نظام الدین
محفلین
ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہوجائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے۔ لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹر کار گزر جاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹرکار کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے۔ اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جاسکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جارہا ہوں اور کوئی موٹر اس اداسے سے گزر جائے کہ گردوغبار میرے پھیپھڑوں، میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلّی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آکر علم کیمیا کی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔ اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آجائے۔ میں کچھ دیر تک آہیں بھرتا رہا۔ مرزا صاحب نے کچھ توجہ نہ کی۔ آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور مرزا صاحب سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’مرزا صاحب! ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟‘‘ مرزا صاحب بولے۔ ’’بھئی کچھ ہوگا ہی نا آخر‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’میں بتاؤں تمہیں؟‘‘ کہنے لگے۔ ’’بولو‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’کوئی فرق نہیں۔ سنتے ہو مرزا؟کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور حیوانوں میں۔۔۔۔ کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں! ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو۔ کہہ دو گے۔ حیوان جگالی کرتے ہیں، تم جگالی نہیں کرتے۔ ان کی دُم ہوتی ہے۔ تمہاری دُم نہیں۔ لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں، لیکن ایک بات میں، میں اور وہ بالکل برابر ہیں۔ وہ بھی پیدل چلتے ہیں اور میں بھی پیدل چلتا ہوں۔ اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ جواب نہیں۔ کچھ ہے تو کہو۔ بس چپ ہوجاؤ۔ تم کچھ نہیں کرسکے۔ جب سے میں پیدا ہوا ہوں اور اس دن سے پیدل چل رہا ہوں۔ پیدل۔۔ تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پیدل کے معنی ہیں سینہ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں ایک ضرور زمین پر رہے۔ یعنی تمام عمر میرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں اور دوسرا اُٹھاتا ہوں۔ دوسرا رکھتا ہوں پہلا اُٹھاتا ہوں۔ ایک آگے ایک پیچھے، ایک پیچھے ایک آگے۔ خدا کی قسم اس طرح زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ حواس بیکار ہوجاتے ہیں۔ تخیل مرجاتا ہے۔ آدمی گدھے سے بدتر ہوجاتا ہے‘‘۔مرزا صاحب میری اس تقریر کے دوران میں کچھ اس بیپروائی سے سگریٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بے وفائی پر رونے کو دل چاہتا تھا۔ میں نے ازحد حقارت اور نفرت کے ساتھ منہ ان کی طرف پھیر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرزا کو میری باتوں پر یقین ہی نہیں آتا۔ گویا میں اپنی جو تکالیف بیان کر رہا ہوں وہ محض خیالی ہیں یعنی میرا پیدل چلنے کے خلاف شکایت کرنا قابل توجہ ہی نہیں۔ یعنی میں کسی سواری کا مستحق ہی نہیں۔ میں نے دل میں کہا۔ ’’اچھا مرزا یوں ہی سہی۔ دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں‘‘۔ میں نے اپنے دانت پچی کرلیے اور کرسی کے بازو پر سے جھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔ مرزا نے بھی سَر میری طرف موڑا۔ میں مسکرا دیا لیکن میرے تبسم کا میں زہر ملا ہوا تھا۔ جب مرزا سننے کے لیے بالکل تیار ہوگیا تو میں نے چبا چبا کر کہا۔ ’’مرزا! میں ایک موٹرکار خریدنے لگاہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ مرزا پھر بولے۔ ’’کیا کہا تم نے؟ کیا خریدنے لگے ہو؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’سنا نہیں تم نے۔ ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں۔ موٹرکار ایک ایسی گاڑی ہے جس کو بعض لوگ موٹر کہتے ہیں، بعض لوگ کار کہتے ہیں لیکن چونکہ تم ذرا کند ذہن ہو، اس لیے میں نے دونوں لفظ استعمال کردیئے۔ تاکہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے‘‘۔ مرزا بولے۔ ’’ہوں‘‘۔ اب کے مرزا نہیں میں بے پروائی سے سگریٹ پینے لگا۔ بھویں میں نے اوپر کو چڑھالیں۔ پھر سگریٹ والا ہاتھ منہ تک اس انداز سے لاتا اور لے جاتا تھا کہ بڑے بڑے ایکٹر اس پر رشک کریں۔ تھوڑی دیر کے بعد مرزا بولے۔ ’’ہوں‘‘۔ میں نے سوچا اثر ہورہا ہے۔ مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے۔ میں چاہتا تھا، مرزا کچھ بولے۔ تاکہ مجھے معلوم ہو، کہاں تک مرعوب ہوا ہے لیکن مرزا نے پھر کہا۔ ’’ہوں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’مرزا! جہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے اسکول اور کالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ تمہیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی اسکول یا کالج یا شریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔ پھر بھی اس وقت تمہارا کلام ’’ہوں‘‘ سے آگے نہیں بڑھتا۔ تم جلتے ہو۔مرزا! اس وقت تمہاری جو ذہنی کیفیت ہے، اس کو عربی زبان میں حسد کہتے ہیں۔‘‘ مرزا صاحب کہنے لگے۔ ’’نہیں یہ بات تو نہیں، میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا تھا۔ تم نے کہا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں تو میاں صاحب زادے خریدنا تو ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہوجائے گا۔ لیکن روپے کا بندوبست کیسے کروگے؟‘‘ یہ نکتہ مجھے بھی نہ سوجھا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں نے کہا۔ ’’میں اپنی کئی قیمتی اشیاء بیچ سکتا ہوں‘‘۔ مرزا بولے۔ ’’کون کون سی مثلاً؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ایک تو میں سگریٹ کیس بیچ ڈالوں گا‘‘۔ مرزا کہنے لگے۔ ’’چلو دس آنے تو یہ ہوگئے، باقی ڈھائی تین ہزار کا انتظام بھی اگر کسی طرح ہوجائے گا تو سب کام ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔ اس کے بعد ضروری یہی معلوم ہوا کہ گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے روک دیا جائے۔ چنانچہ میں مرزا سے بیزار ہوکر خاموش ہورہا۔ یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ روپیہ کہاں سے لاتے ہیں۔ بہت سوچا۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں۔ اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا۔ مرزا بولے۔ ’’میں تمہیں ایک ترکیب بتاؤں ایک بائیسکل لے لو‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’وہ روپیہ کا مسئلہ تو پھر بھی جوں کا توں رہا‘‘۔ کہنے لگے۔ ’’مفت‘‘۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ ’’مفت وہ کیسے؟‘‘ کہنے لگے۔ ’’مفت ہی سمجھو۔ آخر دوست سے قیمت لینا بھی کہاں کی شرافت ہے۔ البتہ تم احسان قبول کرنا گوارا نہ کرو تو اور بات ہے‘‘۔ ایسے موقع پر جو ہنسی میں ہنستا ہوں، اس میں معصوم بچے کی مسرت، جوانی کی خوش دلی، اُبلتے ہوئے فواروں کی موسیقی، بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں یہ ہنسی ہنسا۔ اور اس طرح ہنسا کہ کھلی ہوئی باچھیں پھر گھنٹوں تک اپنی اصلی جگہ پر واپس نہ آئیں۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ یک لخت کوئی خوشخبری سننے سے دل کی حرکت بند ہوجانے کا جو خطرہ ہوتا ہے اس سے محفوظ ہوں، تو میں نے پوچھا۔ ’’کس کی؟‘‘ مرزا بولے۔ ’’میرے پاس ایک بائیسکل پڑی ہے تم لے لو‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’پھر کہنا پھر کہنا!‘‘ کہنے لگے۔ ’’بھئی ایک بائیسکل میرے پاس ہے، جب میری ہے، تو تمہاری ہے، تم لے لو‘‘۔ یقین مانئے مجھے پھر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ شرم کے مارے میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔ چودھویں صدی میں ایسی بیغرضی اور ایثار بھلا کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ میں نے کرسی سرکا کر مرزا کے پاس کرلی، سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی ندامت اور ممنونیت کا اظہار کن الفاظ میں کروں۔ میں نے کہا۔ ’’مرزا صاحب! سب سے پہلے تو میں اس گستاخی اور درشتی اور بے ادبی کے لیے معافی مانگتا ہوں، جو ابھی میں نے تمہارے ساتھ گفتگو میں روا رکھی، دوسرے میں آج تمہارے سامنے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ تم میری صاف گوئی کی داد دو گے اور مجھے اپنی رحم دلی کے صدقے معاف کردو گے۔ میں ہمیشہ تم کو ازحد کمینہ، ممسک، خودغرض اور عیار انسان سمجھتا رہا ہوں۔ دیکھو ناراض مت ہو۔ انسان سے غلطی ہوہی جاتی ہے۔ لیکن آج تم نے اپنی شرافت اور دوست پروری کا ثبوت دیا ہے اور مجھ پر ثابت کردیا ہے کہ میں کتنا قابلِ نفرت، تنگ خیال اور حقیر شخص ہوں۔ مجھے معاف کردو‘‘۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ قریب تھا کہ میں مرزا کے ہاتھ بوسہ دیتا اور اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے اس کی گود میں سَر رکھ دیتا، لیکن مرزا صاحب کہنے لگے۔ ’’واہ اس میں میری فیاضی کیا ہوتی، میرے پاس ایک بائیسکل ہے، جیسے میں سوار ہوا، ویسے تم سوار ہوئے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’مرزا! مفت میں نہ لوں گا، یہ ہرگز نہیں ہوسکتا‘‘۔ مرزا کہنے لگے۔ ’’بس میں اسی بات سے ڈرتا تھا، تم حساس اتنے ہو کہ کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ خدا گواہ ہے، احسان اس میں کوئی نہیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’خیر کچھ بھی سہی، تم سچ مچ مجھے اس کی قیمت بتا دو‘‘۔ مرزا بولے۔ ’’قیمت کا ذکر کرکے تم گویا مجھے کانٹوں میں گھسیٹتے ہو اور جس قیمت پر میں نے خریدی تھی، وہ تو بہت زیادہ تھی اور اب تو وہ اتنے کی رہی بھی نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا۔ ’’تم نے کتنے میں خریدی تھی؟‘‘ کہنے لگے، ’’میں نے پونے دو سو روپے میں لی تھی، لیکن اُس زمانے میں بائیسکلوں کا رواج ذرا کم تھا، اس لیے قیمتیں ذرا زیادہ تھیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’کیا بہت پرانی ہے؟‘‘ بولے۔ ’’نہیں ایسی پرانی بھی کیا ہوتی، میرا لڑکا اس پر کالج آیا جایا کرتا تھا، اور اسے کالج چھوڑے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ آج کل کی بائیسکلوں سے ذرا مختلف ہے، آج کل تو بائیسکلیں ٹین کی بنتی ہے۔ جنہیں کالج کے سر پھرے لونڈے سستی سمجھ کر خرید لیتے ہیں۔ پرانی بائیسکلوں کے ڈھانچے مضبوط ہوا کرتے تھے‘‘۔ ’’مگر مرزا! پونے دو سو روپے تو میں ہرگز نہیں دے سکتا، اتنے روپے میرے پاس کہاں سے آئے، میں تو اس سے آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا‘‘۔ مرزا کہنے لگے۔ ’’تو میں تم سے پوری قیمت تھوڑی مانگتا ہوں، اول تو قیمت لینا نہیں چاہتا لیکن۔۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’نہ مرزا! قیمت تو تمہیں لینی پڑے گی۔ اچھا تم یوں کرو میں تمہاری جیب میں کچھ روپے ڈال دیتا ہوں تم گھر جا کے گن لینا۔ اگر تمہیں منظور ہوئے تو کل بائیسکل بھیج دینا ورنہ روپے واپس کردینا، اب یہاں بیٹھ کر میں تم سے سودا چکاؤں، یہ تو کچھ دکان داروں کی سی بات معلوم ہوتی ہے‘‘۔ مرزا بولے۔ ’’بھئی جیسے تمہاری مرضی، میں تو اب بھی یہی کہتا ہوں کہ قیمت ویمت جانے دو لیکن میں جانتا ہوں کہ تم نہ مانو گے‘‘۔ میں اُٹھ کر اندر کمرے میں آیا، میں نے سوچا استعمال شدہ چیز کی لوگ عام طور پر آدھی قیمت دیتے ہیں لیکن جب میں نے مرزا سے کہا تھا کہ مرزا میں تو آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا تو مرزا اس پر معترض نہ ہوا تھا، وہ بیچارہ تو بلکہ یہی کہتا تھا کہ تم مفت ہی لے لو، لیکن مفت میں کیسے لے لوں۔ آخر بائیسکل ہے۔ ایک سواری ہے۔ فٹنوں اور گھوڑوں اور موٹروں اور تانگوں کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔بکس کھولا تو معلوم ہوا کہ ہست وبود کل چھیالیس روپے ہیں۔ چھیالیس روپے تو کچھ ٹھیک رقم نہیں۔ پنتالیس یا پچاس ہوں، جب بھی بات ہے۔ پچاس تو ہو نہیں سکتے۔ اور اگر پنتالیس ہی دینے ہیں تو چالیس کیوں نہ دیئے جائیں۔ جن رقموں کے آخر میں صفر آتا ہے وہ رقمیں کچھ زیادہ معقول معلوم ہوتی ہیں بس ٹھیک ہے، چالیس روپے دے دوں گا۔ خدا کرے مرزا قبول کرلے۔ باہر آیا چالیس روپے مٹھی میں بند کرکے میں نے مرزا کی جیب میں ڈال دیئے اور کہا۔ ’’مرزا! اس کو قیمت نہ سمجھنا۔ لیکن اگر ایک مفلس دوست کی حقیر سی رقم منظور کرنا تمہیں اپنی توہین معلوم نہ ہو تو کل بائیسکل بھجوا دینا‘‘۔ مرزا چلنے لگے تو میں نے پھر کہا کہ مرزا! کل ضرور صبح ہی صبح بھجوا دینا، رخصت ہونے سے پہلے میں نے پھر ایک دفعہ کہا۔
’’کل صبح آٹھ نو بجے تک پہنچ جائے، دیر نہ کردینا۔۔۔۔خدا حافظ!۔۔۔۔اور دیکھو مرزا! میرے تھوڑے سے روپوں کو بھی زیادہ سمجھنا۔۔۔۔۔خدا حافظ!۔۔۔۔۔اور تمہارا بہت بہت شکریہ، میں تمہارا بہت ممنون ہوں اور میری گستاخی کو معاف کردینا، دیکھو نا کبھی کبھی یوں ہی بے تکلفی میں۔۔۔۔۔کل صبح آٹھ نو بجے تک۔۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔خداحافظ!۔۔۔۔۔‘‘ مرزا کہنے لگے۔ ’’ذرا اس کو جھاڑ پونچھ لینا اور تیل وغیرہ ڈلوالینا۔ میرے نوکر کو فرصت ہوئی تو خود ہی ڈلوادوں گا، ورنہ تم خود ہی ڈلوالینا‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ہاں ہاں وہ سب کچھ ہوجائے گا، تم کل بھیج ضرور دینا اور دیکھنا آٹھ بجے تک ساڑھے آٹھ سات بجے تک پہنچ جائے۔’’اچھا۔۔۔۔خداحافظ!‘‘ رات کو بستر پر لیٹا تو بائیسکل پر سیر کرنے کے مختلف پروگرام تجویز کرتا رہا۔ یہ ارادہ تو پختہ کرلیا کہ دو تین دن کے اندر اندر اِردگِرد کی تمام مشہور تاریخی عمارات اور کھنڈروں کو نئے سِرے سے دیکھ ڈالوں گا۔ اس کے بعد اگلے گرمی کے موسم میں ہوسکا تو بائیسکل پر کشمیر وغیرہ کی سیر کروں گا۔ صبح صبح کی ہوا خوری کے لئے ہر روز نہر تک جایا کروں گا۔ شام کو ٹھنڈی سڑک پر جہاں اور لوگ سیر کو نکلیں گے میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزر جاؤں گا۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی بائیسکل کے چمکیلے حصوں پر پڑے گی تو بائیسکل جگمگا اُٹھے گی اور ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اُڑ رہا ہے۔ وہ مسکراہٹ جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں ابھی تک میرے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی، بارہا دل چاہا کہ ابھی بھاگ کر جاؤں اور اسی وقت مرزا کو گلے لگالوں۔ رات کو خواب میں دعائیں مانگتا رہا کہ خدایا! مرزا بائیسکل دینے پر رضامند ہوجائے۔صبح اُٹھا تو اُٹھنے کے ساتھ ہی نوکر نے یہ خوشخبری سنائی کے حضور! وہ بائیسکل آگئی ہے۔ میں نے کہا۔ ’’اتنے سویرے؟‘‘ نوکر نے کہا۔ ’’وہ تو رات ہی کو آگئی تھی، آپ سوگئے تھے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور ساتھ ہی مرزا صاحب کا آدمی یہ ڈھبریاں کسنے کا ایک اوزار بھی دے گیا ہے‘‘۔ میں حیران تو ہوا کہ مرزا صاحب نے بائیسکل بھجوا دینے میں اس قدر عجلت سے کیوں کام لیا لیکن اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی نہایت شریف اور دیانت دار ہیں۔ روپے لے لئے تھے تو بائیسکل کیوں روک رکھتے۔ نوکر سے کہا۔ ’’دیکھو یہ اوزار یہیں چھوڑ جاؤ اور دیکھو بائیسکل کو کسی کپڑے سے خوب اچھی طرح جھاڑو۔ اور یہ موڑ پر جو بائیسکلوں والا بیٹھتا ہے اس سے جاکر بائیسکل میں ڈالنے کا تیل لے آؤ اور دیکھو، اے بھاگا کہاں جارہا ہے، ہم ضروری بات تم سے کہہ رہے ہیں، بائیسکل والے سے تیل کی ایک کپی بھی لے آنا اور جہاں جہاں تیل دینے کی جگہ ہے وہاں تیل دے دینا اور بائیسکلوں والے سے کہنا کہ کوئی گھٹیا سا تیل نہ نہ دیدے۔ جس سے تمام پرزے ہی خراب ہوجائیں، بائیسکل کے پرزے بڑے نازک ہوتے ہیں اور بائیسکل باہر نکال رکھو، ہم ابھی کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ ہم ذرا سیر کو جارہے ہیں اور دیکھو صاف کردینا اور بہت زور زور سے کپڑا بھی مت رگڑنا، بائیسکل کا پالش گھس جاتا ہے‘‘۔ جلدی جلدی چائے پی، غسل خانے میں بڑے جوش خروش کے ساتھ ’’چل چل چنبیلی باغ میں‘‘ گاتا رہا اس کے بعد کپڑے بدلے، اوزار کو جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا۔ برآمدے میں آیا تو برآمدے کے ساتھ ہی ایک عجیب وغریب مشین پر نظر پڑی۔ ٹھیک طرح پہچان نہ سکا کہ کیا چیز ہے، نوکر سے دریافت کیا۔ ’’کیوں بے! یہ کیا چیز ہے؟‘‘ نوکر بولا۔ ’’حضور! یہ بائیسکل ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’بائیسکل؟ کس کی بائیسکل؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’مرزا صاحب نے بھجوائی ہے آپ کے لیے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اور جو بائیسکل رات کو انہوں نے بھیجی تھی وہ کہاں گئی؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’یہی تو ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’کیا بکتا ہے، جو بائیسکل مرزا صاحب نے کل رات کو بھیجی تھی وہ بائیسکل یہی ہے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’جی ہاں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا‘‘ اور پھر اسے دیکھنے لگا۔ اس کو صاف کیوں نہیں کیا؟‘‘ ’’اس کو دو تین دفعہ صاف کیا ہے؟‘‘ ’’تو یہ میلی کیوں ہے؟‘‘ نوکر نے اس کا جواب دینا شاید مناسب نہ سمجھا۔ ’’اور تیل لایا؟‘‘ ’’ہاں حضور! لایا ہوں‘‘۔ ’’دیا؟‘‘ ’’حضور! وہ تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں وہ نہیں ملتے‘‘۔ ’’کیا وجہ ہے؟‘‘ ’’حضور! ڈھروں پر میل اور زنگ جما ہے۔ وہ سوراخ کہیں بیچ ہی میں دب دبا گئے ہیں‘‘۔ رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا۔ جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا تو اتنا تو ثابت ہوگیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجموعی ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بل اور رہٹ اور چرخہ اور اس طرح کی ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدورفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بولا۔ ’’حضور! وہ تیل تو سب اِدھر اُدھر بہہ جاتا ہے۔ بیچ میں تو جاتا ہی نہیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے‘‘۔ آخر کار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اُترائی تھی اس پر بائیسکل خودبخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئیں۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں۔ چاں۔ چوں کی قسم آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ، کھڑکھڑ۔ کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔ چر۔چرخ۔چر۔چرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی ۔ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ دہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہو۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔ اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سَر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جارہا ہو۔پچھلے اور اگلے پہیے کو ملا کر چوں چوں پھٹ۔ چوں چوں پھٹ۔۔۔۔ کی صدا نکل رہی تھی۔ جب اُتار پر بائیسکل ذرا تیز ہوئی تو فضاء میں ایک بھونچال سا آگیا۔اور بائیسکل کے کئی اور پُرزے جو اب تک سو رہے تھے۔ بیدار ہوکر گویا ہوئے۔ اِدھر اُدھر کے لوگ چونکے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے سینوں سے لگالیا۔ کھڑڑ کھڑڑ کیبیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی دے رہی تھی لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے تیز تھی اس لیے چوں چوں پھٹ، چوں چوں پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ، چچوں پھٹ، کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تمام بائیسکل کسی ادق افریقی زبان کی گردانیں دہرا رہی تھی۔ اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہوگئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جا تو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کو مڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدی دفعتہ چھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنانچہ جب پیڈل چلانے کے لیے ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا تو میرے گھٹنے میری تھوڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ کمر دہری ہوکر باہر کو نکلی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹھکیلیوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔ گدی کا نیچا ہوجانا ازحد تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس لیے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس کو ٹھیک کرلوں۔ چنانچہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اُترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آگیا ہوں۔جیب سے میں نے اوزار نکالا، گدی کو اونچا کیا، کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا اور دوبارہ سوار ہوگیا۔ دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچا ہوگیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جس آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑمڑ کر دیکھنے لگتاتھا لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافت طبع کا باعث نہ ہو۔ ہینڈل تو نیچا ہوہی گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد گدی بھی پھر نیچی ہوگئی اور میں ہمہ تن زمین کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’دیکھو یہ آدمی کیا کر رہا ہے‘‘۔ گویا اس بدتمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا۔ میں نے اُتر کر پھر ہینڈل اور گدی کو اونچا کیا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نہ ایک پھر نیچا ہوجاتا۔ وہ لمحے جن کے دوران میں میرا ہاتھ اور میرا جسم دونوں ہی بلندی پر واقع ہوں بہت ہی کم تھے اور ان میں بھی میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب کہ گدی پہلے بیٹھے گی یا ہینڈل؟ چنانچہ نڈر ہوکر نہ بیٹھتا بلکہ جسم کو گدی سے قدرے اوپر ہی رکھتا لیکن اس سے ہینڈل پر اتنا بوجھ پڑ جاتا کہ وہ نیچا ہوجاتا۔ جب دو میل گزر گئے اور بائیسکل کی اُٹھک بیٹھک نے ایک مقرر باقاعدگی اختیار کرلی تو فیصلہ کیا کہ کسی مستری سے پیچ کسوا لینے چاہئیں چنانچہ بائیسکل کو ایک دکان پر لے گیا۔ بائیسکل کی کھڑ کھڑ سے دوکان میں جتنے لوگ کام کر رہے تھے، سب کے سب سر اُٹھا کر میری طرف دیکھنے لگے لیکن میں نے جی کڑا کرکے کہا۔ ’’ذرا اس کی مرمت کردیجئے‘‘۔ ایک مستری آگے بڑھا لوہے کی ایک سلاخ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس نے مختلف حصوں کو بڑی بے دردی سے ٹھوک بجا کر دیکھا۔
معلوم ہوتا تھا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ سب حالات کا اندازہ لگالیا ہے لیکن پھر بھی مجھ سے پوچھنے لگا۔ ’’کس کس پرزے کی مرمت کرائیے گا؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’بڑے گستاخ ہو تم دیکھتے نہیں کہ صرف ہینڈل اور گدی کو ذرا اونچا کروا کے کسوانا ہے بس اور کیا؟ ان کو مہربانی کرکے فوراً ٹھیک کرو اور بتاؤ کتنے پیسے ہوئے؟‘‘ مستری نے کہا۔ ’’مڈگارڈ بھی ٹھیک نہ کروں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہاں، وہ بھی ٹھیک کرو‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’اگر آپ باقی چیزیں بھی ٹھیک کرالیں تو اچھا ہو‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا کردو‘‘۔ بولا۔ ’’یوں تھوڑا ہوسکتا ہے۔ دس پندرہ دن کا کام ہے آپ اسے ہمارے پاس چھوڑ جائیے‘‘۔ ’’اور پیسے کتنے لوگے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’بس چالیس روپے لگیں گے‘‘۔ ہم نے کہا۔ ’’بس جی جو کام تم سے کہا ہے کردو اور باقی ہمارے معاملات میں دخل مت دو‘‘۔ تھوڑی دیر بعد ہینڈل اور گدی پھر اونچی کرکے کس دی گئی۔ میں چلنے لگا تو مستری نے کہا میں نے کس تو دیا ہے لیکن پیچ سب گھسے ہوئے ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں پھر ڈھیلے ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’بدتمیز کہیں کا، تو دو آنے پیسے مفت میں لے لئے؟‘‘ بولا۔ ’’جناب! آپ کو بائیسکل بھی مفت میں ملی ہوگی، یہ آپ کے دوست مرزا صاحب کی ہے نا؟ للّو یہ وہی بائیسکل ہے جو پچھلے سال مرزا صاحب یہاں بیچنے کو لائے تھے۔ پہچانی تم نے؟ بھئی صدیاں ہی گزر گئیں لیکن اس بائیسکل کی خطاء معاف ہونے میں نہیں آتی‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’واہ مرزا صاحب کے لڑکے اس پر کالج آیا جایا کرتے تھے اور ان کو ابھی کالج چھوڑے دو سال بھی نہیں ہوئے‘‘۔ مستری نے کہا۔ ’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن مرزا صاحب خود جب کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے پاس بھی تو یہی بائیسکل تھی‘‘۔ میری طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی۔ میں نے بائیسکل کو ساتھ لئے آہستہ آہستہ پیدل چل پڑا۔ لیکن پیدل چلنا بھی مشکل تھا۔ اس بائیسکل کے چلانے میں ایسے ایسے پٹھوں پر زور پڑتا تھا جو عام بائیسکلوں کو چلانے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس لئے ٹانگوں اور کندھوں اور کمر اور بازوؤں میں جا بجا درد ہورہا تھا۔مرزا کا خیال رہ رہ کر آتا تھا۔ لیکن میں ہر بار کوشش کرکے اسے دل سے ہٹا دیتا تھا، ورنہ میں پاگل ہوجاتا اور جنون کی حالت میں پہلے حرکت مجھ سے یہ سرزد ہوئی کہ مرزا کے مکان کے سامنے بازار میں ایک جلسہ منعقد کرتا جس میں مرزا کی مکّاری، بے ایمانی اور دغا بازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کی ناپاک فطرت سے آگاہ کردیتا اور اس کے بعد ایک چِتا جلاکر اس میں زندہ جل کر مرجاتا۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جس طرح ہوسکے اب اس بائیسکل کو اونے پونے داموں میں بیچ کر جو وصول ہوا اسی پر صبر شکر کروں۔ بلا سے دس پندرہ روپیہ کا خسارہ سہی۔ چالیس کے چالیس روپے تو ضائع نہ ہوں گے۔ راستے میں بائیسکلوں کی ایک اور دکان آئی وہاں ٹھہر گیا۔ دکاندار بڑھ کر میرے پاس آگیا لیکن میری زبان کو جیسے قفل لگ گیا تھا۔ عمر بھر کسی چیز کے بیچنے کی نوبت نہ آئی تھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے موقع پر کیا کہتے ہیں آخر بڑے سوچ بچار اور بڑے تامل کے بعد منہ سے صرف اتنا نکلا کہ یہ ’’بائیسکل‘‘ ہے۔ دکاندار کہنے لگا۔ ’’پھر؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’لوگے؟‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’بیچتے ہیں ہم‘‘۔ دکاندار نے مجھے ایسی نظر سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا مجھ پر چوری کا شبہ کر رہا ہے۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا، پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کرسکتا آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے؟ آخر کار بولا۔ ’’کیا کریں گے آپ اس کو بیچ کر؟‘‘ ایسے سوالوں کا خدا جانے کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ ’’کیا تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ جو روپے مجھے وصول ہوں گے ان کا مصرف کیا ہوگا؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر کوئی اس کو لے کر کرے گا کیا؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس پر چڑھے گا اور کیا کرے گا؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’اچھا چڑھ گیا،پھر؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’پھر کیا؟ پھر چلائے گا اور کیا؟‘‘ دکاندار بولا۔ ’’اچھا؟ ہوں۔ خدا بخش ذرا یہاں آنا۔ یہ بائیسکل بکنے آئی ہے‘‘۔ جن حضرت کا اسمِ گرامی خدا بخش تھا انہوں نے بائیسکل کو دور ہی سے یوں دیکھا جیسے بُو سونگھ رہے ہوں۔ اس کے بعد دونوں نے آپس میں مشورہ کیا، آخر میں وہ جن کا نام خدا بخش نہی تھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔’’تو آپ سچ مُچ بیچ رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’تو اور کیا محض آپ سے ہم کلام ہونے کا فخر حاصل کرنے کے لئے میں گھر سے یہ بہانہ گھڑ کر لیا تھا؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’تو کیا لیں گے آپ؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم ہی بتاؤ‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’سچ مُچ بتاؤں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’اب بتاؤ گے بھی یا یوں ہی ترساتے رہو گے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’تین روپے دوں گا اس کے‘‘۔ میرا خون کھول اُٹھا اور میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ غصّے کے مارے کانپنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’’او صنعت و حرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان، مجھے اپنی توہین کی پروا نہیں لیکن تُو نے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بے زبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے اس کے لیے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کرسکتا‘‘۔ یہ کہہ کر میں بائیسکل پر سوار ہوگیا اور اندھا دھند پاؤں چلانے لگا۔ مشکل سے بیس قدم گیا ہوں گا کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے زمین یک لخت اُچھل کر مجھ سے آلگی ہے۔ آسمان میرے سر پر سے ہٹ کر میری ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور اِدھر اُدھر کی عمارتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بدل لی ہے۔ حواس بجا ہوئے تو معلوم ہوا میں زمین پر اس بے تکلفی سے بیٹھا ہوں، گویا بڑی مدّت سے مجھے اس بات کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ اِرد گِرد کچھ لوگ جمع تھے جن میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ سامنے دکان تھی جہاں ابھی ابھی میں نے اپنی ناکام گفت و شنید کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ میں نے اپنے گردوپیش پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میری بائیسکل کا اگلہ پہیہ بے کل ہوکر لڑھکتا ہوا سڑک کے اس پار جا پہنچا ہے اور باقی سائیکل میرے پاس پڑی ہے۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا جو پہیہ الگ ہوگیا تھا اس کو ایک ہاتھ میں اُٹھایا دوسرے ہاتھ میں باقی ماندہ بائیسکل کو تھاما اور چل کھڑا ہوا۔ یہ محض ایک اضطراری حرکت تھی ورنہ حاشادکلا وہ بائیسکل مجھے ہرگز اتنی عزیز نہ تھی کہ میں اس کو اس حالت میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا۔جب میں یہ سب کچھ اُٹھا کر چل دیا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، کہاں جارہے ہو؟ تمہارا ارادہ کیا ہے۔ یہ دو پہیے کاہے کو لے جارہے ہو؟ سب سوالوں کا جواب یہی ملا کہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم یہاں سے چل دو۔ سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ سر اونچا رکھو اور چلتے جاؤ۔ جو ہنس رہے ہیں، انہیں ہنسنے دو، اس قسم کے بیہودہ لوگ ہر قوم اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آخر ہوا کیا۔ محض ایک حادثہ۔ بس دائیں بائیں مت دیکھو۔ چلتے جاؤ۔ لوگوں کے ناشائستہ کلمات بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک آواز آئی۔ ’’بس حضرت غصّہ تھوک ڈالئے‘‘۔ ایک دوسرے صاحب بولے۔ ’’بے حیا بائیسکل گھر پہنچ کے تجھے مزا چکھاؤں گا‘‘۔ ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جارہے تھے۔میری طرف اشارہ کرکے کہنے لگا۔ ’’دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے۔ اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ’’لیکن میں چلتا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آبادی سے دور نکل گیا۔ اب میری رفتار میں ایک عزیمت پائی جاتی تھی۔ میرا دل جو کئی گھنٹوں سے کشمکش میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اب بہت ہلکا ہوگیا تھا۔ میں چلتا گیا چلتا گیا حتیٰ کہ دریا پر جا پہنچا۔ پُل کے اوپر کھڑے ہوکر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کرکے اس بے پروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے۔ اور واپس شہر کو روانہ ہوگیا۔ سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مرزا بولے۔ ’’اندر آجاؤ‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر وضو کئے بغیر کیسے داخل ہوسکتا ہوں‘‘۔ باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار ان کی خدمت میں پیش کیا جو انہوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا: ’’مرزا صاحب! آپ ہی اس اوزار سے شوق فرمایا کیجئے میں اب اس سے بے نیاز ہوچکا ہوں‘‘۔ گھر پہنچ کر میں نے پھر علمِ کیمیا کی اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔
’’کل صبح آٹھ نو بجے تک پہنچ جائے، دیر نہ کردینا۔۔۔۔خدا حافظ!۔۔۔۔اور دیکھو مرزا! میرے تھوڑے سے روپوں کو بھی زیادہ سمجھنا۔۔۔۔۔خدا حافظ!۔۔۔۔۔اور تمہارا بہت بہت شکریہ، میں تمہارا بہت ممنون ہوں اور میری گستاخی کو معاف کردینا، دیکھو نا کبھی کبھی یوں ہی بے تکلفی میں۔۔۔۔۔کل صبح آٹھ نو بجے تک۔۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔خداحافظ!۔۔۔۔۔‘‘ مرزا کہنے لگے۔ ’’ذرا اس کو جھاڑ پونچھ لینا اور تیل وغیرہ ڈلوالینا۔ میرے نوکر کو فرصت ہوئی تو خود ہی ڈلوادوں گا، ورنہ تم خود ہی ڈلوالینا‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ہاں ہاں وہ سب کچھ ہوجائے گا، تم کل بھیج ضرور دینا اور دیکھنا آٹھ بجے تک ساڑھے آٹھ سات بجے تک پہنچ جائے۔’’اچھا۔۔۔۔خداحافظ!‘‘ رات کو بستر پر لیٹا تو بائیسکل پر سیر کرنے کے مختلف پروگرام تجویز کرتا رہا۔ یہ ارادہ تو پختہ کرلیا کہ دو تین دن کے اندر اندر اِردگِرد کی تمام مشہور تاریخی عمارات اور کھنڈروں کو نئے سِرے سے دیکھ ڈالوں گا۔ اس کے بعد اگلے گرمی کے موسم میں ہوسکا تو بائیسکل پر کشمیر وغیرہ کی سیر کروں گا۔ صبح صبح کی ہوا خوری کے لئے ہر روز نہر تک جایا کروں گا۔ شام کو ٹھنڈی سڑک پر جہاں اور لوگ سیر کو نکلیں گے میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزر جاؤں گا۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی بائیسکل کے چمکیلے حصوں پر پڑے گی تو بائیسکل جگمگا اُٹھے گی اور ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اُڑ رہا ہے۔ وہ مسکراہٹ جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں ابھی تک میرے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی، بارہا دل چاہا کہ ابھی بھاگ کر جاؤں اور اسی وقت مرزا کو گلے لگالوں۔ رات کو خواب میں دعائیں مانگتا رہا کہ خدایا! مرزا بائیسکل دینے پر رضامند ہوجائے۔صبح اُٹھا تو اُٹھنے کے ساتھ ہی نوکر نے یہ خوشخبری سنائی کے حضور! وہ بائیسکل آگئی ہے۔ میں نے کہا۔ ’’اتنے سویرے؟‘‘ نوکر نے کہا۔ ’’وہ تو رات ہی کو آگئی تھی، آپ سوگئے تھے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور ساتھ ہی مرزا صاحب کا آدمی یہ ڈھبریاں کسنے کا ایک اوزار بھی دے گیا ہے‘‘۔ میں حیران تو ہوا کہ مرزا صاحب نے بائیسکل بھجوا دینے میں اس قدر عجلت سے کیوں کام لیا لیکن اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی نہایت شریف اور دیانت دار ہیں۔ روپے لے لئے تھے تو بائیسکل کیوں روک رکھتے۔ نوکر سے کہا۔ ’’دیکھو یہ اوزار یہیں چھوڑ جاؤ اور دیکھو بائیسکل کو کسی کپڑے سے خوب اچھی طرح جھاڑو۔ اور یہ موڑ پر جو بائیسکلوں والا بیٹھتا ہے اس سے جاکر بائیسکل میں ڈالنے کا تیل لے آؤ اور دیکھو، اے بھاگا کہاں جارہا ہے، ہم ضروری بات تم سے کہہ رہے ہیں، بائیسکل والے سے تیل کی ایک کپی بھی لے آنا اور جہاں جہاں تیل دینے کی جگہ ہے وہاں تیل دے دینا اور بائیسکلوں والے سے کہنا کہ کوئی گھٹیا سا تیل نہ نہ دیدے۔ جس سے تمام پرزے ہی خراب ہوجائیں، بائیسکل کے پرزے بڑے نازک ہوتے ہیں اور بائیسکل باہر نکال رکھو، ہم ابھی کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ ہم ذرا سیر کو جارہے ہیں اور دیکھو صاف کردینا اور بہت زور زور سے کپڑا بھی مت رگڑنا، بائیسکل کا پالش گھس جاتا ہے‘‘۔ جلدی جلدی چائے پی، غسل خانے میں بڑے جوش خروش کے ساتھ ’’چل چل چنبیلی باغ میں‘‘ گاتا رہا اس کے بعد کپڑے بدلے، اوزار کو جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا۔ برآمدے میں آیا تو برآمدے کے ساتھ ہی ایک عجیب وغریب مشین پر نظر پڑی۔ ٹھیک طرح پہچان نہ سکا کہ کیا چیز ہے، نوکر سے دریافت کیا۔ ’’کیوں بے! یہ کیا چیز ہے؟‘‘ نوکر بولا۔ ’’حضور! یہ بائیسکل ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’بائیسکل؟ کس کی بائیسکل؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’مرزا صاحب نے بھجوائی ہے آپ کے لیے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اور جو بائیسکل رات کو انہوں نے بھیجی تھی وہ کہاں گئی؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’یہی تو ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’کیا بکتا ہے، جو بائیسکل مرزا صاحب نے کل رات کو بھیجی تھی وہ بائیسکل یہی ہے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’جی ہاں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا‘‘ اور پھر اسے دیکھنے لگا۔ اس کو صاف کیوں نہیں کیا؟‘‘ ’’اس کو دو تین دفعہ صاف کیا ہے؟‘‘ ’’تو یہ میلی کیوں ہے؟‘‘ نوکر نے اس کا جواب دینا شاید مناسب نہ سمجھا۔ ’’اور تیل لایا؟‘‘ ’’ہاں حضور! لایا ہوں‘‘۔ ’’دیا؟‘‘ ’’حضور! وہ تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں وہ نہیں ملتے‘‘۔ ’’کیا وجہ ہے؟‘‘ ’’حضور! ڈھروں پر میل اور زنگ جما ہے۔ وہ سوراخ کہیں بیچ ہی میں دب دبا گئے ہیں‘‘۔ رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا۔ جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا تو اتنا تو ثابت ہوگیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجموعی ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بل اور رہٹ اور چرخہ اور اس طرح کی ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدورفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بولا۔ ’’حضور! وہ تیل تو سب اِدھر اُدھر بہہ جاتا ہے۔ بیچ میں تو جاتا ہی نہیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے‘‘۔ آخر کار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اُترائی تھی اس پر بائیسکل خودبخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئیں۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں۔ چاں۔ چوں کی قسم آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ، کھڑکھڑ۔ کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔ چر۔چرخ۔چر۔چرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی ۔ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ دہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہو۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔ اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سَر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جارہا ہو۔پچھلے اور اگلے پہیے کو ملا کر چوں چوں پھٹ۔ چوں چوں پھٹ۔۔۔۔ کی صدا نکل رہی تھی۔ جب اُتار پر بائیسکل ذرا تیز ہوئی تو فضاء میں ایک بھونچال سا آگیا۔اور بائیسکل کے کئی اور پُرزے جو اب تک سو رہے تھے۔ بیدار ہوکر گویا ہوئے۔ اِدھر اُدھر کے لوگ چونکے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے سینوں سے لگالیا۔ کھڑڑ کھڑڑ کیبیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی دے رہی تھی لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے تیز تھی اس لیے چوں چوں پھٹ، چوں چوں پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ، چچوں پھٹ، کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تمام بائیسکل کسی ادق افریقی زبان کی گردانیں دہرا رہی تھی۔ اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہوگئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جا تو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کو مڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدی دفعتہ چھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنانچہ جب پیڈل چلانے کے لیے ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا تو میرے گھٹنے میری تھوڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ کمر دہری ہوکر باہر کو نکلی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹھکیلیوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔ گدی کا نیچا ہوجانا ازحد تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس لیے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس کو ٹھیک کرلوں۔ چنانچہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اُترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آگیا ہوں۔جیب سے میں نے اوزار نکالا، گدی کو اونچا کیا، کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا اور دوبارہ سوار ہوگیا۔ دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچا ہوگیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جس آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑمڑ کر دیکھنے لگتاتھا لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافت طبع کا باعث نہ ہو۔ ہینڈل تو نیچا ہوہی گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد گدی بھی پھر نیچی ہوگئی اور میں ہمہ تن زمین کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’دیکھو یہ آدمی کیا کر رہا ہے‘‘۔ گویا اس بدتمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا۔ میں نے اُتر کر پھر ہینڈل اور گدی کو اونچا کیا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نہ ایک پھر نیچا ہوجاتا۔ وہ لمحے جن کے دوران میں میرا ہاتھ اور میرا جسم دونوں ہی بلندی پر واقع ہوں بہت ہی کم تھے اور ان میں بھی میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب کہ گدی پہلے بیٹھے گی یا ہینڈل؟ چنانچہ نڈر ہوکر نہ بیٹھتا بلکہ جسم کو گدی سے قدرے اوپر ہی رکھتا لیکن اس سے ہینڈل پر اتنا بوجھ پڑ جاتا کہ وہ نیچا ہوجاتا۔ جب دو میل گزر گئے اور بائیسکل کی اُٹھک بیٹھک نے ایک مقرر باقاعدگی اختیار کرلی تو فیصلہ کیا کہ کسی مستری سے پیچ کسوا لینے چاہئیں چنانچہ بائیسکل کو ایک دکان پر لے گیا۔ بائیسکل کی کھڑ کھڑ سے دوکان میں جتنے لوگ کام کر رہے تھے، سب کے سب سر اُٹھا کر میری طرف دیکھنے لگے لیکن میں نے جی کڑا کرکے کہا۔ ’’ذرا اس کی مرمت کردیجئے‘‘۔ ایک مستری آگے بڑھا لوہے کی ایک سلاخ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس نے مختلف حصوں کو بڑی بے دردی سے ٹھوک بجا کر دیکھا۔
معلوم ہوتا تھا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ سب حالات کا اندازہ لگالیا ہے لیکن پھر بھی مجھ سے پوچھنے لگا۔ ’’کس کس پرزے کی مرمت کرائیے گا؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’بڑے گستاخ ہو تم دیکھتے نہیں کہ صرف ہینڈل اور گدی کو ذرا اونچا کروا کے کسوانا ہے بس اور کیا؟ ان کو مہربانی کرکے فوراً ٹھیک کرو اور بتاؤ کتنے پیسے ہوئے؟‘‘ مستری نے کہا۔ ’’مڈگارڈ بھی ٹھیک نہ کروں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہاں، وہ بھی ٹھیک کرو‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’اگر آپ باقی چیزیں بھی ٹھیک کرالیں تو اچھا ہو‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا کردو‘‘۔ بولا۔ ’’یوں تھوڑا ہوسکتا ہے۔ دس پندرہ دن کا کام ہے آپ اسے ہمارے پاس چھوڑ جائیے‘‘۔ ’’اور پیسے کتنے لوگے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’بس چالیس روپے لگیں گے‘‘۔ ہم نے کہا۔ ’’بس جی جو کام تم سے کہا ہے کردو اور باقی ہمارے معاملات میں دخل مت دو‘‘۔ تھوڑی دیر بعد ہینڈل اور گدی پھر اونچی کرکے کس دی گئی۔ میں چلنے لگا تو مستری نے کہا میں نے کس تو دیا ہے لیکن پیچ سب گھسے ہوئے ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں پھر ڈھیلے ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’بدتمیز کہیں کا، تو دو آنے پیسے مفت میں لے لئے؟‘‘ بولا۔ ’’جناب! آپ کو بائیسکل بھی مفت میں ملی ہوگی، یہ آپ کے دوست مرزا صاحب کی ہے نا؟ للّو یہ وہی بائیسکل ہے جو پچھلے سال مرزا صاحب یہاں بیچنے کو لائے تھے۔ پہچانی تم نے؟ بھئی صدیاں ہی گزر گئیں لیکن اس بائیسکل کی خطاء معاف ہونے میں نہیں آتی‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’واہ مرزا صاحب کے لڑکے اس پر کالج آیا جایا کرتے تھے اور ان کو ابھی کالج چھوڑے دو سال بھی نہیں ہوئے‘‘۔ مستری نے کہا۔ ’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن مرزا صاحب خود جب کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے پاس بھی تو یہی بائیسکل تھی‘‘۔ میری طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی۔ میں نے بائیسکل کو ساتھ لئے آہستہ آہستہ پیدل چل پڑا۔ لیکن پیدل چلنا بھی مشکل تھا۔ اس بائیسکل کے چلانے میں ایسے ایسے پٹھوں پر زور پڑتا تھا جو عام بائیسکلوں کو چلانے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس لئے ٹانگوں اور کندھوں اور کمر اور بازوؤں میں جا بجا درد ہورہا تھا۔مرزا کا خیال رہ رہ کر آتا تھا۔ لیکن میں ہر بار کوشش کرکے اسے دل سے ہٹا دیتا تھا، ورنہ میں پاگل ہوجاتا اور جنون کی حالت میں پہلے حرکت مجھ سے یہ سرزد ہوئی کہ مرزا کے مکان کے سامنے بازار میں ایک جلسہ منعقد کرتا جس میں مرزا کی مکّاری، بے ایمانی اور دغا بازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کی ناپاک فطرت سے آگاہ کردیتا اور اس کے بعد ایک چِتا جلاکر اس میں زندہ جل کر مرجاتا۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جس طرح ہوسکے اب اس بائیسکل کو اونے پونے داموں میں بیچ کر جو وصول ہوا اسی پر صبر شکر کروں۔ بلا سے دس پندرہ روپیہ کا خسارہ سہی۔ چالیس کے چالیس روپے تو ضائع نہ ہوں گے۔ راستے میں بائیسکلوں کی ایک اور دکان آئی وہاں ٹھہر گیا۔ دکاندار بڑھ کر میرے پاس آگیا لیکن میری زبان کو جیسے قفل لگ گیا تھا۔ عمر بھر کسی چیز کے بیچنے کی نوبت نہ آئی تھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے موقع پر کیا کہتے ہیں آخر بڑے سوچ بچار اور بڑے تامل کے بعد منہ سے صرف اتنا نکلا کہ یہ ’’بائیسکل‘‘ ہے۔ دکاندار کہنے لگا۔ ’’پھر؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’لوگے؟‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’بیچتے ہیں ہم‘‘۔ دکاندار نے مجھے ایسی نظر سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا مجھ پر چوری کا شبہ کر رہا ہے۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا، پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کرسکتا آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے؟ آخر کار بولا۔ ’’کیا کریں گے آپ اس کو بیچ کر؟‘‘ ایسے سوالوں کا خدا جانے کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ ’’کیا تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ جو روپے مجھے وصول ہوں گے ان کا مصرف کیا ہوگا؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر کوئی اس کو لے کر کرے گا کیا؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس پر چڑھے گا اور کیا کرے گا؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’اچھا چڑھ گیا،پھر؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’پھر کیا؟ پھر چلائے گا اور کیا؟‘‘ دکاندار بولا۔ ’’اچھا؟ ہوں۔ خدا بخش ذرا یہاں آنا۔ یہ بائیسکل بکنے آئی ہے‘‘۔ جن حضرت کا اسمِ گرامی خدا بخش تھا انہوں نے بائیسکل کو دور ہی سے یوں دیکھا جیسے بُو سونگھ رہے ہوں۔ اس کے بعد دونوں نے آپس میں مشورہ کیا، آخر میں وہ جن کا نام خدا بخش نہی تھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔’’تو آپ سچ مُچ بیچ رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’تو اور کیا محض آپ سے ہم کلام ہونے کا فخر حاصل کرنے کے لئے میں گھر سے یہ بہانہ گھڑ کر لیا تھا؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’تو کیا لیں گے آپ؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم ہی بتاؤ‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’سچ مُچ بتاؤں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’اب بتاؤ گے بھی یا یوں ہی ترساتے رہو گے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’تین روپے دوں گا اس کے‘‘۔ میرا خون کھول اُٹھا اور میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ غصّے کے مارے کانپنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’’او صنعت و حرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان، مجھے اپنی توہین کی پروا نہیں لیکن تُو نے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بے زبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے اس کے لیے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کرسکتا‘‘۔ یہ کہہ کر میں بائیسکل پر سوار ہوگیا اور اندھا دھند پاؤں چلانے لگا۔ مشکل سے بیس قدم گیا ہوں گا کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے زمین یک لخت اُچھل کر مجھ سے آلگی ہے۔ آسمان میرے سر پر سے ہٹ کر میری ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور اِدھر اُدھر کی عمارتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بدل لی ہے۔ حواس بجا ہوئے تو معلوم ہوا میں زمین پر اس بے تکلفی سے بیٹھا ہوں، گویا بڑی مدّت سے مجھے اس بات کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ اِرد گِرد کچھ لوگ جمع تھے جن میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ سامنے دکان تھی جہاں ابھی ابھی میں نے اپنی ناکام گفت و شنید کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ میں نے اپنے گردوپیش پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میری بائیسکل کا اگلہ پہیہ بے کل ہوکر لڑھکتا ہوا سڑک کے اس پار جا پہنچا ہے اور باقی سائیکل میرے پاس پڑی ہے۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا جو پہیہ الگ ہوگیا تھا اس کو ایک ہاتھ میں اُٹھایا دوسرے ہاتھ میں باقی ماندہ بائیسکل کو تھاما اور چل کھڑا ہوا۔ یہ محض ایک اضطراری حرکت تھی ورنہ حاشادکلا وہ بائیسکل مجھے ہرگز اتنی عزیز نہ تھی کہ میں اس کو اس حالت میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا۔جب میں یہ سب کچھ اُٹھا کر چل دیا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، کہاں جارہے ہو؟ تمہارا ارادہ کیا ہے۔ یہ دو پہیے کاہے کو لے جارہے ہو؟ سب سوالوں کا جواب یہی ملا کہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم یہاں سے چل دو۔ سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ سر اونچا رکھو اور چلتے جاؤ۔ جو ہنس رہے ہیں، انہیں ہنسنے دو، اس قسم کے بیہودہ لوگ ہر قوم اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آخر ہوا کیا۔ محض ایک حادثہ۔ بس دائیں بائیں مت دیکھو۔ چلتے جاؤ۔ لوگوں کے ناشائستہ کلمات بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک آواز آئی۔ ’’بس حضرت غصّہ تھوک ڈالئے‘‘۔ ایک دوسرے صاحب بولے۔ ’’بے حیا بائیسکل گھر پہنچ کے تجھے مزا چکھاؤں گا‘‘۔ ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جارہے تھے۔میری طرف اشارہ کرکے کہنے لگا۔ ’’دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے۔ اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ’’لیکن میں چلتا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آبادی سے دور نکل گیا۔ اب میری رفتار میں ایک عزیمت پائی جاتی تھی۔ میرا دل جو کئی گھنٹوں سے کشمکش میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اب بہت ہلکا ہوگیا تھا۔ میں چلتا گیا چلتا گیا حتیٰ کہ دریا پر جا پہنچا۔ پُل کے اوپر کھڑے ہوکر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کرکے اس بے پروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے۔ اور واپس شہر کو روانہ ہوگیا۔ سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مرزا بولے۔ ’’اندر آجاؤ‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر وضو کئے بغیر کیسے داخل ہوسکتا ہوں‘‘۔ باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار ان کی خدمت میں پیش کیا جو انہوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا: ’’مرزا صاحب! آپ ہی اس اوزار سے شوق فرمایا کیجئے میں اب اس سے بے نیاز ہوچکا ہوں‘‘۔ گھر پہنچ کر میں نے پھر علمِ کیمیا کی اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