عبدالمغیث
محفلین
محترم اساتذہ کرام کی خدمت میں برائے اصلاح ۔ یہ نظم ایک خاص پیرائے میں لکھی گئی ہے کچھ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے۔
مرے کمالِ شوق کو کیا کیا کہا گیا
اک جذبہء عشق کو ریا کہا گیا
اک کارِ خیر جس میں لگائی طویل عمر
اُس کو زبانِ خلق میں بے جا کہا گیا
میں خیر کی محبت میں مجنوں سے بڑھ گیا
میرے جنوں کو میری انا کہا گیا
جب راستہ تھا مشکل اکیلا تھا میں مسافر
اب شُھرتوں کا طالب تنہا کہا گیا
اعتبار دوستوں پر کیا میں نے بے حساب
مرے احتساب میں اسے دغا کہا گیا
کی علم سے محبت، کی عالموں کی خدمت
اِن الفتوں کو میری خطا کہا گیا
مری زندگی کا مقصد خلقِ خدا کی خدمت
مری کاوشوں کو لیکن بُرا کہا گیا
خونِ جگر سے سینجا اخوت کے پیڑ کو
مالی کی اس وفا کو جفا کہا گیا
اِس کارِ نا تمام میں سب کچھ لُٹا دیا
پھر مجھ کو اک بے کار سا پرزہ کہا گیا
آنسو تو میرے نکلے تری بےرُخی کے کارن
گناہوں کی ان کو میرے سزا کہا گیا
عبدل چل چلیں کسی اور دیس میں
جس دیس میں مخلصوں کو اپنا کہا گیا
عبدالمغیث
مرے کمالِ شوق کو کیا کیا کہا گیا
اک جذبہء عشق کو ریا کہا گیا
اک کارِ خیر جس میں لگائی طویل عمر
اُس کو زبانِ خلق میں بے جا کہا گیا
میں خیر کی محبت میں مجنوں سے بڑھ گیا
میرے جنوں کو میری انا کہا گیا
جب راستہ تھا مشکل اکیلا تھا میں مسافر
اب شُھرتوں کا طالب تنہا کہا گیا
اعتبار دوستوں پر کیا میں نے بے حساب
مرے احتساب میں اسے دغا کہا گیا
کی علم سے محبت، کی عالموں کی خدمت
اِن الفتوں کو میری خطا کہا گیا
مری زندگی کا مقصد خلقِ خدا کی خدمت
مری کاوشوں کو لیکن بُرا کہا گیا
خونِ جگر سے سینجا اخوت کے پیڑ کو
مالی کی اس وفا کو جفا کہا گیا
اِس کارِ نا تمام میں سب کچھ لُٹا دیا
پھر مجھ کو اک بے کار سا پرزہ کہا گیا
آنسو تو میرے نکلے تری بےرُخی کے کارن
گناہوں کی ان کو میرے سزا کہا گیا
عبدل چل چلیں کسی اور دیس میں
جس دیس میں مخلصوں کو اپنا کہا گیا
عبدالمغیث
آخری تدوین: