تیسری دنیا میں عمومًا ، ہندوستان میں اکثراور پاکستان میں خصوصًا خواتین کی زبان سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ہمارا معاشرہ مردانہ ہے ۔ جب بھی کسی خاتون سے یہ جملہ سماعت فرماتے تو مرد ہونے کے ناتے ایک عجیب قسم کی شرمندگی ندامت ہوتی کہ "کھمبا نوچنے" کے لئے دل بے قرار سا ہونے لگتا ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں غصہ بھی آتا کہ ہمارے وطن عزیزمیں تقریبا سبھی مردانہ شعبوں میں کسی نہ کسی تعداد میں خواتین نظر ضرورآتی ہیں مگر زنانہ شعبوں میں کسی ایک مرد بے چارے کو رسائی حاصل نہیں ، پھر مردانہ معاشرے کا طعنہ کس لئے ۔۔۔؟
پھر یوں ہوا کہ گزشتہ اتوار کو ہمیں اپنے اس سوال کا جواب ملا جس نے ہماری طبعت ہری کردی غصہ کافور ہوگیا ۔
پاکستان سے ہمیں ایک عزیزہ محترمہ کا فون موصول ہوا ۔ باتوں ہی باتوں میں انھوں نے پھر ہمیں وہی طعنہ دیا کہ ہم تو مردانہ معاشرے میں رہ رہے ہیں ہم خوب سٹپٹائے اور اپنے ضمیر سے وعدہ کیا کہ آج ہم کھمبا نہیں نوچیں گےخواہ کچھ بھی ہوجائے ۔
ہم نے کہا وطن عزیز میں آپ خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ ہیں ۔ تمام حقوق حاصل ہیں حد تو یہ ہے کہ جہاں مرد کو ملازم رکھنے کے لئے انٹرویولیا جارہا ہو وہاں اگر کوئی خاتون آجائے تو مردوں کو جواب دے دیا جاتا ہے اور خاتون کو ملازمت دے دی جاتی ہے ، پھر یہ طعنہ کیا معنٰی ؟ اس استفسار کے بدلے میں محترمہ نے جو ہماری صوتی لترول کی اس نے ہماری شخصیت کے سارے سقم دور کردئیے انھوں نے کہا کہ :
مردوں نے اپنے اختیارات کا بے دریغ استعمال کر کے ہمارے معاشرے کو اپنا غلام بنا رکھا ہے ۔ اب دیکھئے کہ بظاہر تو مرد کسی لڑکی سے شادی کر کے اسے اپنی بیوی بنا کر گھر لاتا ہے مگرحالت یہ ہے کہ باورچن بھی وہی بیوی، دھوبن بھی وہی بیوی، درزن بھی وہی بیوی،دھوبن بھی وہی بیوی ، بھنگن بھی وہی بیوی اور تو اور بہو کے آتے ہی تمام ماسیوں کی چھٹی کرا دی جاتی ہے کہ گھر میں جب بہو آگئی ہے تو ان سب کی کیا ضرورت رہ گئی؟ یہی نہیں اگر میاں صاحب اگر معاشی لحاظ سے نکھٹو واقع ہو رہے ہیں تو وہ ملازمت کر کے میاں کے فرائض میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتی ہے ۔ لیکن شوہر نامدار گھر داری میں اس کی مدد کرنا خلاف شانِ مردانہ سمجھتے ہیں ۔ یہ شوہرانے اختیارات کا بے دریغ استعمال نہیں تو اور کیا ہے ؟ یہ بھی دیکھئے کہ اگر کھانے میں نمک کم رہ جائے تو شوہرمیزالٹ دیتا ہے ۔ بیوی کام کاج سے تھک ہار کر کچھ بڑبڑانے لگے تو خاوند صاحب اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں اور اسے چیخنے چلّانے کی اجازت بھی نہیں دیتےکہ محلے میں ان کی بے عزتی ہوگی ۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے مظالم کی کسی سے شکایت کر دے تو بہتان طرازیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔ تمام خاندان اور محلے والے مردکی جانب سے دھرے جانے والے الزامات کو منو عن تسلیم کر کے عورت کو کلموہی قرار دے دیتے ہیں ۔ عورت اگر اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر کمر بستہ ہوجائے تو اسے طلاق دے دی جاتی ہے اور مرد نئی نویلی دلہن لاکر اپنی ازدواجی زندگی کا کمپیوٹرری اسٹارٹ کر لیتا ہے ۔ کیا یہ مردانہ اختیارات کا بے دریغ استعمال نہیں؟اسے مردانہ معاشرہ نہیں تو اور کیا کہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بشکریہ اردونیوز
