محب علوی
مدیر
ہزاروں لڑکياں ايسي کہ ہر لڑکي پہ دم نکلے
بہت نکلے حسيں سڑکوں پہ ليکن پھر بھي کم نکلے
بھرم کھل جائے گا ان سب کے قامت کي درازي کا
جو ان کي سيٹ شدہ زلفوں کا کچھ بھي پيچ و خم نکلے
ملي آزاد نظموں کي طرح ان کو بھي آزادي
وہ آزادي کہ جس کو ديکھ کر شاعر کا دم نکلے
گھروں سے وہ نکل آئي ہيں، ٹاٹا کہہ کے پردے کو
کہ گر نکلے تو سب عشاق کا سڑکوں پہ دم نکلے
گيا عہد کہن اور شاعروں کي آج بن آئي
جو ازراہ ستم چھپتے تھے، از راہ کرم نکلے
چلے آئے ادھر ھم بھي جواني کا علم لے کر
کہ جن سڑکوں پہ جيتے ہيں انہي سڑکوں پہ دم نکلے
نکلنا نوکروں کا گھر سے سنتے آئے ہيں، ليکن
بہت بے آبرو ہو کر تيري کوٹھي سے ہم نکلے
ترے کتے بھي سارے شہر ميں اتراتے پھرتے ہيں
کبھي بھي تيري کو ٹھي سے نہيں وہ سربہ خم نکلے
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں سلمي
پر اتنا جانتے ہيں، وہ آتي تھي کہ ہم نکلے
بہت نکلے حسيں سڑکوں پہ ليکن پھر بھي کم نکلے
بھرم کھل جائے گا ان سب کے قامت کي درازي کا
جو ان کي سيٹ شدہ زلفوں کا کچھ بھي پيچ و خم نکلے
ملي آزاد نظموں کي طرح ان کو بھي آزادي
وہ آزادي کہ جس کو ديکھ کر شاعر کا دم نکلے
گھروں سے وہ نکل آئي ہيں، ٹاٹا کہہ کے پردے کو
کہ گر نکلے تو سب عشاق کا سڑکوں پہ دم نکلے
گيا عہد کہن اور شاعروں کي آج بن آئي
جو ازراہ ستم چھپتے تھے، از راہ کرم نکلے
چلے آئے ادھر ھم بھي جواني کا علم لے کر
کہ جن سڑکوں پہ جيتے ہيں انہي سڑکوں پہ دم نکلے
نکلنا نوکروں کا گھر سے سنتے آئے ہيں، ليکن
بہت بے آبرو ہو کر تيري کوٹھي سے ہم نکلے
ترے کتے بھي سارے شہر ميں اتراتے پھرتے ہيں
کبھي بھي تيري کو ٹھي سے نہيں وہ سربہ خم نکلے
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں سلمي
پر اتنا جانتے ہيں، وہ آتي تھي کہ ہم نکلے