حسان خان
لائبریرین
هزار آفرین بر من و دین من
که منعم پرستیست آئین من
مجھ پر اور میرے دین پر ہزار آفریں، کہ اپنے منعم کی پرستش میرا دین ہے۔
چراغی که روشن کند خانهام
تو گویی منش نیز پروانهام
گویا وہ چراغ جو میرے گھر میں اجالا کرتا ہے، میں خود بھی اس کا پروانہ ہوں۔
حریفی که نوشم می از ساغرش
به هر جرعه گردم به گرد سرش
میں جس ہمدم کے ساغر سے شراب پیتا ہوں، ہر ایک گھونٹ پر اس کے قربان جاتا ہوں۔
برانم که دادار یکتاستی
فروغ حقایق ز اسماستی
میرا ایمان یہ ہے کہ دنیا کا حاکم ایک ہے، اور اس کے ناموں سے حقائق کی جلوہ گری ہے۔
به هر گوشه از عرصهٔ این طلسم
دهد روشنایی جداگانه اسم
دنیا کے اس طلسم میں جتنے گوشے ہیں، سب کو جداگانہ اسمِ خدا سے روشنی پہنچ رہی ہے۔
بران شی که هستی ضرورش بود
به اسمی ز اسما ظهورش بود
جس چیز کو بھی عالمِ ہستی میں لانا ضروری ہوتا ہے، خدا اپنے ایک اسم سے اسے پیدا کر دیتا ہے۔
کزان اسم روشن شود نام او
بدان باشد آغاز و انجام او
کیونکہ اسی اسم سے اس چیز کا نام وابستہ ہو جاتا ہے، اس کی ابتدا اور انتہا وہی اسم ہوتا ہے۔
بود هرچه بینی بسودای دوست
پرستار اسمی ز اسمای دوست
جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے وہ سب اسی محبوب سے لو لگائے ہوئے ہے اور اس کے کسی ایک اسم کی پرستش کیے جاتا ہے۔
هر آیینه در کارگاه حال
کز آنجاست انگیزش حال و قال
یقیناَ خیال کے اس کارخانے میں کہ جس سے حال اور قال پیدا ہوتے ہیں....
لبم در شمار ولی اللهیست
دلم رازدار علی اللهیست
میرے لبوں پر ہر دم 'ولی اللہ' ہے (کہ یہ قال ہے) اور میرا دل علی اللہی کا رازدار ہے۔ (کہ یہ حال ہے)۔۔
یاد دہانی: علی اللہی ایک غالی فرقے کا نام تھا جو قائل بہ الوہیتِ حضرت علی تھا۔
چون مربوب این اسم سامیستم
نشانمند این نام نامیستم
چونکہ میں اس بلند مرتبہ اسم کا پروردہ ہوں اس لیے اس نام کا نشان مجھ پر ہے۔
بلندم بدانش نه پستم همی
بدین نام یزدان پرستم همی
میں عقل میں بلند ہوں، پست نہیں ہوں؛ اسی لیے میں اس نام سے خدا پرستی کرتا ہوں۔
نیاساید اندیشه جز با علی
ز اسما نیندیشم الا علی
خیال کو راحت اسی کے دم سے ہے اور کوئی اسم میرے تصور پر حاوی ہے تو یہی علی کا نام ہے۔
به بزم طرب همنوایم علیست
به گنج غم انده ربایم علیست
خوشی کی محفل ہو تو علی میرا رفیقِ جاں اور غم کا گوشہ ہو تو غم ہلکا کرنا والا علی ہے۔
به تنهاییام رازگویی به اوست
به هنگامهام پایه جویی به اوست
تنہائی میں دل کی بات اسی سے کہتا ہوں اور جب معرکہ آرائی ہو تو اسی سے مرتبے کی بلندی چاہتا ہوں۔
در آیینهٔ خاطرم رو دهد
به اندیشه پیوسته نیرو دهد
میرے دل کے آئینے میں اسی کا جلوہ نظر آتا ہے اور فکر کو ہمیشہ اسی سے قوت ملتی ہے۔
مرا ماه و مهر شب و روز اوست
دل و دیده را محفل افروز اوست
میرے لیے دن رات کا چاند اور سورج علی ہی ہے اور دل و نگاہ کی رونق اسی کے دم سے ہے۔
به صحرا به دریا براتم ازوست
به دریا ز طوفان نجاتم ازوست
صحرا اور دریا یعنی خشی اور تری دونوں جگہ نجات کی راہ دکھانے والا وہی ہے۔ دریا میں طوفان آ جائے تو وہی چھٹکارا دلاتا ہے۔
خدا گوهری را که جان خوانمش
ازان داد تا بر وی افشانمش
خدا نے یہ جوہر جسے جان کہتے ہیں اسی لیے مجھ کو عطا کیا ہے کہ میں اسے علی پر وار دوں۔
مرا مایه گر دل وگر جان بود
ازو دانم ار خود ز یزدان بود
دل و جاں کا جو سرمایہ مجھے ملا ہے، چاہے وہ خود خدا کی طرف سے ہی ملا ہو، لیکن میں اسے علی کی طرف سے شمار کرتا ہوں۔
کنم از نبی روی در بوتراب
به مه بنگرم جلوهٔ آفتاب
میں علی کی طرف منہ کر کے نبی کو دیکھتا ہوں یعنی اس چاند میں سورج کا جلوہ دیکھتا ہوں۔
ز یزدان نشاطم به حیدر بود
ز قلزم به جو آب خوشتر بود
خدا کی طرف سے جو نشاطِ روح میسر ہوتا ہے وہ مجھے حیدر سے ملتا ہے؛ کیونکہ سمندر کے پانی سے نہر کا پانی زیادہ خوشگوار ہوتا ہے۔
نبی را پذیرم به پیمان او
خدا را پرستم به ایمان او
میں علی سے عہد کی وجہ سے نبی کو مانتا ہوں، اور علی پر ایمان کی وجہ سے خدا کو مانتا ہوں۔
خدایش روا نیست هرچند گفت
علی را توانم خداوند گفت
اگرچہ علی کو خدا کہنا جائز نہیں، تاہم انہیں خداوند کہا جا سکتا ہے۔
پس از شاه کس غیر دستور نیست
خداوند من از خدا دور نیست
جس طرح بادشاہ کے بعد کسی کا مقام آتا ہے تو وزیر کا آتا ہے، اسی طرح میرا خداوند علی بھی خدا سے دور نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کا وزیر ہے۔
نبی را اگر سایه صورت نداشت
تردد ندارد ضرورت نداشت
نبی کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو کون سی تعجب کی بات ہے؟ آخر اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
دو پیکر دو جا در نمود آمده
اثرها بیک جا فرود آمده
وہ دو جسم تھے جو دو جگہ الگ الگ ظاہر ہوئے، مگر اُن کے اثرات ایک ہی جگہ ظاہر ہوئے۔ (اسی لیے سایہ ایک ہی نظر آیا)
دو فرخنده یار گرانمایه بین
دو قالب ز یک نور و یک سایه بین
ان دو مبارک اور گرانمایہ دوستوں کی جانب دیکھو۔۔ دیکھو کہ دونوں کے قالب ایک ہی نور اور ایک ہی سائے سے تھے۔
بدان اتحادی که صافی بود
دو تن را یکی سایه کافی بود
جو اتحاد اس قدر لطیف ہو وہاں دو جسموں کے لیے ایک ہی سایہ کافی ہوتا ہے۔
ازان سایه یکجا گرایش کند
که احمد ز حیدر نمایش کند
دونوں کا سایہ اسی لیے ایک جگہ پڑتا ہے تاکہ حیدر کی ذات سے احمد ظاہر ہوں۔
به هر سایه کافتد ز بالای او
بود از نبی سایه همپای او
اسی لیے علی کے قد سے جہاں بھی سایہ پڑتا ہے، وہاں نبی کا سایہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ایک ہو جاتا ہے۔
زهی قبلهٔ اهل ایمان علی
به تن گشته همسایهٔ جان علی
اہلِ ایمان کے قبلہ و کعبہ علی کا کیا کہنا کہ وہ اپنے جسم سے جانِ نبی کے ہمسایہ ہو گئے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
که منعم پرستیست آئین من
مجھ پر اور میرے دین پر ہزار آفریں، کہ اپنے منعم کی پرستش میرا دین ہے۔
چراغی که روشن کند خانهام
تو گویی منش نیز پروانهام
گویا وہ چراغ جو میرے گھر میں اجالا کرتا ہے، میں خود بھی اس کا پروانہ ہوں۔
حریفی که نوشم می از ساغرش
به هر جرعه گردم به گرد سرش
میں جس ہمدم کے ساغر سے شراب پیتا ہوں، ہر ایک گھونٹ پر اس کے قربان جاتا ہوں۔
برانم که دادار یکتاستی
فروغ حقایق ز اسماستی
میرا ایمان یہ ہے کہ دنیا کا حاکم ایک ہے، اور اس کے ناموں سے حقائق کی جلوہ گری ہے۔
به هر گوشه از عرصهٔ این طلسم
دهد روشنایی جداگانه اسم
دنیا کے اس طلسم میں جتنے گوشے ہیں، سب کو جداگانہ اسمِ خدا سے روشنی پہنچ رہی ہے۔
بران شی که هستی ضرورش بود
به اسمی ز اسما ظهورش بود
جس چیز کو بھی عالمِ ہستی میں لانا ضروری ہوتا ہے، خدا اپنے ایک اسم سے اسے پیدا کر دیتا ہے۔
کزان اسم روشن شود نام او
بدان باشد آغاز و انجام او
کیونکہ اسی اسم سے اس چیز کا نام وابستہ ہو جاتا ہے، اس کی ابتدا اور انتہا وہی اسم ہوتا ہے۔
بود هرچه بینی بسودای دوست
پرستار اسمی ز اسمای دوست
جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے وہ سب اسی محبوب سے لو لگائے ہوئے ہے اور اس کے کسی ایک اسم کی پرستش کیے جاتا ہے۔
هر آیینه در کارگاه حال
کز آنجاست انگیزش حال و قال
یقیناَ خیال کے اس کارخانے میں کہ جس سے حال اور قال پیدا ہوتے ہیں....
لبم در شمار ولی اللهیست
دلم رازدار علی اللهیست
میرے لبوں پر ہر دم 'ولی اللہ' ہے (کہ یہ قال ہے) اور میرا دل علی اللہی کا رازدار ہے۔ (کہ یہ حال ہے)۔۔
یاد دہانی: علی اللہی ایک غالی فرقے کا نام تھا جو قائل بہ الوہیتِ حضرت علی تھا۔
چون مربوب این اسم سامیستم
نشانمند این نام نامیستم
چونکہ میں اس بلند مرتبہ اسم کا پروردہ ہوں اس لیے اس نام کا نشان مجھ پر ہے۔
بلندم بدانش نه پستم همی
بدین نام یزدان پرستم همی
میں عقل میں بلند ہوں، پست نہیں ہوں؛ اسی لیے میں اس نام سے خدا پرستی کرتا ہوں۔
نیاساید اندیشه جز با علی
ز اسما نیندیشم الا علی
خیال کو راحت اسی کے دم سے ہے اور کوئی اسم میرے تصور پر حاوی ہے تو یہی علی کا نام ہے۔
به بزم طرب همنوایم علیست
به گنج غم انده ربایم علیست
خوشی کی محفل ہو تو علی میرا رفیقِ جاں اور غم کا گوشہ ہو تو غم ہلکا کرنا والا علی ہے۔
به تنهاییام رازگویی به اوست
به هنگامهام پایه جویی به اوست
تنہائی میں دل کی بات اسی سے کہتا ہوں اور جب معرکہ آرائی ہو تو اسی سے مرتبے کی بلندی چاہتا ہوں۔
در آیینهٔ خاطرم رو دهد
به اندیشه پیوسته نیرو دهد
میرے دل کے آئینے میں اسی کا جلوہ نظر آتا ہے اور فکر کو ہمیشہ اسی سے قوت ملتی ہے۔
مرا ماه و مهر شب و روز اوست
دل و دیده را محفل افروز اوست
میرے لیے دن رات کا چاند اور سورج علی ہی ہے اور دل و نگاہ کی رونق اسی کے دم سے ہے۔
