حسان خان
لائبریرین
کر وضو آبِ مودت سے، سلامی پیش کر
بارگاہِ شاہ میں دل کی غلامی پیش کر
اے قلم! طرزِ حقیقی، سوزِ جامی پیش کر
تو طرفدارِ حسینی ہے، یہ حامی پیش کر
مرتبے میں کم نہیں جانوں گا تجھ کو میر سے
داد پا جائے اگر تو حضرتِ شبیر سے
حضرتِ شبیر یعنی یادگارِ کردگار
ہو بہو نقشِ محمد مصطفیٰ ترتیب وار
جن کے بابا کے لئے اتری وہ تیغِ نوبہار
'لا فتیٰ الّا علی لا سیف الّا ذوالفقار'
جبکہ ممدوحِ خدا خود مادحِ شبیر ہے
بالیقیں شبیر سِرِّ آیۂ تطہیر ہے
باغِ حیدر کا گلِ نوخیز و نورستہ ہے تو
دل نہیں، بیتِ الٰہی ہے، جہاں بستا ہے تو
جس کی منزل ہے علی، حق کا وہی رستا ہے تو
ہاں یزیدیت کی مشکیں آج بھی کستا ہے تو
کون کہتا ہے کہ دنیا سے مٹا نامِ حسین
دل بہ دل سینہ بہ سینہ ہے لکھا نامِ حسین
بے مثال و بے نظیر و لانہایت روشنی
اے حسین ابنِ علی اے نورِ وحدت روشنی
اے پیمبر زاد، اے سرِ امامت روشنی
اے مسلسل جاری و ساری شہادت روشنی
صبر! جو اک لفظ تھا، تو نے 'عقیدہ' کر دیا
تا قیامت پرچمِ ظلمت خمیدہ کر دیا
ذکرِ اہلِ بیت ہر دم دلبرانہ کیجئے
در بدر کیوں ہیں؟ اسی در پر ٹھکانہ کیجئے
یعنی اوقاتِ عبادت کو یگانہ کیجئے
پنجگانہ کر چکے اب 'پنجتانہ' کیجئے
بس یہی گھر ہے کہ جو مالک ہے کُل مختار ہے
جو غلامی میں ہے ان کی، اس کا بیڑا پار ہے
جبر و استبداد کا بے خوف رد ہے کربلا
مومنوں کے واسطے حقی سند ہے کربلا
جل مرے جس میں منافق، وہ حسد ہے کربلا
کیا کہوں میں کربلا بارے، کہ حد ہے کربلا
دین کی نصرت یقیناً کربلا سے ہے میاں
کربلا شبیر سے اور وہ خدا سے ہے میاں
کٹ گرے عباس تو شبیر نے رو کر کہا
یا علی ابنِ ابی طالب! مرا بھائی گیا!!
قدسیاں بولے حسین ابنِ علی صد مرحبا
اب نہ ہوگا آپ ایسا کشتۂ صبر و رضا
جانبِ کوثر رواں ہے، رک نہیں سکتا حسین
سر کٹا سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا حسین
(علی زریون)