مرثیہ جناب مرزا اسد اللہ خاں مرحوم دہلوی متخلص بہ غالب ۔ حالی

فرخ منظور

لائبریرین
مرثیہ جناب مرزا اسد اللہ خاں مرحوم دہلوی متخلص بہ غالب

از الطاف حسین حالی

کیا کہوں حالِ دردِ پنہانی
وقت کوتاہ و قصہ طولانی

عیشِ دنیا سے ہو گیا دل سرد
دیکھ کر رنگِ عالمِ فانی

کچھ نہیں جز طلسمِ خواب و خیال
گوشۂ فقر و بزمِ سلطانی

ہے سراسر فریبِ وہم و گماں
تاجِ فغفور و تختِ خاقانی

بے حقیقت ہے شکلِ موجِ سراب
جامِ جمشید و راحِ ریحانی

لفظ مہمل ہے نطقِ اعرابی
حرف باطل ہے عقل یونانی

ایک دھوکا ہے لحنِ داؤدی
اِک تماشا ہے حسنِ کنعانی

نہ کروں تشنگی میں تر لبِ خشک
چشمۂ خضر کا ہو گر پانی

لوں نہ اِک مشتِ خاک کے بدلے
گر ملے خاتمِ سلیمانی

بحرِ ہستی بجز سراب نہیں
چشمۂ زندگی میں آب نہیں

(جاری ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جس سے دنیا نے آشنائی کی
اس سے آخر کو کج ادائی کی

تجھ پہ بھولے کوئی عبث اے عمر
تو نے کی جس سے بے وفائی کی

ہے زمانہ وفا سے بے گانہ
ہاں قسم مجھ کو آشنائی کی

یہ وہ بے مہر ہے کہ ہے اس کی
صلح میں چاشنی لڑائی کی

ہے یہاں حظِ وصل سے محروم
جس کو طاقت نہ ہو جدائی کی

ہے یہاں حفظِ وضع سے مایوس
جس کو عادت نہ ہو گدائی کی

خندۂ گل سے بے بقا، تر ہے
شان ہو جس میں دل ربائی کی

جنس کاسد سے ناروا تر ہے
خوبیاں جس میں ہوں خدائی کی

بات بگڑی رہی سہی افسوس
آج خاقانی و سنائی کی

رشکِ عرفی و فخر طالب مُرد
اسداللہ خان غالب مُرد


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
خندۂ گل سے بے بقاتر* ہے
شان ہو جس میں دل ربائی کی

جنس کاسد* سے ناروا تر ہے
خوبیاں جس میں ہوں خدائی کی

* یہ الفاظ واضح نہیں ہو سکے ۔ لیکن دیوانِ حالی میں جیسے لکھا تھا میں نے مندرج کر دیا۔

دخل در معقولات کیلیے معذرت فرخ صاحب۔

پہلے مصرعے میں 'بے بقا، تر ہے'

اور کاسِد (عربی) بمعنی ناقص، بے قدر وغیرہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بلبلِ ہند مر گیا ہیہات
جس کی تھی بات بات میں اِک بات

نکتہ داں ، نکتہ سنج ، نکتہ شناس
پاک دل ، پاک ذات ، پاک صفات

شیخ اور بذلہ سنج، شوخ مزاج
رند اور مرجّعِ کرام و ثقات

لاکھ مضموں اور اس کا ایک ٹھٹھول
سو تکلف اور اس کی سیدھی بات

دل میں چبھتا تھا وہ اگر بالمثل
دن کو کہتا دن اور رات کو رات

ہو گیا نقش دل پہ جو لکھّا
قلم اس کا تھا اور اس کی دوات

تھیں تو دلی میں اس کی باتیں تھیں
لے چلیں اب وطن کو کیا سوغات

اس کے مرنے سے مر گئی دلّی
خواجہ نوشہ تھا اور شہر برات

یاں اگر بزم تھی تو اس کی بزم
یاں اگر ذات تھی تو اس کی ذات

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا

(جاری ہے)


 

فرخ منظور

لائبریرین
دل کو باتیں جب اس کی یاد آئیں
کس کی باتوں سے دل کو بہلائیں

کس کو جا کر سنائیں شعر و غزل
کس سے دادِ سخنوری پائیں

مرثیہ اس کا لکھتے ہیں احباب
کس سے اصلاح لیں کدھر جائیں

پست مضموں ہے نوحۂ استاد
کس طرح آسماں پہ پہنچائیں

لوگ کچھ پوچھنے کو آئے ہیں
اہلِ میّت جنازہ ٹھیرائیں

لائیں گے پھر کہاں سے غالب کو
سوئے مدفن ابھی نہ لے جائیں

اس کو اَگلوں پہ کیوں نہ دیں ترجیح
اہلِ انصاف غور فرمائیں

قدسی و صائب و اسیر و کلیم
لوگ جو چاہیں ان کو ٹھیرائیں

ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے
ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں

غالبِ نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت

(جاری ہے)

 

فرخ منظور

لائبریرین
نثر حسن و جمال کی صورت
نظم غنج و دلال کی صورت

تہنیت اِک نشاط کی تصویر
تعزیت اِک ملال کی صورت

قال اس کا وہ آئینہ جس میں
نظر آتی تھی حال کی صورت

اس کی توجیہ سے پکڑتی تھی
شکلِ امکاں محال کی صورت

اس کی تاویل سے بدلتی تھی
رنگِ ہجراں وصال کی صورت

لطف آغاز سے دکھاتا تھا
سخن اس کا مآل کی صورت

چشمِ دوراں سے آج چھپتی ہے
انوری و کمال کی صورت

لوحِ امکاں سے آج مٹتی ہے
علم و فضل و کمال کی صورت

دیکھ لو آج پھر نہ دیکھو گے
غالبِ بے مثال کی صورت

اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ
کہیں ڈھونڈے نہ پائیں گے یہ لوگ

(جاری ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہر میں جو ہے سوگوار ہے آج
اپنا بیگانہ اشک بار ہے آج

نازشِ خلق کا محل نہ رہا
رحلتِ فخرِ روزگار ہے آج

تھا زمانے میں ایک رنگیں طبع
رخصتِ موسمِ بہار ہے آج

بارِ احباب جو اٹھاتا تھا
دوشِ احباب پر سوار ہے آج

تھی ہر اِک بات نیشتر جس کی
اس کی چپ سے جگر فگار ہے آج

دل میں مدت سے تھی خلش جس کی
وہی برچھی جگر کے پار ہے آج

دلِ مضطر کو کون دے تسکیں
ماتمِ یارِ غم گسار ہے آج

تلخیِ غم کہی نہیں جاتی
جانِ شیریں بھی ناگوار ہے آج

کس کو لاتے ہیں بہرِ دفن کہ قبر
ہمہ تن چشمِ انتظار ہے آج

غم سے بھرتا نہیں دلِ ناشاد
کس سے خالی ہوا جہان آباد

(جاری ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
نقدِ معنی کا گنجداں نہ رہا
خوانِ مضموں کا میزباں نہ رہا

ساتھ اس کے گئی بہارِ سخن
اب کچھ اندیشۂ خزاں نہ رہا

ہوا ایک ایک کارواں سالار
کوئی سالارِ کارواں نہ رہا

رونقِ حسن تھا بیاں اس کا
گرم بازارِ گُل رُخاں نہ رہا

عشق کا نام اس سے روشن تھا
قیس و فرہاد کا نشاں نہ رہا

ہوچکیں حسن و عشق کی باتیں
گل و بلبل کا ترجماں نہ رہا

اہلِ ہند اب کریں گے کس پر ناز
رشکِ شیراز و اصفہاں نہ رہا

زندہ کیونکر رہے گا نامِ ملوک
بادشاہوں کا مدح خواں نہ رہا

کوئی ویسا نظر نہیں آتا
وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا

اٹھ گیا تھا جو مایہ دارِ سخن
کس کو ٹھیرائیں اب مدارِ سخن

(جاری ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا ہے جس میں وہ مرد کار نہ تھا
اک زمانہ کہ سازگار نہ تھا

شاعری کا کیا حق اس نے ادا
پر کوئی اس کا حق گزار نہ تھا

بے صلہ مدح و شعرِ بے تحسیں
سخن اس کا کسی پہ بار نہ تھا

قطعہ

نذرِ سائل تھی جان تک لیکن
در خورِ ہمتِ اقتدار نہ تھا

ملک و دولت سے بہرہ ور نہ ہوا
جان دینے پر اختیار نہ تھا

خاکساروں سے خاکساری تھی
سر بلندوں سے انکسار نہ تھا

لب پہ احباب سے بھی تھا نہ گلا
دل میں اعدا سے بھی غبار نہ تھا

بے ریائی تھی زہد کے بدلے
زہد اس کا اگر شعار نہ تھا

ایسے پیدا کہاں ہیں مست و خراب
ہم نے مانا کہ ہوشیار نہ تھا

مظہرِ شانِ حسنِ فطرت تھا
معنیِ لفظِ آدمیت تھا

(جاری ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ نہیں فرق باغ و زنداں میں
آج بلبل نہیں گلستاں میں