شہزاداعظم کے کالم سے اقتباس
پھر یوں ہوا کہ گزشتہ اتوار کو ہمیں اپنے اس سوال کا جواب ملا جس نے ہماری طبعت ہری کردی غصہ کافور ہوگیا ۔
پاکستان سے ہمیں ایک عزیزہ محترمہ کا فون موصول ہوا ۔ باتوں ہی باتوں میں انھوں نے پھر ہمیں وہی طعنہ دیا کہ ہم تو مردانہ معاشرے میں رہ رہے ہیں ہم خوب سٹپٹائے اور اپنے ضمیر سے وعدہ کیا کہ آج ہم کھمبا نہیں نوچیں گےخواہ کچھ بھی ہوجائے ۔
ہم نے کہا وطن عزیز میں آپ خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ ہیں ۔ تمام حقوق حاصل ہیں حد تو یہ ہے کہ جہاں مرد کو ملازم رکھنے کے لئے انٹرویولیا جارہا ہو وہاں اگر کوئی خاتون آجائے تو مردوں کو جواب دے دیا جاتا ہے اور خاتون کو ملازمت دے دی جاتی ہے ، پھر یہ طعنہ کیا معنٰی ؟ اس استفسار کے بدلے میں محترمہ نے جو ہماری صوتی لترول کی اس نے ہماری شخصیت کے سارے سقم دور کردئیے انھوں نے کہا کہ :
مردوں نے اپنے اختیارات کا بے دریغ استعمال کر کے ہمارے معاشرے کو اپنا غلام بنا رکھا ہے ۔ اب دیکھئے کہ بظاہر تو مرد کسی لڑکی سے شادی کر کے اسے اپنی بیوی بنا کر گھر لاتا ہے مگرحالت یہ ہے کہ باورچن بھی وہی بیوی، دھوبن بھی وہی بیوی، درزن بھی وہی بیوی،دھوبن بھی وہی بیوی ، بھنگن بھی وہی بیوی اور تو اور بہو کے آتے ہی تمام ماسیوں کی چھٹی کرا دی جاتی ہے کہ گھر میں جب بہو آگئی ہے تو ان سب کی کیا ضرورت رہ گئی؟ یہی نہیں اگر میاں صاحب اگر معاشی لحاظ سے نکھٹو واقع ہو رہے ہیں تو وہ ملازمت کر کے میاں کے فرائض میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتی ہے ۔ لیکن شوہر نامدار گھر داری میں اس کی مدد کرنا خلاف شانِ مردانہ سمجھتے ہیں ۔ یہ شوہرانے اختیارات کا بے دریغ استعمال نہیں تو اور کیا ہے ؟ یہ بھی دیکھئے کہ اگر کھانے میں نمک کم رہ جائے تو شوہرمیزالٹ دیتا ہے ۔ بیوی کام کاج سے تھک ہار کر کچھ بڑبڑانے لگے تو خاوند صاحب اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں اور اسے چیخنے چلّانے کی اجازت بھی نہیں دیتےکہ محلے میں ان کی بے عزتی ہوگی ۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے مظالم کی کسی سے شکایت کر دے تو بہتان طرازیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔ تمام خاندان اور محلے والے مردکی جانب سے دھرے جانے والے الزامات کو منو عن تسلیم کر کے عورت کو کلموہی قرار دے دیتے ہیں ۔ عورت اگر اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر کمر بستہ ہوجائے تو اسے طلاق دے دی جاتی ہے اور مرد نئی نویلی دلہن لاکر اپنی ازدواجی زندگی کا کمپیوٹرری اسٹارٹ کر لیتا ہے ۔ کیا یہ مردانہ اختیارات کا بے دریغ استعمال نہیں؟اسے مردانہ معاشرہ نہیں تو اور کیا کہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بشکریہ اردونیوز
شہزاداعظم کے کالم سے اقتباس