عدنان عمر
محفلین
مرا مسلک ہے صلحِ کل
جمعہ 14 فروری 2020 17:15
محمود الحسن -لاہور
( غالب کے یومِ وفات 15 فروری کے لیے لکھی گئی تحریر)
’فسانہ عجائب‘ اردو کلاسیک میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مصنف رجب علی بیگ سرور ایک دفعہ دلی میں غالب سے ملے تو ان سے پوچھا کہ کس کتاب کی اردو زبان عمدہ ہے؟ اس پر عظیم شاعر نے ’قصہ چہار درویش‘ کا نام لیا۔
رجب علی بیگ نے پوچھا اور ’فسانہ عجائب‘ کیسی ہے؟
غالب نے جواب دیا ’اجی لاحول ولا قوۃ اس میں لطف زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔‘
یہ رائے سن کرسرور پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
غالب پر جب یہ بات کھلی کہ جن صاحب سے انہوں نے ’فسانہ عجائب‘ کی برائی کی ہے وہ اس کے مصنف ہیں تو وہ کفِ افسوس ملنے لگے۔ اس واقعے کے دوسرے دن وہ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے پاس گئے اور پورا قصہ سنا کر ان سے کہا کہ رجب علی بیگ سرور کے مکان پر چل کر کل کی بات کی تلافی کرتے ہیں۔ اب یہ حضرات سرور کے یہاں پہنچے۔
وہاں غالب نے غوث علی شاہ کو مخاطب کرکے کہا ’جناب مولوی صاحب رات میں نے ’فسانہ عجائب‘ کو جو بغور دیکھا تو اس کی خوبیئ عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں۔ نہایت ہی فصیح و بلیغ عبارت ہے۔ میرے قیاس میں تو ایسی عمدہ نثر نہ پہلے ہوئی نہ آگے ہوگی کیوں کہ اس کا مصنف اپنا جواب نہیں رکھتا۔‘
غالب سے اپنی کتاب کی تعریف سن کر سرور خوش ہوئے۔ دل جوئی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ بعد ازاں غالب نے ان کی دعوت کی تو اس میں بھی سرور کی تعریفوں کے پل باندھے۔ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے ملفوظات و حالات پر مشتمل ’تذکرہ غوثیہ‘ میں لکھا ہے:
’مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔‘
’ان کے مزاج میں کمال کسرِ نفسی اور فروتنی تھی۔‘
غالب نے اپنا مسلک اس شعر میں بھی بیان کیا ہے:
آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلحِ کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
اسی طرح وہ کہتے ہیں:
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
دوستوں سے محبت
غالب یاروں کے یار تھے۔ دوستوں سے محبت کرتے۔ ان کی عزتِ نفس کا انہیں پاس رہتا۔ مصیبت میں گِھرے دوستوں کی دلجوئی کرتے کہ جانتے تھے ’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘۔
مولانا الطاف حسین حالی کے بقول ’وہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ جو گردشِ روزگار سے بگڑ گئے تھے نہایت شریفانہ طور سے سلوک کرتے تھے۔‘
غدر کے بعد ایک دوست کے حالات ابتر ہوگئے۔ ایک روز وہ چھینٹ کا فرغل پہنے غالب سے ملنے آئے۔ مرزا کو بہت رنج ہوا کہ کہاں تو یارِعزیز عمدہ چغے پہن کر آتا تھا اور آج یہ حال کہ حقیر کپڑا پہننے پر مجبور ہے۔ اب دوست سے اس فرغل کی برائی کرسکتے تھے نہ ہی اس کے بدلے کوئی اچھی قسم کا چغہ دے سکتے تھے کہ ’خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم‘ کے قائل تھے۔ آدمی ذہین تھے، اس لیے ایسا باوقار حل نکالا کہ دوست کو سبکی بھی محسوس نہ ہو اور وہ ان کے کام بھی آسکیں۔
