پیرس
دن ڈھلا کوچہ و بازار میں صف بستہ ہوئیں
زرد رُو روشنیاں
ان میں ہر ایک کے کشکول سے برسیں رم جھم
اس بھرے شہر کی ناسودگیاں
دور پس منظرِ افلاک میں دھندلانے لگے
عظمتِ رفتہ کے نشاں
پیش منظر میں
کسی سایۂ دیوار سے لپٹا ہوا سایہ کوئی
دوسرے سائے کی موہوم سی امید لیے
روزمرہ کی طرح
زیرِ لب
شرحِ بےدردیِ ایّام کی تمہید لیے
اور کوئی اجنبی
ان روشنیوں سایوں سے کتراتا ہوا
اپنے بے خواب شبستاں کی طرف جاتا ہوا
پیرس ، اگست 1979