شکیب
محفلین
(گل نوخیزاخترکےمزاحیہ ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش ‘‘ سے میرا پسندیدہ حصہ)
میری آنکھیں نم ہوگئیں !
’’فہمی …ایسےہزاروں انگوٹھےاورلگوالو…لیکن خداکےلیےمجھےچھوڑنامت …میں تم سےبہت پیارکرنےلگاہوں …‘‘
وہ سینہ تان کرآگےبڑھی اورنہایت حقارت سےبولی !!!
’’تم گندی نالےکےکیڑے…میں آسمان کاچاند…پہلےاپنی اوقات پہچانو…پھرایسےجملےکہنا…تم جیسےتومیں نوکربھی نہیں رکھتی ‘دولت کےلالچ میں تم نےبہت بھاگنےکی کوشش کی لیکن تمہارالالچ ہی تمہیں لےڈوبا‘تم نےپہلےدن ہی میری بات مان لی ہوتی توآج لاکھوں کےمالک ہوتے…لیکن تم جس محلےجس سوسائٹی سےتعلق رکھتےہووہاں ہمیشہ دونمبرطریقےسےمال بنانےکواہمیت دی جاتی ہے‘تم لوگ صرف دولت سےپیارکرتےہو…پیارسیکھناہےتوجاؤمیرےاصلی شاہ رخ سےجاکرسیکھوجومیری سانسوں میں رہتاہے…اُس سےملواوردیکوکہ بےغرض چاہت کسےکہتےہیں …اُسےمجھ سےپیارہے‘میری دولت سےنہیں ‘مجھےذراسی بھی تکلیف ہوتووہ رات بھرسونہیں پاتا‘جس دن مجھےفون نہ کرےاسےقرارنہیں آتا…میں ہی بےوقوف تھی جوغصےمیں آکراُس سےطلاق کامطالبہ کربیٹھی اوریوں قسمت مجھےتمہارےدرپرلےآئے‘لیکن تم نےسمجھاکہ شایدمیں تم پرمرمٹی ہوں ‘یہ جتنےدن تم نےہمارےگھرمیں عیش کی ہےاسےاپنی زندگی کاحاصل سمجھو‘تم جوتوں میں بٹھانےکےقابل تھے‘میں نےتمہیں صوفوں پربٹھایا…تم ٹوٹی چارپائیوں پرسونےوالی قوم ہو…میں نےتمہیں مخملیں بستردیے…جاؤاورفخرکرواُس وقت پرجوتم نےجنت میں گذاراہے…لیکن اب تمہیں واپس اپنی دوزخ میں جاناہوگا…میں نےتمہیں بہت برداشت حرکیاہے‘لیکن اب نہیں کروں گی ۔میراوکیل بہت جلذتمہارےاس دستخط شدہ کورےکاغذکوطلاق نامےمیں بدل دےگا‘آج سےتم پرکوئی پابندی نہیں ‘اورہاں تمہاری اطلاع کےلیےبتاتی چلوں کہ تم نےواقعی کوئی ڈاکانہیں ڈالا‘بلکہ میں نےشاہ رخ کوہانگ کانگ سےیہاں بلواکرایک جعلی تصویربنوائی تھی ‘قانون ہمیشہ کی طرح پیسوں کےآگےجھک گیااورمجھےکامیابی نصیب ہوئی …ہمیشہ کی طرح ۔لیکن میں اتنی بھی ظالم نہیں ہوں کہ تمہیں خالی ہاتھ جانےدوں …یہ لو…یہ دس ہزارروپےہیں …اسےمیری طرف سےبخشش سمجھ کررکھ لینا…اب جاؤ…گٹ آؤٹ ‘‘
میں نےآنسوؤں سےبھیگی آنکھیں اوپراٹھائیں اوراس کےبڑھےہوئےہاتھ سےدس ہزارلےلیے…
’’فہمی !ہم نالیوں میں رہنےوالےمحلوں کےبارےمیں کچھ جانیں نہ جانیں لیکن تم محلوں میں رہنےوالےنالیوں میں رہنےوالوں کےمتعلق بہت کچھ جانتےہو…پتانمیریہ مشاہدہ ہےیاتجربہ …لیکن ایک بات یادرکھنامحبت اگربرابری کی محتاج ہوتی توکوئی کسی کےلیےتخت ہزارہ نہ چھوڑتا…کوئی ریت پرننگےپاؤں نہ جھلستا…مجھےواقعی تمہاری دولت سےپیارتھا‘لیکن شائدوہ بھی تمہاری وجہ سےتھا…ہم جیسےلوگ دولت کےبھوکےبھی تمہارےجیسوں کی وجہ سےبنتےہیں …ہم بھوکےپیٹ بھی خوش ہوتےہیں لیکن ہمارےسامنےتم جیسےلوگ رزق کی بوٹیاں نوچتےہیں توہماری بھوک بھی چھوٹےبچےکی طرح مچلنےلگتی ہے…ہم جہازکےسفرکی تمنانہیں رکھتے‘لیکن جب تم جیسےہمارےسروں کےاوپرسےسفرکرتےہوئےنکلتےہیں توہماری بھی خواہشیں بلکنےلگتی ہیں …اورہم جہازپربیٹھنےکی بجائےخودجہازبن جاتےہیں …ہماری جیب میں بیس روپےبھی ہوں توہم پھولےنہیں سماتے‘لیکن جب تم جیسےلوگ ہماری آنکھوں کےسامنےاپنےکتوں پربیس ہزارخرچ کرتےہیں توہمیں شدیدخواہش ہونےلگتی ہےکہ کاش ہم بھی کتےہوتے۔ہم نالیوں کی مخلوق ہیں ‘ہم فرشتےنہیں ہوتے…لیکن خداکی قسم شیطان بھی نہیں ہوتے۔اپنی دولت کامقابلہ بےشک ہم جیسوں سےکرلینا‘لیکن کبھی محبت کامقابلہ نہ کربیٹھنا…بری طرح ہارجاؤگی ۔تم جیسےلوگ ہم جیسوں کوٹشوپیپرکی طرح استعمال کرتےمیراورپھرپھینک دیتےہیں ‘ہم خوش ہوجاتےہیں کہ کچھ لمحوں کےلیےہی سہی ‘بادشاہوں کی قربت تونصیب ہوئی ۔“
میری آنکھیں نم ہوگئیں !
’’فہمی …ایسےہزاروں انگوٹھےاورلگوالو…لیکن خداکےلیےمجھےچھوڑنامت …میں تم سےبہت پیارکرنےلگاہوں …‘‘
وہ سینہ تان کرآگےبڑھی اورنہایت حقارت سےبولی !!!
’’تم گندی نالےکےکیڑے…میں آسمان کاچاند…پہلےاپنی اوقات پہچانو…پھرایسےجملےکہنا…تم جیسےتومیں نوکربھی نہیں رکھتی ‘دولت کےلالچ میں تم نےبہت بھاگنےکی کوشش کی لیکن تمہارالالچ ہی تمہیں لےڈوبا‘تم نےپہلےدن ہی میری بات مان لی ہوتی توآج لاکھوں کےمالک ہوتے…لیکن تم جس محلےجس سوسائٹی سےتعلق رکھتےہووہاں ہمیشہ دونمبرطریقےسےمال بنانےکواہمیت دی جاتی ہے‘تم لوگ صرف دولت سےپیارکرتےہو…پیارسیکھناہےتوجاؤمیرےاصلی شاہ رخ سےجاکرسیکھوجومیری سانسوں میں رہتاہے…اُس سےملواوردیکوکہ بےغرض چاہت کسےکہتےہیں …اُسےمجھ سےپیارہے‘میری دولت سےنہیں ‘مجھےذراسی بھی تکلیف ہوتووہ رات بھرسونہیں پاتا‘جس دن مجھےفون نہ کرےاسےقرارنہیں آتا…میں ہی بےوقوف تھی جوغصےمیں آکراُس سےطلاق کامطالبہ کربیٹھی اوریوں قسمت مجھےتمہارےدرپرلےآئے‘لیکن تم نےسمجھاکہ شایدمیں تم پرمرمٹی ہوں ‘یہ جتنےدن تم نےہمارےگھرمیں عیش کی ہےاسےاپنی زندگی کاحاصل سمجھو‘تم جوتوں میں بٹھانےکےقابل تھے‘میں نےتمہیں صوفوں پربٹھایا…تم ٹوٹی چارپائیوں پرسونےوالی قوم ہو…میں نےتمہیں مخملیں بستردیے…جاؤاورفخرکرواُس وقت پرجوتم نےجنت میں گذاراہے…لیکن اب تمہیں واپس اپنی دوزخ میں جاناہوگا…میں نےتمہیں بہت برداشت حرکیاہے‘لیکن اب نہیں کروں گی ۔میراوکیل بہت جلذتمہارےاس دستخط شدہ کورےکاغذکوطلاق نامےمیں بدل دےگا‘آج سےتم پرکوئی پابندی نہیں ‘اورہاں تمہاری اطلاع کےلیےبتاتی چلوں کہ تم نےواقعی کوئی ڈاکانہیں ڈالا‘بلکہ میں نےشاہ رخ کوہانگ کانگ سےیہاں بلواکرایک جعلی تصویربنوائی تھی ‘قانون ہمیشہ کی طرح پیسوں کےآگےجھک گیااورمجھےکامیابی نصیب ہوئی …ہمیشہ کی طرح ۔لیکن میں اتنی بھی ظالم نہیں ہوں کہ تمہیں خالی ہاتھ جانےدوں …یہ لو…یہ دس ہزارروپےہیں …اسےمیری طرف سےبخشش سمجھ کررکھ لینا…اب جاؤ…گٹ آؤٹ ‘‘
میں نےآنسوؤں سےبھیگی آنکھیں اوپراٹھائیں اوراس کےبڑھےہوئےہاتھ سےدس ہزارلےلیے…
’’فہمی !ہم نالیوں میں رہنےوالےمحلوں کےبارےمیں کچھ جانیں نہ جانیں لیکن تم محلوں میں رہنےوالےنالیوں میں رہنےوالوں کےمتعلق بہت کچھ جانتےہو…پتانمیریہ مشاہدہ ہےیاتجربہ …لیکن ایک بات یادرکھنامحبت اگربرابری کی محتاج ہوتی توکوئی کسی کےلیےتخت ہزارہ نہ چھوڑتا…کوئی ریت پرننگےپاؤں نہ جھلستا…مجھےواقعی تمہاری دولت سےپیارتھا‘لیکن شائدوہ بھی تمہاری وجہ سےتھا…ہم جیسےلوگ دولت کےبھوکےبھی تمہارےجیسوں کی وجہ سےبنتےہیں …ہم بھوکےپیٹ بھی خوش ہوتےہیں لیکن ہمارےسامنےتم جیسےلوگ رزق کی بوٹیاں نوچتےہیں توہماری بھوک بھی چھوٹےبچےکی طرح مچلنےلگتی ہے…ہم جہازکےسفرکی تمنانہیں رکھتے‘لیکن جب تم جیسےہمارےسروں کےاوپرسےسفرکرتےہوئےنکلتےہیں توہماری بھی خواہشیں بلکنےلگتی ہیں …اورہم جہازپربیٹھنےکی بجائےخودجہازبن جاتےہیں …ہماری جیب میں بیس روپےبھی ہوں توہم پھولےنہیں سماتے‘لیکن جب تم جیسےلوگ ہماری آنکھوں کےسامنےاپنےکتوں پربیس ہزارخرچ کرتےہیں توہمیں شدیدخواہش ہونےلگتی ہےکہ کاش ہم بھی کتےہوتے۔ہم نالیوں کی مخلوق ہیں ‘ہم فرشتےنہیں ہوتے…لیکن خداکی قسم شیطان بھی نہیں ہوتے۔اپنی دولت کامقابلہ بےشک ہم جیسوں سےکرلینا‘لیکن کبھی محبت کامقابلہ نہ کربیٹھنا…بری طرح ہارجاؤگی ۔تم جیسےلوگ ہم جیسوں کوٹشوپیپرکی طرح استعمال کرتےمیراورپھرپھینک دیتےہیں ‘ہم خوش ہوجاتےہیں کہ کچھ لمحوں کےلیےہی سہی ‘بادشاہوں کی قربت تونصیب ہوئی ۔“