مرد مرد ہوتا ہے اور اور اور ۔۔۔ زریاب شییخ

zaryab sheikh

محفلین
پاکستان میں مرد دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں اور دوسرے جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں ان کی اکثریت گری ہوئی ہوتی ہے اور جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں ان میں اکثر خوش نصیبوں کو زمین پر گرے پیسے مل جاتے ہیں، اگر اسلامی نقطہ نظر دیکھا جائے تو پاکستان میں مرد ہوتا بھی ہے اور مرد ہوتی بھی ہے جو مرد ہوتا ہے اس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اور جو ہوتی ہے اس کا ظاہر اپنے نفس اور عورت کیلئے ہوتا ہے ، سانسدان ابھی تک اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ عورت کے چہرے پر بال آجائیں تو اسے مزاق میں مرد سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن مرد اگر چہرہ عورت کی طرح بنالے تو اسے مرد ہی کہا جاتا ہے، پاکستان میں جو مرد ہوتا ہے وہ خود کو عورت اور دنیا کے سامنے نمایاں کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اس کیلئے سب حدیں پار کر جاتا ہے اور اللہ کے سامنے بےنمایاں ہوجاتا ہے جبکہ جس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اس کو لڑکیاں مولوی کہہ کر ویسے ہی ٹھوکر مار دیتی ہیں ، لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود اگر وہ صحیح راستے پر رہے تو اللہ کے سامنے نمایاں ہو جاتا ہے ، حیرت اس بات پر ہے کہ ٹی وی پر چلنے والے اشتہار ایسے ہوتے ہیں جیسے ڈاڑھی منڈھا نوجوان نہیں کوئی مقناطیس ہے اور لڑکیاں کھنچی چلی آتی ہیں لیکن حقیقت میں ان بےچاروں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے ، کبھی گرمی میں کالج کے باہر کھڑا ہونا پڑتا ہے تو کبھی ایزی لوڈ کروا کر خود پر جبر کرنا پڑتا ہے ، رات کو جانو کہہ کہہ کر ان کے دل میں اترنے کی کوشش میں آنکھوں کے گرد کالے ہلکے بنا لیتے ہیں، آج کی نوجوان نسل ظاہر دیکھ کر ایک دوسرے پر مرتی ہے اور شادی کے بعد ایک دوسرے کو مارتی ہے اور پھر علیحدہ ہونے کے بعد گھر والے لفظوں کی مار مارتے ہیں ۔
 

سید زبیر

محفلین
پاکستان میں مرد دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں اور دوسرے جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں ان کی اکثریت گری ہوئی ہوتی ہے اور جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں ان میں اکثر خوش نصیبوں کو زمین پر گرے پیسے مل جاتے ہیں، اگر اسلامی نقطہ نظر دیکھا جائے تو پاکستان میں مرد ہوتا بھی ہے اور مرد ہوتی بھی ہے
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
پاکستان میں مرد دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں اور دوسرے جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں ان کی اکثریت گری ہوئی ہوتی ہے اور جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں ان میں اکثر خوش نصیبوں کو زمین پر گرے پیسے مل جاتے ہیں، اگر اسلامی نقطہ نظر دیکھا جائے تو پاکستان میں مرد ہوتا بھی ہے اور مرد ہوتی بھی ہے جو مرد ہوتا ہے اس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اور جو ہوتی ہے اس کا ظاہر اپنے نفس اور عورت کیلئے ہوتا ہے ، سانسدان ابھی تک اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ عورت کے چہرے پر بال آجائیں تو اسے مزاق میں مرد سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن مرد اگر چہرہ عورت کی طرح بنالے تو اسے مرد ہی کہا جاتا ہے، پاکستان میں جو مرد ہوتا ہے وہ خود کو عورت اور دنیا کے سامنے نمایاں کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اس کیلئے سب حدیں پار کر جاتا ہے اور اللہ کے سامنے بےنمایاں ہوجاتا ہے جبکہ جس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اس کو لڑکیاں مولوی کہہ کر ویسے ہی ٹھوکر مار دیتی ہیں ، لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود اگر وہ صحیح راستے پر رہے تو اللہ کے سامنے نمایاں ہو جاتا ہے ، حیرت اس بات پر ہے کہ ٹی وی پر چلنے والے اشتہار ایسے ہوتے ہیں جیسے ڈاڑھی منڈھا نوجوان نہیں کوئی مقناطیس ہے اور لڑکیاں کھنچی چلی آتی ہیں لیکن حقیقت میں ان بےچاروں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے ، کبھی گرمی میں کالج کے باہر کھڑا ہونا پڑتا ہے تو کبھی ایزی لوڈ کروا کر خود پر جبر کرنا پڑتا ہے ، رات کو جانو کہہ کہہ کر ان کے دل میں اترنے کی کوشش میں آنکھوں کے گرد کالے ہلکے بنا لیتے ہیں، آج کی نوجوان نسل ظاہر دیکھ کر ایک دوسرے پر مرتی ہے اور شادی کے بعد ایک دوسرے کو مارتی ہے اور پھر علیحدہ ہونے کے بعد گھر والے لفظوں کی مار مارتے ہیں ۔
شیخ صاحب آداب مردوں کی ایک تیسری قسم بھی خوش قسمتی سے موجود ہے جو ہر دو انتہاؤں کے درمیان ایک پُل کا کام کر رہی ہے۔ اپنی ہی طرح کے دو کلین شیو دوستوں کوفوج اور پولیس کی نوکری کے تھوڑے ہی عرصے بعد جب میں نے باریش ہوتے دیکھا تو ایک مشترکہ میٹنگ میں اُن کے گُھٹنے چھوئے اور التجا کی کہ خُدارا مُجھے بھی اُس آستانے پر لے چلو جہاں سے تم یہ فیض پایا ہے میری بھی کایا کلپ ہو جائے۔ اُنہوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اوربولے کہ ایسے ہی تمہیں یہ معرفت کا خزینہ کیسے سونپ دیا جائے پہلے کُچھ ثبوت مہیا کرو اپنے ذوق اور خلوص کا کہ یہ نعمت راہ چلتے نہیں مِلا کرتی۔ میں مستقل حزن و ملال کی کیفیت میں غرق تھا کہ یارانِ تیز گام نے محمل کو پالیا اور ہم نرے دُنیادار ہی رہ گئےسواُنہیں اُن کی جُملہ شرائط یعنی پُرشگم طعامِ لذیذ و لوازمات کے پورا کرنے کے بعد پھر استسفار کیا تو اُنہوں نے یہ ہوشربا انکشاف کیا کہ روز صبح پانچ بجے سروس پریڈ میں شمولیت کے لیے تازہ شیو کرنا مطلوبہ تیاری کا جزوِ لازم ہے اور اِس جان لیوا مجاہدے سے فرار کی ایک ہی صورت ہے اور وہ صورت آپ کے سامنے ہے۔ اَب مُجھ پر فرض تھا کہ اِس انکشاف کے بعد اُن کے چہروں پر موجود انوار کی نئے سِرے سے تشریح کروں سو میں نے اُنہیں جوخراجِ عقیدت پیش کیا وہ ہماری دیرینہ محبتوں کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔
نئے زمانے کی نت نئی اختراعات کی طرح یار لوگوں نے آج کل مُلا ازم اور ماڈرن ازم کے دو مخالف دھاروں کو اِس مہارت کے ساتھ ویلڈ کیا ہے کہ ہمارے جیسے بزعمِ خود ماڈرن لوگ اُن کی بس شکلیں ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ انسانی چہروں پر آرٹ کے ایسے ایسے نادر نمونے سجے ملتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے بندہ خود کو صادقین کے فن پاروں کی آرٹ گیلری میں محسوس کرتا ہے اوپر سے اُنہیں یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ آپ جیسے صاحبِ ایمان لوگ اُنہیں مردوں کی ہوتی والی کیٹیگری میں نہیں ڈال سکتے۔
باقی آتے ہیں اصل وجہء نزاع کی طرف، لڑکیاں مولانا صاحب شائد آج کل کافی سمجھدارہو گئی ہیں وہ چہرے پر چار بال ہونے یا نہ ہونے کی بناء پر اپنی دُنیا اورعاقبت کو داؤ پر نہیں لگاتیں اور دام ہم رنگِ زمیں کو کُھلے جال سے زیادہ خطرناک سمجھتی ہیں۔ مولانا قسم کے مرد حضرات سے اُنہیں اصل خطرہ یہ ہوتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے اُن کے پاس اپنی ہر "حرکت" کا "کتاب و سُنت کی روشنی" میں ایک گھڑا گھڑایا جوازموجود ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس روشنی کو اپنے نورِ بصیرت سے وہ خود ہی دیکھ سکتے ہیں۔ نیزچار شادیوں کی اجازت اور خاوند کے حقوق پر دھواں دھار قسم کی تقاریر جیسے معاملات وہ شادی کی تیاری کا جزو لازم سمجھتے ہیں۔ مالی ناآسودگی میں اپنی نااہلی پر حرف نہ آنے دیں گے اور بیوی کو صبر اور شُکر کے فضائل گنوا گنوا کر مار دیں گے۔ بہت سے احباب تو ایسے بھی دیکھے ہیں جواپنے توکل سے اَچھوں اَچھوں کا پِتّہ پانی کر دیتے ہیں کہ بیوی سے کوئی ذرا سا اختلاف ہوا یا گھر میں بچوں کے شور شرابے سے جی اوق گیا فورا" بوریا بستر باندھ کر چار چھ ماہ کے تبلیغی دورے پر نکل جائیں گے۔ گھر والوں کا وہی مالک ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے۔ پاس پڑوس والے بھوکا تو مرنے نہ دیں گے۔
اگر آپ کے پاس اچھا کاروباریا نوکری ہے۔ اچھا گھر اور گاڑی ہے تو یقین کیجئیے آپ کے لیے باریش یا اِس کے بر عکس ہونا قطعی کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا اور اگر آپ مذکورہ معاملات کو فقط جوشِ ایمانی سے حل کرنا چاہتے ہیں اور کلین شیو حضرات جوشِ جوانی سے تو آپ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں اور زمانہ بدل گیا ہے میرے دوست جو ہم تم نہ بدلے تو کیا ہوا :)
 
آخری تدوین:
Top