بلا تمہید ۔۔ ان اشعار میں زبان و بیان کے حوالے سےمیرے کچھ تحفظات ہیں، پیش کئے دیتا ہوں، توجہ فرمائیے گا۔ آپ کے ارشاد کی تعمیل میں بے لاگ اظہار میری ذمہ داری ہے۔ آپ کی دل آزاری کا خدشہ ہے مگر معذرت خواہ ہوں، بنیادی بات وہی ہے کہ اختیار آپ کا ہے کہ آپ میری ان جسارتوں کو نظر انداز کر دیں یا توجہ سے نوازیں۔
1
نگاہِ مسلم جو زورِ باطل کو آج حیرت سے تک رہی ہے
یہ ساری طاقت غلام بن کر کہ عرصۂ طول تک رہی ہے
نگاہ تک رہی ہے؛ نگاہ یا نظر تو فی نفسہٖ دیکھنے کا عمل ہے، نگاہ کا کسی مظہر کو دیکھنا شاید تکرارِ معنوی کہلاتا ہے۔ عرصۂ طول؛ اگر یہ مرکب توصیفی ہے تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عرصۂ طویل، عرصۂ دراز کی تراکیب معروف ہیں۔
غلام بن کر کہ؛ یہاں ’’کہ‘‘ کا کیا محل ہے، میں نہیں سمجھ پایا۔ اگر یہ ’’کہ‘‘ کی بجائے ’’کے‘‘ ہے تو بھی یہ ’’کہ‘‘ یا ’’کے‘‘ معنوی لحاظ سے زائد ہے۔ کچھ علاقائی لہجوں میں ’’دیکھ کر کے بتاؤ‘‘ ’’جا کر کے دکھاؤ‘‘ بولنے میں آتا ضرور ہے تاہم اصولاً وہاں ’’کے زائد ہے۔
شعر کا مفہوم تو میں نے پالیا ہے: آج مسلم امت کی آنکھ باطل کی جس قوت کو حیرت سے دیکھ رہی ہے، ایک طویل عرصہ تک یہی قوت غلام ہوا کرتی تھی۔ تاہم اظہار کی سطح متأثر ہوئی ہے اور اس کی وجہ شاید قوافی ہیں۔ مجھے کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ قوافی کو نبھانے میں شاعر کو دیگر خوبیاں قربان کرنی پڑیں۔
2
عمل سے برقِ یقین کوندی ، اب اسکی مدت کڑک رہی ہے
زمانہ حیرت سے تک رہا تھا، یہ کونسی شے چمک رہی ہے
اس کی الگ الگ لکھا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ ’’اب اس کی مدت کڑک رہی ہے‘‘؟ یا یہ ہے کہ وہ برقِ عمل ایک مدت تک کڑکتی رہی ہے، مگر یہاں یہ مفہوم بھی نہیں۔ دوسرا مصرع اپنا جواز نہیں لا سکا۔
3
وہی چمک تو نگاہِ باطل میں آج تک بھی کھٹک رہی ہے
وصالِ مومن کی جستجو میں جو آج در در بھٹک رہی ہے
پہلے مصرعے میں ’’تو‘‘ میرے خیال میں تو پاسنگ ہے۔ وصالِ مومن کی جستجو کا مفہوم میں نہیں پا سکا، مومن سے ملنے کی تلاش؟ یا تمنا؟ وہ چمک تو دوسرے شعر کے مطابق معدوم ہو چکی، تو پھر آج نگاہِ باطل کیا چیز کھٹک رہی ہے۔ میں اس کو پابند نظم سمجھ رہا ہوں، کہ غزل ایسی نہیں ہوا کرتی۔ اس کا اسلوب ’’غزلیہ نظم‘‘ کا بھی نہیں کہ وہاں ہر مصرعے میں قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی۔
اگرچہ ہر شعر کا مضمون اپنی جگہ مکمل ہو جب ایک ہی موضوع کو لے کر چلیں گے یعنی نظم کہیں گے تو پھر معنوی تسلسل کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا؛ ریزہ خیالی غزل کا وصف ہے نظم کا نہیں۔
4
ہمارے زخموں کی چارہ گر جز کتابِ یزداں کوئی نہیں ہے
ہر ایک آیت بوقتِ چارہ خواصِ مشک و نمک رہی ہے
آپ کا واضح اشارہ قرآن شریف کی طرف ہے۔ ایسے میں ’’بوقتِ چارہ‘‘ کا جواز نہیں بنتا۔ مشک و نمک کے خواص کی حامل رہی ہے؟ یہی مقصود ہے تو الفاظ میں ایسا نہیں مل رہا۔ یہاں بوقتِ مشکل یا کچھ ایسا ہوتا تو شاید بہتر ہوتا۔’’ہمارے زخموں کی چارہ گر‘‘؛ یہاں تانیث کو ضروری کیوں سمجھا گیا؟ مفہوم ہے کہ قرآن کے سوا ہمارا کوئی چارہ گر نہیں۔ اس میں ’’کوئی‘‘ کل کے لئے ہے تو ’’ہمارے زخموں کا چارہ گر‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ مزید یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بحر پر پورا اترنے کے لئے ’’زخموں‘‘ کو لانا پڑا، ہمارا چارہ گر کافی ہوتا۔
5
کچھ ایسے حق سے ہوئے ہیں عاری، گراں گزرتی ہے راز داری
امانتِ حق ہے ہم پہ بھاری، دلوں سے ظلمت جھلک رہی ہے
یہاں مصرعوں کے نصف میں قوافی (عاری، رازداری، بھاری) لانے کی کوشش شعر میں عجزِ بیان کا سبب بن رہی ہے۔حق سے عاری ہونا یا حق شناسی سے عاری ہونا؟ رازداری کا کوئی سیاق و سباق یہاں موجود نہیں۔ ظلمت نہیں جھلکا کرتی، روشنی جھلکا کرتی ہے۔ توجہ فرمائیے گا۔
6
قدم میں لغزش، نظر فریبی، خیال ناقص، ہے دل بدی میں
مرے گناہوں سے معصیت بھی اب اپنا دامن جھٹک رہی ہے
پہلے مصرعے میں تعقیدِ معنوی کی سی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ نظر فریبی ہے یا فریب خوردہ ہے؟ دل بدی میں ہے یا دل میں بدی ہے؟ گناہوں کی معصیت؟ دامن جھٹکنا یا دامن چھڑانا؟
7
یہ آسماں گر کچھ اور ہوتا تو اس زمیں پر گرا ئے دیتا
الٰہی بسملؔ کہاں پھنسا ہے کہ روح بھی اب سسک رہی ہے
اس کو مقطع کہوں یا آخری شعر، اس کے دونوں مصرعوں میں بُعد کا احساس ہوتا ہے، یا یوں کہئے کہ دولخت نہ سہی دولخت سے ملتی جلتی کیفیت ہے۔
اس فن پارے میں ہوا غالباً یہ ہے کہ فنیات کو اجاگر کرنے کی کوشش میں مطالب متأثر ہو گئے۔
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے