مردان میں مشعال قتل کیس میں رہائی پانے والوں کا استقبال!

چوہدری صاحب خدا کا واسطہ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے بعد کے زمانے کی بات کریں۔ یہ آپ جو قبل از اسلام کی واقعات شریک کررہے ہیں اِن کا شرعی مسائل سے کیا تعلق ہیں؟
اسلام کے بعد بھی اس معاملے میں جو چار فقہا کا مسلک ہے اس کے بارے میں خود کو متعلم کریں۔
 

عرفان سعید

محفلین
(درج ذیل تحریر جناب جاوید احمد غامدی کے مضامین اور گفتگو سے ماخوذ ہے۔)

توہین رسالت کی سزا کا جو قانون ریاست پاکستان میں نافذ ہے، اُس کا کوئی ماخذ قرآن و حدیث میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔اِس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانون کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں بعض اہل علم نے فرمایا ہے کہ یہ سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۳۔۳۴ سے ماخوذ ہو سکتا ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ مائدہ کی اِن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کی سزا بیان فرمائی ہے اور اُس کے رسول کی توہین و تحقیر بھی محاربہ ہی کی ایک صورت ہے۔ آیات یہ ہیں:

اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ، ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ، فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(۵:۳۳۔۳۴)

''جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے، اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا ئے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے۔ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے، مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔''

اِس قانون کے ماخذ سے متعلق دوسرے نقطہ ہاے نظر کی طرح یہ راے بھی ہمارے نزدیک محل نظر ہے۔

اولاً، اِس لیے کہ آیت میں 'یُحَارِبُوْنَ'کا لفظ ہے۔ یہ لفظ تقاضا کرتا ہے کہ آیت میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ اُسی صورت میں دی جائیں جب مجرم سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے۔ آدمی الزام سے انکار کرے یا اپنی بات کی وضاحت کر دے اور اُس پر اصرار نہ کرے تو لفظ کے کسی مفہوم میں بھی اِسے محاربہ یا فساد قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ثانیاً، اِس لیے کہ اقرار و اصرار کے بعد بھی مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ اور رجوع کر لے تو قرآن کا ارشاد ہے کہ اُس پر حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ توبہ کرلینے والوں کو یہ سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کارروائی سے پہلے اُنھیں توبہ و اصلاح کی دعوت دینی چاہیے اور بار بار توجہ دلانی چاہیے کہ وہ خدا و رسول کے ماننے والے ہیں تو اپنی عاقبت برباد نہ کریں اور اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور ماننے والے نہیں ہیں تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کریں اور اِس جرم شنیع سے باز آجائیں۔

ثالثاً، اِس لیے کہ آیت کی رو سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اُنھیں قتل ہی کیا جائے۔ اُس میں یہ گنجایش رکھی گئی ہے کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات تقاضا کرتے ہوں تو عدالت اُسے کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس طرح کے مجرموں کو علاقہ بدر کر دیا جائے۔

اِس وقت جو قانون نافذ ہے، اِن میں سے کوئی بات بھی اُس میں ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ وہ مجردشہادت پر سزا دیتا ہے، اُس میں انکار یا اقرار کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا آیت تقاضا کرتی ہے، سرکشی اور اصرار بھی ضروری نہیں ہے، دعوت و تبلیغ اور اِس کے نتیجے میں توبہ اور اصلاح کی بھی گنجایش نہیں ہے، اُس کی رو سے قتل کے سوا کوئی دوسری سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ علما اگر آیت محاربہ کو قانون کا ماخذ مان کر اُس کے مطابق ترمیم کے لیے راضی ہو جائیں تو اِس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ تمام اعتراضات ختم ہو جائیں گے جو اِس وقت اِس قانون پر کیے جا رہے ہیں۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ موت کی سزا کسی شخص کو دو ہی صورتوں میں دی جا سکتی ہے: ایک یہ کہ وہ کسی کو قتل کر دے، دوسرے یہ کہ ملک میں فساد برپا کرے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔ آیت محاربہ کے مطابق ترمیم کر دی جائے تو قرآن کا یہ تقاضا پورا ہو جائے گا۔ پھر یہی نہیں، قانون بڑی حد تک اُس نقطۂ نظر کے قریب بھی ہو جائے گا جو فقہ اسلامی کے جلیل القدر امام ابو حنیفہ اور جلیل ا لقدر محدث امام بخاری نے اختیار فرمایا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی نقطۂ نظر اِس معاملے میں قرین صواب ہے۔ ریاست پاکستان میں احناف کی اکثریت ہے، لیکن باعث تعجب ہے کہ قانون سازی کے موقع پر اُن کی راے یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قانون قرآن کے بھی خلاف ہے، حدیث کے بھی خلاف ہے اور فقہاے احناف کی راے کے بھی خلاف ہے۔ اِسے لازماً تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔۲

توہین رسالت کی سزا کے جو واقعات بالعموم نقل کیے جاتے ہیں، اُن کی حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ابو رافع اُن لوگوں میں سے تھا جو غزوۂ خندق میں قبائل کو مدینہ پر چڑھا لانے کے مجرم تھے۔ ابن اسحاق کے الفاظ میں ، 'فیمن حزب الاحزاب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم'۔کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔ عبداللہ بن خطل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تحصیل کے لیے بھیجا۔ اُس کے ساتھ ایک انصاری اور ایک مسلمان خادم بھی تھا۔ راستے میں حکم عدولی پر اُس نے خادم کو قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا*۔ پھر یہی نہیں، یہ تینوں خدا کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی تکذیب پر مصر رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون قرآن میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے براہ راست مخاطبین عذاب کی زد میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاندت پر اتر آئیں تو قتل بھی کیے جا سکتے ہیں۔

اِس سے واضح ہے کہ یہ محض توہین کے مجرم نہیں تھے، بلکہ اِن سب جرائم کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ لہٰذا اِنھی کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ عبداللہ بن خطل ایک خونی مجرم تھا۔ اُس کے بارے میں اِسی بنا پر حکم دیا گیا کہ کعبے کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اُسے قتل کر دیا جائے۔

اِسی طرح کے مجرم تھے جن کا ذکر سورۂ احزاب میں ہوا ہے۔ خدا کے پیغمبر سے مسلمانوں کو برگشتہ اور بدگمان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ بالکل برباد کر دینے کے لیے یہ اُن کی خانگی زندگی کے بارے میں افسانے تراشتے، بہتان لگاتے اور اسکینڈل پیدا کرتے تھے، ازواج مطہرات سے نکاح کے ارمان ظاہر کرتے تھے، مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور اُن کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں اڑاتے تھے، مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو اُن کے درپے آزار ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو اِس طرح کے بہانے تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم کرنا چاہی تھی۔ اِن کے بارے میں یہ سب چیزیں قرآن کے اشارات سے بھی واضح ہیں اور روایتوں میں بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ * چنانچہ فرمایا کہ مسلمان عورتیں اپنی کوئی چادر اوپر ڈال کر باہر نکلیں تاکہ لونڈیوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کو ستانے کے لیے یہ اِس طرح کے بہانے نہ تراش سکیں۔ نیز فرمایا کہ یہ اشرار بھی متنبہ ہو جائیں کہ اِن حرکتوں سے باز نہ آئے تو عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے:

لَءِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا، مَّلْعُوْنِیْنَ، اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا.(۳۳: ۶۰۔۶۱)

''یہ منافق اگر (اِس کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ بھی جو مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے ہیں تو ہم اِن کے خلاف تمھیں اٹھا کھڑا کریں گے۔ پھر وہ مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے۔ اِن پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے۔''

اِن کے علاوہ جو واقعات سنائے جاتے ہیں، وہ اگرچہ سند کے لحاظ سے ناقابل التفات ہیں، لیکن بالفرض ہوئے ہوں تو اُن کی نوعیت بھی یہی سمجھنی چاہیے کہ منکرین کے سب و شتم سے اُن کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر نافذکر دیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ 'لا یقتل مسلم بکافر'** اِسی کا بیان ہے۔ علما اِن حقائق سے واقف ہیں، لیکن اِس کے باوجود اُن کا اصرار ہے کہ اِن واقعات سے وہ توہین رسالت کا قانون اخذ کریں گے۔

