یاسر شاہ
محفلین
غزل
مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا
ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو
میں تری طلب ترے شوق میں درِ آشیاں سے گزر گیا
ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر
بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر گیا
کبھی ہو سکی نہ مجاوری مجھ سے کسی بھی مزار کی
مری آستین پکڑ کے ذوق ہر اک آستاں سے گزر گیا
وہ نظامِ کفر کی تھی جو دھاک نہ تھی بیشتر از مشتِ خاک
کوئی دھول آنکھوں میں جھونک کر صفِ دشمناں سے گزر گیا
وہ جو شاہِ خانہ خراب تھا نہ تھا کام کا پہ بقولِ فیض
جو رکا تو کوہِ گراں تھا اک جو چلا تو جاں سے گزر گیا
مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا
ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو
میں تری طلب ترے شوق میں درِ آشیاں سے گزر گیا
ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر
بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر گیا
کبھی ہو سکی نہ مجاوری مجھ سے کسی بھی مزار کی
مری آستین پکڑ کے ذوق ہر اک آستاں سے گزر گیا
وہ نظامِ کفر کی تھی جو دھاک نہ تھی بیشتر از مشتِ خاک
کوئی دھول آنکھوں میں جھونک کر صفِ دشمناں سے گزر گیا
وہ جو شاہِ خانہ خراب تھا نہ تھا کام کا پہ بقولِ فیض
جو رکا تو کوہِ گراں تھا اک جو چلا تو جاں سے گزر گیا