ان سے کہا ’یہ چھینٹ آپ نے کہاں سے لی؟ مجھے یہ اچھا معلوم ہوتا ہے مجھے بھی فرغل کے لیے ایسا چھینٹ منگوا دیں۔‘
دوست نے جواب دیا ’یہ فرغل آج ہی بن کر آیا ہے اور میں نے اسی وقت اس کو پہنا ہے۔ اگر آپ کو پسند ہے تو یہی حاضر ہے۔‘
اس پر مرزا نے کہا ’جی تو یہی چاہتا ہے کہ اسی وقت آپ سے چھین کر پہن لوں مگر جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے آپ یہاں سے مکان تک کیا پہن کر جائیں گے؟ پھر ادھر ادھر دیکھ کر کھونٹی سے اپنا مالیدہ کا چغہ اتار کر انہیں پہنا دیا۔‘
غالب کی آمدنی زیادہ نہ تھی، پیسے کی ریل پیل نہ تھی، لیکن دل بہت غنی تھا۔ سوالی ان کے در سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ حالی ’یادگارِ غالب‘ میں لکھتے ہیں ’ان کے مکان کے آگے اندھے، لنگڑے، لولے اور اپاہج مرد و عورت ہر وقت پڑے رہتے تھے۔‘
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
غالب نے زندگی میں بہت صدمے جھیلے۔ سات بچے پیدا ہوئے۔ کوئی بھی 15 ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہا۔ بیوی کے بھانجے زین العابدین خاں عارف کو بیٹا بنایا لیکن وہ بھی جوانی میں چل بسا۔ اس کی موت کا گہرا گھاؤ غالب کو لگا۔ شدتِ غم کا احساس اس غزل سے ہوتا ہے:
زین العابدین خاں عارف کے بچوں سے غالب بہت لاڈ پیار کرتے۔ باپ کے انتقال کے بعد انہیں اپنے بچوں کی طرح چاہا۔ وہ تنگ کرتے تو اس کا بھی برا نہ مانتے۔
ایک خط میں لکھا ’دم بدم مجھ کو ستاتے ہیں اور میں تحمل کرتا ہوں۔ مجھے کھانا نہیں کھانے دیتے، ننگے ننگے پاؤں میرے پلنگ پر رکھتے ہیں، کہیں پانی لڑھاتے ہیں، کہیں خاک اڑاتے ہیں، میں تنگ نہیں آتا۔‘
خضر مرزا مرحوم کے بقول ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حسین علی خاں، مرزا غالب سے شوخیاں کرتے اور کبھی ان کی چھاتی پر چڑھ بیٹھتے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں بھی ان کی بہت ناز برداری ہوئی۔‘
مرزا صاحب نے کہا ارے حسین علی آ کر پڑھ لے، انہوں نے جواب دیا ’دادا جان، آتا ہوں، اور دوسری طرف نکل گئے۔ کھیل تماشے کا تو انہیں لپکا تھا۔ کٹھ پتلیوں کے تماشے پر ایک دفعہ بیس روپے خرچ کردیے اور پھر مرزا صاحب کے پاس منہ بسورتے ہوئے آئے کہ ’دادا جان بیس روپے دلوا دیجیے۔ مرزا صاحب نے کلو کو بلا کر کہا، بھئی انہوں نے ایک پتھر اور مارا، دے دے بیس روپے۔‘
غالب پروفیسر کیوں نہ بن سکے؟
گورنمنٹ آف انڈیا کے سیکرٹری جیمز ٹامسن غالب کے قدردان تھے۔ انہوں نے دلی کالج میں فارسی کی پروفیسری کے لیے غالب کو بلایا۔ پالکی میں بیٹھ کر ان سے ملنے گئے تو دفتر کے باہر رک گئے کہ سیکریٹری صاحب پیشوائی کے لیے اسی طرح باہر آئیں گے جیسے دربار کے وقت جاگیرداروں کے استقبال کے واسطے آتے ہیں۔ سیکریٹری کو اس اندازِ خسروانہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے غالب سے کہا کہ آپ نوکری کے لیے آئے ہیں جس قسم کا پروٹوکول چاہتے ہیں وہ نہیں مل سکتا۔
اس پر غالب نے کہا ’سرکاری ملازمت کا ارادہ اس لیے ہے کہ خاندانی اعزاز میں اضافہ ہو نہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی کھو بیٹھوں۔‘
یہ تو انگریز افسر تھے غالب کا معاملہ تو یہ تھا:
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
غالب کا وژن
برصغیر میں سرسید احمد خان کو جدیدیت کا علمبردار کہا جاتا ہے لیکن غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان سے پہلے زمانے کی رفتار پہچانی اور اس کے مطابق قومی لائحہ عمل مرتب کرنے پر زور دیا۔
سرسید نے ابوالفضل کی ’آئین اکبری‘ کو مدون کیا تو اس کی تقریظ کے لیے غالب سے کہا جو انہوں نے لکھ تو دی لیکن اس میں علمی کام کی وہ تحسین تو کیا کرتے الٹا اسے کارِعبث قرار دے دیا۔ اس پر سرسید ان سے ناراض ہوگئے۔
غالب نے تقریظ میں سرسید سے کہا کہ وہ آئین اکبری کے اوراقِ پارینہ کے بجائے آئین فرنگ پر نظر ڈالیں جس کی وجہ سے فرنگی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے چلے گئے ہیں اور انہوں نے وہ وہ کام کر دکھائے جن کا تصور بھی نہ تھا۔
غالب کی منظوم تقریظ کے چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
آنکھ کھول کر اس دیر کہن میں
اہل انگلستان کو دیکھو
اور ان کے شیوہ انداز پر نظر ڈالو
کہ انہوں نے کیسے کیسے آئین پیدا کیے ہیں
اور جو کچھ کبھی کسی نے دیکھا بھی نہ تھا وہ انہوں نے کر دکھایا ہے
صاحب ہوش لوگوں کے کام پر نظر ڈالو
اور ہرآئین میں نئی طرز کے سو کام دیکھو
الغرض اس آئین کے آگے جو زمانہ آج رکھتا ہے
دیگر آئین پرانی جنتری کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں
(فارسی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر خورشید رضوی)
جمعہ 14 فروری 2020 17:15
محمود الحسن -لاہور
( غالب کے یومِ وفات 15 فروری کے لیے لکھی گئی تحریر)
’فسانہ عجائب‘ اردو کلاسیک میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مصنف رجب علی بیگ سرور ایک دفعہ دلی میں غالب سے ملے تو ان سے پوچھا کہ کس کتاب کی اردو زبان عمدہ ہے؟ اس پر عظیم شاعر نے ’قصہ چہار درویش‘ کا نام لیا۔
رجب علی بیگ نے پوچھا اور ’فسانہ عجائب‘ کیسی ہے؟
غالب نے جواب دیا ’اجی لاحول ولا قوۃ اس میں لطف زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔‘
یہ رائے سن کرسرور پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
غالب پر جب یہ بات کھلی کہ جن صاحب سے انہوں نے ’فسانہ عجائب‘ کی برائی کی ہے وہ اس کے مصنف ہیں تو وہ کفِ افسوس ملنے لگے۔ اس واقعے کے دوسرے دن وہ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے پاس گئے اور پورا قصہ سنا کر ان سے کہا کہ رجب علی بیگ سرور کے مکان پر چل کر کل کی بات کی تلافی کرتے ہیں۔ اب یہ حضرات سرور کے یہاں پہنچے۔
وہاں غالب نے غوث علی شاہ کو مخاطب کرکے کہا ’جناب مولوی صاحب رات میں نے ’فسانہ عجائب‘ کو جو بغور دیکھا تو اس کی خوبیئ عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں۔ نہایت ہی فصیح و بلیغ عبارت ہے۔ میرے قیاس میں تو ایسی عمدہ نثر نہ پہلے ہوئی نہ آگے ہوگی کیوں کہ اس کا مصنف اپنا جواب نہیں رکھتا۔‘
غالب سے اپنی کتاب کی تعریف سن کر سرور خوش ہوئے۔ دل جوئی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ بعد ازاں غالب نے ان کی دعوت کی تو اس میں بھی سرور کی تعریفوں کے پل باندھے۔ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے ملفوظات و حالات پر مشتمل ’تذکرہ غوثیہ‘ میں لکھا ہے:
’مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔‘
’ان کے مزاج میں کمال کسرِ نفسی اور فروتنی تھی۔‘
غالب نے اپنا مسلک اس شعر میں بھی بیان کیا ہے:
آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلحِ کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
اسی طرح وہ کہتے ہیں:
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
دوستوں سے محبت
غالب یاروں کے یار تھے۔ دوستوں سے محبت کرتے۔ ان کی عزتِ نفس کا انہیں پاس رہتا۔ مصیبت میں گِھرے دوستوں کی دلجوئی کرتے کہ جانتے تھے ’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘۔
مولانا الطاف حسین حالی کے بقول ’وہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ جو گردشِ روزگار سے بگڑ گئے تھے نہایت شریفانہ طور سے سلوک کرتے تھے۔‘
غدر کے بعد ایک دوست کے حالات ابتر ہوگئے۔ ایک روز وہ چھینٹ کا فرغل پہنے غالب سے ملنے آئے۔ مرزا کو بہت رنج ہوا کہ کہاں تو یارِعزیز عمدہ چغے پہن کر آتا تھا اور آج یہ حال کہ حقیر کپڑا پہننے پر مجبور ہے۔ اب دوست سے اس فرغل کی برائی کرسکتے تھے نہ ہی اس کے بدلے کوئی اچھی قسم کا چغہ دے سکتے تھے کہ ’خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم‘ کے قائل تھے۔ آدمی ذہین تھے، اس لیے ایسا باوقار حل نکالا کہ دوست کو سبکی بھی محسوس نہ ہو اور وہ ان کے کام بھی آسکیں۔
ان سے کہا ’یہ چھینٹ آپ نے کہاں سے لی؟ مجھے یہ اچھا معلوم ہوتا ہے مجھے بھی فرغل کے لیے ایسا چھینٹ منگوا دیں۔‘
دوست نے جواب دیا ’یہ فرغل آج ہی بن کر آیا ہے اور میں نے اسی وقت اس کو پہنا ہے۔ اگر آپ کو پسند ہے تو یہی حاضر ہے۔‘
اس پر مرزا نے کہا ’جی تو یہی چاہتا ہے کہ اسی وقت آپ سے چھین کر پہن لوں مگر جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے آپ یہاں سے مکان تک کیا پہن کر جائیں گے؟ پھر ادھر ادھر دیکھ کر کھونٹی سے اپنا مالیدہ کا چغہ اتار کر انہیں پہنا دیا۔‘
غالب کی آمدنی زیادہ نہ تھی، پیسے کی ریل پیل نہ تھی، لیکن دل بہت غنی تھا۔ سوالی ان کے در سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ حالی ’یادگارِ غالب‘ میں لکھتے ہیں ’ان کے مکان کے آگے اندھے، لنگڑے، لولے اور اپاہج مرد و عورت ہر وقت پڑے رہتے تھے۔‘
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
غالب نے زندگی میں بہت صدمے جھیلے۔ سات بچے پیدا ہوئے۔ کوئی بھی 15 ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہا۔ بیوی کے بھانجے زین العابدین خاں عارف کو بیٹا بنایا لیکن وہ بھی جوانی میں چل بسا۔ اس کی موت کا گہرا گھاؤ غالب کو لگا۔ شدتِ غم کا احساس اس غزل سے ہوتا ہے:
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہ ہر حال یہ مدت خوش و نا خوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہ ہر حال یہ مدت خوش و نا خوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
زین العابدین خاں عارف کے بچوں سے غالب بہت لاڈ پیار کرتے۔ باپ کے انتقال کے بعد انہیں اپنے بچوں کی طرح چاہا۔ وہ تنگ کرتے تو اس کا بھی برا نہ مانتے۔