به صحرا به دریا براتم ازوست
به دریا ز طوفان نجاتم ازوست
صحرا اور دریا یعنی خشی اور تری دونوں جگہ نجات کی راہ دکھانے والا وہی ہے۔ دریا میں طوفان آ جائے تو وہی چھٹکارا دلاتا ہے۔
خدا گوهری را که جان خوانمش
ازان داد تا بر وی افشانمش
خدا نے یہ جوہر جسے جان کہتے ہیں اسی لیے مجھ کو عطا کیا ہے کہ میں اسے علی پر وار دوں۔
مرا مایه گر دل وگر جان بود
ازو دانم ار خود ز یزدان بود
دل و جاں کا جو سرمایہ مجھے ملا ہے، چاہے وہ خود خدا کی طرف سے ہی ملا ہو، لیکن میں اسے علی کی طرف سے شمار کرتا ہوں۔
کنم از نبی روی در بوتراب
به مه بنگرم جلوهٔ آفتاب
میں علی کی طرف منہ کر کے نبی کو دیکھتا ہوں یعنی اس چاند میں سورج کا جلوہ دیکھتا ہوں۔
ز یزدان نشاطم به حیدر بود
ز قلزم به جو آب خوشتر بود
خدا کی طرف سے جو نشاطِ روح میسر ہوتا ہے وہ مجھے حیدر سے ملتا ہے؛ کیونکہ سمندر کے پانی سے نہر کا پانی زیادہ خوشگوار ہوتا ہے۔
نبی را پذیرم به پیمان او
خدا را پرستم به ایمان او
میں علی سے عہد کی وجہ سے نبی کو مانتا ہوں، اور علی پر ایمان کی وجہ سے خدا کو مانتا ہوں۔
خدایش روا نیست هرچند گفت
علی را توانم خداوند گفت
اگرچہ علی کو خدا کہنا جائز نہیں، تاہم انہیں خداوند کہا جا سکتا ہے۔
پس از شاه کس غیر دستور نیست
خداوند من از خدا دور نیست
جس طرح بادشاہ کے بعد کسی کا مقام آتا ہے تو وزیر کا آتا ہے، اسی طرح میرا خداوند علی بھی خدا سے دور نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کا وزیر ہے۔
نبی را اگر سایه صورت نداشت
تردد ندارد ضرورت نداشت
نبی کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو کون سی تعجب کی بات ہے؟ آخر اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
دو پیکر دو جا در نمود آمده
اثرها بیک جا فرود آمده
وہ دو جسم تھے جو دو جگہ الگ الگ ظاہر ہوئے، مگر اُن کے اثرات ایک ہی جگہ ظاہر ہوئے۔ (اسی لیے سایہ ایک ہی نظر آیا)
دو فرخنده یار گرانمایه بین
دو قالب ز یک نور و یک سایه بین
ان دو مبارک اور گرانمایہ دوستوں کی جانب دیکھو۔۔ دیکھو کہ دونوں کے قالب ایک ہی نور اور ایک ہی سائے سے تھے۔
بدان اتحادی که صافی بود
دو تن را یکی سایه کافی بود
جو اتحاد اس قدر لطیف ہو وہاں دو جسموں کے لیے ایک ہی سایہ کافی ہوتا ہے۔
ازان سایه یکجا گرایش کند
که احمد ز حیدر نمایش کند
دونوں کا سایہ اسی لیے ایک جگہ پڑتا ہے تاکہ حیدر کی ذات سے احمد ظاہر ہوں۔
به هر سایه کافتد ز بالای او
بود از نبی سایه همپای او
اسی لیے علی کے قد سے جہاں بھی سایہ پڑتا ہے، وہاں نبی کا سایہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ایک ہو جاتا ہے۔
زهی قبلهٔ اهل ایمان علی
به تن گشته همسایهٔ جان علی
اہلِ ایمان کے قبلہ و کعبہ علی کا کیا کہنا کہ وہ اپنے جسم سے جانِ نبی کے ہمسایہ ہو گئے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: