عرفان سعید
محفلین
(فراز سے معذرت کے ساتھ)
مرے رقیب اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو غصے سے ہم ان کو بپھر کے دیکھتے ہیں
بری ہے حالت اس کی خراب بالوں سے
اسے تو گنجا نائی سے کر کے دیکھتے ہیں
دکاں پھلوں کی لگا رکھی اس کے ابا نے
سو ہم بھی اک دو خربوزے چر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب چلے تو سر سے بال جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو ابھی دوڑا کر کے دیکھتے ہیں
گلی میں کھڑکی اس کی میں تکتا رہتا ہوں
تو بھائی اس کے مجھے خوب اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے مکھیاں ستاتی ہیں
بدن کو رات میں مچھر کتر کے دیکھتے ہیں
نہا کے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
تو پہلوان اسے مونچھیں کتر کے دیکھتے ہیں
قمر کے حسن کا جب ذکر چھیڑا تھا اس سے
وہ روز زاویے اپنی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کو خراش ایسی ہے
مساج والے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو مکھیاں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو کچھوے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
نکاح کا میں نے پھل کھایا تھا زبردستی
تو روز لڑ کے شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لڑتے ہیں میاں بیوی ساتھ والے بہت
تو غصے سے ہم ان کو بپھر کے دیکھتے ہیں
بری ہے حالت اس کی خراب بالوں سے
اسے تو گنجا نائی سے کر کے دیکھتے ہیں
دکاں پھلوں کی لگا رکھی اس کے ابا نے
سو ہم بھی اک دو خربوزے چر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب چلے تو سر سے بال جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو ابھی دوڑا کر کے دیکھتے ہیں
گلی میں کھڑکی اس کی میں تکتا رہتا ہوں
تو بھائی اس کے مجھے خوب اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے مکھیاں ستاتی ہیں
بدن کو رات میں مچھر کتر کے دیکھتے ہیں
نہا کے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
تو پہلوان اسے مونچھیں کتر کے دیکھتے ہیں
قمر کے حسن کا جب ذکر چھیڑا تھا اس سے
وہ روز زاویے اپنی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کو خراش ایسی ہے
مساج والے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو مکھیاں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو کچھوے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
نکاح کا میں نے پھل کھایا تھا زبردستی
تو روز لڑ کے شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لڑتے ہیں میاں بیوی ساتھ والے بہت
مکیں ادھر کے بھی جھگڑے ادھر کے دیکھتے ہیں
۔۔۔ عرفان ۔۔۔
۔۔۔ عرفان ۔۔۔