ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، ﷲ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہء جبریلِ امیں، بندہء خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا، صفتِ سورہء رحمٰن
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدّر کے ستارے کو تو پہچان!
اسلام وعلیکم
میرے نزدیک اقبال کا "مرد مومن" قرآن مجید فرقان حمید کی عملی تفسیر اور قرآن مجید کو خود پر طاری کر کے اسرار و رموز سے آشنائی کا شارٹ کٹ ہے
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی 2 آیات کو ذہن میں رکھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے
1.جب باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
جب اس نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے.....
تو ہم ضرور اسے آزمائیں گے، انکی جانوں سے اموال سے.......
2.اے نبی ان اعرابیوں سے فرما دیجئے کہ یوں نہ کہیں کہ ہم ایمان والے ہو گئے، بلکہ یوں کہیں کہ ہم اسلام میں داخل ہو گئے......
یہ موضوع بہت وسیع ہے، مختصراً عرض ہے کہ
جب اسلام کے بعد ایمان کا اقرار کیا جاتا ہے تو فوراً سلسلہ آزمائش شروع ہو جاتا، بندے کو رگڑا لگنا شروع ہو جاتا ہے، مال سے، بیماری سے، وباؤں سے....
اسے آپ اللہ کریم کی قہاری سمجھ لیں
جب انسان ثابت قدم رہتا ہے اور کہتا ہے کہ
"بس تو میرا رب ہے، مجھے سب منظور ہے"
تو غفاری ایکٹو ہوتی ہے، عام معافی کا اعلان کر کے کچھ عرصے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے
اس دوران سالک اللہ کریم سے رابطہ بڑھا لے، اس کی مخلوق کی خدمت اور دیگر عوامل سے اسے خوش رکھے تو
قدوس کی رحمت جوش مارتی ہے، سالک ہر قسم کے" خوف، حزن و ملال" (قرآن مجید کی رو سے اللہ کی ولی کی شناخت) سے آزاد ہو جاتا ہے، دین، دنیا میں ہر طرح کی آسانی پیدا ہو جاتی ہے
اس مقام پر پہنچ کر جو سالک اللہ کریم کی متعین حدود کو قائم رکھے
اسی اس عالم ناسوت سے نکال کر، عالم لاہوت اور عالم ملکوت سے اوپر عالم جبروت میں پروموٹ کر دیا ہے
اقبال رحمۃ اللہ علیہ، کسی ایسے شخص کو مومن ماننے کو تیار نہیں، جو عالم جبروت سے کم کسی مقام پر متمکن ہو
یہ کام چنداں مشکل نہیں، آزمائش شرط ہے