ایک خط میں لکھا ’دم بدم مجھ کو ستاتے ہیں اور میں تحمل کرتا ہوں۔ مجھے کھانا نہیں کھانے دیتے، ننگے ننگے پاؤں میرے پلنگ پر رکھتے ہیں، کہیں پانی لڑھاتے ہیں، کہیں خاک اڑاتے ہیں، میں تنگ نہیں آتا۔‘
خضر مرزا مرحوم کے بقول ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حسین علی خاں، مرزا غالب سے شوخیاں کرتے اور کبھی ان کی چھاتی پر چڑھ بیٹھتے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں بھی ان کی بہت ناز برداری ہوئی۔‘
مرزا صاحب نے کہا ارے حسین علی آ کر پڑھ لے، انہوں نے جواب دیا ’دادا جان، آتا ہوں، اور دوسری طرف نکل گئے۔ کھیل تماشے کا تو انہیں لپکا تھا۔ کٹھ پتلیوں کے تماشے پر ایک دفعہ بیس روپے خرچ کردیے اور پھر مرزا صاحب کے پاس منہ بسورتے ہوئے آئے کہ ’دادا جان بیس روپے دلوا دیجیے۔ مرزا صاحب نے کلو کو بلا کر کہا، بھئی انہوں نے ایک پتھر اور مارا، دے دے بیس روپے۔‘
غالب پروفیسر کیوں نہ بن سکے؟
گورنمنٹ آف انڈیا کے سیکرٹری جیمز ٹامسن غالب کے قدردان تھے۔ انہوں نے دلی کالج میں فارسی کی پروفیسری کے لیے غالب کو بلایا۔ پالکی میں بیٹھ کر ان سے ملنے گئے تو دفتر کے باہر رک گئے کہ سیکریٹری صاحب پیشوائی کے لیے اسی طرح باہر آئیں گے جیسے دربار کے وقت جاگیرداروں کے استقبال کے واسطے آتے ہیں۔ سیکریٹری کو اس اندازِ خسروانہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے غالب سے کہا کہ آپ نوکری کے لیے آئے ہیں جس قسم کا پروٹوکول چاہتے ہیں وہ نہیں مل سکتا۔
اس پر غالب نے کہا ’سرکاری ملازمت کا ارادہ اس لیے ہے کہ خاندانی اعزاز میں اضافہ ہو نہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی کھو بیٹھوں۔‘
یہ تو انگریز افسر تھے غالب کا معاملہ تو یہ تھا:
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
غالب کا وژن
برصغیر میں سرسید احمد خان کو جدیدیت کا علمبردار کہا جاتا ہے لیکن غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان سے پہلے زمانے کی رفتار پہچانی اور اس کے مطابق قومی لائحہ عمل مرتب کرنے پر زور دیا۔
سرسید نے ابوالفضل کی ’آئین اکبری‘ کو مدون کیا تو اس کی تقریظ کے لیے غالب سے کہا جو انہوں نے لکھ تو دی لیکن اس میں علمی کام کی وہ تحسین تو کیا کرتے الٹا اسے کارِعبث قرار دے دیا۔ اس پر سرسید ان سے ناراض ہوگئے۔
غالب نے تقریظ میں سرسید سے کہا کہ وہ آئین اکبری کے اوراقِ پارینہ کے بجائے آئین فرنگ پر نظر ڈالیں جس کی وجہ سے فرنگی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے چلے گئے ہیں اور انہوں نے وہ وہ کام کر دکھائے جن کا تصور بھی نہ تھا۔
غالب کی منظوم تقریظ کے چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
آنکھ کھول کر اس دیر کہن میں
اہل انگلستان کو دیکھو
اور ان کے شیوہ انداز پر نظر ڈالو
کہ انہوں نے کیسے کیسے آئین پیدا کیے ہیں
اور جو کچھ کبھی کسی نے دیکھا بھی نہ تھا وہ انہوں نے کر دکھایا ہے
صاحب ہوش لوگوں کے کام پر نظر ڈالو
اور ہرآئین میں نئی طرز کے سو کام دیکھو
الغرض اس آئین کے آگے جو زمانہ آج رکھتا ہے
دیگر آئین پرانی جنتری کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں
(فارسی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر خورشید رضوی)
آخری تدوین: