طارق شاہ
محفلین
غزل
مرزا اسداللہ خاں غا لؔب
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیِ کوثر ہُوں، مجھ کو غم کیا ہے!
تمھاری طرز و رَوِش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لُطف، تو سِتم کیا ہے؟
کٹے، تو شب کہَیں؛ کاٹے، تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ، وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے؟
لِکھا کرے کوئی، احکامِ طالعِ مولوُد
کسے خبر ہے کہ واں جُنبشِ قلم کیا ہے؟
نہ حشر و نشر کا قائل، نہ کیش و مِلّت کا
خُدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟
وہ داد و دِید گرانمایہ شرط ہے ،ہمدم!
وگرنہ مہرِ سُلیمان و جامِ جم کیا ہے!
سُخن میں خامۂ غالؔب کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کوبھی ، لیکن اب اُس میں دم کیا ہے
مرزا اسداللہ خاں غا لؔب