مجھ سمیت کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سالم بحروں میں تو تسبیغ و ازالہ کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے روانی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
تسکینِ اوسط کا اصول بھی عجیب سا ہے۔ اگر یہ اصول اتنا ہی ضروری تو اس کی مثالیں جا بجا نظر آنی چاہیئیں لیکن ایسا نہیں ہے، سوائے شیخ سعدی کی مشہور دو بیتی کے اور کوئی مثال نظر نہیں آتی، جو پیش کی جاتی بھی ہیں ان پر بھی سہوِ کاتب کا گمان ہوتا ہے ۔ میرے نزدیک شاعری نام ہی مترنم کلام کا ہے جو اصول روانی کو متاثر کرے اسے ردی کی ٹوکری کے نذر کرنا چاہیے۔
ریحان ، آپ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور اس حقیقت اور تضاد کی عکاسی کرتی ہے کہ بعض عروضی اجازتیں صرف اجازتیں ہی ہیں ، شاعری میں ان اجازتوں کا استعمال نظر نہیں آتا ۔ بحیثیت ایک شاعر مجھے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے استعمال سے روانی متاثر ہوتی ہے ۔ یا پھر عین ممکن ہے کہ یہ اجازتیں عربی زبان کے حساب سے قابلِ اطلاق ہوں لیکن اردو میں ان کے استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ مثلاً رمل مثمن سالم مخبون محذوف اور مثمن مخبون محذوف دونوں میں فعلاتن کو تسکینِ اوسط کے ذریعے مفعولن میں بدلا جاسکتا ہے لیکن اردو میں شاید ہی کسی شاعر نے کبھی ایسا کیا ہو ۔ حالانکہ یہ نہایت ہی کثیرالاستعمال بحور ہیں ۔ میری نظر سے اردو میں ایسی کوئی مثال نہیں گزری ۔
اسی طرح مجھے بحر کامل مثمن سالم میں اذالہ کے استعمال کی کہیں کوئی مثال نظر نہیں آتی اگرچہ عام عروضی اصول کے تحت ایسا کرنا ناجائز نہیں ہے ۔ اور وجہ اس کی یہ کہ اس بحر کی تمامتر خوبصورتی ہی متفاعلن کی تکرار میں ہے ۔ میں نے بھی کامل مثمن سالم میں کئی غزلیں لکھی ہیں لیکن کبھی اذالہ کے استعمال کی ضروت پیش نہیں آئی۔ بلکہ اس بحر کو مذال رکن پر ختم کرنا نہایت ہی عجیب لگے گا۔
اسی طرح اگرچہ تمام عروضی کتب نے لکھا ہے کہ کامل مثمن سالم میں کسی بھی متفاعلن کو مستفعلن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ کسی بھی مصرع میں ایک سے زیادہ رکن پر تسکین اوسط لگانا درست نہیں ہے کہ اس طرح نہ صرف روانی متاثر ہوتی ہے بلکہ وزن بھی بدل جاتا ہے ۔ اگر تمام ارکان کو تبدیل کردیا جائے تو مستعفلن 4x تو پھر رجز میں تبدیل ہوجائے گی۔ جبکہ تسکین اوسط کا ایک عام اصول یہ ہے کہ اس کے استعمال سے بحر نہیں بدلنی چاہیئے۔ پھر یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ کامل مثمن سالم میں ایک سے زیادہ ارکان پر تسکین اوسط کی مثالیں اساتذہ کے ہاں نہیں ملتی ہیں ۔
واللّٰہ اعلم باالصواب۔