مرزا یاس یگانہ چنگیزی عرف غالب شکن
آج آپ کو ایک منفرد مگر رسوائے زمانہ شاعر کی باتیں سناتا ہوں‘ حال ہی میں ان پر ایک کتاب رسالے کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ لاہور سے ایک سستا رسالہ کتاب کی صورت میں ہر ماہ نکلتا ہے‘ نام ہے سپتنک‘ 160 صفحات کا رسالہ کافی ضخیم کہلاتا ہے اور قیمت محض 30 روپے فی رسالہ۔ اسے میرے اَن دیکھے مہربان آغا امیر حسین کلاسک پبلشرز ریگل چوک مال روڈ لاہور سے نکالتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ ہزاروں کی تعداد میں بک جاتا ہے۔ اس کے چیئرمین پنجاب کے سابق گورنر شاہد حامد ہیں‘ بڑے بڑے ادیب شاعر اس کی مجلس ادارت میں شامل ہیں
پتہ نہیں کس خیال سے آغا صاحب نے میرا نام بھی مجلس ادارت میں ٹانک دیا ہے۔ اس رسالے میں آغا صاحب بڑی عجیب و نایاب قسم کی چیزیں چھاپتے ہیں‘ میری دو کتابیں بھی سپتنک کے رسالوں میں شائع ہو چکی ہیں‘ اس رسالے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی حیرت انگیز کم قیمت ہے۔ اس مرتبہ اس رسالے میں لکھنؤ عظیم آباد کے راندئہ درگاہ اور متنازعہ شاعر مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا ذکر ہے‘ وہ 1884ء میں پیدا ہوئے اور 1956ء میں فوت ہوئے‘ وہ کچھ عرصہ کے لئے پاکستان بھی آئے‘ لاہور و کراچی میں مشاعرے پڑھے‘ ایک بار ہمارے صوبے میں کاکول کے مقام پر مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔
انکی تصانیف کے نام نشتر یاس‘ چراغ سخن‘ آیات وجدانی‘ غالب شکن ترانہ اور گنجینہ ہے۔ وہ انتہائی خود پرست اور انسان شکن قسم کے آدمی تھے‘ اپنے سوا دنیا میں کسی کو شاعر نہیں مانتے تھے‘ غالب شکنی ان کی وجۂ شہرت بنی ورنہ ان کا نام تک کوئی نہ جانتا نہ لیتا۔ ان کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ہندوستان کی ادبی دنیا میں بیسویں صدی کا سخنور علی الاطلاق تنہا شاعر‘ آرٹسٹ اور جینئس مرزا یگانہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ٹھہر سکتا۔ ان کی طبیعت میں انکساری‘ خاکساری‘ وضع داری اور دوسروں کا احترام نام کو نہ تھا‘ اسی وجہ سے ان کو آخری عمر میں گھسیٹ کر گدھے پر سوار کر کے منہ کالا کر کے سارے لکھنؤ شہر میں پھرایا گیا مگر پھر بھی ان میں عقل نہ آئی۔
وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے‘ وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب چنگیز خان کے نام معنون کی۔ ان کا سر ساری زندگی فخر سے تنا رہا‘ جیل کی ہوا بھی کھائی مگر ٹین نہ ٹوٹی‘ نہ ہندوستان میں ان کو گھاس ڈالی گئی نہ پاکستان میں۔ بلکہ صرف گھاس ہی ڈالی گئی اور وہ اس گدھے کے لئے تھی جس پر بٹھا کر لکھنؤ میں ان کا جلوس نکالا گیا۔ وہ اقبال کو بھی شاعر نہیں مانتے تھے‘ فراق لکھنوی کے بارے میں لکھا کہ شعر و شعریت پر لیکچر دینے والے تو بہت ہیں مگر آپ (فراق) نے یہ بھی کہیں پڑھا ہے کہ شعر گوئی کے اصول اور اس کے گر کیا ہیں۔
حسرت موہانی کے بارے میں رقم طراز ہوئے‘ ان کی شاعری کچھ ایسی بلند تو نہیں البتہ غیر شاعرانہ وجوہ کی بناء پر انہیں چمکانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ کوئی شریف آدمی خواہ وہ کتنا ہی خوش مزاج اور بہت سے حج کر چکا ہو یہ کیا ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے اسے بڑا شاعر بنا دیا جائے۔ اصغر گونڈوی کے بارے میں لکھتے ہیں ایک گنوار گونڈوی کو یگانہ کا مدمقابل نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ جوش ملیح آبادی کے بارے میں فرمان ہے جوش اس دور کا جینئس شاعر ہے مگر بھٹکا ہوا اور فن شعر میں ناقص‘ جگر مراد آبادی کے بارے میں کہتے ہیں اناڑی موزوں طبع‘ غرض ان کے قلم کی زد سے کوئی نہیں بچا۔ ان کی آل اولاد پاکستان میں ہے اور بڑے عہدوں پر کام کر رہی ہے۔
یگانہ کو کہیں کام کی مستقل ملازمت نہیں ملی‘ ہر جگہ سے نکالے گئے‘ خود سری اور بدمستی کے کارن دلّی‘ لکھنؤ‘ لاہور سب شہروں میں ان کا سماجی مقاطعہ ہوا‘ مزے کی بات ہے کہ جن باتوں کو وہ شاعری کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک بھی ان کے اپنے کلام میں نہیں۔ ان کا ایک شعر یاد رکھنے کے قابل نہیں‘ وہ شاعری کے لئے مردانگی کو اعلیٰ مقام بخشتے ہیں مگر لاثانی اور آل ٹائم گریٹ علامہ اقبال کی شاعری کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں‘ اقبال کی شاعری اعلیٰ ترین مردانگی اور علم و فضل کی وجہ سے ہی بڑی شاعری سمجھی جاتی ہے۔ میں نے یگانہ کے بارے میں کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی مگر اب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ زمانے نے وہی سلوک کیا جس کے وہ مستحق تھے۔
آج آپ کو ایک منفرد مگر رسوائے زمانہ شاعر کی باتیں سناتا ہوں‘ حال ہی میں ان پر ایک کتاب رسالے کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ لاہور سے ایک سستا رسالہ کتاب کی صورت میں ہر ماہ نکلتا ہے‘ نام ہے سپتنک‘ 160 صفحات کا رسالہ کافی ضخیم کہلاتا ہے اور قیمت محض 30 روپے فی رسالہ۔ اسے میرے اَن دیکھے مہربان آغا امیر حسین کلاسک پبلشرز ریگل چوک مال روڈ لاہور سے نکالتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ ہزاروں کی تعداد میں بک جاتا ہے۔ اس کے چیئرمین پنجاب کے سابق گورنر شاہد حامد ہیں‘ بڑے بڑے ادیب شاعر اس کی مجلس ادارت میں شامل ہیں
پتہ نہیں کس خیال سے آغا صاحب نے میرا نام بھی مجلس ادارت میں ٹانک دیا ہے۔ اس رسالے میں آغا صاحب بڑی عجیب و نایاب قسم کی چیزیں چھاپتے ہیں‘ میری دو کتابیں بھی سپتنک کے رسالوں میں شائع ہو چکی ہیں‘ اس رسالے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی حیرت انگیز کم قیمت ہے۔ اس مرتبہ اس رسالے میں لکھنؤ عظیم آباد کے راندئہ درگاہ اور متنازعہ شاعر مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا ذکر ہے‘ وہ 1884ء میں پیدا ہوئے اور 1956ء میں فوت ہوئے‘ وہ کچھ عرصہ کے لئے پاکستان بھی آئے‘ لاہور و کراچی میں مشاعرے پڑھے‘ ایک بار ہمارے صوبے میں کاکول کے مقام پر مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔
انکی تصانیف کے نام نشتر یاس‘ چراغ سخن‘ آیات وجدانی‘ غالب شکن ترانہ اور گنجینہ ہے۔ وہ انتہائی خود پرست اور انسان شکن قسم کے آدمی تھے‘ اپنے سوا دنیا میں کسی کو شاعر نہیں مانتے تھے‘ غالب شکنی ان کی وجۂ شہرت بنی ورنہ ان کا نام تک کوئی نہ جانتا نہ لیتا۔ ان کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ہندوستان کی ادبی دنیا میں بیسویں صدی کا سخنور علی الاطلاق تنہا شاعر‘ آرٹسٹ اور جینئس مرزا یگانہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ٹھہر سکتا۔ ان کی طبیعت میں انکساری‘ خاکساری‘ وضع داری اور دوسروں کا احترام نام کو نہ تھا‘ اسی وجہ سے ان کو آخری عمر میں گھسیٹ کر گدھے پر سوار کر کے منہ کالا کر کے سارے لکھنؤ شہر میں پھرایا گیا مگر پھر بھی ان میں عقل نہ آئی۔
وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے‘ وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب چنگیز خان کے نام معنون کی۔ ان کا سر ساری زندگی فخر سے تنا رہا‘ جیل کی ہوا بھی کھائی مگر ٹین نہ ٹوٹی‘ نہ ہندوستان میں ان کو گھاس ڈالی گئی نہ پاکستان میں۔ بلکہ صرف گھاس ہی ڈالی گئی اور وہ اس گدھے کے لئے تھی جس پر بٹھا کر لکھنؤ میں ان کا جلوس نکالا گیا۔ وہ اقبال کو بھی شاعر نہیں مانتے تھے‘ فراق لکھنوی کے بارے میں لکھا کہ شعر و شعریت پر لیکچر دینے والے تو بہت ہیں مگر آپ (فراق) نے یہ بھی کہیں پڑھا ہے کہ شعر گوئی کے اصول اور اس کے گر کیا ہیں۔
حسرت موہانی کے بارے میں رقم طراز ہوئے‘ ان کی شاعری کچھ ایسی بلند تو نہیں البتہ غیر شاعرانہ وجوہ کی بناء پر انہیں چمکانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ کوئی شریف آدمی خواہ وہ کتنا ہی خوش مزاج اور بہت سے حج کر چکا ہو یہ کیا ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے اسے بڑا شاعر بنا دیا جائے۔ اصغر گونڈوی کے بارے میں لکھتے ہیں ایک گنوار گونڈوی کو یگانہ کا مدمقابل نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ جوش ملیح آبادی کے بارے میں فرمان ہے جوش اس دور کا جینئس شاعر ہے مگر بھٹکا ہوا اور فن شعر میں ناقص‘ جگر مراد آبادی کے بارے میں کہتے ہیں اناڑی موزوں طبع‘ غرض ان کے قلم کی زد سے کوئی نہیں بچا۔ ان کی آل اولاد پاکستان میں ہے اور بڑے عہدوں پر کام کر رہی ہے۔
یگانہ کو کہیں کام کی مستقل ملازمت نہیں ملی‘ ہر جگہ سے نکالے گئے‘ خود سری اور بدمستی کے کارن دلّی‘ لکھنؤ‘ لاہور سب شہروں میں ان کا سماجی مقاطعہ ہوا‘ مزے کی بات ہے کہ جن باتوں کو وہ شاعری کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک بھی ان کے اپنے کلام میں نہیں۔ ان کا ایک شعر یاد رکھنے کے قابل نہیں‘ وہ شاعری کے لئے مردانگی کو اعلیٰ مقام بخشتے ہیں مگر لاثانی اور آل ٹائم گریٹ علامہ اقبال کی شاعری کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں‘ اقبال کی شاعری اعلیٰ ترین مردانگی اور علم و فضل کی وجہ سے ہی بڑی شاعری سمجھی جاتی ہے۔ میں نے یگانہ کے بارے میں کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی مگر اب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ زمانے نے وہی سلوک کیا جس کے وہ مستحق تھے۔