حبشہ پر گئی تھیں۔ ایک میں اور چار اور۔ پہاڑ پر پہنچے تو عجیب طرح کی خوشبو مہک رہی تھی۔ چلتے چلتے شاہ صاحب تک پہنچے۔ ہو کا مقام نہ آدمی نہ آدم زاد، تن تنہا شاہ صاحب ایک غار میں رہتے تھے۔ کیسی نورانی شکل تھی، جیسے فرشتہ۔ ہم کو دعا دی، بیگم کو بارہ لونگیں دیں اور کچھ پڑھ کر دم کردیا۔ مجھ سے کہا، چلی جا۔ آگرے اور دلی میں لوگوں کے کام بنا۔ بیٹی، ان بارہ لونگوں میں سے دو لونگیں یہ ہیں۔ ہم سب حج کرکے لوٹے تو نواب صاحب یا بیگم کی بات نہ پوچھتے تھے یا یہ نوبت ہوئی کہ ایک مہینے آگے سے بمبئی میں آکر بیگم کو لینے کو پڑے تھے۔ جوں ہی بیگم نے جہاز پر سے پاؤں اتارا، نواب صاحب نے اپنا سر بیگم کے قدموں پر رکھ دیا اور رو رو کر خطا معاف کرائی۔ چھ برس میں بھوپال میں حج سے واپس آکر ٹہری۔ فقیر کی دعا کی برکت سے لگاتار اوپر تلے اللہ رکھے چار بیٹے بیگم کو میرے رہتے ہوچکے تھے۔ پھر مجھ کو اپنا دیس یاد آیا۔ بیگم سے اجازت مانگی۔ بہت روکا میں نے کہا کہ شاہ صاحب نے مجھ کو دلی، آگرے کی خدمت سپرد کی ہے۔ مجھ کو وہاں جانا ضرور ہے۔ یہ سن کر بیگم نے چار و ناچار مجھ کو رخصت کیا۔"
 

نعمان

محفلین
دو لونگیں، اس کے ساتھ دو ورق کی حکایت دلچسپ۔ مزاج دار دل و جان سے معتقد ہوگئیں۔ حجن تو لونگیں دے کر رخصت ہوئی۔ مزاج دار بہو نے غسل کر، کپڑے بدل، خوشبو لگائی ایک لونگ بسم اللہ کرکے اپنی چوٹی میں باندھی اور میاں کے پلنگ کی چادر اور تکیوں کے غلاف بدل، ایک لونگ کسی تکیے میں رکھ دی۔ محمد عاقل جو گھر آیا، بی بی کو دیکھا، صاف ستھری، پلنگ کی چادر بے کہے بدلی ہوئی۔ خوش ہوا اور التفات کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔

مزاج دار نے کہا۔ "دیکھو ہم نے آج ایک چیز مول لی ہے۔" یہ کہہ کر ازاربند دکھایا۔

محمد عاقل نے کہا "کتنے کو لیا ہے؟"

مزاج دار نے کہا "تم آنکو کتنے کا ہے۔"

وہ ازار بند خاص لاہور کا بنا ہوا نہایت عمدہ تھا۔ چوڑا چکلا، کلابتوں کے لچھے دار لڑیں۔ محمد عاقل نے کہا "دو روپے سے کسی طرح کم نہیں۔"

