مری دسترس میں ہے گر قلم، مجھے حسنِ فکر و خیال دے ۔ (عالم تاب تشنہ)

فاتح

لائبریرین
مری دسترس میں ہے گر قلم، مجھے حسنِ فکر و خیال دے
مجھے تاجدارِ سخن بنا، مجھے اعتبارِ کمال دے

مری شاخِ شعر رہے ہری، دے مرے سخن کو صنوبری
مری جھیل میں بھی کنول کھِلا، مری گُدڑیوں کو بھی لعل دے

تری بخششوں میں ہے سروری، ہو عطا مجھے بھی قلندری
جو اُٹھے تو دستِ دعا لگے، مجھے ایسا دستِ سوال دے

رگِ جاں میں جمنے لگا لہو، اِسے مشک بننے کی آرزو
ہے اداس دشتِ تتارِ دل، اسے پھر سے لنگِ غزال دے

کوئی بات عقرب و شمس کی، کوئی ذکرِ زہرہ و مشتری
تُو بڑا ستارہ شناس ہے، مجھے کوئی اچھی سی فال دے

ہیں یہ جسم و جاں کی قیود کیا؟ خد و خال کی یہ حدود کیا
میں ہوں عکسِ منظرِ ماورا، مجھے آئینوں سے نکال دے

میں وہی ہوں تشنۂ با وفا، مرا آج بھی وہی مدّعا
نہ فراق دے مجھے مستقل، نہ مجھے ہمیشہ وصال دے

(عالم تاب تشنہ)
 
Top