کاشفی
محفلین
تعاقب
(جوش ملیح آبادی)
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
دل سے بیتے دنوں کی یاد مٹاؤ
نہ تو اَب خود ہی رو، نہ مجھ کو رُلاؤ
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں!
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
نہ تو وہ موڑ ہیں نہ وہ گلیاں
نہ تو وہ پھول ہیں نہ وہ کلیاں
اس جہاں سے گذر چکی ہوں میں
اب یہ سمجھو کہ مر چکی ہوں میں
ایک دُکھیا کو اور اب نہ ستاؤ
بن پڑے تو مری گلی نہ آؤ
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
میرے کانوں میں، میرے سینے میں
گونجتی رہتی ہیں یہ آوازیں
جس طرف جاؤں دل ہلاتی ہیں!
یہ مرے ساتھ ساتھ جاتی ہیں
بادِجاں بخش سے، بگولوں سے
سخت کانٹوں سے، نرم پھولوں سے
یہ صدائیں برابر آتی ہیں!
دل کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو!
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
تنگ آکر جدھر بھی جاتا ہوں
اِن صداؤں کو ساتھ پاتا ہوں
صحنِ گیتی سے، اوجِ گردوں سے
تابِ انجم سے، آب جیحوں سے
بحرِ مواّج کے حبابوں سے
حکمت و شعر کی کتابوں سے
شورشوں، غلغلوں، دھماکوں سے
تیز رَو گاڑیوں کے پہیّوں سے
شعر گوئی سے، شعر خوانی سے
ہر حقیقت سے، ہر کہانی سے
شورِ جلوت، سکوتِ خلوت سے
جُنبشِ ضو، جمودِ ظلمت سے
معبدوں سے، شراب خانوں سے
مُطربِ خوش نوا کی تانوں سے
بوئے عنبر سے، بادِ صرصر سے
رُوئے خوباں سے، سنگِ مرمر سے
قصرِمنعم سے، قبرِمُفلس سے
پائے طاؤس و چشمِ نرگس سے
جان وگوہر سے، رُوحِ نسریں سے
موجِ سُنبل سے، اوج پرویں سے
باغ سے، مدرسے سے، جنگل سے
تپتے سورج، برستے بادل سے
یہ صدائیں برابر آتی ہیں!
دل کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں
بھُول جاؤ کہی سُنی باتیں
اب نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ راتیں
ایک دُکھیا کو اور اب نہ ستاؤ
بن پڑے تو مری گلی میں نہ آؤ
اس جہاں سے گذر چکی ہوں میں
اب یہ سمجھو کہ مرچکی ہوں میں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
(جوش ملیح آبادی)
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
دل سے بیتے دنوں کی یاد مٹاؤ
نہ تو اَب خود ہی رو، نہ مجھ کو رُلاؤ
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں!
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
نہ تو وہ موڑ ہیں نہ وہ گلیاں
نہ تو وہ پھول ہیں نہ وہ کلیاں
اس جہاں سے گذر چکی ہوں میں
اب یہ سمجھو کہ مر چکی ہوں میں
ایک دُکھیا کو اور اب نہ ستاؤ
بن پڑے تو مری گلی نہ آؤ
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
میرے کانوں میں، میرے سینے میں
گونجتی رہتی ہیں یہ آوازیں
جس طرف جاؤں دل ہلاتی ہیں!
یہ مرے ساتھ ساتھ جاتی ہیں
بادِجاں بخش سے، بگولوں سے
سخت کانٹوں سے، نرم پھولوں سے
یہ صدائیں برابر آتی ہیں!
دل کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو!
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
تنگ آکر جدھر بھی جاتا ہوں
اِن صداؤں کو ساتھ پاتا ہوں
صحنِ گیتی سے، اوجِ گردوں سے
تابِ انجم سے، آب جیحوں سے
بحرِ مواّج کے حبابوں سے
حکمت و شعر کی کتابوں سے
شورشوں، غلغلوں، دھماکوں سے
تیز رَو گاڑیوں کے پہیّوں سے
شعر گوئی سے، شعر خوانی سے
ہر حقیقت سے، ہر کہانی سے
شورِ جلوت، سکوتِ خلوت سے
جُنبشِ ضو، جمودِ ظلمت سے
معبدوں سے، شراب خانوں سے
مُطربِ خوش نوا کی تانوں سے
بوئے عنبر سے، بادِ صرصر سے
رُوئے خوباں سے، سنگِ مرمر سے
قصرِمنعم سے، قبرِمُفلس سے
پائے طاؤس و چشمِ نرگس سے
جان وگوہر سے، رُوحِ نسریں سے
موجِ سُنبل سے، اوج پرویں سے
باغ سے، مدرسے سے، جنگل سے
تپتے سورج، برستے بادل سے
یہ صدائیں برابر آتی ہیں!
دل کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں
بھُول جاؤ کہی سُنی باتیں
اب نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ راتیں
ایک دُکھیا کو اور اب نہ ستاؤ
بن پڑے تو مری گلی میں نہ آؤ
اس جہاں سے گذر چکی ہوں میں
اب یہ سمجھو کہ مرچکی ہوں میں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو