سید شہزاد ناصر
محفلین
مرے سینہ سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
وہاں زخم سے خون دہو کے حرف آرزو نکلا
وہاں زخم سے خون دہو کے حرف آرزو نکلا
مرا گھر تیرا منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہرو نکلا
پھر اگر آسمان تو شوق میں تیرے ہی سرگرداں
اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا
مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم
کہ آخر جب اسے دیکھا فقط کالی سبو نکلا
ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا
رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا
کہیں تجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں تو نکلا
خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کہ جب رویا
تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخرو نکلا
گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹا سر سوزن
مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ وہ ہرگز کبھو نکلا
اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو
جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وہ عدو نہ نکلا
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہرو نکلا
پھر اگر آسمان تو شوق میں تیرے ہی سرگرداں
اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا
مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم
کہ آخر جب اسے دیکھا فقط کالی سبو نکلا
ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا
رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا
کہیں تجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں تو نکلا
خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کہ جب رویا
تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخرو نکلا
گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹا سر سوزن
مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ وہ ہرگز کبھو نکلا
اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو
جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وہ عدو نہ نکلا