رات آئی ہے شبیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانہء شبیر کی ویرانی کی شب ہے
دشمن کی سپاہ خواب میںمدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بکا اہلِحرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے
اک گوشہ میںاِن سوختہ سامانوںکے سردار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوںکے سردار
تِشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّٰام کھڑے تھے
ہاںتن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے
کچھ خوف تھا چہرہ پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگِہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانہء شبیر کی ویرانی کی شب ہے
دشمن کی سپاہ خواب میںمدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بکا اہلِحرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے
اک گوشہ میںاِن سوختہ سامانوںکے سردار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوںکے سردار
تِشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّٰام کھڑے تھے
ہاںتن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے
کچھ خوف تھا چہرہ پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگِہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا