مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

علی وقار

محفلین
مطلع میں «ابھی» کی جگہ «یہی»،کیسا لگے گا اور« در آشیاں» کی جگہ «حد آشیاں» یعنی دال بلاتشدید کیسا رہے گا۔
شاہ صاحب! ایک جگہ میں نے ، خلدِ آشیاں ٰ پڑھا تھا، در اور حد کے ساتھ آشیاں نہیں پڑھا، شاید چل سکتا ہو، محترم الف عین، ظہیر بھائی، عاطف بھائی یا وارث بھائی بتا پائیں گے۔ میرے خیال میں، حد آشیاں کی بجائے غم آشیاں بھی چل سکتا ہے اگر معنی میں بڑا فرق نہ پڑے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ماننا پڑے گا ان دونوں باتوں میں آپ کی وزن ہے۔جزاک اللہ خیر
مطلع میں «ابھی» کی جگہ «یہی»،کیسا لگے گا اور« در آشیاں» کی جگہ «حد آشیاں» یعنی دال بلاتشدید کیسا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین عطا کرے ۔آمین۔
میں سمجھتا ہوں کہ مطلع میں یہی بہت خوب رہے گا۔
یاسر ، آشیاں کے ساتھ در و دیوار یا حد وغیرہ کی اضافی ترکیب مجھے مناسب نہیں لگتی کہ آشیاں ایک چھوٹی سی چیز ہے اور اس قسم کی صفات سے مبرا ہوتی ہے ۔ آْپ نے میری رائے پوچھی ہے تو ایک اور بات جو میرے ناقص خیال میں غور طلب ہے وہ یہ کہ شعر میں کسی مناسب سیاق و سباق کے بغیر اچانک آشیاں کا استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اگر شعر میں طائر ، پرواز ، آب و دانہ ، بال وپر وغیرہ کا کوئی ذکر یا اشارہ ہوتا تو آشیاں برمحل ہوتا لیکن پہلے مصرع سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بات آدمی کی ہورہی ہے۔ میری رائے میں اس قافیے کو دوبارہ دیکھ لیں تو بہتر ہوگا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شاہ صاحب! ایک جگہ میں نے ، خلدِ آشیاں ٰ پڑھا تھا، در اور حد کے ساتھ آشیاں نہیں پڑھا، شاید چل سکتا ہو، محترم الف عین، ظہیر بھائی، عاطف بھائی یا وارث بھائی بتا پائیں گے۔ میرے خیال میں، حد آشیاں کی بجائے غم آشیاں بھی چل سکتا ہے اگر معنی میں بڑا فرق نہ پڑے۔
علی ، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یاسر شاہ صاحب اپنے شعر میں خدا سے مخاطب ہیں اور یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اے خدا میں تری راہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل گیا ہوں اس لیے اگر کبھی گھر واپسی میں دیر ہوجائے تو میرے اہلِ خانہ کو اپنی امان میں رکھنا۔ چنانچہ غمِ آشیاں کی ترکیب سے یہ مطلب ادا نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اس شعر میں آشیاں کا لفظ میری ناقص رائے میں بقیہ شعر سے مربوط نہیں ہے ۔ تفصیل کے لیے اس لڑی کا مراسلہ نمبر 22 دیکھ لیجیے۔
 
وہ جو کفر کی بڑی دھاک تھی نہ تھی کچھ ذرا سی وہ خاک تھی
مصرع رواں نہیں، کچھ ایسا کہہ کر دیکھیں:

جو نظامِ کفر کی دھاک تھی، نہ تھی کچھ ذرا سی وہ خاک تھی
جیسا کہ آپ نے کہا کامل مثمن سالم چونکہ مقطع بحر نہیں ہے اس لیے ایسا نہیں کیا جاسکتا ۔ صرف مصرع کے آخر ی رکن میں ایک ساکن اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔
مجھ سمیت کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سالم بحروں میں تو تسبیغ و اذالہ کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے روانی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
دوم، یہ کہ اس بحر میں چاروں میں سے کسی بھی متفاعلن کو تسکین اوسط زحاف کی مدد سے مستفعلن سے بدلا جا سکتا ہے جیسا کہ شاہ صاحب نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا ایک مشہور شعر لکھا بھی۔دیگر مثالیں بھی تلاش کرنے پر مل جائیں گی۔
تسکینِ اوسط کا اصول بھی عجیب سا ہے۔ اگر یہ اصول اتنا ہی ضروری ہے تو اس کی مثالیں جا بجا نظر آنی چاہیئیں لیکن ایسا نہیں ہے، سوائے شیخ سعدی کی مشہور دو بیتی کے اور کوئی مثال نظر نہیں آتی، جو پیش کی جاتی بھی ہیں ان پر بھی سہوِ کاتب کا گمان ہوتا ہے ۔ میرے نزدیک شاعری نام ہی مترنم کلام کا ہے جو اصول روانی کو متاثر کرے اسے ردی کی ٹوکری کے نذر کرنا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھ سمیت کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سالم بحروں میں تو تسبیغ و ازالہ کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے روانی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

تسکینِ اوسط کا اصول بھی عجیب سا ہے۔ اگر یہ اصول اتنا ہی ضروری تو اس کی مثالیں جا بجا نظر آنی چاہیئیں لیکن ایسا نہیں ہے، سوائے شیخ سعدی کی مشہور دو بیتی کے اور کوئی مثال نظر نہیں آتی، جو پیش کی جاتی بھی ہیں ان پر بھی سہوِ کاتب کا گمان ہوتا ہے ۔ میرے نزدیک شاعری نام ہی مترنم کلام کا ہے جو اصول روانی کو متاثر کرے اسے ردی کی ٹوکری کے نذر کرنا چاہیے۔

ریحان ، آپ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور اس حقیقت اور تضاد کی عکاسی کرتی ہے کہ بعض عروضی اجازتیں صرف اجازتیں ہی ہیں ، شاعری میں ان اجازتوں کا استعمال نظر نہیں آتا ۔ بحیثیت ایک شاعر مجھے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے استعمال سے روانی متاثر ہوتی ہے ۔ یا پھر عین ممکن ہے کہ یہ اجازتیں عربی زبان کے حساب سے قابلِ اطلاق ہوں لیکن اردو میں ان کے استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ مثلاً رمل مثمن سالم مخبون محذوف اور مثمن مخبون محذوف دونوں میں فعلاتن کو تسکینِ اوسط کے ذریعے مفعولن میں بدلا جاسکتا ہے لیکن اردو میں شاید ہی کسی شاعر نے کبھی ایسا کیا ہو ۔ حالانکہ یہ نہایت ہی کثیرالاستعمال بحور ہیں ۔ میری نظر سے اردو میں ایسی کوئی مثال نہیں گزری ۔
اسی طرح مجھے بحر کامل مثمن سالم میں اذالہ کے استعمال کی کہیں کوئی مثال نظر نہیں آتی اگرچہ عام عروضی اصول کے تحت ایسا کرنا ناجائز نہیں ہے ۔ اور وجہ اس کی یہ کہ اس بحر کی تمامتر خوبصورتی ہی متفاعلن کی تکرار میں ہے ۔ میں نے بھی کامل مثمن سالم میں کئی غزلیں لکھی ہیں لیکن کبھی اذالہ کے استعمال کی ضروت پیش نہیں آئی۔ بلکہ اس بحر کو مذال رکن پر ختم کرنا نہایت ہی عجیب لگے گا۔
اسی طرح اگرچہ تمام عروضی کتب نے لکھا ہے کہ کامل مثمن سالم میں کسی بھی متفاعلن کو مستفعلن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ کسی بھی مصرع میں ایک سے زیادہ رکن پر تسکین اوسط لگانا درست نہیں ہے کہ اس طرح نہ صرف روانی متاثر ہوتی ہے بلکہ وزن بھی بدل جاتا ہے ۔ اگر تمام ارکان کو تبدیل کردیا جائے تو مستعفلن 4x تو پھر رجز میں تبدیل ہوجائے گی۔ جبکہ تسکین اوسط کا ایک عام اصول یہ ہے کہ اس کے استعمال سے بحر نہیں بدلنی چاہیئے۔ پھر یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ کامل مثمن سالم میں ایک سے زیادہ ارکان پر تسکین اوسط کی مثالیں اساتذہ کے ہاں نہیں ملتی ہیں ۔
واللّٰہ اعلم باالصواب۔
 
غزل

مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا
ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا


کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو
میں تری طلب ترے شوق میں درِ آشیاں سے گزر گیا


ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر
بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر گیا


کبھی ہو سکی نہ مجاوری مجھ سے کسی بھی مزار کی
مری آستین پکڑ کے ذوق ہر اک آستاں سے گزر گیا


وہ نظامِ کفر کی تھی جو دھاک نہ تھی بیشتر از مشتِ خاک
کوئی دھول آنکھوں میں جھونک کر صفِ دشمناں سے گزر گیا


وہ جو شاہِ خانہ خراب تھا نہ تھا کام کا پہ بقولِ فیض
جو رکا تو کوہِ گراں تھا اک جو چلا تو جاں سے گزر گیا​
یاسر بھائی ، آپ کی غزل دیکھ کر دو ایک نکات ذہن میں آئے تھے ، لیکن ان پر پہلے ہی گفتگو ہو چکی ہے لہٰذا میری جانب سے صرف داد حاضر ہے .
 

جاسمن

لائبریرین
یقین مانیں غزل کے بعد کی بحث پڑھ پڑھ کے میں چکرا گئی ہوں۔ غزل دوبارہ پڑھنی پڑی کہ اب یاد ہی نہیں آ رہا تھا کہ غزل کیسی لگی۔ اپنی رائے پہ نظر ثانی بھی کی۔۔۔ پھر اپنی آزمودہ ترکیب آزمائی ۔۔۔ بھئی ہم تو ان بکھیڑوں میں نہیں پڑتے۔ شعر کہہ کے ترنم سے گا کے دیکھتے ہیں۔۔۔ ترنم سے گائے جائیں تو واہ واہ ورنہ لفظوں کی جگہ شگہ بدل کے گانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لو جی آسان طریقہ۔۔۔
:):):)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
شعر کہہ کے ترنم سے گا کے دیکھتے ہیں۔۔۔ ترنم سے گائے جائیں تو واہ واہ ورنہ لفظوں کی جگہ شگہ بدل کے گانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لو جی آسان طریقہ۔۔۔
:):):)
اور بھائی صاحب سمجھتے ہوں گے کہ آپ ان کے لیے گنگنا رہی ہیں 🙂
 
Top