حسان خان
لائبریرین
"بیدل کا نام ہم کو تاریخ کی ان پراسرار شخصیتوں میں شمار کرنا چاہیے جو دیس سے زیادہ پردیس میں عزت اور شہرت حاصل کرتی ہیں۔ نئے خیالات کی تخلیق ساری دنیا کے مفکرین کی یکساں خصوصیت ہے، مگر ان کی اشاعت کے لیے نئی زمینوں کی تسخیر سب نہیں کر پاتے۔ ہمارے دور کا ایک مستشرق، جان ریپکا، جس کی تاریخِ ادبیاتِ ایران اِدھر کچھ دنوں سے مشہور ہوتی جا رہی ہے، میرزا بیدل کو تاجیک شاعر تصور کرتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ہند-ایرانی ادب سے متعلق علیحدہ اور تاجیکی ادب کے لیے جداگانہ فصلیں مقرر کرتا ہے۔ وہاں بیدل کو اول الذکر باب میں نہیں رکھا گیا ہے بلکہ بعد والے، یعنی تاجیکی ادب کے ذیل میں جگہ دی گئی ہے۔ ریپکا یہ فیصلہ خود نہیں کرتا، اس کی ترتیب کا دار و مدار صدرالدین عینی کی شہادت پر ہے جس کو عہدِ جدید کے تاجیکی دانشوروں میں نہایت معتبر سمجھا جاتا ہے۔ عینی نے جو کچھ اپنی تالیف نمونۂ ادبیاتِ تاجیک میں لکھا ہے، ریپکا اس کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ بیدل کی شہرت ماوراءالنہر میں سنہ بارہ سو ہجری کے بعد (اٹھارویں صدی عیسوی کے اختتام سے تقریباً ایک دہائی قبل)پھیلنی شروع ہوئی۔ اوزبک اور تاجیکی زبانوں کے اہلِ قلم نے اپنی فکری تربیت کی غرض سے میرزا کے آثار کو پڑھنا اور ان کی معنویت پر عرق ریزی کرنا ایک لازمی مشق اور ناگزیر معمول بنا لیا۔ اس کے اسلوب کی پیروی کمال کی سند قرار پائی، اور ہر ادیب اس خیال سے مغلوب ہو گیا کہ طرزِ بیدل کی ذرا سی جھلک ضروری چیز ہے، ورنہ اس کی کوشش کامیابی سے دور اور معیار سے پست سمجھی جائے گی۔ یہ اثرات ماوراءالنہر سے نیچے کی طرف، افغانستان میں بھی سرایت کر گئے۔ امتدادِ وقت کے ساتھ بیدل کی مقبولیت نے پرستش کی وضع اختیار کر لی۔ مرکزی ایشیا کے شہروں میں ادبی انجمنوں کے زیرِ اہتمام بیدل خوانی کے نام سے ہفتگی جلسوں کا رواج عام ہو گیا۔ وہاں اہلِ ذوق کے مجمع میں بیدل کا کلام پڑھا جاتا تھا اور تفصیل کے ساتھ تبصرہ ہوتا تھا۔ اس تحریک کے اثر سے ماوراءالنہر اور افغانستان کے وسیع خطے میں بیدل کو ایک پائیدار اور زندہ روایت کا درجہ حاصل ہو گیا۔ یہ صورتِ حال ابھی تک برقرار ہے۔ تاجیکستان کے لوگ اس کو نہ صرف اپنا نسلی اور قومی شاعر بلکہ ایک عظیم مفکر سمجھتے ہیں جو حیات و کائنات کے تمام اسرار کا جواب دے سکتا ہے۔ یہی کیفیت افغانستان میں بھی ہے۔ کابل پوہنتون (یونیورسٹی) میں بیدل کا مطالعہ خاص التزام کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ بیدل شناسی کی استعداد رکھنے والے دانشور تاجیکستان کے علاوہ اگر کہیں ہیں تو افغانستان ہی میں ہیں۔"
(ڈاکٹر نبی ہادی کی کتاب 'میرزا بیدل' سے مقتبس)
(ڈاکٹر نبی ہادی کی کتاب 'میرزا بیدل' سے مقتبس)