مری گردن پہ گرتے ہیں تو خنجر ٹوٹ جاتے ہیں - کرامت علی کرامت

کاشفی

محفلین
غزل
(کرامت علی کرامت - اڑیسہ، ہندوستان)

مری گردن پہ گرتے ہیں تو خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
جو دشمن مجھ سے ٹکراتے ہیں اکثر ٹوٹ جاتے ہیں

کبھی ساحل سے ٹکرا کر مری کشتی بکھرتی ہے
کبھی کشتی سے ٹکرا کر سمندر ٹوٹ جاتے ہیں

اک ایسا دور بھی آتا ہے کوشش کے علاقے میں
عمل بیکار ہوتا ہے، مقدر ٹوٹ جاتے ہیں

یہ دل ہے، ہاتھ میں لینے سے پہلے یہ سمجھ رکھو
ذرا سی ٹھیس لگ جانے سے ساغر ٹوٹ جاتے ہیں

جو تصویریں بناتا ہوں، وہ میرا منہ چڑاتی ہیں
اُبھرتے ہیں تصور میں جو پیکر ٹوٹ جاتے ہیں

تکبر اک بری شے ہے، اِسے سر پر نہ بٹھلاؤ
جو سر اوپر اُوچھلتے ہیں، وہی سر ٹوٹ جاتے ہیں

نَفَس میں نَفَس ملتا ہے تو ایمان ڈگمگاتا ہے
جہاں اُمت بہکتی ہے، پیمبر ٹوٹ جاتے ہیں


کرامت خواب میں یوں خواب کا منظر نہ دیکھو تم
حقیقت جاگ اُٹھتی ہے تو منظر ٹوٹ جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ماخذ اس کا، ویسے ماشاء اللہ تمہاری معلومات بہت اچھی ہے، شاعر کے نام کے ساتھ اس کی ملکیت اور صوبائیت کا بھی علم ہے۔ کرامت صاحب کٹک کے ہیں، ریاضی کے پروفیسر تھے غالباً، اب ریٹائرڈ ہیں۔ ’شاخسار‘ کے کبھی مدیر تھے جو عرصے سے مرحوم ہے۔ 
 

کاشفی

محفلین
ماخذ اس کا، ویسے ماشاء اللہ تمہاری معلومات بہت اچھی ہے، شاعر کے نام کے ساتھ اس کی ملکیت اور صوبائیت کا بھی علم ہے۔ کرامت صاحب کٹک کے ہیں، ریاضی کے پروفیسر تھے غالباً، اب ریٹائرڈ ہیں۔ ’شاخسار‘ کے کبھی مدیر تھے جو عرصے سے مرحوم ہے۔ 

ہندوستان سے شائع ہونے والا ایک اردو جریدہ اس غزل کا ماخذ ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ بابا جانی۔۔ خوش رہیں۔۔سدا۔۔ :happy:
 

کاشفی

محفلین
شکریہ دوست کراچی کب آنا ہورہا ہے ، میں‌تو سوکھ گیا ہوں انتظار میں ،

م م مغل بھائی۔۔۔ بھائی سے اب دوست بنا دیا بہت خوب۔۔۔ :happy: ۔۔ کراچی تو آرہا ہوں لیکن سرپرائز دونگا۔۔آنے سے پہلے بتا دونگا کہ کب آرہا ہوں۔۔۔لیکن جب ملونگا تو پٹائی مت کیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :grin:
 
Top