فرخ منظور
لائبریرین
مر گیا ہوں میں ایک فرضی موت
غم ترا ہے مجھے تو آدھی موت
ہنستے ہنستے گری پہاڑی پر
رات بارش میں تھی چمکتی موت
ہم تو آگے مَرے سے پھرتے تھے
غم نصیبوں کو ہے یہ دہری موت
اڑتا پھرتا ہے راکشش کوئی
جہاں چاہا وہاں پہ تھوکی موت
کاٹ ڈالے سروں کے سر پَل میں
نیشکر آدمی، درانتی موت
تُو نے پتھر سے بھائی کو مارا
میں نے بندوق سے چلائی موت
مِلے آدم کا مقبرہ جو کہیں
جا کے دیکھوں میں اپنی پہلی موت
(رفیق اظہر)
غم ترا ہے مجھے تو آدھی موت
ہنستے ہنستے گری پہاڑی پر
رات بارش میں تھی چمکتی موت
ہم تو آگے مَرے سے پھرتے تھے
غم نصیبوں کو ہے یہ دہری موت
اڑتا پھرتا ہے راکشش کوئی
جہاں چاہا وہاں پہ تھوکی موت
کاٹ ڈالے سروں کے سر پَل میں
نیشکر آدمی، درانتی موت
تُو نے پتھر سے بھائی کو مارا
میں نے بندوق سے چلائی موت
مِلے آدم کا مقبرہ جو کہیں
جا کے دیکھوں میں اپنی پہلی موت
(رفیق اظہر)