مزاج دار: چار آنے کو لیا ہے۔
محمد عاقل: سچ کہو۔
مزاج دار: تمہارے سر کی قسم، چار ہی آنے کو لیا ہے۔
محمد عاقل: بہت سستا ہے۔ کہاں سے مل گیا؟
مزاج دار: ایک حجن بڑی نیک بخت ہے۔ بہت دنوں سے گلی میں آیا کرتی ہے۔ کسی بیگم کا ہے بیچنے کو لائی تھی۔ یہ کہہ کر سرمہ، ناد علی، فیروزے کی انگوٹھی بھی مزاج دار نے دکھائی۔ طمع ایسی چیز ہے کہ بڑا سیانا آدمی بھی دھوکا کھا جاتا ہے۔ جنگلی جانور، مینا، طوطا، لعل، بلبل ّدمی کی شکل سے بھاگتے ہیں، لیکن دانے کی طمع میں جال میں پھنس جاتے ہیں اور زندگی بھر قفس میں قید رہتے ہیں۔ اسی طرح محمد عاقل اپنا فائدہ دیکھ کر خوش ہوا اور جب مزاج دار نے کہا کہ وہ حجن بیگم کا تمام اسباب جو بکنے کو نکلے گا، میرے پاس لانے کا وعدہ کرگئی ہے تو محمد عاقل نے کہا "ضرور دیکھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہ ہو چوری کا مال ہو۔ پیچھے خرابی پڑے۔ ہاں حجن کوئی ٹھگنی نہ ہو۔"

مزاج دار نے کہا "خدا خدا کرو! وہ حجن ایسی نہیں ہے۔"
 

نعمان

محفلین
غرض بات گئی گزری ہوئی۔ محمد عاقل سے جو آج ایسی باتیں ہوئیں، لونگوں پر مزاج دار کا اعتقاد جم گیا۔ اگلے دن زلفن کو بھیج حجن کو بلایا اور آج مزاج دار بیٹی بنیں اور حجن کو ماں بنایا۔ رات کے وقت محمد عاقل سے پھر حجن کا ذکر آیا۔ محمد عاقل نے کہا "دیکھو، ہوشیار رہنا۔ اس بھیس میں کٹنیاں اور ٹھگنیاں بہت ہوا کرتی ہیں۔" لیکن طمع نے خود محمد عاقل کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ اتنی موٹی بات وہ نہ سمجھا کہ دو روپے کا مال چار آنے میں کوئی بے وجہ بھی دیتا ہے۔ محمد عاقل کو مناسب تھا کہ قطعا حجن کے آنے کی ممانعت کرتا اور سب چیزیں اس کو پھروادیتا۔ مزاج دار کو اتنی عقل کہاں تھی کہ اس تہہ کو سمجھتی۔ کئی دن کے بعد مزاج دار نے حجن سے پوچھا "کیوں بی آج کل بیگم کا کوئی سامان نہیں لاتیں؟"

حجن نے جان لیا کہ اس کو اچھی چاٹ لگ گئی ہے۔ کہا "تمہارے ڈھب کی کوئی چیز نکلے تو لاؤں۔" دو چار دن کے بعد جھوٹے موتیوں کی ایک جوڑی لائی اور کہا "لو بی، خود بیگم کی نتھ کے موتی ہیں۔ نہیں معلوم ہزار کی جوڑی ہے یا پانچ سو کی۔ پنامل جوہری کی دکان پر میں نے دکھائی تھی۔ لٹو ہو ہو گیا۔ دو سو روپے زبردستی میرے پلے باندھے دیتا تھا۔ میں بیگم سے پچاس روپے میں لائی ہوں۔ تم لے لو۔ پھر ایسا مال نہ ملے گا۔"

مزاج دار نے کہا "پچاس روپے نقد تو میرے پاس نہیں ہیں۔"

حجن نے کہا "کیا ہوا بیٹی۔ پہنچیاں بیچ کر لے لو۔ نہیں تو آج یہ موتی بک جائیں گے۔" حجن نے ایسے ڈھب سے کہا کہ مزاج دار فورا اپنا زیور کا صندوقچہ اٹھا لائی اور حجن کو پہنچیاں نکال حوالے کردیں۔ حجن نے مزاج دار کا زیور دیکھ کر کہا "اے ہے! کیسی بے احتیاطی سے زیور مولی گاجر کی طرح ڈال رکھا ہے۔ بیٹی دھگدگی میں ڈورا ڈلواؤ۔ بالی پتے، گلوبند، بازوبند میلے چکٹ ہوگئے ہیں۔ میل سونے کو کھائے جاتا ہے۔ ان کو اجلواؤ۔"

مزاج دار نے کہا "کون ڈورے ڈلوائے اور کون اجلوا کر لائے۔ ان سے کہتی ہوں تو وہ کہتے ہیں مجھے فرصت نہیں۔"

حجن نے کہا "اوئی بیٹی! یہ کون سا بڑا کام ہے۔ لو موتی رہنے دو۔ میں ابھی ڈورا ڈلوادوں اور جو زیور ملا ہے، نکال دو۔ میں ابھی اجلوا دوں۔"

مزاج دار نے سب زیور حوالے کیا۔ حجن نے کہا "زلفن کو بھی ساتھ کردو۔ سنار کے پاس بیٹھی رہے گی۔ میں پٹوے سے ڈورے ڈلواؤں گی۔"

مزاج دار نے کہا "اچھا۔" یہ کہہ کر زلفن کو آواز دی۔ آئی تو حجن نے کہا "لڑکی ذرا میرے ساتھ چل۔ سنار کی دکان پر بیٹھی رہیو۔"

حجن نے زیور لیا۔ زلفن ساتھ ہوئی۔ گلی سے باہر نکل کر حجن نے رومال کھولا اور زلفن سے کہا، لاؤ اجلوانے کا الگ کرلیں اور ڈورا ڈلوانے کا الگ۔ زیور کو الگ کرتے کرتی حجن بولی "ایں! ناک کی کیل کیا ہوئی؟"

زلفن نے کہا "اسی میں ہوگی۔ ذرا بھر کی تو چیز ہے۔ اسی پوٹلی میں دیکھو۔"

پھر حجن آپ ہی آپ بولی "اے ہے! پان دان کے ڈھکنے پر رکھی رہ گئی۔ اری زلفن، دوڑ کر جا۔ جلدی سے لے آ۔"

زلفن بھاگی بھاگی آئی اور دروازے سے چلائی "بی بی ناک کی کیل پان دان کے ڈھکنے پر رہ گئی ہے۔ حجن نے مانگی ہے۔ جلدی دو۔ حجن گلی کے نکڑ پر دیبا بنئے کی دکان کے آگے بیٹھی ہیے۔"

یہ کہنا تھا کہ مزاج دار بہو کا ماتھا ٹھنکا۔ زلفن سے کہا "باؤلی ہوئی ہے؟ کیسی کیل؟ میرے پاس کہیں تھی؟ تو نے دیکھی ہے؟ اری کم بخت! دوڑ۔ دیکھ تو حجن کہیں چلی نہ جائے۔"

زلفن الٹے پاؤں دوڑی گئی۔ حجن کو ادھر ادھر دیکھا، کہیں پتہ نہ تھا۔ مزاج دار سے آکر کہا "بی حجن کا تو کہیں پتہ نہیں۔ میں بازار تک دیکھ آئی۔ اتنی دیر میں نہیں معلوم کہاں غائب ہوگئی۔"

یہ سن کر مزاج دار سر پیٹنے لگی "ہائے! میں لٹ گئی! ہائے میں لٹ گئی! ارے لوگو! خدا کے لیے دوڑیو۔"

موم گروں کے چھتے تک لوگ دوڑے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کہیں کی بہتی بہاتی مہینے بھر سے کرائے پر آکر رہی تھی۔ چار دن سے مکان چھوڑ چلی گئی۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔ محمد عاقل نے آکر سنا تو سر پیٹ لیا اور بیوی سے کہا "اری! تو گھر کو خاک سیاہ کرکے چھوڑے گی۔ میں تو تجھ کو پہلے سے جانتا ہوں۔"

مزاج دار نے کہا "چل دور رہو۔ اب باتیں بنانے کھڑا ہوا ہے۔ ازار بند دیکھ کر تو نے مجھ سے کہا تھا کہ بیگم کا اسباب ضرور دیکھنا۔"

غرض خوب مزے کی لڑائی دونوں میاں بی بی میں ہوئی۔ تمام محلہ جمع ہوگیا۔ بات پر بات چلی تو معلوم ہوا کہ اسی حجن نے کنچنی کی گلی میں احمد بخش خان کی بی بی کا تمام زیور اس حیلے سے ٹھگ لیا کہ ایک فقیر سے دونا کرادوں گی۔ رائی کے کٹرے میں میاں مستیا کی بیٹی سے ایسی محبت بڑھائی کہ اس کا زیور بہانے سے اڑا لے گئی۔ غرض زیور تو کیا گزرا ہوا۔ باتیں بہت سی رہ گئیں۔ برتن چوری جاچکے تھے۔ زیور یوں غارت ہوا۔ ہزار روپے کے موتیوں کی جوڑی جو لوگوں نے دیکھی تو تین پیسے کی تھی۔ تھانے میں اطلاع ہوئی۔ لوگوں نے بطور خود بہت ڈھونڈا، حجن کا سراغ نہ ملا پر نہ ملا۔
 

نعمان

محفلین
اکبری کو جہیز میں جو کپڑے ملے تھے، ان کا حال سنئیے۔ جب تک ساس کے ساتھ رہیں، ساس دسویں دن نکال کر دھوپ دے کرتی تھیں۔ شروع برسات میں الگ ہوکر رہیں۔ کپڑوں کا صندوق جس کوٹھڑی میں جس طرح رکھا گیا تھا، تمام برسات گزر گئی، اس کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ وہیں اسی طرح رکھا رہا۔ جاڑے کی آمد میں دولائی کی ضرورت ہوئی تو صندوق کھولا گیا۔ بہت سے کپڑوں کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ چوہوں نے کاٹ کاٹ کر بغارے ڈال دئیے تھے۔ کوئی کپڑا سلامت نہیں بچنے پایا۔

اکبری کا جتنا حال تم پڑھا، اس سے تم کو معلوم ہوگا کہ اکبری کو نانی کے لاڈ پیار نے زندگی بھی کیسی مصیبت میں رکھا۔ لڑکپن میں اکبری نے نہ تو کوئی ہنر سیکھا نہ کچھ اس کے مزاج کی اصلاح ہوئی۔ جب اکبری نے ساس سے جدا ہوکر الگ گھر کیا، برتن بھانڈا، کپڑا زیور سب کچھ اس کے پاس موجود تھا۔ چونکہ خانہ داری کا سلیقہ نہیں رکھتی تھی، چند روز میں تمام مال و اسباب خاک میں ملادیا اور ایک برس میں ہاتھ کان سے ننگی رہ گئی۔ اگر محمد عاقل بھی اس کی طرح احمق اور بدمزاج ہوتا تو شاید ایک دوسرے سے قطع تعلق ہوجاتا، لیکن محمد عاقل نے ہمیشہ عقل و شرافت کو برتا۔ ہم کو اکبری کے اتنے حالات معلوم ہیں کہ اگر ہم سب کو لکھنا چاہیں تو ایسی تین چار کتابیں بنیں مگر اکبری کے حالات پڑھنے سے کبھی تو غصہ آتا ہے اور کبھی طبیعیت کڑھتی ہے۔ اس سے اس کے زیادہ حالات لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس کی چھوٹی بہن اصغری کا حال کیوں نہ لکھیں کہ بات بات پر پڑھنے والوں اور سننے والوں کا سب کا جی خوش ہوجائے۔
 

