ام نور العين
معطل
ہمارے معاشرے میں مردانگی کے عجیب معیار مقرر ہیں نجانے یہ کہاں سے مستعار لیے گئے ہیں لیکن یہ جانے مانے قوانین بن چکے ہیں ہم اکثر اس قسم کے جملے سنتے ہیں :
’’ تم مرد ہو کر عورتوں کی طرح رو رہے ہو؟ ‘‘
’’ تو مرد ہو کر ڈر رہا ہے یار ؟‘‘
’’ارے تم مرد ہو کر خود کھانا پکاتے ہو؟ ‘‘
میں اکثر سوچتی ہوں
کاش مرانگی کے مروجہ معیار کے متعلق کسی روز ایسا جملہ بھی سننے کو ملے
’’ تم مرد ہو کر عورتوں کی طرح گھر میں نماز پڑھتے ہو یار ؟ چلو اٹھو مسجد چلیں ۔ ‘‘
ذرا سا غور کریں تو معلوم ہو گا جو باتیں دین میں کوئی عیب نہیں وہ ہمارے معاشرے میں باعثِ عار ہیں ۔۔۔
اور جو باتیں دین میں کبیرہ گناہ ہیں وہ ہمارے معاشرے کے عرف میں انتہائی عام سی عادتیں بن گئی ہیں ۔۔۔
ہم آج بھی ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں ۔۔۔
اور لگتا تو یہی ہے کہ ہمارا یہ فاصلہ گھٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔۔
تحریر : ام نورالعین
’’ تم مرد ہو کر عورتوں کی طرح رو رہے ہو؟ ‘‘
’’ تو مرد ہو کر ڈر رہا ہے یار ؟‘‘
’’ارے تم مرد ہو کر خود کھانا پکاتے ہو؟ ‘‘
میں اکثر سوچتی ہوں
کاش مرانگی کے مروجہ معیار کے متعلق کسی روز ایسا جملہ بھی سننے کو ملے
’’ تم مرد ہو کر عورتوں کی طرح گھر میں نماز پڑھتے ہو یار ؟ چلو اٹھو مسجد چلیں ۔ ‘‘
ذرا سا غور کریں تو معلوم ہو گا جو باتیں دین میں کوئی عیب نہیں وہ ہمارے معاشرے میں باعثِ عار ہیں ۔۔۔
اور جو باتیں دین میں کبیرہ گناہ ہیں وہ ہمارے معاشرے کے عرف میں انتہائی عام سی عادتیں بن گئی ہیں ۔۔۔
ہم آج بھی ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں ۔۔۔
اور لگتا تو یہی ہے کہ ہمارا یہ فاصلہ گھٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔۔
تحریر : ام نورالعین