نعمان
محفلین
محمد عاقل نے جو اصغری کی اس قدر تعریف کی تو بات پکی ہوگئی۔ غرض دونوں سمدھیانے کی صلاح سے یہ امر قرار پایا کہ بقر عید کے اگلے دن اصل خیر سے نکاح ہو۔ اصغری کا باپ دور اندیش خان پہاڑ پر نوکر تھا۔ اس کو خط گیا۔ خط پہنچتے ہی خاں صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔ اصغری کو سب بچوں میں بہت چاہتا تھا۔ فورا رخصت کی درخواست کی۔ جواب صاف ملا۔ بہت زور مارے، ایک نہ چلی۔ جاڑے کی آمد تھی۔ دورہ شروع کو تھا، بےچارگی کیا کرتا۔ قہر درویش بر جان درویش۔ چپ ہو کر بیٹھ رہا۔ لیکن بڑا بیٹا خیر اندیش خان تھا۔ پانسو روپے نقد دے کر اس کو گھر روانہ کیا اور سب پس و پیش سمجھادیا۔ گھر پر زیور، کپڑا، برتن سب پہلے سے موجود تھا۔ خیر اندیش خان نے مکان پر پہنچ کر چاول، گھی، گیہوں، مصالحہ، نمک سب بقدر ضرورت خرید لیا۔ اصغری کے کپڑوں میں مصالحہ ٹکنا شروع ہوا۔ ماں کا ارادہ تھا کہ اصغری کو بڑی بہن سے بڑھ چڑھ کر جہیز ملے۔ جوڑے بھی اس کے زیادہ ہوں برتن بھی استعمال کی وزنی دئیے جائیں۔ زیور کے عدد بھی زیادہ ہوں۔ اصغری آخر اسی گھر میں رہتی تھی۔ جو بات ہوتی اس کو ضرور معلوم ہوجاتی۔ جب اصغری نے سنا کہ مجھ کو آپا سے زیادہ جہیز ملنے والا ہے تو اس کو رنج ہوا اور اس فکر میں ہوئی کی کسی تدبیر سے اماں کو منع کردوں۔ آخر اپنی خالہ زاد بہن تماشا خانم سے شرماتے شرماتے کہا "میں نے ایسا سنا ہے۔ مجھ کو اس نہایت سوچ لگا ہے۔ کئی دن سے نہایت فکر میں تھی۔ الٰہی کیا کروں! اچھا ہوا تم آنکلیں۔ بوجہ ہم عمری تم سے کہنے میں تامل نہیں۔ کوئی اماں کو اتنی بات سمجھا دے کہ مجھ کو آپا سے زیادہ ایک چیز نہ دیں۔"
تماشا خانم نے سن کر کہا "تم بھی بوا کوئی تماشے کی عورت ہو۔ وہی کہاوت ہے، گدھے کو نون دیا، اس نے کہا میری آنکھیں دکھتی ہیں۔ خدا دلواتا ہے۔ تم کیوں انکار کرو؟"
اصغری نے کہا تم دیوانی ہو اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ آپا کے مزاج سے تم واقف ہو۔ ان کو ضرور رنج ہوگا۔ ناحق اماں سے بدمزگی ہوگی۔ مجھے سے بھی ان کو بدگمانی پیدا ہوگی۔"
تماشا خانم نے کہا "بوا اس میں بدمزگی کی کیا بات ہے؟ اپنی اپنی قسمت ہے۔ اور سمجھنے کو سو طرح کی باتیں ہیں۔ ان کی بسم اللہ کی شادی ہوئی۔ روزہ کشائی ہوئی۔ چار برس تک منگنی رہی۔ تیز تیوہار ان کا کون سا نہیں ہوا؟ ان کی کسر ادھر سمجھ لیں۔"
اصغری نے کہا "سچ ہے، مگر نام تو جہیز کا ہے۔ چھوٹی کو زیادہ ملے گا تو بڑی کو رنج ہوگا ہی۔ ایک محلے کا رہنا، روز کا ملنا ملانا۔ جس بات سے دلوں میں فرق پڑے، وہ کیوں کی جائے؟"
تماشا خانم نے کہا "بہن ناحق تم اپنا نقصان کرتی ہو۔ اجی، مہینے دو مہینے میں سب بھول جائیں گے۔"
اصغری نے کہا "ابے بی، اللہ اللہ کرو۔ نفع نقصان کیسا؟ کہیں ماں باپ کے دینے سے پوری پڑتی ہے اور جہیز سے عمریں کٹتی ہیں؟ خدا اپنی قدرت سے دے۔ تم اس بات میں اصرار مت کرو۔ نہیں تو میں کوئی دوسری تدبیر کروں گی۔"
تماشا خانم نے سن کر کہا "تم بھی بوا کوئی تماشے کی عورت ہو۔ وہی کہاوت ہے، گدھے کو نون دیا، اس نے کہا میری آنکھیں دکھتی ہیں۔ خدا دلواتا ہے۔ تم کیوں انکار کرو؟"
اصغری نے کہا تم دیوانی ہو اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ آپا کے مزاج سے تم واقف ہو۔ ان کو ضرور رنج ہوگا۔ ناحق اماں سے بدمزگی ہوگی۔ مجھے سے بھی ان کو بدگمانی پیدا ہوگی۔"
تماشا خانم نے کہا "بوا اس میں بدمزگی کی کیا بات ہے؟ اپنی اپنی قسمت ہے۔ اور سمجھنے کو سو طرح کی باتیں ہیں۔ ان کی بسم اللہ کی شادی ہوئی۔ روزہ کشائی ہوئی۔ چار برس تک منگنی رہی۔ تیز تیوہار ان کا کون سا نہیں ہوا؟ ان کی کسر ادھر سمجھ لیں۔"
اصغری نے کہا "سچ ہے، مگر نام تو جہیز کا ہے۔ چھوٹی کو زیادہ ملے گا تو بڑی کو رنج ہوگا ہی۔ ایک محلے کا رہنا، روز کا ملنا ملانا۔ جس بات سے دلوں میں فرق پڑے، وہ کیوں کی جائے؟"
تماشا خانم نے کہا "بہن ناحق تم اپنا نقصان کرتی ہو۔ اجی، مہینے دو مہینے میں سب بھول جائیں گے۔"
اصغری نے کہا "ابے بی، اللہ اللہ کرو۔ نفع نقصان کیسا؟ کہیں ماں باپ کے دینے سے پوری پڑتی ہے اور جہیز سے عمریں کٹتی ہیں؟ خدا اپنی قدرت سے دے۔ تم اس بات میں اصرار مت کرو۔ نہیں تو میں کوئی دوسری تدبیر کروں گی۔"