طارق شاہ
محفلین
غزل
مرزا حامدؔ لکھنوی
تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے
تیروں کی زبانی کوئی پیغام نہیں ہے
اب کوئی علاجِ دِلِ ناکام نہیں ہے
آرام کا کیا ذکر ، کہ آرام نہیں ہے
سہما ہُوا دِل، دیتا ہے یہ کہہ کے ٹہوکے !
ہو جس کی سَحَر خیر سے ، وہ شام نہیں ہے
شورِیدہ سَرِی پُوچھ نہ تدبِیرِ رہائی
اب کام یہ تیرا ہے، مِرا کام نہیں ہے
اِس سے مجھے کیا بحث، کہ دنیا میں ہے کیا کیا
تُو ہو، تو زمانے سے کوئی کام نہیں ہے
کھویا ہُوا رہتا ہُوں محبّت میں کسی کی
میرے لیے، کوئی سَحَر و شام نہیں ہے
عادت بھی ہے کیا چیز ، بُری ہو کہ بَھلی ہو
اب درد جو کم ہے، مجھے آرام نہیں ہے
ہے قبر میں اب پُرسِشِ اعمال کا دھڑکا
آرام کی منزل میں بھی، آرام نہیں ہے
آئی ہوئی ٹل جائے، یہ دُشوار ہے حامد ؔ
گُنجائشِ عُذرِ سَحَروشام، نہیں ہے
مِرزا حامدؔ لکھنوی