چند باتیں جو میری سمجھ سے بالا ہیں اور وجہ یقیناً میری کم علمی ہے۔ ان پر چند سوالات پیش کرنے کی جسارت کرونگا۔
نگاہِ مسلم جو زورِ باطل کو آج حیرت سے تک رہی ہے
یہ ساری طاقت غلام بن کر کہ عرصۂ طول تک رہی ہے
نگاہ تک رہی ہے؛ نگاہ یا نظر تو فی نفسہٖ دیکھنے کا عمل ہے، نگاہ کا کسی مظہر کو دیکھنا شاید تکرارِ معنوی کہلاتا ہے۔
÷÷نگاہ کا تکنا میرے نزدیک تکرار معنوی نہیں۔ نگاہ بمعنی نظر یا چتون۔ اردو میں محاورے عام ہیں:
بری نگاہ سے دیکھنا
نگاہ اٹھا کر دیکھنا
نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا
نگاہ بھر کے دیکھنا
اگر یہ سب محاورے ٹھیک ہیں (جو کہ مستند ترین لغات کی کتابوں میں مل جاتے ہیں) تو حیرت کی نگاہ سے یا ”نگاہِ حیرت سے دیکھنے“ میں کیا تامل ہے میں نہیں سمجھ پایا۔
عرصۂ طول؛ اگر یہ مرکب توصیفی ہے تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عرصۂ طویل، عرصۂ دراز کی تراکیب معروف ہیں۔
÷÷ عرصۂ طول یقیناً مرکب توصیفی ہے۔ اور طول جس طرح اسم مذکر ہے اسی طرح اسم صفت بمعنی طویل یا لمبا بھی ہے۔ بحوالہ: فیروز الغات اور نور الغات
اس تناظر میں عرصۂ طول کی ترکیب بھی درست ہوئی۔
غلام بن کر کہ؛ یہاں ’’کہ‘‘ کا کیا محل ہے، میں نہیں سمجھ پایا۔ اگر یہ ’’کہ‘‘ کی بجائے ’’کے‘‘ ہے تو بھی یہ ’’کہ‘‘ یا ’’کے‘‘ معنوی لحاظ سے زائد ہے۔ کچھ علاقائی لہجوں میں ’’دیکھ کر کے بتاؤ‘‘ ’’جا کر کے دکھاؤ‘‘ بولنے میں آتا ضرور ہے تاہم اصولاً وہاں ’’کے زائد ہے۔
کر”کے“ زائد ہے۔ میں متفق ہوں۔ اسے علاقائی لہجے کی اجازت سمجھ لیجئے جو میں نے استعمال کی ہے، غزل کیونکہ فی البدیہہ ہے اس لئے اسی انداز میں کہہ گیا اور اتفاق یہ کہ کوئی متبادل فوری طور پر کچھ سوجھا بھی نہیں۔
2
عمل سے برقِ یقین کوندی ، اب اسکی مدت کڑک رہی ہے
زمانہ حیرت سے تک رہا تھا، یہ کونسی شے چمک رہی ہے
اس کی الگ الگ لکھا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ ’’اب اس کی مدت کڑک رہی ہے‘‘؟ یا یہ ہے کہ وہ برقِ عمل ایک مدت تک کڑکتی رہی ہے، مگر یہاں یہ مفہوم بھی نہیں۔ دوسرا مصرع اپنا جواز نہیں لا سکا۔
÷÷عمل سے یقین کی بجلی کوندی۔ اب اس کی مدت سے مراد اس کا عرصہ۔ وہ زمانہ یا اس کی تاریخ۔ گو کہ برقِ یقین اب نہیں بلکہ وہ زمانہ جب برقِ یقین کوندی تھی اب اس کے قصے یا کہانیاں جو رقم ہوئی وہ اب کڑک رہی ہیں۔
زمانہ حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ آخر اس شان و شوکت کا راز کیا ہے؟
تاہم مجھے کوئی تامل نہیں کہ شعر میں ابلاغ کی بہر حال کمی ہے۔
3