شہر سارا بنا ہے بیتِ حُزن
ایک یوسف نہیں جو کنعاں میں

ملک یکسر ہوا ہے بے آئیں
اِک فلاطوں نہیں جو یوناں میں

ختم تھی اِک زباں پہ شیرینی
ڈھونڈتے کیا ہو سیب و رمّاں میں

اب جادو بیاں ہوا خاموش
گوشِ گُل وا ہے کیوں گلستاں میں

گوشِ معنی شنو ہوا بے کار
مرغ کیوں نعرہ زن ہے بستاں میں

وہ گیا بزم جس سے روشن تھی
شمع جلتی ہے کیوں شبستاں میں

نہ رہا جس سے تھا فروغِ نظر
سرمہ بنتا ہے کیوں صفاہاں میں

ماہِ کامل میں آ گئی ظلمت
آبِ حیواں پہ چھا گئی ظلمت

(جاری ہے)

 

فرخ منظور

لائبریرین
ہند میں نام پائے گا اب کون
سکّہ اپنا بٹھائے گا اب کون

ہم نے جانی ہے اس سے قدرِ سَلَف
ان پر ایمان لائے گا اب کون

اس نے سب کو بھلا دیا دل سے
اس کو دل سے بھلائے گا اب کون

تھی کسی کی نہ جس میں گنجائش
وہ جگہ دل میں پائے گا اب کون

اس سے ملنے کو یاں ہم آتے تھے
جا کے دلّی سے آئے گا اب کون

مر گیا قدر دانِ فہمِ سخن
شعر ہم کو سنائے گا اب کون

مر گیا تشنۂ مذاقِ کلام
ہم کو گھر سے بلائے گا اب کون

تھا بساطِ سخن میں شاطر ایک
ہم کو چالیں بتائے گا اب کون

شعر میں ناتمام ہے حالی
غزل اس کی بنائے گا اب کون

(ختم شم)
 

جیہ

لائبریرین
شکر ہے کہ ختم شد کا لفظ دیکھ لیا۔ میں منتظر تھی کہ کب ختم ہوگا اور میں اسے کاپی ، پرنٹ کرکت آرام سے پڑھوں گی۔

فرخ آپ اس کارنامے پر تہہ دل سے مبارکباد دیتی ہوں۔ تبصرہ پورا مرثیہ پڑھ کر ہی کروں گی انشاء اللہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکر ہے کہ ختم شد کا لفظ دیکھ لیا۔ میں منتظر تھی کہ کب ختم ہوگا اور میں اسے کاپی ، پرنٹ کرکت آرام سے پڑھوں گی۔

فرخ آپ اس کارنامے پر تہہ دل سے مبارکباد دیتی ہوں۔ تبصرہ پورا مرثیہ پڑھ کر ہی کروں گی انشاء اللہ

شکریہ جویریہ! میں نے جب دیوانِ حالی خریدا تھا تو مجھے یہ مرثیہ بہت ہی عمدہ لگا تھا لیکن حیرت یہ ہوئی کہ اس مرثیے کا ذکر میں نے کسی کی زبانی کبھی نہیں سنا تھا سوائے ایک دوست کی زبانی ایک شعر کے
غالبِ نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت


شکریہ جناب اس کارِ خیر کیلیے، جزاک اللہ۔

پسند کرنے کے لئے بہت شکریہ وارث صاحب اور فاتح صاحب!
 

الف عین

لائبریرین
چلو، اب میں بھی ای بک بنا لوں گا اس کی، یا فرخ، مجھے ای میل ہی کر دیں نا، تاکہ میں ایک ایک پیغام الگ الگ کاپی پیسٹ کی زحمت سے بچ جاؤں!!!
اورشکریہ تو ادا کرنا ہی بھول گیا اس خوشی میں۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
چلو، اب میں بھی ای بک بنا لوں گا اس کی، یا فرخ، مجھے ای میل ہی کر دیں نا، تاکہ میں ایک ایک پیغام الگ الگ کاپی پیسٹ کی زحمت سے بچ جاؤں!!!
اورشکریہ تو ادا کرنا ہی بھول گیا اس خوشی میں۔۔

شکریہ اعجاز صاحب! مرثیہ ای میل کر دیا ہے۔
 
Top