مر گیا ہوں میں ایک فرضی موت ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
مر گیا ہوں میں ایک فرضی موت
غم ترا ہے مجھے تو آدھی موت

ہنستے ہنستے گری پہاڑی پر
رات بارش میں تھی چمکتی موت

ہم تو آگے مَرے سے پھرتے تھے
غم نصیبوں کو ہے یہ دہری موت

اڑتا پھرتا ہے راکشش کوئی
جہاں چاہا وہاں پہ تھوکی موت

کاٹ ڈالے سروں کے سر پَل میں
نیشکر آدمی، درانتی موت

تُو نے پتھر سے بھائی کو مارا
میں نے بندوق سے چلائی موت

مِلے آدم کا مقبرہ جو کہیں
جا کے دیکھوں میں اپنی پہلی موت

(رفیق اظہر)
 

شاہ حسین

محفلین
تُو نے پتھر سے بھائی کو مارا
میں نے بندوق سے چلائی موت

کیا خوب ہے

رات بارش میں تھی چمکتی موت

بہت خوب جناب سخنور صاحب
 

فرخ منظور

لائبریرین
تُو نے پتھر سے بھائی کو مارا
میں نے بندوق سے چلائی موت

تلمیح ، واہ ، کیا کہنے

شکر ہے ایک تلمیح تو سمجھ آئی آپ کو۔ لیکن اس شعر میں تلمیح کو آپ کا ذہن نہ کھوج سکا۔ ;)

زہر پی کر امر ہوا اک شخص
کیوں نہ ہم بھی کوئی پُڑی پھانکیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
مغل صاحب آپ کو شعر پسند آیا یا نہیں آیا اسے چھوڑ دیں۔ صرف یہ بتائیے گا کہ اس شعر میں کونسی تلمیح استعمال کی گئی ہے؟
زہر پی کر امر ہوا اک شخص
کیوں نہ ہم بھی کوئی پُڑی پھانکیں


 

مغزل

محفلین
آپ امتحان لینے کے دعویدار ہیں ، میں ایک شعر میں بتائے دیتا ہوں جناب"

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
(لیاقت علی عاصم)

ویسے یہ ایک ہے ، میں باقی3 تلمیحات اسی شعر کی بتا سکتا ہوں ،۔ جو مسلمہ ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ امتحان لینے کے دعویدار ہیں ، میں ایک شعر میں بتائے دیتا ہوں جناب"

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
(لیاقت علی عاصم)

ویسے یہ ایک ہے ، میں باقی3 تلمیحات اسی شعر کی بتا سکتا ہوں ،۔ جو مسلمہ ہیں

تو بھائی یہ پسند نا پسند کا معاملہ ہوا ناں ۔ لیاقت علی عاصم کا یہ شعر عجیب ہے۔ کوئی تک نہیں بنتی کہ یہ کہا جائے کہ اس پیالے میں زہر نہیں تھا۔ یعنی سقراط کو زندہ کرنے کے لئے اس پیالے میں زہر ہی غائب کر دیا گیا جبکہ ساری دنیا اس بات کو مانتی ہے۔ چہ خوب!


اور بلھے شاہ کا یہ شعر دیکھیں کہ اس نے اپنے آپ کو کس طرح زندہ کیا ہے۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور

یعنی شعر میں کسی کو زندہ کرنے کے لئے اس تاریخی واقعہ کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر دیا۔ بجائے یہ کہ اس واقعے سے کوئی نئی بات نکالتے۔
لیاقت علی عاصم کا یہ بہت ہی سطحی شعر ہے اور شعر برائے شعر۔
 

مغزل

محفلین

تو بھائی یہ پسند نا پسند کا معاملہ ہوا ناں ۔ لیاقت علی عاصم کا یہ شعر عجیب ہے۔ کوئی تک نہیں بنتی کہ یہ کہا جائے کہ اس پیالے میں زہر نہیں تھا۔ یعنی سقراط کو زندہ کرنے کے لئے اس پیالے میں زہر ہی غائب کر دیا گیا جبکہ ساری دنیا اس بات کو مانتی ہے۔ چہ خوب!