نعمان

محفلین
نواں باب

نواں باب: اصغری کا بیاہ اور اس کا مختصر حال

یہ لڑکی اپنی ماں کے گھر ایسی تھی جیسے گلاب کا پھول یا آدمی کے جسم میں آنکھ۔ ہر ایک طرح کا ہنر، ہر ایک طرح کا طور سلیقہ اسے حاصل تھا۔ دانائی، ہوشیاری، ادب، قاعدہ، مروت، نیک دلی، ملنساری، خداترسی، حیا، لحاظ سب صفتیں خدا نے اصغری کو عنایت کی تھیں۔ لڑکپن سے اس کو کھیل کود ہنسی اور چھیڑ سے نفرت تھی۔ پڑھنا یا گھر کا کام کرنا۔ کبھی اس کو واہیات بکتے یا کسی سے لڑتے نہیں دیکھا۔ محلے کی جتنی عورتیں تھیں، سب اس کو بیٹیوں کی طرح چاہتی تھیں۔ بے شک زہے قسمت اس ماں باپ کی کہ جن کی بیٹی اصفری تھی اور خوشا نصیب اس گھر کے جس میں اصغری بہو بن کر جانے والی تھی۔ اب خدا کے فضل و کرم سے اصغری کی عمر تیرہ برس کی ہوئی۔ بات تو اس کی محمد کامل سے ٹھیری ٹھہرائی تھی، اب چرچا ہونے لگا کہ مہینا اور دن مقرر ہوجائے۔ ادھر محمد کامل کی ماں اکبری کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ مثل ہے، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اکبری کے تصور سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ درپردہ محمد کامل کی ماں کا ارادہ تھا کہ چھوٹے لڑکے کی منگنی کسی اور جگہ کروں کہ محمد عاقل کو کسی طرح معلوم ہوگیا اور اس نے ماں سے کہا "اماں میں نے سنا ہے کہ تم محمد کامل کی منگنی چھڑانی چاہتی ہو۔"

ماں نے کہا "کیا بتاؤں، بیٹا۔ بڑی سوچ میں ہوں۔ کیا نہ کرو۔ تم سے میری آنکھ سامنے نہیں ہوتی خدا نے مجھ کو تمہارا گنہگار بنادیا۔ دیکھئے محمد کامل کی قسمت کیسی ہے۔"

محمد عاقل نے کہا "اماں، میں سچ کہتا ہوں، اصغری ہزار لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ عمر بھر چراغ لے کر ڈھونڈوگی تو اصغری جیسی لڑکی نہ پاؤ گی۔ صورت سیرت دونوں میں خدا نے لائق فائق بنایا ہے۔ ہرگز اندیشہ مت کرو بسم اللہ کرکے بیاہ ڈالو اور بڑی بہن پر مت خیال کرو یہ تو آپ نے سنا ہوگا۔

نہ ہر زن زن است نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد

اپنا اپنا مزاج ہے اور اپنی اپنی طبیعیت

گل جو چمن میں ہیں ہزار، دیکھ ظفر ہے کیا بہار
سب کا ہے رنگ جدا جدا، سب کی ہے بو الگ الگ

تمہاری بڑی بہو کو لاحول ولا قوۃ اصغری سے کیا نسبت

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

اور خدارا تم میری بات کا یقین کرو۔ مجھ کو اپنے بارے میں تم سے ذرا بھی شکایت نہیں۔ اس خیال کو طبیعت سے نکال ڈالو۔ میں خوب جانتا ہوں کہ کوئی کسی کے دل میں نہیں گھستا۔ ظاہر حال پر سب کی نظر پڑا کرتی ہے اور انجام کی خبر خدا کو ہے یوں تو جس کو بٹھاآگی کامل کی بی بی ہوگی۔ تمہاری بھوج ہوگی اور ہماری بھاوج۔ مگر اماں پھر کہتا ہوں کہ اصغری میری جانی بوجھی ہوئی لڑکی ہے۔ وہ شاید بڑی بہو کو بھی ٹھیک کرلے گی۔ ہے تو چھوٹی مگر سارا محلہ اس کا ادب کرتا ہے اور وہ ہے بھی اسی قابل۔ دیکھو، خدا کے لیے کہیں اصغری کو نہ چھوڑنا۔"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top