وہی چمک تو نگاہِ باطل میں آج تک بھی کھٹک رہی ہے
وصالِ مومن کی جستجو میں جو آج در در بھٹک رہی ہے
پہلے مصرعے میں ’’تو‘‘ میرے خیال میں تو پاسنگ ہے۔ وصالِ مومن کی جستجو کا مفہوم میں نہیں پا سکا، مومن سے ملنے کی تلاش؟ یا تمنا؟ وہ چمک تو دوسرے شعر کے مطابق معدوم ہو چکی، تو پھر آج نگاہِ باطل کیا چیز کھٹک رہی ہے۔
÷÷
جیسا کہ عرض کیا کہ پچھلے شعر کا تعلق برق یقین سے ہے۔ اور اس کی وجہ سے رقم کی گئی جو تاریخ ہے اس کی چمک یعنی انتقام کا جوش باطل کے دل میں ہے۔ یا وہ چمک جو اس وقت تھی وہ کیوں تھی ؟ کیسے تھی ؟ یہ چیز باطل کو پریشان کر رہی ہے۔
4
ہمارے زخموں کی چارہ گر جز کتابِ یزداں کوئی نہیں ہے
ہر ایک آیت بوقتِ چارہ خواصِ مشک و نمک رہی ہے
آپ کا واضح اشارہ قرآن شریف کی طرف ہے۔ ایسے میں ’’بوقتِ چارہ‘‘ کا جواز نہیں بنتا۔ مشک و نمک کے خواص کی حامل رہی ہے؟ یہی مقصود ہے تو الفاظ میں ایسا نہیں مل رہا۔ یہاں بوقتِ مشکل یا کچھ ایسا ہوتا تو شاید بہتر ہوتا۔
÷÷چارہ بمعنی علاج، درستی اور مداوا وغیرہ۔
اور چارے کے لئے مشکل، پریشانی یا بیماری ضرور ہے۔
تو علاج کے وقت یا جب ہمیں علاج کی ضرورت تھی قران کی آیات نے ہماری بیماریوں کے علاج میں خواصِ مشک و نمک کا کام دکھایا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر خواصِ مشک و نمک کا ساتھ دینے کے لئے لفظ علاج یا چارہ فصیح محسوس ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ”مشکل“ کا علاج مشک و نمک سے ہو۔
’’ہمارے زخموں کی چارہ گر‘‘؛ یہاں تانیث کو ضروری کیوں سمجھا گیا؟ مفہوم ہے کہ قرآن کے سوا ہمارا کوئی چارہ گر نہیں۔ اس میں ’’کوئی‘‘ کل کے لئے ہے تو ’’ہمارے زخموں کا چارہ گر‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ مزید یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بحر پر پورا اترنے کے لئے ’’زخموں‘‘ کو لانا پڑا، ہمارا چارہ گر کافی ہوتا۔
÷÷ یہاں” کا“ کا محل ہے یقیناً مگر یہ میری نہیں بلکہ میری جلد بازی کی غلطی ہے جس میں کا کو کی کر دیا ہے۔
چارہ گری کے لئے زخم مجھے ضروری محسوس ہوا تھا۔ یہ بحر پورا کرنے کی نیت سے میں نے نہیں ڈالا تھا۔ بہر حال کوئی متبادل سوچتے ہیں۔
وقت نے ابھی اتنی ہی اجازت دی ہے۔ انشا اللہ باقی دوسری نشست میں لکھتا ہوں۔
وضاحت: ایک بار پھر یہ کہوں گا کہ مجھے اپنے شعر پر کبھی اصرار نہیں ہوتا۔ نہ اس بار ایسا ہے۔
جو اعتراضات پیش کئے ہیں صرف سیکھنے کی نیت سے کئے ہیں۔ اور امید ہے کہ استاد محترم ان کے شافی جوابات عنایت کرکے سیکھنے کا موقع دیں گے۔