یہاں ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اُس قصے سے بھی استدلال کرنا چاہے جو سیدنا عمر کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر اُنھوں نے ایک شخص کی گردن اڑا دی تھی۔ ہمارے علما یہ واقعہ منبروں پر سناتے اور لوگوں کو بالواسطہ ترغیب دیتے ہیں کہ توہین رسالت کے مرتکبین کے ساتھ وہ بھی یہی سلوک کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے پہلے، دوسرے ، یہاں تک کہ تیسرے درجے کی کتابیں بھی اِس واقعے سے خالی ہیں۔ ابن جریر طبری ہر طرح کی تفسیری روایتیں نقل کر دیتے ہیں، مگر اُنھوں نے بھی اِسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔یہ ایک غریب اور مرسل روایت ہے جسے بعض مفسرین نے اپنی تفسیروں میں نقل ضرور کیا ہے ،لیکن جن لوگوں کو علم حدیث سے کچھ بہرہ حاصل ہے ، اُنھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اِس کی سند بالکل واہی ہے اور ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم کی سندوں میں اِس کا راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے*۔اِس کے بارے میں یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ مفسرین سورۂ نساء (۴) کی آیت ۶۵ کی شان نزول کے طور پر یہی واقعہ بیان کرتے ہیں۔ نساء کی یہ آیت اگرچہ کسی شان نزول کی محتاج نہیں ہے، تاہم جو واقعہ امام بخاری اور دوسرے ائمۂ محدثین نے اِس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے اور جسے مفسرین بالعموم نقل کرتے ہیں، وہ اِس کے برخلاف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر کا ایک انصاری سے پانی پر اختلاف ہو گیا۔ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرکے باقی پانی اُس کے لیے چھوڑ دیں گے۔ اِس پر انصاری نے فوراً کہا: یا رسول اللہ، اِس لیے نا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی اور فرمایا کہ کھیت کی منڈیر تک پانی روک کر باقی اُس کے لیے چھوڑ دیا جائے۔**

علماکو حسن انتخاب کی داد دینی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگذر اور رأفت و رحمت کی یہ روایت تو اُنھوں نے نظر انداز کر دی ہے، دراں حالیکہ یہ بخاری و مسلم میں مذکور ہے اور حضرت عمر کے گردن ماردینے کی ضعیف اور ناقابل التفات روایت ہر جگہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سنا رہے ہیں۔۳

توہین رسالت کی سزا کے بارے میں جمہور فقہا کی راے کیا خاص اِس سزا سے متعلق قرآن و حدیث کے کسی حکم پر مبنی ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ مسلمانوں کے لیے اِس کی بنا ارتداد اور ذمیوں کے لیے نقض عہد پر قائم کی گئی ہے۔ فقہا یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے گا تو مرتد ہو جائے گا اور مرتد کی سزا قتل ہے۔ اِسی طرح غیر مسلم ذمی اِس کا مرتکب ہو گا تو اُس کے لیے عقد ذمہ کی امان ختم ہو جائے گی اور اِس کے نتیجے میں اُسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ اِس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۂ توبہ (۹)کی آیت ۲۹ میں غیر مسلم اہل کتاب کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے محکوم اور زیردست بن کر رہنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُنھیں قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ اگر کوئی ذمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب و شتم کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اِس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ سرکشی پر اتر آیا ہے اور محکوم اور زیردست بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ * فقہ اسلامی میں اِس استدلال کی ابتدا غالباً عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اِس راے سے ہوئی ہے، اُن کا ارشاد ہے:

ایما مسلم سب اللّٰہ ورسولہ او سب احدًا من الانبیاء، فقد کذب برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وھی ردۃ یستتاب، فان رجع والاقتل، وایما معاہد عاند فسب اللّٰہ او سب احدًا من الانبیاء وجھر بہ،فقد نقض العھد فاقتلوہ.(زاد المعاد، ابن قیم ۴/ ۳۷۹)

''جو مسلمان اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یا نبیوں میں سے کسی دوسرے نبی پر سب و شتم کرے گا، وہ رسول اللہ کی تکذیب کا مرتکب ہو گا۔ یہ ارتداد ہے جس پر اُس سے توبہ کا تقاضا کیا جائے گا۔ اگر رجوع کر لیتا ہے تو چھوڑ دیا جائے گا اور نہیں کرتا تو قتل کر دیا جائے گا۔ اِسی طرح غیرمسلم معاہدین میں سے کوئی شخص اگر معاند ہو کر اللہ یا اللہ کے کسی پیغمبر پر علانیہ سب و شتم کرتا ہے تو عہد ذمہ کو توڑنے کا مجرم ہو گا، تم اُسے بھی قتل کر دو گے۔''

فقہا کے نزدیک سزا کی بنیاد یہی ہے، لیکن قرآن و حدیث پرتدبر سے واضح ہو جاتا ہے کہ دور صحابہ کے بعد یہ بنیاد ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنی کتابوں، ''میزان'' اور ''برہان'' میں پوری طرح مبرہن کر دیا ہے کہ ارتداد کی سزا اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھی جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اتمام حجت کیا اور آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ کفر کی طرف پلٹ گئے۔ اُن کے بارے میں خدا کا فیصلہ یہی تھا کہ اگر کفر پر قائم رہیں گے تو اُس کی سزا بھی موت ہے اور ایمان لے آنے کے بعد دوبارہ کفر اختیار کریں گے تو اُس کی سزا بھی موت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ 'من بدل دینہ فاقتلوہ' * (جو شخص اپنا دین تبدیل کرے ، اُسے قتل کر دو) اُنھی سے متعلق ہے۔ اُن کے لیے یہ سزا اُس سنت الٰہی کے مطابق مقرر کی گئی تھی جو قرآن میں رسولوں کے براہ راست مخاطبین سے متعلق بیان ہوئی ہے۔ زمانۂ رسالت کے بعد پیدا ہونے والے مسلمانوں سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

نقض عہد کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اب دنیا میں نہ کوئی ذمی ہے، نہ کسی کو ذمی بنایا جا سکتا ہے۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۹ اتمام حجت کے اُسی قانون کی فرع ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ چنانچہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اِس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے اُنھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اِس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔** مسلمان ریاستوں کے غیر مسلم شہری نہ اصلاً مباح الدم ہیں، نہ ذمی ہیں اور نہ کسی امان کے تحت رہ رہے ہیں جس کے اُٹھ جانے کی صورت میں اُن کے بارے میں قتل کا حکم دیا جائے۔ یہ سب چیزیں اب قصۂ ماضی ہیں۔ اِنھیں کسی لحاظ سے بھی بناے استدلال نہیں بنایا جا سکتا۔

اِس کے بعد دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں: ایک یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی جائے اور تعزیر کے طور پر کوئی سزا مقرر کر دی جائے۔ دوسرے یہ کہ سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۳۔۳۴ کو قانون سازی کی بنیاد بنایا جائے۔ یہی دوسری صورت ہے جس کے بارے میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ مائدہ کی اِن آیتوں کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی جائے گی تو یہ تین چیزیں لازماً ملحوظ رکھنا ہوں گی، قرآن کے الفاظ اِس کا تقاضا کرتے ہیں:

۱۔ توہین کے مرتکب کو توبہ و اصلاح کی دعوت دی جائے گی اور باربار توجہ دلائی جائے گی کہ وہ خدا اور رسول کا ماننے والا ہے تو اپنی عاقبت برباد نہ کرے اور اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور ماننے والا نہیں ہے تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرے اور اِس جرم شنیع سے باز آجائے۔

۲۔ اُس کے خلاف مقدمہ صرف اُس صورت میں قائم کیا جائے گا، جب وہ توبہ اور رجوع سے انکار کر دے؛ سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛ فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور باربار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے۔

۳۔ سزا میں گنجایش رکھی جائے گی کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات تقاضا کرتے ہوں تو قتل جیسی انتہائی سزا کے بجاے اُسے کوئی کم تر سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۴۸،۴۷۔۴/۴۴۔ سیرت النبی، شبلی نعمانی۱/ ۲۵۳۔

* جامع البیان، ابن جریر الطبری ۱۰/۳۳۲۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۳/۵۱۸۔ الکشاف، زمخشری ۳/۵۶۹۔

** بخاری، رقم ۱۱۱۔ ''اِن منکروں کے قصاص میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔''

* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۱/ ۶۸۱۔

** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۱/ ۶۸۰۔

* اِس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے: المحلّی، ابن حزم ۱۳/ ۲۳۴۔

* بخاری، رقم ۳۰۱۷۔
 
گستاخوں کی حمایت غالباً عین اسلام ہے۔ واہ چوہدری صاحب۔ کمال کرتے ہیں۔
گستاخ کی حمایت کس نے کی ہے؟ صرف قانوں اپنے ہاتھ میں نا لینے کی بات ہے۔ قانون ہاتھ میں نا لینا گستاخی ہے یا شریعت کے خلاف جا کر قانون ہاتھ میں لینا یا قانون ہاتھ میں لینے والوں کی حمایت کرنا گستاخی ہے قرآن و سنت دونوں کی۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

جناب والا یہ مشال خان کے اپنے اکاؤنٹس ہیں۔ اب میں مشال خان کو زندہ کرکے اس سے آپ کے سامنے اعتراف نہیں کرواسکتا۔ وہ خود اور اس کے دوست اس کے گواہ ہیں۔

سمائل! کیا مشال خان مرحوم کی فیس بک فرینڈز لسٹ میں آپکا نام شامل ہے؟ رہی بات دوستوں کی تو وہ ثبوت نہیں اور سب اپنے انجام کو پہنچے۔

والسلام
 

آصف اثر

معطل
کیا ”معصومین“ کے پوسٹس بھی ڈیلیٹ کردئیے گئے ہیں؟ محفل کی چوہدراہٹ سیکولرزم کے نام پر چند شدت پسندوں کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔ ماضی کے رویے بدلنے ہوں گے۔
مناسب کیا ہوتاہے اور کیا نہیں ہوتا یہ سب فضول باتیں ہیں۔ ہم یہاں وڈیراں صاحب اور محفل کے اسٹیبلشمنٹ کے وہ مناسب پوسٹس بھی دیکھتے چلے آچکے ہیں جو صرف اُن ہی کے لیے مناسب ہوسکتی تھی۔
 

اے خان

محفلین
صرف استقبال؟ حکومت کو ان کی مستقبل کی فکر کرنی چاہیے.
جو رہا ہوگئے. مطلب ان پر جرم ثابت نہیں ہوا. یعنی وہ بے گناہ تھے. اب ان کو مجرم مجرم کہنا فضول ہے . اور جو مجرم تھے انہیں سزا ہوگئی. انتظامیہ کے خلاف بہت سے لوگوں نے آواز اٹھائی تھی. مشال اکیلا نہیں تھا. رہی بات چئیرمین کے خلاف آواز اٹھانے کی تو ڈیپارٹمنٹ کے طلباء کا یہ کام فضول ہے. جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں ساری سہولیات موجود ہے. سوائے فری ایجوکیشن کے اور یہ( فی الحال) ممکن نہیں. اس لئیے مشال کے قتل میں انتظامیہ کا ملوث ہونا سراسر جھوٹ ہے.
مشال خان گستاخ تھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے. اور اس بحث میں پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں. قصور مجھے پولیس کا نظر آتا ہے. پولیس مشال کے قتل سے دوگھنٹے پہلے موجود تھی. وہ تماشہ کیوں کررہی تھی. پولیس کو محو تماشہ دیکھ کر طلباء کی ہمت جمع ہوگئی. طلباء سمجھنے لگے کہ پولیس ہمیں کچھ نہیں کہتی اس وجہ سے کہ ہم ٹھیک کررہے ہیں. اور پولیس کی منافقت دیکھو جیسے ہی مشال قتل ہو اور اس کی لاش پولیس موبائل میں ڈالی گئی اور یونیورسٹی سے باہر ہوگئی. تو پولیس ایک دم بدل گئی اور طلباء پر لاٹھی چارج اور تشدد شروع کردیا گیا. اگر پولیس نے یہ ایکشن لینا ہی تھا تو پہلے کیوں نہیں لیا. جب طلباء توڑ پھوڑ کررہے تھے. اور مشال کا ابھی تک پتہ بھی نہیں تھا کہ کہاں ہے.
 

آصف اثر

معطل
مشال کے گستاخانہ پوسٹس سے لے کر فیصلے تک جو کچھ بھی ہوا اُن سب میں اس منافقانہ نظام اور اس کے کاسہ لیسوں کا ہاتھ ہے۔ پہلے بھی رہا ہے، ابھی بھی یہی ہاتھ تمام مسائل میں کارفرماہے اور آئندہ بھی یہی ہاتھ رہے گا۔ یہ نظام برصغیر کے مسلمانوں کا نظام ہی نہیں۔ انگریز یہاں منافقت کے ساتھ داخل ہوا، مکارانہ اور فسادی طریقوں کے ذریعے یہاں کے مسلمانوں کو جسمانی، ذہنی اور معاشرتی طور پر مفلوج کیا، اور اپنا یہ گندآلود اور خون آشام نظام مسلط کرکے یہاں سے الگ ہوئے۔ ڈیڑھ سو سال تک وہ اپنے لیے ایک ایسا طبقہ تیار کرچکا تھا جو اُن کی جگہ لے سکے۔ آج یہی طبقہ اپنے پیش رووں کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے۔ اس لیے یہ سب کچھ ہوتارہے گا۔ اقوامِ عالم کی تاریخ گواہ ہے جہاں بھی اقلیت اکثریت پر مسلط ہوگئی تباہی اُن کا مقدر بنی۔
 
مشال خان واقعی گستاخ تھا یا نہیں مجھے اس بات کا علم نہیں
البتہ اس بات کا یقین ہے کہ ساری خرابی ملک میں نظام انصاف میں ہے۔ پولیس سے لیکر تفتیشی اداروں اور عدلیہ تک سب عوام کے قانون میں ہاتھ میں لینے کے رویے کے ذمہ دار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مجرم پکڑا نہیں جاتا، انصاف نہیں ملتا اس لئے جس کا بس چلتا ہے وہ قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ مذہبی گستاخی تو بہت ہی بڑا جرم ہے مگر یہاں نسبتا چھوٹے جرائم کرنے والوں کو بھی سزا نہیں ملتی اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا۔
سارا قصور نظام انصاف کو چلانے والوں اور درست کرنے کے ذمہ داروں کا ہے۔
 

زیک

مسافر
جو رہا ہوگئے. مطلب ان پر جرم ثابت نہیں ہوا. یعنی وہ بے گناہ تھے. اب ان کو مجرم مجرم کہنا فضول ہے
جرم بے شک ثابت نہیں ہوا لیکن اگر اب وہ قتل سے متعلق بڑھکیں مار رہے ہیں تو ہم یقیناً ان پر تنقید کر سکتے ہیں اور انہیں کم از کم قاتلوں کا حامی قرار دے سکتے ہیں
 

اے خان

محفلین
جرم بے شک ثابت نہیں ہوا لیکن اگر اب وہ قتل سے متعلق بڑھکیں مار رہے ہیں تو ہم یقیناً ان پر تنقید کر سکتے ہیں اور انہیں کم از کم قاتلوں کا حامی قرار دے سکتے ہیں
بڑھکیں ماری کہاں ہے. ہار پہنانا تو ان لوگوں کا رواج ہے.
 

زیک

مسافر
بڑھکیں ماری کہاں ہے. ہار پہنانا تو ان لوگوں کا رواج ہے.

ڈان کی خبر سے اقتباس:
Aizaz, who was showered with petals and carried on the shoulders of supporters, addressed the crowd in Pashto, vowing that anyone who committed blasphemy or spoke against Khatm-i-Nabuwwat would "meet the same end as Mashal".
 
حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا‘ وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں‘ فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی‘ماں کے بارے میں پوچھا‘ بتایا گیا‘ وہ انتقال فرما چکی ہیں‘ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے‘ رضاعی خالہ کو لباس‘ سواری اور سو درہم عنایت کئے‘ رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی‘ پتہ چلا تو انہیں بلایا‘ اپنی چادر بچھا کر بٹھایا‘ اپنے ہاں قیام کی دعوت دیحضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی‘ رضاعی بہن کو غلام‘ لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا ‘ یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں‘ یہ ہے شریعت۔13 جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے‘ ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے‘ لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا‘ حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا‘ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے‘ کافروں کا ایک شاعر تھا: سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا‘ یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا‘ سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا‘ حضرت عمرؓ نے تجویز دی‘ میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں‘ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا‘ تڑپ کر فرمایا ’’ میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا‘‘ سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’ مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا‘‘ اس سے پوچھا گیاکیوں؟‘‘ سہیل بن عمرو نے جواب دیا ’’ میری پانچ بیٹیاں ہیں‘ میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں
رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا‘ یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے‘ سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا‘ یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں‘ یہ ہے شریعت ۔غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجئےعمرو بن عبدود مشرک بھی تھا‘ ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی ۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا‘ اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی‘ کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انہیں خطرہ تھا‘ مسلمان ان پر تیر برسادیں گے‘ کفار نے اپنا سفیر بھجوایا‘ سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی‘ رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ’’میں مردہ فروش نہیں ہوں‘ ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے‘ یہ ہمارے لئے جائز نہیں‘‘ کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے‘ تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیئے اور خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کیلئے جگانے کی ذمہ داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی‘حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی‘ سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ’’بلال آپ نے یہ کیا کیا‘‘ حضرت بلالؓ نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ﷺ جس ذات نے آپؐ کو سلایا‘ اس نے مجھے بھی سلا دیاتبسم فرمایا اور حکم دیا ’’تم اذان دو‘‘ اذان دی گئی‘ آپؐ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ’’تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو‘‘ یہ ہے شریعت۔حضرت حذیفہ بن یمانؓ سفر کر رہے تھے‘ کفار جنگ بدر کیلئے مکہ سے نکلے‘ کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا‘ آپ سے پوچھا گیا‘ آپ کہاں جا رہے ہیں‘ حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ’’مدینہ‘‘ کفار نے ان سے کہا ’’ آپ اگر وعدہ کرو‘ آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے‘ مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی‘ جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تومدینہ بھجوا دیا گیا
اور فرمایا ’’ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں‘‘ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا‘ رسول اللہ ﷺ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انہیں مسجد نبویؐ میں بھی ٹھہرایا اور انہیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا‘ یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا‘ ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کر دیا‘ آپؐ نے مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مسلمان قتل کے جرم میں قتل کر دیا گیا‘ حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا‘ یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انہوں نے حضرت ابو سفیانؓ سے فرمایا ’’ آج لڑائی کا دن ہے‘ آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا‘‘ رحمت اللعالمینؐ نے سنا تو ناراض ہو گئے‘ ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا‘ ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ’’نہیں آج لڑائی نہیں‘ رحمت اور معاف کرنا کا دن ہے‘‘۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا مدینہ سے رقم جمع کی‘ خوراک اور کپڑے اکٹھے کئے اور یہ سامان مکہ بھجوادیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ’’مکہ کے لوگوں پر برا وقت ہے‘ آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں‘‘۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ’’نبی اکرم ﷺ فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ ‘‘ یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا‘ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے فرماتے
’’آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں‘‘۔ ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ گرفتار ہو گیا‘ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی‘ اس نے انکار کر دیایہ تین دن قید میں رہا‘ اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی‘ یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا‘ اس نے راستے میں غسل کیا‘ نیا لباس پہنا‘ واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ؐکے داماد تھے‘ رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں‘ یہ کافر تھے‘ یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے‘ مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا‘ یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی‘ صاحبزادی مشورے کیلئے بارگاہ رسالت میں پیش ہو گئیں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرومگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کیلئے حلال نہیں ہو‘‘ حضرت زینبؓ نے عرض کیا ’’ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ہےمال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا’’یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کردو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا‘‘ صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا‘ آپ ملاحظہ کیجئے‘ حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کیلئے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ ﷺنے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا‘ یہ ہے شریعت حضرت عائشہؓ نے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ’’ زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا‘‘ فرمایا‘
وہ دن جب میں طائف گیا اورعبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے‘ میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا‘عبدیالیل طائف کا سردار تھا‘ اس نے رسول اللہ ﷺ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی‘ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا‘ اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کےدرمیان پیس دیں‘ یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا‘ عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا‘ رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا‘ رسول اللہ ﷺ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے‘ اس کا حال احوال پوچھتے‘ اس کے ساتھ گفتگو کرتے اوراس کی دل جوئی کرتے‘ عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا‘ یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کیلئے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا‘ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا‘ میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہو سکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کیلئے دعا کرتا‘‘ یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں‘ آپؐ نے فرمایا ’’تم اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو‘‘ یہ ہےشریعت۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں‘‘ جواب دیا ’’غصہ نہ کرو‘‘ وہ بار بار پوچھتا رہا‘ آپؐ ہر بار جواب دیتے ’’غصہ نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ’’ پیغمبرؐ اللہ کی بڑی رحمت ہیں‘ آپ لوگوں کیلئے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں‘ آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘
 

اے خان

محفلین
پشاور_ہائی_کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مشال_قتل_کیس سے متعلق ہری پور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سے سزائیں پانے والے 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔

پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مردان کی عبدالولی خان میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبِ علم مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل سید اختر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشال خان قتل کیس میں کل 31 ملزمان کو سزائیں ہوئیں جب میں ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو عمر قید جبکہ 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزائیں دی گئیں تھیں۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ قانون میں یہ سہولت موجود ہے کہ جس شخص کو پانچ سال سے کم کی سزا دی جاتی ہے انہیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اے ٹی سی کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے سزا پانے والے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔

واضح رہے کہ مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی سے سزا پانے والے ملزمان نے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کی ایبٹ آباد بینچ میں اپیل دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ لوگ بے قصور ہیں۔

مشال قتل کیس میں دیگر 25 ملزمان واجد ملنگ، ذیشان، حنیف، نصراللہ الیاس، عمران احمد، خیال سید، حسن اختر، انس، ملک توقیر، عامر، سدیس، حمزہ، عارف خوڑ، شہاب علی شاہ، اشرف علی، عمران، ولید، علی خان، شعیب، نواب علی، سید عباس، صاحبزادہ، فرحان، ریاض شانگلہ اور وجاہت اللہ کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ملزمان کے وکیل سید اختر نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ کا فیصلے سامنے آنے کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے عدالت نے ابھی مختصر فیصلہ سنایا ہے تاہم تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے۔..
 

با ادب

محفلین
پشاور_ہائی_کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مشال_قتل_کیس سے متعلق ہری پور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سے سزائیں پانے والے 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔

پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مردان کی عبدالولی خان میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبِ علم مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل سید اختر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشال خان قتل کیس میں کل 31 ملزمان کو سزائیں ہوئیں جب میں ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو عمر قید جبکہ 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزائیں دی گئیں تھیں۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ قانون میں یہ سہولت موجود ہے کہ جس شخص کو پانچ سال سے کم کی سزا دی جاتی ہے انہیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اے ٹی سی کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے سزا پانے والے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔

واضح رہے کہ مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی سے سزا پانے والے ملزمان نے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کی ایبٹ آباد بینچ میں اپیل دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ لوگ بے قصور ہیں۔

مشال قتل کیس میں دیگر 25 ملزمان واجد ملنگ، ذیشان، حنیف، نصراللہ الیاس، عمران احمد، خیال سید، حسن اختر، انس، ملک توقیر، عامر، سدیس، حمزہ، عارف خوڑ، شہاب علی شاہ، اشرف علی، عمران، ولید، علی خان، شعیب، نواب علی، سید عباس، صاحبزادہ، فرحان، ریاض شانگلہ اور وجاہت اللہ کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ملزمان کے وکیل سید اختر نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ کا فیصلے سامنے آنے کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے عدالت نے ابھی مختصر فیصلہ سنایا ہے تاہم تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے۔..
دا دہ پھانسی دا سزا چا تا شوے دا؟ ؟ اغا الک چے چا گولئی ویشتی وا؟ ؟ عمران نوم اے او کنا؟ ؟؟
 
Top