مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے ۔۔۔ حسن عباسی

عمر سیف

محفلین
مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت پہ آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقین
پر یوں ہوا کہ مر کے دِکھانا پڑا مجھے

بھولے سے مری سِمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اِک زخم لگانا پڑا مجھے

اُس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسے کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اس بےوفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اُٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گِرانا پڑا مجھے
 

مغزل

محفلین
مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے -------------- شاعر نامعلوم ؟

رات مجھے ایک شاعر دوست عماد اظہر نے مکتوب میں ایک شعر ارسال کیا اور شاعر کا نام پوچھا،شعر یہ تھا۔
اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار ---------- کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
تلاش کے بعد غزل تو دستیاب ہوگئی لیکن شاعر کا نام معلوم نہیں ہوسکا ، کسی کے علم میں ہو تو بتا دیں۔
تخلص ’’ نیاز ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ؟؟

غزل

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں‌ رہا تھا میری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کر دکھانا پڑا مجھے

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کراس نے تو مر جانا تھا نیاز
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے جناب۔ بہت شکریہ! شاعر کا نام معلوم ہو جانے پر ہمیں بھی بتائیے گا۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ فاتح بھائی ۔ مزید تلاش پر معلوم ہوا کہ یہ غزل اردو محفل میں بھی پیش ہوچکی ہے ۔۔ لیکن اس میں مراسلہ نگار تخلص ’’حسن‘‘ کردیا ہے !
جبکہ کئی مثالیں ’’ نیاز ‘‘ کی ہیں۔۔۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ شاعر کون ہے ؟؟

ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گِرانا پڑا مجھے
 

مغزل

محفلین
ہر شخص کررہا تھا جو مطعون کل مجھے
پھر آئینے کے روبروجانا پڑا مجھے
سید انور جاوید ہاشمی
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ایسی غلطیاں ہندوستان ، دبئی ، امریکا، ہر جگہ ہوتی ہیں ۔۔ یہ کوئی دلیل نہیں ۔ میں‌نے غالب و میر سے بھی جواز فراہم کیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فاتح بھائی ۔ مزید تلاش پر معلوم ہوا کہ یہ غزل اردو محفل میں بھی پیش ہوچکی ہے ۔۔ لیکن اس میں مراسلہ نگار تخلص ’’حسن‘‘ کردیا ہے !
جبکہ کئی مثالیں ’’ نیاز ‘‘ کی ہیں۔۔۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ شاعر کون ہے ؟؟

شکریہ محمود صاحب نشاندہی کیلیے، میں نے دونوں موضوعات کو محفل پالیسی کے مطابق یکجا کر دیا ہے، اگر آپ کو یا احباب میں سے کسی کو شاعر کے نام کا علم ہو تو براہِ کرم اسی تھریڈ میں پوسٹ کر دیں!
 
اصل شاعر

دوستو! شاعر کا اصل نام حسن عباسی ہے جو ہمارے بہت اچھے دوست بھی ہیں اور یہ غزل ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’ایک محبت کافی ہے‘ میں شامل ہے۔
غلطیوں سے پاک غزل ملاحظہ ہو:

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں‌ رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے​
(حسن عباسی)
 
Top