محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
مرزا تفتہ کے نام
از محمد خلیل الرحمٰن
جانِ غالبؔ
یاد آتا ہے تمہارے عمِّ جانی سے سنا ہے
میری فرہنگِ دساتیر آپ کے گھر پر ہے شایداز محمد خلیل الرحمٰن
جانِ غالبؔ
یاد آتا ہے تمہارے عمِّ جانی سے سنا ہے
پھر یہ کہتا ہوں وہاں ہوتی تو کیوں نا آپ ہی تُم بھیج دیتے
تمُ کہ اک نورس ثمر ہو اس نہال ِ جانفزا کے
جس نے خودآنکھوں کے میرےسامنے نشو و نما پائی ہےاور میں
ہوں ہواخواہ و مربی اس نہالِ جانفزیں کا
مجھ کو تمُ سے پھر نہ کیونکر پیار ہوگا
اب تمہیں دیکھوں میں کیسے
اس کی دو ہی صورتیں ہیں
تُم ہی دلی آؤ یا پھر میں لوہارو آرہوں، پر
تم ہو مجبور اور یوں معذور ہوں میں
خود یہ کہتا ہوں کہ میرا عذرِ زنہار اس طرح مسموع نہ ہو جب تلک یہ نہ سمجھ لو
کون ہوں میں اور میرا ماجرا کیا
اب سنو کہ دو ہیں عالم
ایک ہے ارواح کااور ایک عالم آب و گِل کا
حاکم ان دونوں کا جو ہے
حق ہے ،فرماتا ہے خود ہی
آج ہے کس کے لیے یہ پادشاہی
اور پھر وہ آپ ہی خود بولتا ہے
واحد القہار اللہ کے لیے ہے
یوں اگرچہ قاعدہ اِک عام ہےیہ
اس جہانِ آب و گِل کے سارے مجرم
عالمِ ارواح میں پاتے سزا ہیں
لیکن ایسا بھی ہوا ہے
عالمِ ارواح میں جس نے خطا کی ہے اسے اس عالمِ دنیا میں بھیجا اور سزا دی
یوں رجب کی آٹھویں تھی جب یہ عاجز روبکاری کےلیے بھیجا گیا ہے
اور پھر تیرہ برس کے بعد میرے واسطے حکمِ دوامِ حبس بھی صادر ہوا ہے
ایک بیڑی ڈال دی پاؤں میں میرے
اور دلی شہر کو زنداں مقرر کردیا ہے
یوں مجھے زنداں میں ڈالا
فکرِ نظم و نثر کو میری مشقت کردیا ہے
بعد برسوں جیل خانے سے میں بھاگا
پھر بلادِ شرقیہ میں کچھ برس پھرتا رہا ہوں
مجھ کو پایاں کار کلکتے سے پکڑ ا اور اسی مجلس میں آکر لا بٹھایا
جب بغاوت پر مجھے آمادہ پایا
دو بڑھاکر اور ہتھکڑیاں لگادیں
پاؤں بیڑی سے فگاراور ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخمی
یوں مشقت اور بھی مشکل ہوئی تھی
ساری طاقت یک قلم زائل ہوئی، پربے حیا ہوں
پھر گزشتہ سال بیڑی اس عقوبت خانہٗ زنداں میں چھوڑی
ساتھ ہتھکڑیوں کے بھاگا
اور مراد آباد پہنچا
دو مہنیےسے بھی کچھ کم ، میں وہاں تھا
پھراچانک آن پکڑا
اب کیا ہے عہد کہ میں پھر نہ بھاگوں گا کبھی یوں
بھاگ لوں پربھاگنے کی اب کسے طاقت رہی ہے
دیکھیے حکمِ رہائی کب ہو صادر
اک ذرا سا احتمالِ آخری ہے
چھوٹ جاؤں گا میں ذی الحجہ میں اب کے
پھر رہائی پانے والا بس سوائے اپنے گھر کے اور کہیں جاتا نہیں ہے
سوچتا ہوں اس نجاتِ آخری کے بعد میں بھی عالمِ ارواح جاؤں
ٌٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌ
جانِ غالب!
یاد آتا ہے کہ تمہارے عمّ نامدار سے سنا ہے کہ لغات دساتیر کی فرہنگ وہاں ہے ۔ اگر ہوتی تو کیوں نہ تم بھیج دیتے۔ خیر
آنچہ ما درکار داریم اکثرے درکار نیست
تم ثمر نورس ہو اس نہال کے کہ جس نے میری آنکھوں کے سامنے نشو ونما پائی ہے اور میں ہوا خواہ و سایہ نشین اُس نہال کا رہا ہوں کیونکر تم مجھ کو عزیز نہ ہوگے۔رہی دید وادید۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ تم دلی میں آؤ یا میں لوہارو آؤں تم مجبور میں معذور ، خود کہتا ہوں کہ میرا عذر زنہار مسموع نہ ہو جب تک نہ سمجھ لو کہ میں کون ہوں اور میرا ماجرا کیا ہے۔
سُنو! عالم دو ہیں۔ ایک عالمِ ارواح اور ایک عالمِ آب و گِل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے (لمن المکک الیوم) اور پھر آپ جواب دیتا ہے ( للہِ الواحد القہار) ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالمِ آب و گِل کے مجرم عالمِ ارواح میں سز اپاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالمِ ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھوین رجب ۱۲۱۲ ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا ۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا ۔ ۷ رجب ۱۲۲۵ ھ کو میرے واسطے حکمِ دوامِ حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلی شہر کو زندان مقرر کیا اور مجھے اس زندان میں ڈال دیا۔ فکر و نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد میں جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلادِ شرقیہ میں پھرتا رہا ۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اسی مجلس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے ۔ دو ہتھکڑیاں اور بڑھادیں پاؤں بیڑی سے فگار ہاتھ ہتھ کڑیوں سے زخم دار ۔ مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔بے حیا ہوں۔ سالِ گزشتہ بیڑی کو زندان میں چھوڑ، مع دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹح مراد آباد ہوتا ہوا، رام پور پہنچا ۔ کچھ دن کم دو مہنیے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑ آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کیا، بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکمِ رہائی دیکھیے کب صادر ہو۔ ایک ضعیف سا احتمال ہے کہ اس ماہ ذی الحجہ میں چھوٹ جاؤں۔ بہر تقدیر بعد رہائی کے تو آدمی سوائے اپنے گھر کے اور کہیں نہیں جاتا۔ میں بھی بعد نجات سیدھا علمِ ارواح کو چلا جاؤں گا۔
آخری تدوین: