روی کی جامع اور مانع تعریف کے لئے اچھا خاصہ وقت لیا جس کے لیے معذرت۔ کچھ مصروفیات اور مزاجی سستی اور کاہلی اور کبھی غفلت آڑے آتی رہی۔ آج سوچا کہ اسامہ بھائی کے اس قرض کو بھی چکا دیا جائے۔ واضح رہے کہ علم قافیہ ایک خشک علم ہے، پھر ہر عالم نے اپنے تجربات اور مشاہدات اور اپنے علم کے مطابق اس میں مختلف موضوعات میں ایک سے زائد آراء قائم کی ہیں، میرا تجربہ ہے کہ اگر کوئی انسان صرف حرفِ روی کے تمام پہلو سمجھ لے تو وہ علمِ قافیہ کا مکمل عالم بن سکتا ہے اس کے بعد تمام محاسن اور معائب کھل کر خود ہی سامنے آجاتے ہیں۔ تو بسم اللہ۔
حرف روی فضلائے عروض کے نزدیک
جان لینا بہتر ہے کہ متقدمین اور آئمہ نے حرفِ روی کی کوئی جامع تعریف نہیں کی ہر عالم نے حرف روی کے بیان میں اس کی تعریف کو بہت مختصر رکھا ہے، یہ شاید انکی اپنی ہی تشفی کی خاطر ہے بظاہر اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
محقق طوسی جو عجمی عروض پر سند ہیں، معیارالاشعار میں روی کی تعریف صرف اتنی لکھتے ہیں:
”اما حرف روی حرفی است مکرر کہ بنائے قافیہ بروی است و ہر قصیدہ کہ بقافیہ منسوب باشد نسبتش بحرف روی کنند، مثلاً قصیدہ را کہ ضرب و سلب قافیہ باشد بائی خوانند، و قصیدہ را کہ حمل و رحل قافیہ باشد لامی خوانند“
کشن پرشاد بہادر نے مخزن القوافی میں صرف اتنا لکھا ہے:
”روی وہ حرف ہے جس کے بغیر قافیہ نہ ہوسکے، مدارِ قافیہ اسی حرف پر ہوتا ہے“
میر انشااللہ خان نے بھی ایک حرف کی تکرار کو حرف روی کہا ہے جو بیت کے آخر میں آتا ہے۔
یاس عظیم آبادی نے چراغ سخن میں لکھا ہے:
”روی قافیہ کے حرفِ آخر و اصلی کو کہتے ہیں یا وہ جو بمنزلہ حرف آخر کے ہو۔“
نجم الغنی نجمیؔ رامپوری نے بحرالفصاحت میں لکھا ہے:
روی اس حرفِ آخر کو کہتے ہیں جو مصرع یا بیت کے آخر میں واقع ہو، یہ حرف مکرر آتا ہے۔ قافیہ کی بنیاد اس پر ہے۔ اکثر اصلی ہوتا ہے اور بعض اوقات زائد کو بھی اصلی کے حکم میں لے لیتے ہیں۔
مرزا عسکری نے آئینۂ بلاغت میں لکھا ہے:
”قافیہ کی بنیاد روی پر ہے، بغیر اس کے قافیہ کا کوئی وجود نہیں، اسے قافیہ کی اصل اور اساس سمجھنا چاہئے۔
اس کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ روی مقید: روی ساکن ہے جو مصرع یا بیت کے آخر میں مکرر آئے۔
۲۔ روی مطلق: اسے کہتے ہیں جب روی کے بعد کوئی حرف ہو اور روی متحرک ہو۔“
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اس کے بعد سب نے مثالیں لکھی ہیں جن کا فی الوقت محل نہیں۔
اب ہم حرف روی کو شاعری کی رو سے سمجھتے ہیں۔ تاکہ جو کچھ ان کتابوں نے اختصار سے لکھا ہے وہ ہمیں تفصیلی طور پر سمجھ آجائے۔ میں نے حرف روی کی تعریف کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے
حرف روی کیا ہے؟
۱۔ لفظ کا سب سے آخری حرف جو اصلی بھی ہو اور بنا کسی تغیر کے ہر شعر کے آخر میں آئے (یاد رہے کے زائد حروف ردیف میں شمار ہونگے۔ کیونکہ اس میں ردیف اصطلاحی کی تعریف صادق آتی ہے)۔ لفظ میں اصلی حروف کی پہچان بھی بہر حال مبتدیان کے لئے کوئی آسان نہیں، اس لئے میں نے اصلی اور زائد حروف کو سمجھنے کے لئے عبارت کو آسان اور قابل فہم بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔
قافیہ میں اصلی حروف صرف وہ ہیں جو ”مصدرِ قافیہ“ میں آتے ہیں یعنی مصدرِ قافیہ اصلی حروف پر مشتمل ہوتا ہے اور زوائد سے پاک ہوتا ہے۔ کسی بھی لفظ کا مصدرِ قافیہ لفظ کا کم سے کم اور چھوٹے سے چھوٹا حصہ ہوتا ہے اور اس میں سے کسی حرف کو حذف کرنے سے لفظ بے معانی ہوجائے گا۔ مثلاً: نشانی، نشانوں، نشانیاں وغیرہ کا مصدرِ قافیہ ”نشان“ ہے۔ اب اس مصدر سے اگر مزید کوئی حرف کم کیا گیا تو لفظ بے معانی ہو جائے گا، اور لفظ ”نشان“ کے آگے کے جو بھی حروف ہیں وہ زائد ہیں، حرفِ روی مصدرِ قافیہ کا آخری حرف ہوتا ہے جو یہاں نون ہے۔ یا دوسری مثال میں دیکھیں مثلاً: دوستی، دوستیاں، دوستوں، دوستاں وغیرہ۔ اس میں بھی ظاہر ہے کہ مصدرِقافیہ لفظ کا سب سے چھوٹا حصہ ہوگا۔ اب ایک ایک حرف کرکے حذف کریں تو ایک وقت آئے گا جب صرف ”دوست“ رہ جائے گا۔ کیونکہ اس کے بعد کچھ بھی حذف کرنے سے لفظ یا تو بے معانی ہو جائے گا یا پھر کسی اور لفظ میں تبدیل ہوجائے گا، ہمیں نہ تو لفظ بے معانی کرنا ہے، نہ اس کے معانی کو بدلنا ہی مقصود ہے۔ اس لئے یہاں ہمارا مصدرِ قافیہ صرف ”دوست“ ہے اور حرفِ روی اسی طرح مصدرِ قافیہ کا سب سے آخری حرف یعنی ”ت“ ہے۔ حرف روی نون کے ساتھ میرؔ :
نکلے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاد دہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا
حرف روی الف کے ساتھ حسرتؔ موہانی:
کیا کہیے آرزو ئے دلِ مبتلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو کہ وہ رنگیں ادا ہے کیا
”ادا“ اور ”مبتلا“ دونوں مصادرِ قافیہ ہیں اور الف حرفِ روی۔
- ایسے الفاظ جن کے مصدرِ قافیہ میں آخری حرف ہائے مختفی ہو ان میں حرفِ روی ہائے مختفی سے ماقبل حرف ہوتا ہے۔ جیسے: غنچہ میں ”چ“، آشفتہ، سوختہ، گزشتہ وغیرہ میں ”ت“ اور تشنہ، افسانہ، فسانہ، نشانہ، خانہ وغیرہ میں ”نون“ حرفِ روی ہے۔ حرف روی ”ز“ کے ساتھ غالبؔ:
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
- فعل جیسے: لکھنا، پڑھنا، کھاتا، پیتا، سوتا، دیکھا، جانا، بوجھا وغیرہ میں پہلے نکتے والا اصول کارفرما ہے، یعنی حروف کو حذف کریں یہاں تک کہ لفظ کا سب سے چھوٹا حصہ با معانی باقی رہے اور اس کے بعد مزید کسی حرف کو حذف کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ اس کا ایک آسان اور عام سا اصول سمجھا دیتا ہوں، جب بھی قافیہ کوئی فعل ہو تو اس فعل کا صیغۂ امر بنا دیجئے، صیغۂ امر مصدرِ قافیہ ہے۔ اس میں جو بھی آخری حرف ہو اسے بنا سوچے سمجھے روی کہہ دیجئے۔ مثلاً: ”پینا“ سے ”پی“ (ی حرف روی)، ”سوتا“ سے ”سو“ (واؤ حرف روی)، دیکھا اور بوجھا سے دیکھ اور بوجھ (کھ اور جھ حرف روی) علٰی ہٰذالقیاس۔ حرفِ روی لام کے ساتھ امیر مینائی:
کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر
دبی بات ہونٹوں میں منہ سے نکل کر
کسی اسم عام اور فعل دونوں میں حرفِ روی کی صورت ایک جیسی ہو تو ان دونوں کا خلط بھی عام ہے۔ میرؔ:
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سانکل جاتا
خلل اور نکل دونوں میں حرفِ روی اصلی حرف لام واقع ہوا ہے۔ اور دونوں کا خلط روا ہے۔
حرف روی ”ر“ کے ساتھ داغؔ:
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے
ہم تو جاتے ہیں، ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
مجھے شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ گذرنے اور ٹھہرنے وغیرہ میں گذر اور ٹھہر مصادر ہیں باقی حروف زائد ہیں۔ اس لئے حرفِ روی ”ر“ ہے اور ”نے والے“ ردیف کا حصہ ہے۔
اسی طرح حرف روی ”ر“ کے ساتھ میرؔ:
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں
ر حرف روی اور باقی زائد حروف ”یاں“ ردیف کا حصہ ہیں۔
ان ساری مثالوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قافیہ میں حرفِ روی اصل ہے۔ اور حرفِ روی کا تعین مطلعے میں ہی کر لیا جاتا ہے، غزل میں مطلعے کے بعد جو اشعار آتے ہیں ان میں حرف روی کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو حرف روی مطلعے میں طے ہو گیا اسے پوری غزل میں یا نظم میں برقرار رکھنا ضروری ہے اور اسے نبھانا بھی ہوگا۔ اب جبکہ یہ واضح ہے کہ حرف روی قافیہ میں اصل ہے، تو یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسی نظم جس میں حرفِ روی نہ ہو اس نظم کو سخت معیوب مانا جائے گا اور اس قافیہ کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
بغیر حرف روی کے وصی شاہ:
سمندر میں اُترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
اتر میں ”ر“ روی ہے، اور پڑھ میں ”ڑھ“۔ روی مکرر نہیں ہے، ”تا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“ ردیف ہے، اور قافیہ موجود ہی نہیں۔ اس لئے یہ شعر سخت معیوب اور شاعر کی علوم سے ناواقفیت کا روشن ثبوت ہے۔
نوشی گیلانی:
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
گزر اور پگھل۔ روی کا اختلاف۔ اس لئے یہاں بھی قافیہ کا کوئی وجود نہیں۔
پروین شاکر:
چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
نگاہ اور بات۔ روی کا اختلاف ہے۔ اس لئے یہاں بھی کوئی قافیہ نہیں ہے۔ اسے اصطلاح میں ”ایطائے جلی“ کہا جاتا ہے۔
میرے خیال میں اتنی مثالیں اس موضوع کے لئے کافی اور تشفی بخش ہیں جو میں نے کھول کھول کر اور واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ حرفِ روی کو لفظی ساخت کی بنا پر سمجھنا گو کہ ایک تفصیل طلب کام تھا لیکن میں نے اسے اپنی جانب میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے، اب بھی اگر کوئی سوال ہو تو ضرور اظہار فرمائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ میں اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا۔
۲۔ پہلا نکتہ تو میں نے حرفِ روی کو مصدرِ قافیہ کے اعتبار سے بیان کردیا ہے اور اس کو آپ نے مثالوں کے ساتھ سمجھ لیا اور یہ بھی سمجھ لیا کہ لفظی اعتبار سے حرفِ روی کیا چیز ہے۔
روی کی دوسری صورت وہ ہے جس میں حرفِ اصلی کی بجائے حرفِ زائد کو حرفِ روی کا قائم مقام بنایا جاتا ہے، اور اس زائد حرف کو بھی حرفِ روی مان لیا جاتا ہے۔ تفصیل اس کی اس طرح ہے کہ مطلع میں اگر کسی مصرعے میں ایک قافیہ اپنے اصلی حرفِ روی کے ساتھ موجود ہے تو دوسرے مصرعے کے قافیہ میں کسی حرفِ زائد کو حرفِ روی شمار کرلیا جاتا ہے۔ اور اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قافیہ میں کشادگی پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً مطلعے میں ایک مصرعے میں لفظ ”مداوا“ قافیہ کیا، دوسرے مصرعے میں لفظ ”مچلنا“ کو قافیہ کردیا، گو کہ مچلنا میں حرفِ روی لام ہے اور باقی حروف زائد ہیں، لیکن ہم نے لفظ ”مداوا“ کے اصلی الف کا سہارا لے کر مچلنا کے زائد الف کو روی بنایا ہے۔ اسی طرح مطلعے میں ایک قافیہ ”دین“ رکھا، اور دوسرا ”زرین“ تو بھی درست ہے۔ گو کہ زرین میں اصل حرفِ روی ”ر“ ہے۔ مگر دین کے اصلی نون کا سہارا لے کر ہم نے زرین کے زائد نون کو حرفِ روی کے حکم میں لے لیا۔ لیکن واضح رہے کہ اگر دونوں مصرعوں میں زائد حرف کو حرفِ روی ٹھہرا لیا تو قافیہ شائگان یعنی ایطائے جلی ہو جائے گا، اور اگر دونوں مصرعوں میں اصل حرف کو حرفِ روی ٹھہرایا تو قافیہ درست رہے گا لیکن بعد کے تمام اشعار میں اصل حرفِ روی والے قوافی ہی لانے کی پابندی فرض ہوگی۔ اس کے برعکس اگر مطلعے میں ایک اصل اور ایک زائد حرفِ روی لائے تو آگے کے تمام اشعار میں یہ اختیار ہے کہ جہاں چاہیں اصل حرفِ روی لائیں، جہاں چاہیں زائد لائیں۔ ایک اصل اور ایک زائد روی کی مثال فرازؔ:
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے
یہ ہست و بود، یہ بود و نبود، وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا، وہیں وہیں کوئی ہے
مطلعے میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ”نشین“ کا نون اصل حرفِ روی ہے، جبکہ ”نہیں“ میں حرفِ روی ”ہ“ ہے، لیکن نشین کے نون کا سہارا لیکر نہیں کے نون کو حرفِ روی بنایا۔ اس کے خلاف اگر مطلعے میں ایک مصرعے میں ”نہیں“ اور دوسرے میں ”وہیں“ قافیہ ہوتا تو حرفِ روی ”ہ“ ٹھہرتا، اور اس ”ہ“ کا نبھانا فرض ہوجاتا جس سے قافیہ بھی تنگ ہوجاتا، لیکن اس حیلے سے فائدہ یہ ہے کہ اب اصلی اور زائد ہر دو طرح کے قوافی لائے جاسکتے ہیں۔ ایک اور مثال دیکھیں:
ہے عجب حال یہ زمانے کا
یاد بھی طور ہے بھُلانے کا
کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
عیش دفتر میں گنگنانے کا
یہاں حرفِ روی نون ہے، حالانکہ بھلانا میں نون زائد ہے، لیکن ”زمانے“ کے اصلی نون کے سہارے سے بھلانے کے نون کو حرفِ روی کرکے قافیہ میں کشادگی پیدا کی گئی ہے۔ ورنہ اگر بھلانے کے ساتھ ”سلانے“ یا ”رلانے“ ہوتا تو قافیہ تنگ ہو جاتا، اور حرفِ روی لام ہوجاتا۔ اور اس کی پابندی بھی ضروری تھی۔ اگلے شعر میں قافیہ ”گنگنانے“ اسی حیلے کا فیضان ہے۔
طالبِ دعا:
مزمل شیخ بسملؔ