اور بلھے شاہ کا یہ شعر دیکھیں کہ اس نے اپنے آپ کو کس طرح زندہ کیا ہے۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
--------------- ( ویسے یہ دو لائنیں شعر کیسے ہوگئی، اچھا بحر بتائیے گا۔)

یعنی شعر میں کسی کو زندہ کرنے کے لئے اس تاریخی واقعہ کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر دیا۔ بجائے یہ کہ اس واقعے سے کوئی نئی بات نکالتے۔
لیاقت علی عاصم کا یہ بہت ہی سطحی شعر ہے اور شعر برائے شعر۔


ہمم ،،، شکریہ ،۔ یہ محض آپ کی رائے ہے جناب ، بس ذرا اپنی تفہیمی سطح بلند کیجے اور شعر کے مفاہیم تک رسائی حاصل کیجے ،
۔۔ اب ۔۔۔۔(حذف) ۔۔۔ ملنے رہا وگرنہ دو چار دفتر روانہ کرتا،:)

شعر کو اگر آپ کسی ’’ تُک ‘‘ کے منصب سے دیکھتے ہیں تو ، آپ سے کیا بات کرنی ، ۔۔ لكم دينكم ولي دين
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمم ،،، شکریہ ،۔ یہ محض آپ کی رائے ہے جناب ، بس ذرا اپنی تفہیمی سطح بلند کیجے اور شعر کے مفاہیم تک رسائی حاصل کیجے ،
۔۔ اب خرِ عیسیٰ ملنے رہا وگرنہ دو چار دفتر روانہ کرتا،:)

شعر کو اگر آپ کسی ’’ تُک ‘‘ کے منصب سے دیکھتے ہیں تو ، آپ سے کیا بات کرنی ، ۔۔ لكم دينكم ولي دين

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
 

زرقا مفتی

محفلین
السلام علیکم
سخنور صاحب
رفیق اظہر صاحب کا کلام پہلی بار پڑھا ہے
ہو سکے تو ان کا مختصر تعارف بھی پیش کیجیے
شکریہ
والسلام
زرقا
 

فرخ منظور

لائبریرین
السلام علیکم
سخنور صاحب
رفیق اظہر صاحب کا کلام پہلی بار پڑھا ہے
ہو سکے تو ان کا مختصر تعارف بھی پیش کیجیے
شکریہ
والسلام
زرقا
وعلیکم السلام
شکریہ زرقا صاحبہ، رفیق اظہر صاحب سے حلقۂ اربابِ ذوق، لاہور میں دو چار ملاقاتیں ہوئیں ہیں۔ رفیق اظہر صاحب لاہور میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ مجھے ان کی کتاب "آدھی موت" کافی پسند آئی تو انہوں نے کمال مہربانی سے اپنی کتاب مجھے عنایت کر دی ۔ اب تک ان کی تین کتابیں آچکی ہیں اور اس تیسری کتاب کے علاوہ میں ان کے بقیہ کلام سے شناسائی حاصل نہیں کر سکا۔ اس تیسری کتاب "آدھی موت" میں ان کی مرثیہ نما غزلیں شامل ہیں۔ ان کی اس کتاب میں ان کا پیش لفظ اور اظہر غوری کا تبصرہ شامل ہے۔ اگر آپ کہیں تو ان میں سے کچھ اقتباسات پیش کر سکتا ہوں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ سخنور صاحب
آپ کی طرف سے رفیق اظہر صاحب کے مزید کلام کا انتظار رہے گا
والسلام
زرقا

شکریہ زرقا صاحبہ! میں اس کتاب سے کچھ غزلیں پوسٹ کر چکا ہوں۔ آپ اسی دھاگے میں نیچے ٹیگز میں رفیق اظہر پر کلک کریں گی تو رفیق اظہر صاحب کی تمام غزلیں ظاہر ہو جائیں گی۔ ان کے علاوہ بھی میں کچھ مزید کلام جلد ہی پوسٹ کرتا ہوں۔
 
Top