مرکز کا سوئے قوس سفر کیسا لگے گا

الف نظامی

لائبریرین
مرکز کا سوئے قوس سفر کیسا لگے گا
دریا کا سوئے تشنہ گزر کیسا لگے گا

جو پہلی ہی منزل میں تھا مسجود ملائک
معراج کی شب کو وہ بشر کیسا لگے گا

افلاک کی یخ بستہ و بے رنگ فضا میں
بجتا ہوا جذبوں کا گجر کیسا لگے گا

سدرہ پہ یہ جبریل امیں سوچ رہا ہے
امت کے تہِ پا مرا پر کیسا لگے گا

رہتے تھے جو آغوش تخیل میں ہمیشہ
آجائیں اگر پیش نظر کیسا لگے گا

ہونٹوں پہ میرے شکوۂ ہجراں کا تسلط
ایسے میں وہ آجائیں اگر کیسا لگے گا

آئیں گے نظر بھی تو خبر کس کو رہے گی
کیا جانئے وہ رشک قمر کیسا لگے گا

پڑ جائے اگر مجھ پہ نظر کیسی لگوں گی
گر جائے جو قدموں میں یہ سر کیسا لگے گا

بالوں میں مرے سلک درر کیسی رہے گی
گردن میں مرے عقد گہر کیسا لگے گا

تعظیم کو خم ہوتی کمر کیسی لگے گی
دیدار کو اٹھتا ہو سر کیسا لگے

جی میں ہے کہ ساتھ ان کے چلی جاوں یہاں سے
ہو ان کی گلی میں میرا گھر کیسا لگے گا

اوڑھوں گی غبار رہ بطحا کی چنریا
اس رنگ میں طے ہو یہ سفر کیسا لگے گا
(نذر صابری)
 

الشفاء

لائبریرین
رہتے تھے جو آغوش تخیل میں ہمیشہ
آجائیں اگر پیش نظر کیسا لگے گا

واہ۔ سبحان اللہ۔۔۔
 
Top