ابو المیزاب اویس
محفلین
تذکرہِ سیّدنا امام حُسین بن علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم و رضی اللہ عنہ
عجب تھی فرخ و مسعود چوتھی سال ہجری کی
خوشی تھی رات دن دونی جنابِ فاطمہ بی کی
طرب افروز تھا دن پانچ شعبان المعظم کا
کہ قصرِ سیّدہ زہرہ سے خورشیدِ شرف چمکا
حُسین ابنِ علی تشریف لائے بزمِ ہستی میں
مئے جامِ نجف آنکھوں سے ٹپکی جوشِ مستی میں
ولادت کی خبر گوشِ رسولِ پاک تک پہونچی
زمیں سے عیشِ سرمد کی صدا افلاک تک پہونچی
شفق پھولی فضائے چرخ پر انوارِ قدرت کی
ہوئی پھولوں سے سرخی رونما رنگِ شہادت کی
عروسِ فتح نے دُرِّ نجف کا مینہہ برسایا
پھریرا نصرتِ حق کا زمانہ بھر میں لہرایا
فرشتے خیر مقدم کے لئے زہرا کے گھر آئے
مدینہ کی زمیں پہ عرش کے تارے نظر آئے
تجمل دیکھ کر نُورِ نظر کے روئے روشن کا
رسول اللہ نے بوسہ لیا بچہ کی گردن کا
مبارکباد دی روح الامیں نے عرش سے آکر
سُرور اندوز تھے ہمراہ سلطانِ رسل حیدر
لبِ جبریل سے حق کا سنا پیغام سرور نے
حُسین اس چاند سے بیٹے کا رکھا نام سرور نے
رہے شبّیر بطنِ والدہ میں چھ مہینے تک
کفِ پا سے تھے ہمشکلِ رسولِ پاک سینے تک
سراپا نور تھے، نورِ نبی تھے نور کی صورت
جبینِ پاک روشن تھی چراغِ طور کی صورت
ازل سے آپ تھے ظلِ جمالِ حضرتِ یحیٰی
ہر اِک خو آپکی تھی ہم خیالِ حضرتِ یحیٰی
رہے چھ ماہ وہ بھی اور یہ بھی بطنِ مادر میں
ہوئے دونوں شہید، اللہ اکبر راہِ داور میں
سکون و صبر و تسلیم و رضا دونوں میں یکساں تھے
وہ پیغمبر تھے سچے اور یہ سچے مسلماں تھے
حُسین پاک آئینہ دارِ حُسنِ مُصطفائی تھے
حُسین اِک مطلعِ انوارِ ذاتِ کبریائی تھے
علی کے لختِ دل، زہرا کے نور العین درپردہ
تھے محبوبِ خدا کی گودیوں کے نازپروردہ
حُسین ابنِ علی کا اوج و رفعت کوئی کیا جانے
حَسن جانے، علی جانے، نبی جانے، خدا جانے
عجب تھی فرخ و مسعود چوتھی سال ہجری کی
خوشی تھی رات دن دونی جنابِ فاطمہ بی کی
طرب افروز تھا دن پانچ شعبان المعظم کا
کہ قصرِ سیّدہ زہرہ سے خورشیدِ شرف چمکا
حُسین ابنِ علی تشریف لائے بزمِ ہستی میں
مئے جامِ نجف آنکھوں سے ٹپکی جوشِ مستی میں
ولادت کی خبر گوشِ رسولِ پاک تک پہونچی
زمیں سے عیشِ سرمد کی صدا افلاک تک پہونچی
شفق پھولی فضائے چرخ پر انوارِ قدرت کی
ہوئی پھولوں سے سرخی رونما رنگِ شہادت کی
عروسِ فتح نے دُرِّ نجف کا مینہہ برسایا
پھریرا نصرتِ حق کا زمانہ بھر میں لہرایا
فرشتے خیر مقدم کے لئے زہرا کے گھر آئے
مدینہ کی زمیں پہ عرش کے تارے نظر آئے
تجمل دیکھ کر نُورِ نظر کے روئے روشن کا
رسول اللہ نے بوسہ لیا بچہ کی گردن کا
مبارکباد دی روح الامیں نے عرش سے آکر
سُرور اندوز تھے ہمراہ سلطانِ رسل حیدر
لبِ جبریل سے حق کا سنا پیغام سرور نے
حُسین اس چاند سے بیٹے کا رکھا نام سرور نے
رہے شبّیر بطنِ والدہ میں چھ مہینے تک
کفِ پا سے تھے ہمشکلِ رسولِ پاک سینے تک
سراپا نور تھے، نورِ نبی تھے نور کی صورت
جبینِ پاک روشن تھی چراغِ طور کی صورت
ازل سے آپ تھے ظلِ جمالِ حضرتِ یحیٰی
ہر اِک خو آپکی تھی ہم خیالِ حضرتِ یحیٰی
رہے چھ ماہ وہ بھی اور یہ بھی بطنِ مادر میں
ہوئے دونوں شہید، اللہ اکبر راہِ داور میں
سکون و صبر و تسلیم و رضا دونوں میں یکساں تھے
وہ پیغمبر تھے سچے اور یہ سچے مسلماں تھے
حُسین پاک آئینہ دارِ حُسنِ مُصطفائی تھے
حُسین اِک مطلعِ انوارِ ذاتِ کبریائی تھے
علی کے لختِ دل، زہرا کے نور العین درپردہ
تھے محبوبِ خدا کی گودیوں کے نازپروردہ
حُسین ابنِ علی کا اوج و رفعت کوئی کیا جانے
حَسن جانے، علی جانے، نبی جانے، خدا جانے